غموں، دکھوں، تکلیفوں اور مسائل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ زندگی کے ہر پہلو میں جاری ہے۔ اگر ایک دکھ اور تکلیف کو سہنے کا حوصلہ ایک طویل عرصے بعد کہیں جا کر پیدا ہو بھی جاتا ہے یا اس غم کو برداشت کرنے کی کیفیت کہیں سے بن بھی جاتی ہے تو اس سے کہیں بڑا غم اور دکھ برپا ہو جاتا ہے اور انسان اسی کشمکش میں محرومیوں کے ساتھ ساتھ جذبات اور احساسات میں بھی گھائل ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ ہر شخص ان دکھوں اور تکلیفوں سے نجات کے لیے ہر طرف ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور جو بھی بن پڑتی ہے، زندگی کے اس سفر کو گزارنے کے لیے بروئے کار لانے کی کوشش کرتا ہے لیکن مصیبتیں اور مشکلات نہ صرف بڑھتی ہی چلی جاتی ہیں بلکہ ان کی شدت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نجات حاصل کرنے کے جو اصول و ضوابط سماج نے طے کر رکھے ہیں یا اس کے علاوہ بھی جو راستے دستیاب ہیں، وہ تمام استعمال کر کے بھی سانسوں کی ڈور کو قائم ر کھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں مالیاتی بحران، وباؤں اور حکمرانوں کی مزدور دشمن پالیسیوں کے باعث ہونے والی ادویات سمیت اشیائے ضرورت کی مصنوعی قلت نے حالات کی سنگینی کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ ملک میں کروڑوں لوگ صرف گزشتہ ایک سے دو سال کے دوران بیروزگار ہوئے ہیں جس سے آبادی کا وسیع ترین حصہ دو وقت کی روٹی سے محروم ہو چکا ہے۔ دوسری جانب حکمران طبقے کی دولت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ ان کی زندگیوں کا تعیش نئی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔ ان پر تعیش زندگیوں کی ہلکی سی جھلک بھی عوام میں غم و غصے کی ایک بہت بڑی لہر کو جنم دے دیتی ہے۔
لیکن سب سے اہم سوال اس وقت جو محنت کش عوام کے سامنے موجود ہے وہ یہ ہے کہ اس تمام تر تکلیف اور دکھ سے نجات کا راستہ کون سا ہے۔ اس کے لیے حکمران طبقے کی جانب سے بہت سے جعلی حل خود ہی پیش کر دیے جاتے ہیں تا کہ عوام کو دھوکے میں رکھا جا سکے۔ ایک حل ”حقیقی“ جمہوریت اور منصفانہ اور شفاف الیکشنوں کو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح، کچھ آمریت اور جمہوریت کی بحث میں عوام کو الجھا دیتے ہیں اور ان دو نوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کی لا یعنی بحث کا آغاز کر دیتے ہیں۔ لیکن محنت کش گزشتہ کئی دہائیوں سے اس ملک میں اس بحث کو جھیلنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ جعلی حل ہیں اور ان میں سے کسی بھی طریقے سے عوام کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس نظام کے اندر ہونے والے انتخابات میں حتمی طور پر وہی جیتے گا جس کا تعلق حکمران طبقے کے کسی حصے سے ہوگا، محنت کشوں کا کوئی حقیقی نمائندہ اس نظام کے انتخابات میں کبھی کامیاب ہوہی نہیں سکتا۔ اسی طرح، آمریتوں میں بھی وہی معاشی پالیسیاں جاری رہی ہیں جو نام نہاد جمہوریتوں میں مسلط کی گئیں تھی اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سامراجی پالیسیوں سے لڑنے کی صلاحیت حکمران طبقے کے کسی بھی حصے میں نہیں اور وہ ہمیشہ سامراجی طاقتوں کے غلام رہے ہیں اور یہی ان کا مقدر ہے۔
اس دوران مختلف سیاسی پارٹیوں کا سرکس لگا کر بھی مداری کا تماشا برپا کیا جاتا ہے۔ ٹی وی چینل اور اخبارات مداری کا یہ کردار بخوبی سر انجام دیتے ہیں اور ان میں ہونے والی بحثوں کا محنت کشوں کی زندگیوں سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ چند آپشنز عوام کے سامنے پیش کی جاتی ہیں کہ ان میں سے ایک کو صحیح مان لیا جائے اور اس کے لیے ان مختلف عوام دشمن پارٹیوں کے نمائندے ٹی وی پر ایک دوسرے کے پرخچے اڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن جیسے وقفے میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہار چلتے وقت اینکر اور شرکا انتہائی ادب کے ساتھ سر جھکا کرخاموش ہوجاتے ہیں ویسے ہی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تحت محنت کشوں کے استحصال پر اور امیر اور غریب کی بڑھتی ہوئی خلیج پر یہ تمام متحارب افراد ہمیشہ خاموش ہی نظر آتے ہیں۔ امیر اور غریب کی بڑھتی خلیج اورطبقاتی تضاد پر کبھی کوئی اپوزیشن لیڈر جوشیلی تقریر کرتا نظر نہیں آئے گا۔
اسی سے ملتا جلتا کردار تعلیمی اداروں میں نظر آتا ہے جہاں نصاب سے لے کر اساتذہ اور انتظامیہ کی ایک بھاری ترین اکثریت تک، سب اسی عوام دشمن نظام کی نمائندگی کرتے ہیں اور تعلیم کے تمام شعبوں میں وہی عوام دشمن نظریات طلبہ کے ذہنوں میں انڈیلتے ہیں جو سامراجی ممالک کی یونیورسٹیوں میں گھڑے جاتے ہیں۔ اس اپاہج تعلیمی نظام میں محنت کشوں سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے اور عوام دشمن حکمرانوں کی عظمت کے گن گائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ماضی میں ظلم و جبر کی تاریخ رقم کرنے والے سامراجیوں سے نفرت کا اظہار بھی اس نصاب میں کہیں نظر نہیں آتا۔ حالت یہاں تک پہنچ رہی ہے کہ برطانوی سامراج کے مقامی آبادی پر مظالم کی داستانیں بھی رفتہ رفتہ غائب ہوتی جارہی ہیں اور یہاں کے دانشور اکثر اس دور کو رومانوی انداز میں یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی”دانش اور حکمت“ کے تحت عوام کو حکمرانوں کی اطاعت گزاری بلکہ غلامی کا درس دیا جاتا ہے اور جو مظالم ہو رہے ہیں ان کو تقدیر کا لکھا ہوا سمجھ کر قبول کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ یہاں موجود شاعری، ادب اور آرٹ کے زوال کی بنیاد میں بھی یہی رجحانات کارفرما ہیں جن میں حکمران طبقات اور ان کے مسلط کردہ نظام سے بغاوت اور انقلاب کو شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا ہے اور اس غلیظ اور تعفن زدہ سماج کو قابل قبول بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
لیکن موجودہ سماج گراوٹ کی جس گہرائی میں جا چکا ہے وہاں سے انقلاب کے بغیر نجات کا اب کوئی راستہ موجود نہیں۔ انفرادی کاوشوں سے کسی بھی شخص کا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں، خواہ وہ طالب علموں کا ہو یا مزدوروں اور کسانوں کا۔ موجودہ سیاسی اور معاشی ڈھانچے میں رہتے ہوئے کسی بھی قسم کی اصلاح یا بہتری کی رتی بھر گنجائش بھی موجود نہیں۔ اگر کوئی دیوانہ ایسی کوشش بھی کرے گا تو نظام کا بحران اسے خود ہی نگل لے گا۔ موجودہ فرسودہ اور بوسیدہ ریاستی اداروں کے ذریعے عوام کے لیے کسی بھی قسم کی ریلیف کی امید رکھنا ہی بیوقوفی ہے۔ پارلیمنٹ یا انتخابی عمل کے ذریعے دکھوں کا مداوا ڈھونڈنا ہی غیر منطقی ہے۔ واحد راستہ اس پورے سماجی و معاشی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک نیا سماج تعمیر کرنا ہے جو صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ موجودہ سماج کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے جو سیاست سے لے کر تعلیم تک اور معیشت سے لے کر عدلیہ تک، اخلاقیات سے لے کر خاندانی نظام تک، دوستیوں اور دشمنیوں سے لے کر محبتوں اور نفرتوں تک اور موسیقی اور ادب سے لے کر شاعری تک ہر جگہ حائل ہے اورسماج کی بنیادمیں موجود تمام پیداواری رشتوں کا تعین کرتا ہے۔ یہ نظام پوری دنیا میں زوال پذیر ہے اور خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے لیکن حکمران طبقات اس بیمار اور قریب المرگ نظام کو عوام پر مسلط رکھے ہوئے ہیں تاکہ اپنی مراعات اور پر تعیش زندگیوں کوجاری و ساری رکھ سکیں۔ ایسے میں انہوں نے پوری انسانیت کا مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے اور درحقیقت اس کرۂ ارض کو تباہی اور بربادی میں دھکیل دیا ہے۔ کورونا وبا اور عالمی مالیاتی وسیاسی بحران، بڑھتی ہوئی جنگیں اور خونریزی اسی کی عکاسی کرتی ہیں۔ لیکن یہ ابھی ابتدائی مراحل ہیں، آنے والے عرصے میں اس میں مزید شدت آئے گی اور انسانیت کی بقا کا سوال ایک زندہ حقیقت بن کر کھڑا ہو گا۔ ایسے میں اس کے بارے میں فیصلہ کرنا کروڑوں انسانوں کی زندگی اور موت کا سوال بن جائے گا۔ اس سوال کو جتنی جلدی حل کر لیا جائے اتنا بہتر ہے۔ محنت کش طبقہ یقینا اس کو حل کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں اگر ایک انقلابی پارٹی یہاں موجود ہوئی تو اس لڑائی میں سرمایہ داری کو حتمی شکست دے کر فتح یاب ہوا جا سکتا ہے اور دکھوں اور تکلیفوں کی اس زندگی سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔