[رپورٹ: عاطف علی]
لاہور جسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے آج ایک بار پھر محنت کش خواتین کے احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دو ہفتے پہلے پورے پنجاب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنی کئی مہینے کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا تھا۔ آج اسی پنجاب اسمبلی کے سامنے نوجوان نرسز بھی اپنے حقوق کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس استحصالی نظام میں جہاں مزدور کو اس کا جائز حق دینا ظالم سرمایہ دار حکمرانوں کے لیے ایک ’’گناہ عظیم‘‘ بن گیا ہے وہاں اسی حکمران طبقے کی طرف سے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن بڑے زور و شور سے لاکھوں روپے خرچ کر کے منایا گیا اور بورژوازی کی نمائندہ خواتین کو ایوانِ اقبال میں بلا کر محنت کش خواتین سے’’ اظہار یکجہتی ‘‘کیا گیا۔ یاد رہے کہ پنجاب کے حکمرانوں نے اپنی روایتی بدمعاشی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 8 مارچ کو پہلے سے طے شدہ مزدوروں کے اکٹھ کو سبوتاژ کرنے کے لیے ’’خواتین ڈے‘‘ کا ڈھونگ رچایاتھا۔ آج اسی ایوانِ اقبال کے قریب نوجوان نرسز حکمران طبقے کی منافقت کو بے نقاب کررہی ہیں۔ پاکستان اس وقت عالمی سطح پر خواتین کے استحصال کے حوالے سے دوسرا سب سے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔ یہاں پر محنت کش خواتین کو طبقاتی استحصال کے ساتھ ساتھ جنسی استحصال کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ریاست کے وظیفہ خوار ملاؤں نے عورتوں کو سماج کی سب سے مظلوم پرت بنا کر رکھ دیا ہے۔ جہاں ان حالات میں میں کسی محنت کش خاتون کے لئے گھر سے باہر نوکری کے لئے نکلنا بھی کسی معرکے سے کم نہیں ہے وہاں خواتین کا اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا حکمران طبقے اور اس کے حواریوں کے لئے کیسے قابل برداشت ہوسکتا ہے؟
حالیہ احتجاج کنٹریکٹ اور ایڈہاک بنیادوں پر بھرتی کی گئی نرسز کی برطرفی کے خلاف شروع ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ان نرسز میں سے زیادہ تر کو 2011ء میں ڈینگی کی وبا کے دوران بھرتی کیا گیا تھا۔ اب چونکہ ’’خادم اعلیٰ‘‘ کو ان نرسز کی ضرورت نہیں رہی ہے تو انہیں فارغ کیا جارہا ہے۔ حالانکہ اس وقت پنجاب میں نرسز کی شدید قلت موجود ہے۔ پنجاب میں صرف 15000 نرسز موجود ہیں جن میں سے 5000 عارضی بنیادوں پر کنٹریکٹ پر کام کررہی ہیں۔ ان پانچ ہزار عارضی نرسز میں سے بھی 2800 کو نکالا جاچکا ہے۔ صحت کی سہولیات کے معیار کا تعین نرسز، ڈاکٹروں اور مریضوں کی تعداد کے تناسب سے لگایا جاتا ہے۔ عالمی قوانین کے تحت انتہائی نگہداشت کے شعبوں جیسے ICU میں دو مریضوں کے لئے ایک نرس کا ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح جنرل پریکٹس میں مریضوں کے علاج کے لئے ایک ڈاکٹر کی مدد کے لئے تین نرسوں کا ہونا لازمی ہے۔ اس ملک میں جہاں ڈاکٹروں کی تعداد ہی مریضوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے وہاں باقی سٹاف کے بارے میں سوچا ہی نہیں جاسکتا۔ سب سے بہتر یونٹس میں بھی نرسوں کی تعداد عالمی معیار سے انتہائی کم ہے۔ یہاں تین ڈاکٹروں اور 50مریضوں پر صرف ایک نرس مقرر ہے۔ افرادی قوت کی اس شدید کمی کی وجہ سے مریضوں کی شرح اموات میں اضافہ اور صحتیابی کی شرح میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ پنجاب کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں بھی گنتی کے ڈاکٹر، نرسز اور پیرا میڈیکل سٹاف بیمار عوام کے ایک سمندر کا علاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
نرسز کے حالیہ دھرنے میں حکمران اشرافیہ کا عوام دشمن کردار بے نقاب ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ روایتی قیادت کی غداریاں بھی عیاں ہوئی ہیں۔ ینگ نرسز ایسوسی ایشن (YNA) کی قیادت نے عین موقع پر غداری کرتے ہوئے اپنے مفادات کو سینکڑوں نرسز پر فوقیت دی ہے۔ تاہم قیادت کی جانب سے تحریک کو بیچنے کے بعد جب نرسز کو دھرنا ختم کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے صاف انکار کرتے ہوئے لڑائی جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔ غدار قیادت کے بھاگ جانے کے بعد نرسز نے اپنے اندر سے نئی قیادت کو منتخب کیا ہے۔ ان حالات میں پنجاب حکومت کوشش کرے گی کہ جھوٹے وعدے اور دلاسوں جیسے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے نئی قیادت کو دھرنا ختم کروانے پر مجبور کیا جائے۔ لیکن روایتی قیادت کی غداریاں اور حکمرانوں کی چالبازیاں محنت کشوں کو کئی اسباق سکھاتی ہیں۔ نوجوان نرسز حالیہ تحریک سے کئی دور رس نتائج اخذ کریں گی۔ محنت کش نرسز کے مسائل دوسرے اداروں کے محنت کشوں سے کسی طور پر بھی مختلف نہیں ہیں اور نہ ہی جنسی طور پر محنت کش طبقے کوتقسیم کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے ہر بڑے انقلاب میں محنت کش خواتین نے ہراول کردار ادا کیا ہے۔ روس کا بالشویک انقلاب فروری 1917ء (پرانے روسی کیلنڈر کے مطابق) کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر محنت کش خواتین کے مظاہروں سے ہی شروع ہوا تھا۔ آج پاکستان کی محنت کش خواتین ان انقلابی روایات کو دوبارہ زندہ کررہی ہیں۔ کچھ ہفتے پہلے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی شاندار جدوجہد اور اب ینگ نرسز کا احتجاجی دھرنا اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کا محنت کش جاگ رہا ہے۔ سرمایہ داری کی گلی سڑی لاش کو سماج پر مسلط کرنے والے حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ جب محنت کش خواتین سڑکوں پر نکل آئیں تو انقلاب زیادہ دور نہیں ہوتا!