رپورٹ: |RWFلاہور|
ورلڈ کال میں کام کرنے والے محنت کشوں پر مینجمنٹ لگاتار حملے کرنے میں مصروف ہے۔ اکثریتی ملازمین کو پچھلے چھ تا سات مہینے سے تنخواہیں نہیں ملی۔ کئی لوگ پارٹ ٹائم کام کرنے پر مجبور ہیں لیکن ورلڈ کال کو اس آس پر نہیں چھوڑ رہے کہ شاید کچھ عرصہ بعد تنخواہ مل جائے اور اگر چھوڑ دیا تو یہ تنخواہ بالکل نہیں ملے گی۔ ویسے بھی اگر اس نوکری کو چھوڑ دیا توانہیں کوئی اور مستقل نوکری ملنے کی آس بھی نہیں ہے۔ سیلز اور ٹیکنیکل سٹاف مسلسل ہڑتال پر ہیں لیکن مینجمنٹ کی چالاکی سے اس خبر کو اندر دبا کر رکھا جا رہا ہے۔ لیکن ان حالات میں کال سینٹر کے ملازمین کو کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، تاکہ اندر کے حالات کسٹمرز تک نہ پہنچیں۔ مزید یہ کہ ان حالات میں شکایات کی تعداد بھی بے پناہ بڑھ گئی ہے اور کال سنٹر کے ملازمین کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے، اور کمپنی کے مسائل بھی ان کو بغیر تنخواہ کے جھیلنے پڑ رہے ہیں۔ یہاں تک کے اپریل اور مئی کے مہینوں میں ان کو شدید گرمی میں ایک چھوٹے سے پیڈسٹل فین کے ساتھ گزارا کرنا پڑا اور ٹھنڈے پانی کی سہولت بھی موجود نہ تھی۔ ان ملازمین کی تنخواہوں میں بھی پچھلے چار سالوں میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا ۔
ورلڈ کال ٹیلی کمیونیکیشن کی ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہے، جو کہ اومان ٹیل کی ایک ذیلی کمپنی ہے۔ پاکستان میں پندرہ سو کے لگ بھگ ملازمین موجود ہیں۔ کمپنی کے تین بنیادی حصے ہیں جس میں کال سنٹر، سیلز اور ٹیکنیکل شامل ہیں۔ اس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سید سلمان علی شاہ، جو کہ وزیرِ خزانہ کے علاوہ لاتعداد سرکاری عہدوں پر فائز رہ چکا ہے، جیسے افراد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کا نامی گرامی بزنس مین سید بابر علی اس کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ہے۔ بنیادی سرمایہ کاری عمانی بزنس گروپ کی ہے، جس میں چیئرمین مہدی بن محمدجواد العبدوانی اور نائب چیئرمین طلال سعید مرحون المامری شامل ہیں۔ کمپنی کی ویب سائٹ پر جو کھاتے دیئے گئے ہیں ان کو دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے، کیونکہ ان کھاتوں کے مطابق کمپنی کے پچھلے بارہ سالہ تاریخ میں صرف چار ایسے سال ہیں جن میں کمپنی منافع میں گئی ہے اور پچھلے چار سال سے لگاتار شدید نقصان میں جارہی ہے اور یہ چیزیں دیکھ کر اس کمپنی کے مالکان کی کاروباری ذہانت پر شبہ ہونے لگتا ہے، لیکن ہم نے جب اس کمپنی کے ملازمین کے ذریعے اندر کے کھاتوں کی خبر لی تو پتہ یہ چلا کہ چیف ایگزیکٹو آفیسر صاحب ماہانہ اڑتالیس لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں اور دیگر سینئر چیف آفیسرز بھی دس سے بیس لاکھ تک ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں جبکہ کمپنی سالانہ اربوں روپے کے نقصان میں جا رہی ہے۔
یہ حالات پچھلے کئی سال سے ایسے ہی چل رہے ہیں اور اگلے کئی سال تک ایسے ہی چل سکتے ہیں ، لیکن ان حالات میں تبدیلی صرف ایک ہی صورت میں آسکتی ہے کہ اگر تمام ملازمین آفس میں حاضریاں لگانے کے بجائے ادارے کو بند کرتے ہوئے احتجاج کا سلسلہ شروع کریں۔ اس وقت تمام ملازمین کو انتہائی جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرکے ایک بھر پور تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔