|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، اجرتوں میں کمی، ٹھیکیداری کے خلاف اعلان جنگ! ریڈ ورکرز فرنٹ لاہور اور ماہانہ ورکرنامہ کے زیر اہتمام ’’مزدور تحریک کو درپیش مسائل اور آگے بڑھنے کا لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے لاہور پریس کلب میں ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب، پی ٹی سی ایل، ریلوے، واپڈا، پنجاب ایسوسی ایشن آف گورنمنٹ انجینئرز، عوامی چنگ چی رکشہ یونین، ینگ انجینئرز الائنس کے وفود کے ساتھ ساتھ مختلف تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے شرکت کی۔ سیمینار میں شریک مختلف اداروں اور ٹریڈ یونین سے تعلق رکھنے والی قیادت نے نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور دیگر مسائل کے خلاف حکومتی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس بات پر زور دیا کہ ان درپیش تمام مسائل کے خلاف ایک متحد جدوجہد وقت کا سب سے اہم تقاضا بن چکی ہے۔
سیمینار کی صدارت ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی آرگنائزر آفتاب اشرف نے کی اور مہمانان خصوصی میں اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن سے میڈم طاہرہ رندھاوا، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری سلمان حسیب چوہدری، ریلوے محنت کش یونین سے صدیق بیگ، پی ٹی سی ایل سے صابربٹ، لاہور پریس کلب کے سینئر نائب صدر ذوالفقار علی مہتو، پنجاب ایسوسی ایشن آف گورنمنٹ انجینئرز کے مرکزی رہنماء قاسم علی شامل تھے۔ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ماہانہ ورکرنامہ کے ایڈیٹر راشد خالد نے سرانجام دیے۔ سیمینار میں نجکاری کی زد میں آئے اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے محنت کشوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
سیمینار کے آغاز پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی رہنما آدم پال نے اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی نجکاری کے حملوں کا آغاز کر دیا ہے اور ان کے وزراء عوام دشمن پالیسیاں مسلط کر رہے ہیں۔ عبدالرزاق داؤد جیسا سرمایہ دار سٹیٹ لائف جیسے قیمتی ادارے کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ وہ عارف نقوی جیسے بدنامِ زمانہ نوسرباز کے ساتھ مل کر عمران خان سے ملاقاتیں کر رہا ہے تا کہ کے الیکٹرک کے سودے میں بڑا مال کھا سکے۔ اسی طرح دوسرے سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر تمام سرکاری اداروں کو لوٹنے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ اسد عمر بھی اس کارروائی میں برابر کا شریک ہے اور ویلتھ فنڈ کے نام سے ایک عوام دشمن پالیسی کا آغاز کر چکا ہے۔ ہم تمام محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان تمام حملوں کے خلاف متحد ہو کر لڑائی لڑیں۔ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب نرسز اور پیرامیڈیکس کو ساتھ ملاتے ہوئے پہلے ہی ہسپتالوں کی نجکاری کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرچکی ہے اور اب سٹیٹ لائف کے محنت کش بھی جدوجہد کے میدان میں اتر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پی آئی اے اور سٹیٹ لائف میں ٹریڈ یونین پر پابندی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف بھر پور جدوجہد کریں گے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق پر ایک بہت بڑا حملہ ہے۔ ان تمام حملوں کا جواب دینے کے لیے تمام ٹریڈ یونینوں اور مزدور تنظیموں کو ایک ملک گیر ہڑتال کی جانب بڑھنا ہوگا۔
اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کی یونین کی مرکزی ایگزیکٹیو باڈی کی ممبر میڈم شبنم مرزا تھیں، انہوں نے موجودہ حکومت کی مزدور دشمن پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ حکومت سٹیٹ لائف جیسے انتہائی منافع بخش اداروں کی نجکاری کا منصوبہ بنا چکی ہے۔سٹیٹ لائف اس وقت اربوں روپے کا منافع کما کر حکومت کو دے رہی ہے مگر اس کے باوجود حکومت اصلاحات کے نام پر اس ادارے سے منسلک ہزاروں محنت کشوں کو نوکریوں سے نکالنے کا درپے ہے مگر ہم اس حکومت کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن کے محنت کش آکری دم تک لڑیں گے اور کسی صورت اپنے ادارے کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مرکزی جنرل سیکرٹری سلمان حسیب چوہدری نے کہا کہ ہسپتالوں کی نجکاری عام عوام کامسئلہ ہے۔ اگر یہ ہسپتال نجکاری کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں تو غریب عوام علاج کی رہی سہی سہولت سے بھی محروم ہوجائیں گے۔ MTIایکٹ ایک عوام دشمن منصوبہ ہے جس کی آڑ میں موجودہ حکومت ان اداروں کو بزنس مینوں کو بیچنا چاہتی ہے۔ مگر ہم آخری دم تک لڑیں گے اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ ان حملوں کے خلاف تمام اداروں کے محنت کشوں اور طلبہ کو مل کر لڑنا ہوگا۔ ہم اسٹیٹ لائف کے محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور ان کی جدوجہد میں ساتھ شریک ہوں گے۔
پی ٹی سی ایل کے رہنما صابر بٹ نے کہا کہ اگر کسی نے نجکاری کے ’’ثمرات‘‘ دیکھنے ہیں تو پی ٹی سی ایل کو دیکھ سکتا ہے کہ کیسے ہزاروں محنت کشوں کو بیروزگار کردیا گیا اور عوامی پیسے سے بنے ادارے کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی سرمایہ دار جاگیردار مزدوروں کا ساتھی نہیں ہوسکتا۔ مزدوروں کے حقیقی ساتھی دوسرے مزدور ہی ہیں۔
عوامی چنگ چی رکشہ یونین کے صدر عدیل ہاشمی نے کہا کہ موجودہ حکمران ہمارا روزگار چھیننے کے درپے ہیں۔ یہ خود تو روزگار دے نہیں سکتے اگر ہم اپنی کوششوں سے رکشہ چلا کر اپنے گھروں کا چولہا جلائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے۔ کئی روٹس پر چنگ چی رکشہ لے جانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کے انتہائی مشکور ہیں جن کی وساطت سے ہمارا پیغام دیگر اداروں کے محنت کشوں تک پہنچا۔ ہم ان کے ساتھ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں گے۔
پنجاب ایسوسی ایشن آف گورنمنٹ انجینئرز کے رہنما قاسم علی نے پنجاب کے تمام سرکاری اداروں کے انجینئرز کی ٹیکنیکل الاؤنس کے حصول کی جدوجہد کو مختصر احوال بیان کیا اور کہا کہ یہ ہماری جدوجہد کا عملی سبق ہے کہ اکیلے اکیلے لڑنے اور جدوجہد کرنے کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام درپیش مسائل کے خلاف مزدوروں ، ڈاکٹروں، انجینئرز اور طلبہ کا ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دیا جائے۔
اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن سے میڈم کانتا شاہد نے بڑے جذباتی انداز میں مزدوروں کے تلخ حالات زندگی بیان کیے اور کہا کہ جب ایک ادارے کے مزدور اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت ان عوامی پیسوں سے بنے اداروں کا بھی تحفظ کررہے ہوتے ہیں جن کو حکومت بیچنے کے درپے ہے۔ ان اداروں کے اصل محافظ ان اداروں کے محنت کش ہی ہیں۔
پنجاب ٹیچرز یونین کے رہنما محمد شہزاد نے نجکاری کی مزدور دشمن پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس امر پر زور دیا کہ تمام ادارے آپس میں جڑت بنائیں اور متحد ہوکر ان حملوں کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب ٹیچرز یونین، اسٹیٹ لائف اور ینگ ڈاکٹرز کی جدوجہد کی حمایت کرتی ہے اور یہ مطالبہ کرتی ہے کہ نجکاری کی پالیسی کا خاتمہ کیا جائے۔
ینگ انجینئرز الائنس پاکستان سے فیصل چٹھہ نے بڑے مختصر مگر جامع اورانتہائی جذباتی انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ان حکمرانوں کے پیدا کیے گئے تعصبات سے بالاتر ہوکر درپیش مسائل کے خلاف عملی جڑت کا مظاہرہ کیا جائے۔ علیحدہ علیحدہ جدوجہد بہت ہوچکی، جڑت کے دعوے بھی کئی بار ہوچکے ،مگر یہ وہ وقت ہے کہ اپنے عمل سے ثابت کیا جائے کہ اگر ڈاکٹر احتجاج کررہے ہیں تو نرسز، پیدامیڈیکس، انجینئرز، طلبہ غرض تمام ادارے ان کی جدوجہد میں عملی طور پر شامل ہوں۔ یہ پیشہ ورانہ تعصبات انہی حکمرانوں کے پیدا کردہ ہیں۔ یہ اونچ نیچ انہی کی دین ہے اور انہی حکمرانوں کا کام آسان کرتی ہے مگر ہم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم آئندہ جو بھی جدوجہد کریں گے وہ اکٹھے ہوکر کریں گے۔
لاہور پریس کلب کے سینئر نائب صدر ذوالفقار مہتو نے میڈیا ورکرز کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی اور کہا کہ اس وقت میڈیا ورکرز ڈاؤن سائزنگ، تنخواہوں میں کمی اور آزادئ اظہارِ رائے پر حملوں کی زد میں ہیں اور وہ یہ امید کرتے ہیں کہ ان حملوں کے خلاف دیگر ادارے بھی ان کی جدوجہد کی حمایت کریں گے اور ساتھ ہی اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ دیگر اداروں کی جدوجہد میں بھی میڈیا ورکرز اپنا بھرپور کردار اداکریں گے اور اس بات کا یقین دلایا کہ لاہور پریس کلب تمام اداروں کے محنت کشوں کی جدوجہد میں ہرممکن تعاون کرے گا۔
ریلوے محنت کش یونین سے مزدور رہنما صدیق بیگ نے مزدور تحریک کے زوال کی وجوہات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے تمام اداروں کے محنت کشوں کو قریب لانے اور ان کے مابین عملی جڑت پیدا کرنے میں ریڈ ورکرز فرنٹ کی ان کوششوں کو سراہا اور یہ تجویز پیش کی اس حوالے سے تمام اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک مزدور رابطہ کمیٹی تشکیل دی جائے جس کی ہال میں بیٹھے سبھی شرکا نے بھرپور تائید کی۔
سیمینار کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر آفتاب اشرف نے خطاب کہا کہ پچھلے دس سالوں میں پاکستان کا کوئی ایسا بڑا سرکاری ادارہ نہیں ہے اور کوئی ایسا صنعتی مرکز نہیں ہے جہاں کے محنت کشوں نے اپنے مطالبات کے لیے جلسے جلوس احتجاج اور ہڑتالیں نہ کی ہوں۔ پچھلی ایک دہائی میں مختلف اداروں اور صنعتوں میں چلنے والی ان چھوٹی چھوٹی مزدور تحریکوں کی تعداد ہزاروں میں بنتی ہے لیکن المیہ یہ ہے یہ کہ ایک جیسے مسائل اور ایک جیسے مطالبات ہونے کے باوجود یہ سب تحریکیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ چل رہی ہیں اور اسی وجہ سے حکمران طبقے کے لیے ان کو شکست دینا آسان ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح سے مزدور تحریک مزید آگے نہیں بڑھ سکتی اور وقت کا تقاضا ہے کہ تمام اداروں اور صنعتوں کے محنت کش مشترکہ مطالبات پر یکجان ہو کر اکٹھے جدوجہد کریں۔ اس حوالے سے انہوں نے ملک گیر عام ہڑتال کے لائحہ عمل سے متعلق بات کی اور کہا کہ پچھلے عرصے میں لاطینی امریکا سے لے کر یورپ اور پڑوسی ملک ہندوستان تک بے شمار ممالک میں محنت کش بے شمار ملک گیر عام ہڑتالیں کرچکے ہیں اور اپنے بہت سارے مطالبات منوانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ پاکستان کے محنت کشوں کے پاس بھی اب آگے بڑھنے کا یہی رستہ ہے اس حوالے سے ٹریڈ یونین قیادتوں کے اوپر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عملی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ مسائل پر جدوجہد کا آغاز کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک عام ہڑتال کی صورت میں نہ صرف نجکاری کا حملہ روکا جاسکتا ہے اور اجرتوں میں اضافہ کروایا جاسکتا ہے بلکہ یہ سماج کے اندر اس سیاسی سوال کو بھی جنم دے گی کہ جب پورے سماج کو محنت کش طبقہ چلاتا ہے تو سماج پر سیاسی حکمرانی کا حق اسے کیوں حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے پاکستان کے تمام بڑے شہروں کے میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیر اہتمام جلسے منعقد کرنے کا اعلان بھی کیا جس کے نتیجے میں ہر شہر کے اندر ساری بڑی ٹریڈیونینوں اور مزدور انجمنوں کے نمائندوں پر مشتمل رابطہ کمیٹیاں تشکیل دی جائے گی جو کہ مشترکہ مطالبات کی بنیاد پر مختلف اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں کی جدوجہد کو آپس میں جوڑ تے ہوئے ایک ملک گیر عام ہڑتال کے لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنائیں گی۔