لاہور: تجاوزات کرنے والے کون؟ ریڑھی بان یاجم خانہ کلب

لاہور میں مختلف جگہوں پر بڑے پیمانے پہ انسداد تجاوزات آپریشن جاری ہے۔ اس آپریشن میں سڑک کے کنارے بنے کھوکوں اور ریڑھیوں کو بڑی تعداد میں تلف کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹی دکانوں اور مختلف مکانوں کو بھی گرایا جا رہا ہے۔ درحقیقت اس آپریشن کے ذریعے حکومت و انتظامیہ اپنی لوٹ مار کو مزید بڑھا رہی ہے۔

اب ریڑھیوں پر بھی سرکاری طور پر ہوشربا ٹیکس لگا دیا گیا ہے اور پھر بھی ریڑھی بلیک میں فروخت کی جا رہی ہے۔ ایک طرف روزانہ کی بنیادوں پر لوکل پولیس اور انتظامیہ ان دکانداروں اور ریڑھی بانوں سے بھتہ وصول کرتے ہیں تو دوسری طرف جب ٹریفک کی بد انتظامی بڑھ جاتی ہے تمام تر ملبہ چھوٹے دکانداروں اور ریڑھی بانوں پر ڈال کر اپنی کرپشن اور نااہلی کو چھپاتے ہیں۔

جیو نیوز کی مارچ 2017ء کی رپورٹ کے مطابق کراچی کی صدر مارکیٹ میں انتظامیہ دکانداروں سے روانہ کی بنیادوں پہ بھتہ کی مد میں پندرہ لاکھ روپے اکھٹے کرتی ہے اور یہ ماہانہ چار کروڑ پچاس لاکھ بنتے ہیں۔ اسی طرح لاہور میں مختلف جگہوں پر تلف کی جانے والی ریڑھیوں کے مالکان سے ہزاروں روپے وصول کر کے ان کو ریڑھی واپس کی جاتی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے حکومت و انتظامیہ کا مقصد تجاوزات کے مسئلے کا حل نہیں بلکہ غریبوں کو مزید لوٹ کر اپنی جیبیں بھرنا ہے۔ اسی لاہور میں اشرافیہ کی عیاشی کا اڈہ جم خانہ کلب سرکاری اراضی پر موجود ہے۔ 1113 کنال اراضی پر مشتمل جم خانہ کلب حکومت پنجاب کو صرف 417 روپے ماہانہ کرایہ ادا کر رہا ہے۔ ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی پر موجود گولف گراؤنڈز اس کے علاوہ ہیں۔ جن کی قیمت عام غریب عوام چکا رہی ہے۔

جم خانہ کلب اور گولف گراؤنڈز کے خلاف کسی قسم کے آپریشنز نہیں ہوں گے کیونکہ یہ جگہیں ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹوں، سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کی عیاشیوں کے لیے ہیں۔ دوسری طرف ریڑھی بانوں اور چھوٹے دکانداروں کو حکومت متبادل جگہ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہے اور نا ہی مستقبل میں ایسا ممکن ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہے۔

اس نظام میں اشرافیہ کی عیاشیوں کے لیے محنت کش عوام کا خون پسینہ نچوڑا جاتا ہے۔ اشرافیہ کے لیے کوئی آئین و قانون نہیں ہوتا۔ اس کا اطلاق محنت کش عوام پر ہوتا ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑی لیول تک اس نظام میں کرپشن اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ انتظامی مسائل ہوں یا کسی قسم کا مسئلہ اس حوالے سے اصلاحات اب نا ممکن ہوتی جا رہی ہیں۔ انقلاب کے ذریعے موجودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

Comments are closed.