| لاہور، رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ|
یکم جولائی کو لاہور شیخوپورہ روڈ پر واقع شفیع لیدر فیکٹری کے ورکرز نے جبری برطرفیوں کے خلاف احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا ہے۔ یہ احتجاج اس وقت شروع ہوا جب جولائی کی پہلی تاریخ کو 22 ورکرز کو بغیر کسی وجہ کے، کسی نوٹس کے اور بغیر کسی کاغذی کارروائی کے فیکٹری سے نکال دیا گیا۔ اطلاع ملنے پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان وہاں پہنچ گے اور مزدوروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
ورکرز نے بتایا کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا بلکہ یہ ہر مہینے کا معمول بن گیا ہے۔ پچھلے مہینے بھی 15 ورکرز کو اسی طرح نوکری سے برخاست کردیا گیا تھا۔ مالکان نے وجہ کرونا بتائی ہے لیکن مزدوروں کا سوال ہے کہ اگر وجہ کرونا ہے تو مزدوروں کو حفاظتی سامان کیوں مہیا نہیں کیا گیا؟ مزدور اپنی حفاظت کے لیے سب کچھ اپنی جیب سے کرنے پر مجبور ہے۔ یہاں تک کہ فیکٹری کے ٹوائلٹس میں صابن، ڈیٹول یا سینیٹائزر تک فراہم نہیں کیا گیا۔ مزدوروں کے لیے ماسک پہننا لازمی ہے لیکن وہ بھی انہیں اپنی جیب سے خریدنا پڑ رہا ہے، جبکہ ان کی تنخواہیں صرف ساڑھے سترہ ہزار ماہانہ ہے۔
مزدوروں نے مزید بتایا کہ مزدوروں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ انتظامیہ کے لیے نیسلے کا پانی منگوایا جاتا ہے جبکہ ورکرز کے پینے کے پانی کے لیے زمین میں ٹینکی کھودی گئی ہے جس میں مینڈک گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ مزدوروں نے مزید یہ بھی بتایا کہ ورکرز نے اپنی یونین بھی رجسٹر کرائی ہوئی ہے جس کا سی بی اے سٹیٹس بھی ہے لیکن ان کو فیکٹری کی طرف سے کس قسم کی دستاویز نہیں دی جا رہی بلکہ ورکرز کی چھانٹی کرتے ہوئے سب سے پہلے یونین لیڈران کو ہی فیکٹری سے نکالا جا رہا ہے۔
ورکرز نے یہ بھی بتایا کی کرونا لاک ڈاؤن کے دنوں میں بھی فیکٹری کھلی رہی اور مزدور کام پر آتے رہے جس کا کوئی سپیشل بونس نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ جن دنوں میں کام نہیں ہوا ان دنوں کی چھٹیاں کاٹ لی گئیں۔
معاشی بحران و کساد بازاری کی وجہ سے محنت کشوں کے استحصال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرمایہ دار اپنے منافع کو برقرار رکھنے کے لئے سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈال رہے ہیں۔ ان کی اجرتوں میں کمی اور اوقات کار میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر تمام آئینی اور قانونی مراعات میں کمی یا مکمل ختم کر رہے ہیں۔ملک بھر کی طرح لاہور کی صنعتوں میں بھی یہی صورتحال ہے جس کی وجہ سے محنت کش سراپا احتجاج ہیں۔مزدوروں نے ابتدا میں فیکٹری گیٹ کے سامنے دھرنا دیا لیکن وہاں سے پولیس نے ان کو ہٹنے پر مجبور کیا اور گلی کی دوسری طرف دھرنا منتقل کیا گیا۔ اس کے بعد سے پولیس کی گشتی ٹیمیں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اس دھرنے کے سامنے سے گزرتی ہیں اور پولیس کی طرف سے مزدوروں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ یہاں ریاست کا کردار بھی واضح ہوتا نظر آتا ہے جہاں پولیس فیکٹری کے ظالم مالک کے تحفظ کے لیے کھڑی نظر آ رہی ہے۔ فیکٹری گیٹ پر فیکٹری سکیورٹی اور پولیس تعینات ہے۔ لیکن مزدور پر عزم ہیں اور جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہیں۔