| رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
7جون 2022ء کو لاہور پریس کلب کے سامنے ریل مزدور اتحاد کی طرف سے وفاقی بجٹ 2022-23ء میں تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے اور دیگر مطالبات کیلئے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ ریل مزدور اتحاد کے قائدین جن مطالبات کے لیے احتجاج کر رہے تھے، پورے احتجاج کے دوران ان میں سے صرف تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے پر ہی کچھ بات کی گئی۔ اس کے علاوہ احتجاج کے آغاز سے لے کر اختتام تک قائدین کی جانب سے صرف انڈیا مخالف نعرے بازی جاری رہی۔ احتجاج میں بمشکل 80 سے 90 مزدور تھے۔ ریل مزدور اتحاد کے دعوؤں کو دیکھتے ہوئے یہ نہایت ہی کم تعداد ہے۔
اس قت ریلوے کے ملازمین مختلف مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں تنخواہوں، پنشن، کنونس الاؤنس اور ہاؤس الاؤنس میں اضافہ، اور کنٹریکٹ ٹی ایل اے (پی ایم پیکج) اور اِن ویلیڈ ملازمین کی مستقلی شامل ہے۔ مگر ان مطالبات پر اب تک کسی یونین کی جانب سے کوئی سنجیدہ تحریک نہیں چلائی گئی۔
اس وقت پاکستان ریلوے کے غیور محنت کشوں کے سر پر نجکاری کی ننگی تلوار لٹک رہی ہے اور پاکستان کے حا لیہ معاشی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے یقیناً حکمران سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈالنے کی پالیسی کے تسلسل میں ریلوے کی مکمل نجکاری کی جانب بڑھیں گے جس سے ہزاروں محنت کشوں کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
اس تمام تر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ریلوے کے احتجاجوں میں مزدوروں کی بڑی تعداد شریک ہونی چاہئے تھی مگر ریل مزدور اتحاد کی طرح دوسری یونینزپر بھی یہ سنجیدہ تنقید بنتی ہے کہ مزدوروں کا ان پر سے اعتماد اُٹھ چکا ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ریلوے ملازمین کے تمام تر مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نجکاری مخالف ہر تحریک میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرے گا۔ ریلوے یونینز کی جانب سے پچھلے کئی سالوں سے پہیہ جام احتجاجوں کا لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے لیکن آج، جب لٹیرے گھر کی دہلیز پر آپہنچے ہیں، تو کوئی عملی اقدام سنجیدہ عملی اقدام دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ نجکاری سے لڑنے کا صرف ایک طریقہ ہے، اور وہ یہ کے ریلوے کے تمام مزدور ریل سروس کو بند کر دیں۔
اس وقت سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر اپنی تاریخ کے بد ترین بحران کا شکار ہے۔ اس نظام کی سب سے کمزور کڑیوں میں سے ایک، یعنی پاکستانی ریاست بھی، شدید معاشی و سیاسی بحران سے دوچار ہے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی اس تمام تر بحران کا بوجھ محنت کش طبقے پر ہی ڈالا جا رہا ہے۔ 10 جون 2022ء کو آئی ایم ایف کی ایماء پر تیار کردہ مزدور دشمن بجٹ 2022-23ء پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں صرف 15 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے یہ اضافہ کچھ بھی نہیں ہے جبکہ کم از کم اجرت کے بارے میں مزدور دشمن حکومت کی طرف سے کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی ہے، جبکہ اس سے پہلے پٹرول کی قیمتوں میں ایک بڑا اضافہ کیا گیا ہے اور ساتھ ہی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اس مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جا رہا اور ساری صورتحال میں مزدور اپنی روزمرہ کی ضروری اشیاء سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر ٹریڈ یونینوں کا کردار بھی کھل کے سامنے آیا ہے جہاں ٹریڈ یونینوں کی قیادتوں کو مزدوروں کے احتجاج میں مزدوروں کے مسائل پر بات رکھنی چاہیے تھی وہاں یہ قیادتیں صرف مودی مخالف نعروں تک ہی محدود رہیں۔ اس حوالے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ایک حقیقی اور لڑاکا مزدور قیادت کا بہت بڑا خلا پیدا ہو چکا ہے جسے مزدوروں کو خود ہی آگے بڑھ کر ختم کرنا ہوگا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ یہ سمجھتا ہے کہ یہ حکمران ملک کی معاشی بدحالی کا بہانہ بنا کر محنت کشوں پہ حملہ کر چکے ہیں۔ اگر ملک دیوالیہ ہونے جا رہا ہے تو سرمایہ داروں کو ملنے والی ٹیکس چھوٹ اور سبسڈیوں وغیرہ کو ختم کرکے، دفاعی بجٹ میں کٹوتیاں کرکے، ججوں، بیوروکریٹوں اور جرنیلوں کی تجوریوں سے پیسہ نکال کراس بحران پہ قابو پایا جائے۔ لیکن یہ مزدور دشمن حکمران مہنگائی کے بم گرا کر بحران کا ملبہ محنت کشوں پر ڈال رہے ہیں۔ اس لیے ریڈ ورکرز فرنٹ کا مطالبہ ہے کہ ملک بھر کے تمام محنت کشوں و ملازمین کی تنخواہوں میں فوری طور پر 100 فیصد اضافہ کیا جائے۔