|ریڈ ورکرز فرنٹ،لاہور|
12 فروری بروز سوموار کو ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) لاہور کی ایک ٹیم نے میو ہسپتال لاہور کے شعبہئ حادثات میں کچھ ینگ نرسز کا انٹرویو لیا۔ وہاں ینگ نرسز کے حالات انتہائی نا گفتہ بہ تھے۔ مریضوں کا رش اتنا زیادہ تھا کہ وہ کسی مشین کی طرح کام میں جتی ہوئی تھیں۔ ہم نے بڑی مشکل سے کچھ نر سز کو آمادہ کیا کہ وہ اپنی بے انتہا مصروفیت میں سے چند منٹ نکال کر ہمیں دیں۔ پتا چلا کہ ڈیوٹی کے دوران انہیں آرام کا ایک سیکنڈ بھی نصیب نہیں ہوتا، اور ایک دن میں چار شفٹیں ہوتی ہیں، ہر شفٹ 6گھنٹوں کی ہوتی ہے اور ہر نرس کو دن میں دو شفٹیں کرنا ہوتی ہیں، مطلب ہر نرس کو ایک دن میں بارہ گھنٹے ڈیوٹی کرنا ہوتی ہے، اور اس کے بعد انہیں ماہانہ 52ہزار تنخواہ ملتی ہے(یہ صرف بطور مستقل ملازم کام کرنے والی نرسوں کو ملتی ہے)، جس میں سے 7ہزار کی پہلے ہی کٹوتی کرلی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ نرسوں کو ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت فراہم نہیں کی جاتی، اور میو ہسپتال سمیت گورنمنٹ ہسپتالوں کے ہاسٹلوں کے حالات اتنے ناقص ہیں کہ نرسیں پرائیویٹ ہاسٹل میں رہنے کو ترجیح دیتی ہیں جس سے اخراجات میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ میوہسپتال کے نرسنگ ہاسٹلز میں ایک ایک کمرے میں تقریبا دس لڑکیاں رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہاسٹل وارڈ ن کا رویہ بھی ہاسٹلز میں رہنے والی ینگ نرسز کے ساتھ انتہائی برا ہے۔ پھر انہیں ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہیں فراہم کی جاتی ہے، ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے نرسوں کو ایک تو ٹرانسپورٹ کا اضافی خرچہ اٹھانا پڑتا ہے، ساتھ ہی ساتھ جب کسی نرس کو رات گئے ڈیوٹی پر آنا یا واپس جانا ہوتا ہے تو اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ، جب ان سے MTI ایکٹ کے بارے میں ان سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ اس کے اثرات بہت بھیانک ہوں گے، کیونکہ یہ درحقیقت سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا قانون ہے۔ اس کے بعد نرسوں کی نوکریاں بھی عارضی ہو جائیں گی، اور ان کی تنخواہیں بھی کم کر دی جائیں گی۔ اس کے علاوہ کام کے اوقات کار میں بھی اضافہ کردیا جائے گا۔اور دیکھا جائے تو مریضوں کی چیک اپ کی فیس بھی 10 روپے سے 500 روپے کر دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سٹاف میں کوئی ایسا ممبر نہیں جو ایم ٹی آئی ایکٹ کے حق میں ہو۔ اور ایم ٹی آئی ایکٹ کے خلاف تمام سٹاف نے پچھلے عرصے میں اپنی ڈگریاں اور نوکریاں داؤ پر لگا کر بھرپور مظاہرے کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آئندہ بھی اس ایکٹ کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ایسا ہی کریں گی۔
ہراسانی اور خاص کر جنسی ہراسانی کے واقعات کے حوالے سے بھی میو ہسپتال کی صورتحال ینگ نرسز کے لیے انتہائی بھیانک ہے۔ لیکن آئے روز ہونے والے ان تمام واقعات کو اپنے اپنے وارڈ میں دبا دیا جاتا ہے، جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ خبر وارڈ سے باہر بھی نہیں آتی،یہاں تک کہ وارڈ کے اندر کام کرنے والے تمام ملازمین تک بھی خبر نہیں پہنچتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی گزشتہ ہفتے میں ایک عورت کی زخموں سے چور لاش ہسپتال کے واش روم میں پڑی ہوئی ملی، اور اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ اس کے ساتھ تشدد کیا گیا ہے۔ لیکن یہ واقعہ بھی ایمرجنسی وارڈ کے اندر ہی دبا دیا گیا۔ اور وارڈ سے باہر کسی کو اس کی خبر تک نہیں اور ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات ہر وارڈ میں پیش آتے ہیں لیکن ان کی خبر کو ایسے دفن کردیا جاتا ہے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ ہراسانی کے ان واقعات میں مریضوں کے لواحقین،باہر سے آنے والے افراد، انتظامیہ کے لوگ، مرد ملازمین اور یہاں تک کہ بعض مرد ڈاکٹرز بھی ملوث ہوتے ہیں۔
آخر میں ہم نے انہیں ریڈ ورکرز فرنٹ کے مقاصد اور اپنے ماہانہ اخبار”ورکرنامہ“ کا تعارف کروایا۔ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے بھی ڈسکشن کی، اور انہیں لاہور میں آٹھ مار چ کو ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیر اہتمام ہونے والی تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی گئی۔ نرسیں، محنت کشوں کی وہ پرت ہیں جو اپنا حق لینے کے لیے اکثر ہمیں تحریکوں میں نظر آتی ہیں۔ یہ ینگ نرسز بھی پورے اعتماد سے یہی کہہ رہی تھیں کہ جہاں بھی ان کا حق مارا گیا وہ اسے چھین کے واپس لیں گی۔ جیسا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے محنت کش عوام پر دن بدن جبر واستحصال بڑھتا جارہا ہے اور یہ امراب اپنی تمام تر حدود پار کر چکا ہے۔ عوام کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے اور جب وہ حد کراس ہوجائے تو اس کے نتائج نا گزیر طور پر ایک سماجی دھماکے کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔وہ وقت دور نہیں ہے جب ہمیں پہلے سے بھی زیادہ جذبے کے ساتھ محنت کشوں کی تحریکیں نظر آئیں گی جو کہ ایک ملک گیر عام ہڑتال کی راہ ہموار کریں گی۔عام ہڑتال ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے محنت کش عوام اپنے تمام حقوق حاصل کر سکتی ہے۔یہ محنت کش عوام ہی ہیں جو اس ملک،سماج اور معیشت کو چلا رہے ہیں اور جس دن انہوں نے اپنا ہاتھ روک دیا،اس دن اس ملک کے حکمران طبقے کو اپنی حقیقی اوقات کا پتا لگ جائے گا۔