رپورٹ: |مقصود ہمدانی|
پاکستان کسان اتحاد نے اپنے دیرینہ مطالبات کی منظوری کیلئے ایک مرتبہ پھر احتجاج کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور۔ 27ستمبر کو پنجاب اسمبلی کے سامنے چیئرنگ کراس پر شروع ہونے والا دھرنا جو کہ28ستمبر کو رات گئے تک جاری رہا ایک بار بھر ’’مذاکرات‘‘ کے وعدے پر ختم کر دیا گیا۔
پاکستان کسان اتحاد کافی عرصہ سے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں رمضان سے پہلے پنجاب اسمبلی کے سامنے دئیے گئے دھرنے کے نتیجے میں حکومت نے تمام مطالبات پر فوری عمل درآمد کا وعدہ کیا تھا جو ابھی تک فی الحال وعدہ ہی ہے۔ دھرنے کو ناکام کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حکومتی آلہ کار پولیس نے 20 کسانوں کو گرفتار بھی کر لیا لیکن ان اوچھے ہتھکنڈوں نے کسانوں کو اور بھی زیادہ مشتعل کر دیا۔ بعد ازاں کسانوں کے شدید احتجاج کیباعث پولیس نے غیر مشروط طور پر گرفتار کسانوں کو رہا کر دیا۔
ورکر نامہ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے حکمرانوں کے مظالم کی داستان سناتے ہوئے کسان پھٹ پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2008ء سے کسان مسلسل گھاٹے میں جا رہے ہیں۔ ہر فصل پر جو لاگت آتی ہے اور جتنی محنت صرف ہوتی ہے اس کے مقابلے میں فصل کوڑیوں کے مول بکتی ہے جبکہ سارا منافع آڑھتی کھا جاتے ہیں۔ بجلی کے نرخ انتہائی بلند ہیں اور اوور ریڈنگ معمول کا حصہ ہے۔ ٹیوب ویل کی فی یونٹ لاگت دن میں 5.35 روپے ہے جبکہ رات میں 10.35روپے ہے۔ ٹیوب ویل کا 5.00 روپیہ فی یونٹ فلیٹ ریٹ کرنے اور ریڈنگ میں بے ضابطگیوں کو ٹھیک کرنے کا حکومتی وعدہ سوائے ننگے جھوٹ کے اور کچھ ثابت نہیں ہوا۔ ٹریکٹر، مشینیں، کھاد، ادویات اور دیگر زرعی اجناس پر ٹیکس ختم کر کے کسانوں کو فوری ریلیف ملنا چاہئے۔ ایک کسان ملک رؤف احمد کھوکھر نے بتایا کہ اس کی 14ایکڑ زمین کا تین مہینے کا بل 7لاکھ رپیہ آیا ہے جو کہ سراسر بدنیتی، کرپشن اور کسانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ بڑی لنک نہریں پکی نہیں ہیں جن کی وجہ سے زرعی زمینیں سیم کا شکار ہو کر برباد ہو رہی ہیں۔کئی سائفن مٹی جمنے کی وجہ سے انتہائی کم مقدار میں پانی دے رہے ہیں جس کی وجہ سے فصلیں تباہ حالی کا شکار ہیں۔
کسانوں کا مطالبہ ہے کہ زرعی اجناس کے مندرجہ ذیل ریٹ لاگو کئے جائیں:
1۔ کپاس 4000 روپیہ فی من
2۔ چاول 2200روپیہ فی من
3۔ گندم 1500 روپیہ فی من
4۔ مکئی 1000روپیہ فی من
5۔ آلو 2000روپیہ فی من
6۔ گنا 250 روپیہ فی من
اس کے علاوہ کسانوں نے کہا کہ جو زمین 5سالہ پٹے پر دی گئی ہے اس بنجر زمین کو کسانوں نے سخت محنت، ہمت اور حوصلے سے آباد کیا ہے اس لئے اس کے مالکانہ حقوق بھی انہی کو ملنے چاہئیں۔ اس ضمن میں نوٹیفیکیشن 922 کو فوی طور پر منسوخ کیا جائے۔
اس دوران کسان پرجوش انداز میں اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی بھی کرتے رہے۔ کسان اتحاد نے 28ستمبر کو رات گئے ایک بار پھر حکومت کی یقین دہانی پر دھرنا ختم کر دیا تھا۔ اس وقت ملکی سیاسی و معاشی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ امید نہیں کہ کسانوں کے مطالبات مانیں جائیں گے اور انہیں پھر اپنے حقوق کیلئے سڑک پر آنا پڑے گا۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ کسان اپنے اندر جڑت پیدا کرتے ہوئے مختلف کسان تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر مشترکہ مطالبات پر اکٹھا کریں اور ساتھ ہی دیگر اداروں کے محنت کشوں جیسے واپڈا، ٹیچرز، ینگ ڈاکٹرز اور دیگر کے ساتھ طبقاتی جڑت بناتے ہوئے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔