|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
گذشتہ روز صحافیوں کی جبری برطرفیوں کے خلاف برطرف صحافیوں نے دنیا نیوز لاہور کے دفتر کے باہر شدید احتجاج کیا۔ احتجاج کی کال لاہور کی مختلف صحافی تنظیموں کی جانب سے دی گئی تھی اور احتجاج میں دنیا نیوز کے علاوہ دیگر میڈیا ہاؤس سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر مظاہرین نے میڈیا مالکان کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ صحافی ریلی کی شکل میں پریس کلب سے دنیا نیوز کے دفتر پہنچے جہاں مرکزی دروازے کے باہر دھرنا دیا گیا۔ قومی سطح کے کسی میڈیا پر احتجاج کی خبر نہیں چلائی گئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام چینلز کے مالکان ملازمین کے خلاف متحد ہیں۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ چینلز ملازمین کی وجہ سے چل رہے ہیں جن میں رپورٹرز، کیمرہ مین اور دیگر ملازمین شامل ہیں اور انہیں ملازمین کے حق پر ڈاکہ مارا گیا ہے۔مزید ان کا کہنا تھا کہ انتہائی قلیل تنخواہ پر کام کرنے والے ملازمین کو نکالنے کی بجائے ان مالکان کو نکالا جائے جنہوں نے منافعے بٹور کر بنگلے بنا لیے اور دولت کے ڈھیر لگا لیے ہیں۔ ان مالکان میں تسنیم عارف، ایم ڈی نوید کاشف اور دیگر شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق کم و بیش 427 ملازمین کی لسٹ تیار کی گئی ہے جن میں لگ بھگ 200 لوگوں کو جبری طور پر برطرف کر دیا گیا ہے جن میں سے زیادہ تعداد اخبار سے منسلک ملازمین کی ہے۔ یاد رہے کہ 2018ء میں بھی 150 سے زائد ملازمین کو نکالا گیا تھا اور باقی سٹاف کی تنخواہیں 10سے 25 فیصد تک کم کی گئیں تھیں۔ ملازمین کو برطرف کرنے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اشتہارات کی کمی ہے اور آپریٹنگ اخراجات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ اخراجات ورکرز کی تنخواہوں سے پورے کیے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف ہمیں نظر آتا ہے کہ ایم ڈی نوید کاشف صاحب نے نئی لینڈ کروزر خریدی ہے اور ایچ آر مینیجر تسنیم عارف نے چھ کروڑ کا بنگلہ خریدا ہے۔ اگر دنیا نیوز کی بلڈنگ کی بات کی جائے تو پوری عمارت کی حال ہی میں دوبارہ تزئین و آرائش کی گئی ہے۔دنیا نیوز کے مالک میاں عمر صاحب لوکل باڈی الیکشن میں بھی حصہ لے رہے ہیں جس پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جائے گا۔ان لٹیروں کی لوٹ مار میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ملازمین سے دو وقت کی روٹی بھی چھینی جا رہی ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) ملازمین کے معاشی قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ صحافیوں کے اندر مزاہمتی سیاست کو دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس لڑائی کو دیگر میڈیا گروپس کے ساتھ مل کر لڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ ملازمین بھی اسی جبر کا نشانہ ہیں۔