|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، لاہور|
14اکتوبر کو لاہور شہر میں پنجاب گروپ آف کالجز کے ہزاروں طلبہ سراپا احتجاج رہے۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے پنجاب کالج لاہور کے کیمپس 10 میں سکیورٹی گارڈ نے گیارہویں جماعت کی ایک طالبہ کا ریپ کیا ہے، جس کے خلاف وہ احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج نہ صرف پنجاب گروپ آف کالجز لاہور کے تمام کیمپسز (گلبرگ، مسلم ٹاؤن موڑ، جوہر ٹاؤن، ایئر لائن، ایوبیہ کالونی، ان کے علاوہ متعدد دیگر شہروں میں بھی) میں ہوئے بلکہ ان کے ساتھ یکجہتی میں ایف سی کالج، سپیرئیر کالج اور دیگر کالجز اور یونیورسٹیوں کے سٹوڈنٹ بھی شامل تھے۔
یہ کالج ایک بڑے سرمایہ دار میاں عامر کی ملکیت ہے۔ وہی میاں عامر جو دنیا نیوز چینل سمیت کئی اور کاروبار بھی کرتا ہے۔ پنجاب گروپ آف کالجز بھی تعلیمی ادارے نہیں بلکہ اس کا دھندہ ہے جس سے یہ اربوں روپے کماتا ہے۔ اس سرمایہ دار کے پرائیویٹ کالج کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی فی میل سٹوڈنٹ کا ریپ نہیں ہوا اور افواہوں کی بنیاد پر طلبہ احتجاج کر رہے ہیں۔
13 اکتوبر کے دن سے جب سوشل میڈیا پر احتجاج کی باتیں سامنے آئیں تو صوبہ بھر میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص موجود پنجاب گروپ آف کالجز کے تمام کیمپسز کی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا گیا۔ طلبہ کو کہا گیا کہ اگر وہ احتجاج میں شریک ہوئے تو ان کا مستقبل ختم کر دیا جائے گا۔ لیکن طلبہ نے ان دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر 14 اکتوبر کو لاہور کے مختلف کیمپسز میں اور ان کے باہر احتجاج شروع کر دیا۔
ان احتجاجوں کو روکنے کے لیے پہلے ہی پولیس کی بھاری نفری بلائی گئی تھی۔ پولیس کے اہلکاروں نے ڈنڈے اور حتیٰ کہ ہتھیار بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ یہ ڈنڈے اور ہتھیار مجرموں کو پکڑنے کے لیے نہیں بلکہ ان پُر امن طلبہ پر تشدد کرنے کے لیے اٹھائے گئے تھے جو ایک فی میل سٹوڈنٹ کے ساتھ ہونے والے ریپ کے خلاف احتجاج کرنے آئے تھے۔
پولیس نے 16، 16 سال کے پُر امن طلبہ پر انتہائی بہیمانہ تشدد کیا۔ سوشل میڈیا پر اس کی کئی وڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں۔ تشدد کے ساتھ ساتھ طلبہ کو ڈرانے دھمکانے کی ہر حد پار کی گئی۔ سوشل میڈیا پر موجود ایک وڈیو میں ایک پولیس افسر کو فی میل سٹوڈنٹس کو یہ کہتے ہوئے واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ ”یہاں سے چلے جاؤ، کہیں یہاں نیا واقعہ نہ ہو جائے“۔
واقعے کی تفصیلات
پولیس نے پریس کانفرنس میں بیان دیا ہے کہ ”ابھی تک ہمیں متاثرہ لڑکی کی کوئی معلومات نہیں ملی ہیں اور جوسکیورٹی گارڈ چھٹی پر تھا اسے ہم نے سرگودھا سے گرفتار کر لیا ہے، لیکن اس سکیورٹی گارڈ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا۔“
اس کے بعد ایک نامور خاتون پولیس افسر کی ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ قرآنی آیات پڑھ کے یہ تاثر قائم کر رہی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ اس وڈیو کو پنجاب گروپ آف کالجز کے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی شیئر کیا گیا۔
تھوڑی دیر بعد اسی خاتون پولیس افسر کی ایک اور ویڈیو آئی جس میں اس کے ساتھ ایک فی میل سٹوڈنٹ کے والد اور چچا بھی تھے۔ اس وڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ہماری بیٹی کا نام لیا جا رہا ہے جبکہ اس کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہماری بیٹی 10 دن پہلے سیڑھیوں سے گری تھی اور ہمارے پاس اس کے ایکسرے اور ڈاکٹر کی رپورٹس بھی ہیں۔ یہی بیان پولیس نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی دیا تھا۔ اس ویڈیو کے کمنٹس میں لوگوں نے پولیس اور پنجاب کالج پر خوب تھو تھو کی۔
اس کے علاوہ ایک ویڈیو میں پنجاب کا وزیر تعلیم یہ کہتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے کہ ”مجھے لگتا ہے کہ ریپ ہوا ہے“۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی کے سپیکر کا کہنا تھا کہ ”منسٹر فار ہائیر ایجوکیشن کے مطابق پنجاب کالج کی پرنسپل اور سٹاف نے سی سی ٹی وی فوٹیج ڈیلیٹ کر دی ہیں“۔ ایک وڈیو میں یہی بات کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر تعلیم کو دیکھا بھی جا سکتا ہے۔ اس پر پولیس نے ابھی تک کوئی جوابی بیان نہیں دیا۔
جبکہ دوسری طرف ہزاروں طلبہ کہہ رہے ہیں کہ ریپ ہوا ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے لڑکی کا نام سامنے نہ لانے کے لیے سب کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ کیمپس 10 کے طلبہ کا کہنا ہے کہ ”اسے بیسمنٹ میں بلایاگیا اور سکیورٹی گارڈ نے اس کے ساتھ ریپ کیا۔ جب ٹیچرز کو اس کا پتا چلا تو اس لڑکی کی حالت بہت ہی خراب تھی اور ریسکیو کو بلا کر اسے ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اس کے چیخنے کی آوازیں کلاس روم میں سنی گئی ہیں۔“
ایک ویڈیو میں احتجاج کے دوران کالج کی سکیورٹی اور انتظامیہ سے سٹوڈنٹس کے والدین کو بحث کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس میں نہیں سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی جائے۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں سی سی ٹی وی فوٹیج دکھا دی جائے تو وہ فوراً احتجاج ختم کر دیں گے۔ اگر ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے تو پھر فوٹیج انہیں کیوں نہیں دکھائی جا رہی؟ مگر سارا دن جاری رہنے والے احتجاج کے با وجود وہ سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں دکھائی گئی۔
پریس کانفرنس میں پولیس کا کہنا تھا کہ انہوں نے جس سکیورٹی گارڈ کو گرفتار کیا ہے، سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں اس کے خلاف کچھ نہیں ملا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر پولیس کو چاہیے کہ وہ دس دن کی ساری فوٹیج سامنے لے آئے۔
اس ساری صورت حال میں پولیس اور کالج انتظامیہ کے مؤقف میں کئی تضادات دیکھے جا سکتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ریپ کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ تعلیم کے نام پر جاری میاں عامر کے اربوں روپے کے کاروبار پر کوئی آنچ نہ آئے۔
ایک طرف جہاں سٹوڈنٹس زیادتی کا شکار ہونے والی سٹوڈنٹ کے لیے سڑکوں پر انصاف مانگ رہے ہیں تو وہیں دوسری جانب حکمران اس پر اپنے مفادات کے لیے سیاسی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ بالخصوص پی ٹی آئی اس کیس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی سمیت دیگر تمام رائج الوقت سیاسی پارٹیاں حکمران طبقے کی نمائندہ پارٹیاں ہیں اور ان کی سیاست عوام دشمن سیاست ہے۔ یہ تمام پارٹیاں تعلیم کے کاروبار کو جائز سمجھتی ہیں۔ ہر پارٹی کے دور میں فیسوں میں اضافے سمیت ہر طلبہ دشمن اقدام اٹھایا گیا اور آنے والے عرصے میں بھی آئی ایم ایف سمیت دیگر سامراجی مالیاتی اداروں اور سامراجی ممالک کی دلالی کرنے والی یہ تمام سیاسی پارٹیاں یہی کچھ کریں گی۔
کیسے لڑا جائے؟
یہ کوئی پہلا یا آخری واقعہ نہیں۔ پنجاب کالج کے سٹوڈنٹس کے احتجاج کے ساتھ ساتھ 14 اکتوبر کو لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی میں بھی احتجاج کیا گیا، جہاں پچھلے ہفتے ایک لڑکی کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔
اس ملک میں آئے روز سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، فیکٹریوں اور دیگر کام کی جگہوں پر ایسے بے شمار انسانیت سوز واقعات رونما ہوتے ہیں، لیکن ان میں مجرموں کو اکثر سزا نہیں ملتی۔ اس عوام دشمن ریاست کے تمام ادارے بشمول عدالتیں، پولیس، میڈیا اور حکمران سیاسی جماعتیں ہمیشہ مجرموں کا ساتھ دیتی ہیں اور مظلوم کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے یا پھر اسے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ ریاستی جبر کی ہر شہر میں ہزاروں مثالیں موجود ہیں اور ہر جگہ تھانے کچہری بااثر افراد کے مظالم کو قانونی شکل دینے کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔
ایسے میں اس واقعے کے درست حقائق تک پہنچنے کے لیے بھی منظم تحریک کی ضرورت ہے۔ طلبہ کو فوری طور پر اپنی ایک قیادت منتخب کرنی ہو گی اور منظم انداز میں احتجاجی تحریک کو آگے بڑھانا ہو گا تاکہ نہ صرف واقعے کی تہہ تک پہنچا جا سکے بلکہ مجرموں اور ان کی پشت پناہی کرنے والے افراد کو قرار واقعی سزا دی جا سکے خواہ وہ کتنے ہی زیادہ دولت مند کیوں نہ ہوں۔
اسی طرح تعلیمی اداروں کو ہراسمنٹ سمیت دیگر غلاظتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سٹوڈنٹس کو اپنی جمہوری طور پر منتخب اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینا ہوں گی۔ ہر کیمپس میں سٹوڈنٹ خود اپنا الیکشن کرائیں اور پھر اپنے نمائندے چن کر ایک اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی تشکیل دیں۔ اس کمیٹی میں ہر کلاس سے نمائندے (میل اور فی میل دونوں) موجود ہوں۔
اس طرح جب پورے کیمپس کے سٹوڈنٹس منظم ہوں گے تو پھر کوئی پرنسپل، ٹیچر، کلرک، سکیورٹی گارڈ یا سٹوڈنٹ ایسی گھناؤنی حرکت کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ کیونکہ اب ایک کال پر پورا کیمپس بند ہو جائے گا۔ یہ کمیٹی ایسے کسی بھی واقعے کی تفتیش سر عام کرایا کرے گی۔
اس واقعے سے ایک بار پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں موجود سکیورٹی کا کام صرف سٹوڈنٹس کو خوف میں رکھنا ہے۔ لہٰذا کیمپس کی سکیورٹی بھی اسی کمیٹی کے پاس ہونی چاہیے۔
یہ کمیٹی صرف کیمپس کے اندرونی معاملات پر ہی ایکشن نہیں لے گی بلکہ پھر اس بات پر بھی ریفرنڈم کرائے گی کہ فیسیں کتنی ہونی چاہئیں! فیسوں میں ہونے والا ایک روپے کا اضافہ بھی اس کمیٹی کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔
ویسے تو یہ کام طلبہ یونین کے ذریعے ہونے چاہیے تھے مگر اُس پر ضیاء الباطل کے دور سے ہی پابندی لگی ہوئی ہے اور آج بھی حکمران اس پابندی کو ختم کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں سٹوڈنٹس کی تحریک کا خوف ہے۔ لہٰذا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سٹوڈنٹس کو طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ تو ضرور کرنا چاہیے مگر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے کی بجائے آگے بڑھ کر خود اپنے الیکشن بھی کروانے چاہئیں۔
حال ہی میں ایسا ہی کام ”آزاد“ کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام نے بھی کیا ہے۔ ”آزاد“ کشمیر میں بجلی بلوں کے خلاف وہاں کی عوام نے ”عوامی ایکشن کمیٹی“ بنائی ہے۔ اس کمیٹی میں عوام کے چنے گئے نمائندے موجود ہیں۔ یہی کام گلگت بلتستان میں بھی ہوا ہے۔
حال ہی میں بنگلہ دیش اورسری لنکا میں بھی یہی کچھ ہوتا ہوا دیکھا گیا۔
انقلاب کے تین نشان۔۔۔ طلبہ، مزدور اور کسان
ویسے تو حالیہ احتجاج ریپ اور ہراسمنٹ کے خلاف ہو رہے ہیں مگر در حقیقت ان میں مہنگائی، بیروزگاری، فیسوں میں اضافے سمیت دیگر مسائل کا غصہ بھی موجود ہے۔ ان میں حکمرانوں اور امیروں سے نفرت بھی موجود ہے۔ ان میں مہنگے بجلی کے بلوں کے خلاف غصہ بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے ان احتجاجوں میں اس بار 16، 16 سال کے سٹوڈنٹس گالم گلوچ یا پھکڑ پن کی بجائے سنجیدہ نعرے بازی کر رہے ہیں۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان تمام تر احتجاجوں میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے اور ہم نے یہ واضح طور پر دیکھا کہ کالجوں کے یہ سٹوڈنٹس وہ بالکل نہیں تھے جیسے وہ عام حالات میں ہوتے ہیں۔ سٹوڈنٹس کی یہ سنجیدگی یہاں کے حکمرانوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ اب ایک بڑی بغاوت جنم لینے کو ہے۔
دوسری طرف پنجاب کے سرکاری سکولوں کو بیچا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف پورے پنجاب کے ٹیچرز، سٹوڈنٹس اور ان کے والدین سراپا احتجاج ہیں۔ اسی طرح ”آزاد“ کشمیر، گلگت بلتستان، بلوچستان، پشتون علاقوں اور سندھ میں بھی لوگ ریاستی جبر کے خلاف اور جمہوری مطالبات کے حصول کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ ملک کی مختلف فیکٹریوں اور سرکاری اداروں جیسے ریلوے، واپڈا، شعبہ صحت وغیرہ میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تنخواہیں کاٹی جا رہی ہیں، جس کے خلاف ان میں بھی شدید غم و غصہ ہے اور مستقبل میں یہ بھی احتجاج کریں گے، جبکہ کچھ اداروں کے ورکرز اس وقت بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ کالجوں کے سٹوڈنٹس کو ”ایک کا دکھ، سب کا دکھ!“ کی بنیاد پر ان سب کے ساتھ بھی رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
مہنگائی، بیروزگاری، ہراسمنٹ، فیسوں میں اضافے، بجلی بلوں میں اضافے وغیرہ کے ذمہ دار تمام سرمایہ داروں، جاگیرداروں، ججوں، بیوروکریٹوں، جرنیلوں، سیاست دانوں کے خلاف طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کو مل جدوجہد کرنا ہو گی۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی یہی پالیسی ہے کہ بحران کا بوجھ مزدوروں، کسانوں اور سٹوڈنٹس پر ڈال کر اپنی عیاشیاں جاری رکھی جائیں۔
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آج ہمیں ایک انقلابی پارٹی کی ضرورت ہے جو چہرے نہیں بلکہ نظام بدلنے کا منشور رکھتی ہو۔ اس وقت جاری تمام احتجاجی تحریکیں ایک دوسرے سے الگ ہیں، انہیں ایک پلیٹ فارم پر جوڑنے کا کام ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی ہی کر سکتی ہے جو ہر طرح کے رنگ، نسل، زبان، فرقے وغیرہ کی تقسیموں سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر محنت کش عوام کو منظم کرے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں جب تک دولت مٹھی بھر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے کنٹرول میں ہے اور سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے، تب تک سیاست پر بھی ان کا ہی کنٹرول رہے گا اور تعلیم جیسی بنیادی ضرورت پر کاروبار جاری رہے گا۔ حتیٰ کہ ہراسمنٹ جیسا گھناؤنا عمل بھی سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے ہی موجود ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام پدر سری کو قائم رہنے میں مدد کرتا ہے۔ پولیس، فوج، عدلیہ، میڈیا سب کچھ انہی کے کنٹرول میں ہے اور انہی کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ہے۔
لہٰذا ہمیں اس ملک میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، کورٹ کچہری، ڈی سی مجسٹریٹ، پٹواری پر مشتمل سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرنا ہو گا۔
سٹوڈنٹس کی یہ لڑائی اس انقلاب کی جانب محض ایک قدم ہے، مگر منزل ابھی باقی ہے۔