(تحریر: ثاقب اسماعیل)
اس وقت لاہور کی ایک کروڑ چالیس لاکھ کی آبادی کو شدید سموگ نے محصور کر کے رکھ دیا ہے۔ لاہور کا ائیر کوالٹی انڈیکس (AQI) دو ہزار کراس کر گیا۔ جبکہ50تک نارمل اور 51 سے 100 کے درمیان ائیر کوالٹی انڈیکس ماڈریٹ ہوتا ہے جو معمولی حد تک صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ 101 سے 150 کے درمیان بیمار اشخاص کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور 151 سے 200 کے درمیان صحت مند لوگوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے جبکہ 201 سے 250 تک تو خطرناک بن جاتا ہے۔ مگر لاہور میں تو ائیر کوالٹی انڈیکس دو ہزار کراس کر چکا ہے۔ آپ صورتحال کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔
یہ اب ہر سال ہو رہا ہے اور حکمران اس سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن اس سے بچاؤ کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے گئے۔ اس وقت لاہور کے رہنے والے خصوصاً بچے سموگ کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہے۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھویں کی وجہ سے مضر صحت پارٹیکلز فضا میں سارا سال ہی اکھٹے ہوتے رہتے ہیں مگر سردیوں میں چونکہ ٹھنڈک ہوتی ہے اس وجہ سے یہ پارٹیکلز سطح زمین پہ نمودار ہوتے ہیں۔
فیئر فنانس پاکستان کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 2021ء میں پاکستان میں فضائی آلودگی کے باعث پانچ سال سے کم عمر کے 68,100 بچے ہلاک ہو گئے۔ یونیسف کے اشتراک سے جاری کردہ تازہ ترین اسٹیٹ آف گلوبل ایئر 2024ء رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ”فضائی آلودگی پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔“ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بدترین ملک ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کی تمام تر ذمہ داری اس ملک کے حکمران طبقات اور سرمایہ د ارانہ نظام پر عائد ہوتی ہے۔ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی لوٹ مار اور بے ہنگم پھیلاؤ کے باعث گزشتہ دہائیوں میں لاکھوں کی تعداد میں درخت کاٹے گئے اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے زرخیز زمینوں کو امیر لوگوں کی سٹہ بازی اور رہائش کے لیے ان ہاؤسنگ سوسائیٹیوں نے ہڑپ کر لیں، جبکہ دوسری جانب محنت کش طبقے کے افراد کے لیے اپنا مکان تعمیر کرنا نا ممکن ہو چکا ہے۔
اسی طرح کوئلے سے بجلی بنانے کے نجی پلانٹ یا آئی پی پی لگائے گئے جبکہ یہ دنیا بھر میں بند کیے جا رہے ہیں۔ان صنعتوں میں روزانہ ہزاروں ٹن کوئلہ جلایا جاتا ہے۔ صرف ساہیوال میں موجودکوئلے کا پلانٹ 1320میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور سالانہ 45لاکھ ٹن سے زائد کوئلہ استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر صنعتوں کا فضلہ بھی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
لاہور کی فضا کو زہر آلود کرنے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سوئٹزر لینڈ میں چھٹیاں منانے چلی گئی جبکہ شہباز شریف ماحولیاتی آلودگی کیخلاف ہونے والے عالمی اجلاسوں میں منافقانہ تقریریں کر رہا ہے۔اس دوران صرف ایک مہینے میں پنجاب کے سموگ سے متاثرہ اضلاع میں 18لاکھ افراد نے ہسپتالوں میں سانس کی بیماریوں اور آنکھوں کی جلن کے امراض کے لیے رجوع کیا۔دوسری طرف ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائیٹیوں اور بحریہ ٹاؤن جیسی نجی سوسائیٹیوں کو روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں اور وہ قانون کی دھجیاں اڑاتے چلے جا رہے ہیں اور قابل کاشت رقبہ اپنے منافع کی ہوس کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔اب دریائے راوی کے کنارے ایک نیا شہر بنایا جا رہا ہے جس میں نہ صرف مقامی افراد سے زمین چھینی جائے گی بلکہ ماحولیاتی آلودگی بھی بڑھے گی جبکہ رئیل اسٹیٹ کے کاروباری اربوں روپے کے منافع نچوڑیں گے۔
اس سنگین صورتحال میں حکومت نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آلودگی کوئلے پر پکنے والے بار بی کیو اور چنگ چی رکشے کی وجہ سے ہے اس لیے ان پر پابندی لگا دی جائے۔اس سے مضحکہ خیز اقدام کیا ہو سکتاہے؟ حکومت بڑی بے شرمی سے اپنی نااہلی اور ناکامی کا سارا ملبہ عام عوام پر ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مسئلہ حل کرنے کی بجائے کبھی کسانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور کبھی دیگر عوامل کو۔
ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ درحقیقت ملک بھر سمیت پوری دنیا میں موجودہے۔ منافع کے حصول کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے منافع خور نظام کے تحت یہ بڑی بڑی صنعتیں پورے کرۂ ارض کو داؤ پہ لگا چکی ہیں اور زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے باعث یہ سیارہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اس ماحولیاتی تباہی کو تب ہی روکا جا سکتا ہے جب تمام صنعتوں کو اجتماعی ملکیت میں لیا جائے گا تا کہ منافعوں کی غرض سے نہیں بلکہ سماج کی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے انہیں استعمال میں لایا جائے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کے مسئلے کا حل بھی نجی ٹرانسپورٹ کا خاتمہ اور پبلک ٹرانسپورٹ کی فراہمی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ میں مفت اور معیاری سفر کی فراہمی سے سموگ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے موجودہ نظام میں یہ کبھی نہیں ہونے والاکیونکہ یہ اقدامات حکمرانوں کے منافعوں میں کمی لاتے ہیں۔ اس کے لیے موجودہ نظام کو جڑ سے ختم کرتے ہوئے سوشلزم کی طرف جانا ہو گا۔ جہاں تمام وسائل مٹھی بھر لوگوں کی ذاتی عیاشیوں کی بجائے تمام انسانوں کی فلاح کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔