رپورٹ: |ریڈ ورکرز فرنٹ|
سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں پیپسی کا پلانٹ واقع ہے جہاں 13سو محنت کش کام کر رہے ہیں۔ تمام تر محنت کشوں کو ٹھیکیداری کے تحت رکھا گیا ہے، کئی محنت کش 15سال سے اسی فیکٹری میں کام کر رہے۔ محنت کش سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی سے بھی محروم ہیں۔ آج سے تین چار سال پہلے اس فیکٹری میں تقریباً 2600محنت کش کام کرتے تھے اور روزانہ کی پیداوار تقریباً40ٹن تھی لیکن گزشتہ تین سالوں میں بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو برطرف کیا گیا اور اس وقت ورکرز کی تعداد 1300رہ گئی ہے جبکہ اس تعداد کے ساتھ فیکٹری کی روزانہ کی پیداوار بڑھا کر 150ٹن کر دی گئی ہے۔ یعنی تین مزدوروں کا کام ایک مزدور سے لیا جا رہا ہے۔
خانہ پری کے لئے ایک پاکٹ یونین بھی بنائی گئی تھی لیکن اس نے کبھی محنت کشوں کے مسائل کے لئے آواز نہیں اٹھائی الٹا محنت کشوں کو مزید تنگ کرتی رہتی تھی۔ اس تمام تر استحصال اور جبر کی وجہ سے محنت کشوں نے پاکستان فوڈ فیڈریشن کے ساتھ مل کر ایک نئی یونین کی تشکیل دی۔یاد رہے کہ پاکستان فوڈ فیڈریشن عالمی طور پر آئی یو ایف کے ساتھ منسلک ہے۔ اور اسی وجہ نئی یونین سی بی اے لیٹر لینے میں بھی کامیاب ہو گئی جس کے صدر مہتاب عباسی اور جنرل سیکرٹری محمد شہزاد ہیں۔ لیکن جیسے ہی یونین نے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا انتظامیہ نے اس کے خلاف تادیبی کاروائیوں کا آغاز کر دیا۔ یونین کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں محنت کشوں کی مستقلی، سوشل سیکیورٹی اور ای او بی آئی کا حصول، ڈیتھ گرانٹ اور میریج گرانٹ اور ٹرانسپورٹ کی سہولیات شامل تھیں۔ انتظامیہ نے ایسا کوئی چارٹر آف ڈیمانڈ ماننے سے انکار کر دیا۔ یونین کو پہلے ڈرایا دھمکایا گیا۔
اس مقصد کے لیے سب سے آگے فیکٹری کے HRمینیجر اور سیکیورٹی مینیجر تھے۔ پھر یونین کے دو سرگرم کارکنان مدثر محمود اور نوید اکرم کے گیٹ بند کر دیئے گئے۔انتظامیہ نے ساتھ ہی یونین کے خلاف سٹے آرڈر لے لیا۔ یونین نے لوکل کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے ان انتقامی کاروائیوں کے خلاف سٹے آرڈر لیا لیکن انتظامیہ اس سٹے آرڈر کو ماننے سے انکاری ہے۔ اور یونین کے افراد کو ڈرانے دھمکانے کا عمل جاری ہے اس عمل میں مقامی ایس ایچ او بھی انتظامیہ کا ساتھ دے رہا ہے اور انتظامیہ اور مالکان کے دباؤ کی وجہ سے لیبر ڈیپارٹمنٹ بھی مسئلے کو حل کروانے میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہا۔ یونین رہنماؤں نے پورے پاکستان کی ٹریڈ یونینز اور محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کی ہے۔