|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
12 مارچ 2021ء کو پنجاب بھر سے لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے لاہور پہنچیں۔ لاہور میں انہوں نے احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا جو آٹھ دن تک جاری رہا اور نوویں روز حکومت کے گھٹنے ٹیکنے اور مطالبات مان لینے کی صورت میں ختم ہوا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے بنیادی مطالبات میں سکیل اپ گریڈیشن،سروس سٹرکچر، مستقلی اور ریٹائر منٹ پر پنشن کی ادائیگی شامل ہیں۔ ان مطالبات کی منظوری کے لیے وہ کئی بار دھرنے دے چکی ہیں اور پچھلے کئی سالوں سے سراپا احتجاج ہیں۔ بالخصوص اکتوبر 2020ء میں اسلام آباد میں ہونے والے عظیم الشان احتجاجوں سے لے کر 10 فروری 2021ء کو اسلام آباد میں ہونے والے سرکاری ملازمین کے دھرنے میں بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز شامل تھیں۔ ان تمام احتجاجوں کے باوجود حکومت کی جانب سے ان کے مطالبات پر بالکل کان نہیں دھرے گئے، الٹا کئی مواقعوں پر شدید ریاستی جبر کیا گیا۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز بے سر و سامان پہلے چند دن چیئرنگ کراس پر دھرنے میں بیٹھی رہیں مگر حکومت کی طرف سے کوئی شنوائی نہ ہوئی جس کے بعد انہوں نے سول سیکرٹریٹ کا رخ کیا اور سول سیکرٹریٹ کے مین گیٹ کے سامنے احتجاجی دھرنے پر بیٹھ گئیں۔
حالیہ احتجاجی دھرنے میں بھی حکومت کا بے حس اور مزدور دشمن رویہ ویسے ہی جاری رہا جس کے خلاف مظاہرین میں شدید غم و غصے نے جنم لیا۔ اتنے دن سڑکوں پر بے سروسامان 300 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز بیٹھی رہیں اور بالآخر مجبور ہو کر ان کی قائد رخسانہ انور نے سول سیکرٹریٹ کے اندر گھسنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد بوکھلا کر ایک پولیس افسر مذاکرات کیلئے پہنچا اور پہنچتے ہی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی قیادت کو دھمکیاں دینے لگا اور انتہائی غلیظ زبان کا استعمال کرنے لگا۔ اسی دوران خوف زدہ کرنے کیلئے پولیس کی بھاری نفری کو بلا لیا گیا۔ مگر پولیس کی اس بھونڈی چال نے الٹا مظاہرین کے غصے کو اور بڑھا دیا اور مسلح پولیس کے سامنے لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ایک دیوار بنا لی اور پولیس کو للکارنے لگیں اور ان کی غلاظت پر انہیں شرمسار کرنے لگیں۔ یہ دیکھ کر پولیس افسر دم دبا کر بھاگ گیا۔ اسی دوران مظاہرین نے صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کا علامتی جنازہ بھی نکالا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ وزیر زندہ لاش ہے جس کو اس عہدے پہ بیٹھنے کا کوئی حق نہیں ہے اور ہم اسے وزیر نہیں مانتے۔
آٹھ دن تک بے سروسامان دھرنے پر بیٹھے رہنے، حکومتی بے حسی اور پولیس کی غنڈہ گردی کا سامنا کرنے کے بعد بالآخر لیڈی ہیلتھ ورکرز کی قیادت کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو پولیو سمیت تمام نیشنل ہیلتھ پروگرام مہمات کا بائیکاٹ اور ہر ضلع میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی۔ اس کے علاوہ قیادت کی طرف سے بھوک ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا۔ اس سے خوف زدہ ہو کر بالآخر حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور ان کے مطالبات مان لیے گئے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی قیادت کے حکومتی نمائندگان کے ساتھ مزاکرات کے بعد حکومت کی طرف سے فوری طور پر ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی جو ان مطالبات پر عمل درآمد کرائے گی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ، لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اس شاندار فتح پر مبارک باد پیش کرتا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جرات اور ثابت قدمی لائقِ تحسین ہے کہ وہ آٹھ دن انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹی رہیں اور بالآخر کامیاب ہوئیں۔ دیگر ٹریڈ یونینز کے قائدین بھی وقتاٌ فوقتاٌ دھرنے میں اظہارِ یکجہتی کے لیے آتے رہے۔ آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کے مرکزی قائد رحمان باجوہ بھی دھرنے میں اظہار ِ یکجہتی کے لیے پہنچے اور لیڈی ہیلتھ ورکرز کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ بلاشبہ ایک خوش آئند امر ہے اور اس مزدور اتحاد کو مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جدوجہد محنت کش طبقے کے لیے ایک مثال ہے کہ ثابت قدمی اور ہمت سے اپنے مطالبات تسلیم کروائے جا سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس مزدور دشمن ریاست کی منافقت اور عوام دشمنی کو نہیں بھولنا چاہئیے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد حکومت دباؤ میں آ کر یہ فیصلہ لینے پر مجبور ہوئی ہے۔ مستقل میں دوبارہ مزدور دشمن اقدام کیے جائیں گے جن کے خلاف لڑنے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہو گا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ شروع دن سے ہی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی جدوجہد میں شامل رہا ہے اور مستقبل میں بھی ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔ پچھلے کچھ عرصے میں محنت کشوں کے ملک گیر اتحاد تشکیل پائے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انتہائی خوش آئند امر ہے مگر ہمیں اس عمل میں تیزی اور وسعت لانی ہوگی اور ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہوگا جو پاکستان کے محنت کش طبقے کی قوت کا حقیقی اظہار ہوگا اور پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں انتہائی اہمیت کا حامل قدم ہوگا۔