|تحریر: ڈیلن کوپ، ترجمہ: ولید خان|
اس وقت پوری دنیا میں صنعتوں کو مزدوروں کی شدید قلت کا سامنا ہے جس سے پیداوار منجمد ہو گئی ہے اور سپلائی چینز برباد ہو رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ منڈی کا مطلب انتشار اور بحران ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مزدوروں کی قلت کا مسئلہ پوری دنیا اور معیشت کی وسیع پرتوں میں پھیل رہا ہے۔ یہ عمل آج سرمایہ داری کے عمیق بحران کا ایک اظہار ہے۔
سرمایہ دار طبقہ پہلے ہی گھمبیر مسائل کا شکار ہے اور اب اسے مزدوروں کی قلت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔۔یعنی سطحی طور پر ایسا لگنے لگا ہے کہ نوکریاں بہت زیادہ اور محنت کش بہت کم ہیں۔
درحقیقت کچھ صنعتوں میں یہ قلت تباہ کن صورتحال اختیار کر رہی ہے اور سپلائی چینز کی بربادی میں ایک کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔
سرمایہ داروں کا موقف ہے کہ اس کی وجہ وبائی تباہ کاری ہے۔ اس وباء نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس کے نتیجے میں تاحال بحالی نہیں ہو سکی اور شائد ”معمول“ اب دوبارہ کبھی ممکن نہ ہو۔
لیکن حقیقی مسئلہ بذات خود سرمایہ دارانہ نظام ہے۔۔ایک بحران زدہ پر انتشار نظام جو سماج کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
ڈرائیورز اور سامان برداری
حالیہ دنوں میں اس مسئلے کا سب سے شدید اظہار برطانیہ میں ہیوی گڈز وہیکلز (HGV) ڈرائیورز کی قلت میں ہوا ہے۔ کورونا وباء سے پہلے برطانیہ میں ڈروائیورز کی کل تعداد 6 لاکھ تھی اور اس وقت پورے ملک میں 1 لاکھ ڈرائیورز کی کمی ہے۔
اس قلت میں ایک کردار بریگزٹ کا ہے۔ ان 6 لاکھ ڈرائیورز میں سے لاکھوں کا تعلق یورپی یونین سے تھا۔ بریگزٹ کے بعد نقل و حمل پر نئی پابندیوں سے برطانیہ اور یورپ کے درمیان رہائش، کام اور سفر کی انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ ان وجوہات سے یورپی تارکین وطن کی مستقل سپلائی میں شدید گراوٹ آئی ہے جس پر کئی برطانوی کاروباروں کا انحصار تھا۔
ڈرائیوروں کی موجودہ قلت میں ایک کردار HGV ڈرائیور ٹیسٹوں میں آنے والی شدید کمی نے بھی ادا کیا کیونکہ وباء کے دوران 28 ہزار ٹیسٹ منسوخ ہو گئے تھے۔ ایک HGV لائسنس کے لئے تقریباً ایک سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے اس لئے مستقبل قریب میں اس مسئلے کا فوری حل تو ناممکن ہی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ ہولناک کردار پچھلے کئی سالوں میں مال برداری سیکٹر کی تباہی و بربادی نے ادا کیا ہے۔ حالاتِ کام اور اجرتیں برباد، اوقاتِ کام طویل تر، حاجت کے لئے وقت ناپید اور ڈیپوز پر انتہائی غلیظ رویہ معمول بن چکے ہیں۔
یہ حالات پہلے ہی نئے ڈرائیورز کی بھرتی میں رکاوٹ تھے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈرائیورز کی بھاری اکثریت اُدھیڑ عمر ہو رہی ہے جبکہ آدھے ڈرائیورز کی عمر 45 سال سے زیادہ ہے۔
کئی مہینوں روڈ ہالیج ایسو سی ایشن، لاجسٹک کمپنیوں اور سپر مارکیٹوں کی منت سماجت کے بعد اب ٹوری حکومت نے 5 ہزار قلیل مدتی ویزے دیئے ہیں جن کی معیاد اگلے سال فروری تک ہے۔
لیکن یہ قدم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ درحقیقت اس وقت شدید قلت نے حکومت کو مجبور کر دیا ہے کہ فوج کے ذریعے پیٹرول لاریاں چلا کر قلت کو قابو کرنے کی کوشش کی جائے۔
حالیہ پیٹرول بحران میں پیٹرول پمپوں پر میلوں لمبی قطاروں کے ساتھ پیٹرول ملنے کی امید پر ٹینکروں کا تعاقب کرتی گاڑیوں کے کارواں بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنے رہے۔
اشیاء خوردونوش اور گوشت
محنت کشوں کی قلت صرف مال برداری سیکٹر میں ہی نہیں ہے اگرچہ اس سیکٹر کے مسائل کئی کاروباری مسائل کی عکاسی کر رہے ہیں۔
اشیاء خوردونوش کی صنعت کو بھی محنت کشوں کی قلت کا سامنا ہے۔ کسانوں کو سبزیاں چننے کے لئے مزدور نہیں مل رہے جس سے کھیت برباد ہو رہے ہیں۔ اس وقت 1 لاکھ سوؤروں کی بہتات ہے کیونکہ ہنر مند قصائیوں کی قلت موجود ہے جس نے مالکان کو کئی جانور قبل از وقت ذبح کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
حتیٰ کہ وائٹ کالر نوکریوں پر بھی اثرات پڑ رہے ہیں جن میں قلت کا شکار اکاؤنٹینسی، قانون اور کنسلٹنسی کمپنیاں سرِ فہرست ہیں۔ اب ہر قسم کے محنت کشوں کی قلت میں نئے مزدوروں کو ریکروٹ کرنے والوں کی بھی قلت ہو چکی ہے!
عالمی مسئلہ
لیکن محنت کشوں کی شدید قلت کے اثرات صرف برطانیہ پر ہی مرتب نہیں ہو رہے۔ یہ ایک عالمی رجحان ہے جو یکے بعد دیگرے کئی ممالک پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ اس لئے صرف بریگزٹ کا مسئلہ اس عمل کی پوری وضاحت کرنے میں ناکام ہے۔
امریکی معیشت کی وسیع پرتوں میں قلت کے مسائل ہیں جن میں مینوفیکچرنگ اور ریٹیل سرِ فہرست ہیں۔ کپڑے کے کاروبار سے منسلک ایک کمپنی کے مالک نے تو یہاں تک کہا کہ ”ریٹیل کاروبار کے 30 سالوں میں، میں نے آج تک ایسا مظہر نہیں دیکھا“۔
کینیڈا میں کنسلٹنسی کمپنی ڈی لوئٹ کے مطابق 30 فیصد سے زائد صنعتوں کو محنت کشوں کی قلت کا سامنا ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ مینوفیکچرنگ اور تعمیرات ہیں۔ یورپی یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق تعمیرات، انجنیئرنگ، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ اور شعبہ صحت میں قلت کا سامنا ہے۔
ملکی معیشت کے دیگر شعبوں کی طرح کامیاب آسٹریلین کان کنی صنعت کو ہنر مند محنت کشوں کی قلت کا سامنا ہے۔
62 فیصد چیک ریپبلک کاروباروں کا کہنا ہے کہ انہیں قلت کا سامنا ہے۔ سنگاپور میں خاص طور پر ریستورنٹ سیکٹر بہت زیادہ متاثر زدہ ہے۔
کھوکھلے الفاظ
یکے بعد دیگرے ممالک کو محنت کشوں کی قلت کا سامنا ہے۔ لیکن سرمایہ دار اور ان کا زر خرید میڈیا عمومی طور پر اس مسئلے کو الگ تھلگ پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو مخصوص ممالک میں مخصوص صنعتوں میں رونما ہو رہا ہے۔
لیکن یہ واضح ہے کہ یہ ایک عمومی عالمی رجحان ہے اور اب اس کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی سرمایہ داروں کے ملازم سیاست دان اس مسئلے سے ہر ممکن جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پرحالیہ کنزرویٹو پارٹی کانفرنس میں ایک تند و تیز تقریر میں بورس جانسن نے کاروباروں کو اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے اجرتوں میں اضافہ کرنے کا کہا۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ ”اب ملک اس سمت جا رہا ہے۔ زیادہ اجرت، زیادہ ہنر، زیادہ پیداوار اور ہاں، اسی لئے کم ٹیکس والی معیشت“۔
اسی طرح جب صدر جو بائیڈن سے محنت کشوں کی قلت کا سوال کیا گیا تو اس کا جواب تھا کہ ”انہیں (محنت کشوں) زیادہ اجرت دو“۔
یہ کھوکھلی باتیں ہیں۔ جس سرمایہ دارانہ نظام کے یہ دو حضرات ترجمان ہیں وہ بذاتِ خود اس مسئلے کی جڑ ہے۔
سرمایہ دارانہ بحران
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس مسئلے کو گھمبیر کرنے والے بریگزٹ جیسے عوامل موجود نہیں ہیں۔ لیکن ان کا کردار زیرِ سطح مسئلے کے لئے عمل انگیزبننا ہے یعنی ایک طویل عرصے میں سرمایہ داری کا گلنا سڑنا اور انحطاط پذیری۔
دہائیوں سے سرمایہ دار صنعتوں اور انفراسٹرکچر، تعلیم و تربیت یا زیادہ بہتر اجرتیں دے کر محنت کشوں کو اہم صنعتوں کی جانب راغب کرنے کے لئے سرمایہ کاری نہیں کر رہے۔ اس کے برعکس وہ مسلسل اجرتوں اور معیار زندگی پر حملے کر رہے ہیں تاکہ فوری طور پر اپنے منافعوں میں دیو ہیکل اضافہ جاری رکھا جا سکے۔
کئی سیکٹرز میں مالکان نے سستی، استحصال زدہ، تارکینِ وطن محنت پر انحصار کیا ہے تاکہ نوکریاں دیتے ہوئے اجرتوں اور معیارِ زندگی کو کم سے کم کرکے دیو ہیکل منافع لوٹا جا سکے۔ لیکن عالمی طور پر وباء (اور بریگزٹ) کے زیرِ اثر آزادانہ نقل و حمل نے اس سپلائی کو کاٹ کر رکھ دیا ہے جس نے نظام کو شدید بحران سے دوچار کر دیا ہے۔
جب معیشتیں دوبارہ معمول پر آئیں اور مانگ میں تیز تر اضافہ ہوا تو کئی کمپنیوں کی کوئی تیاری ہی موجود نہیں تھی۔ وہ ڈوب گئیں یا پھر انہیں اندازہ ہوا کہ ان کے پاس کام کی شدت سے شل اور برباد محنت کش رہ گئے ہیں جن میں سے کئی نے نوکریاں ترک کر دیں یا پھر تبدیل کر لیں۔
موجودہ بحران میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کمپنیاں مجبور ہو رہی ہیں کہ وہ شدت اختیار کرتی محنت کشوں کی قلت میں زیادہ اجرتیں دیں تاکہ نوکریاں بحال کی جا سکیں۔
مثال کے طور پرامریکی بیورو برائے شماریات کے مطابق ملک میں ستمبر کے مہینے میں تمام نجی سیکٹروں میں محنت کشوں کی اجرتیں 30.85 ڈالر فی گھنٹہ کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئیں۔ اسی طرح برطانیہ میں HGV ڈرائیورز کو 60 ہزار پاؤنڈ یا اس سے زیادہ آفر کئے جا رہے ہیں۔ کام پر لگنے کا بونس علیحدہ ہے۔
مالکان کو امید ہے جو بھی اضافی اخراجات ہو رہے ہیں انہیں صارفین پر ڈال دیا جائے گا۔ اس وجہ سے ”سٹیگ فلیشن“ کا خوف دوبارہ سے سر اٹھا رہا ہے۔۔بے قابو افراطِ زر اور منجمد معاشی پیداوار۔
بہرحال مالکان کے ردِ عمل میں اب تاخیر ہو چکی ہے۔ سرمایہ داری میں ہر پیداوار کے لئے درکار خام مال کی محدود سپلائی کو مختصر ترین وقت میں استعمال کر نے کا اصول اب پہاڑ بن کر ٹوٹ رہا ہے۔ اس وقت پوری عالمی معیشت کو انتشار نے گھیرا ہوا ہے اور فوری طور پر اس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔
”عظیم تشخیصِ نو“
ان تمام عوامل کو اب محنت کشوں کے رویے نے اور بھی زیادہ گھمبیر بنا دیا ہے جو اپنا کیریئر تبدیل کررہے ہیں یا غیر تسلی بخش نوکریاں اور شدید ذہنی تناؤ والی صنعتیں چھوڑ رہے ہیں۔
کورونا وباء کے اچانک وقوع پزیر ہونے والے حادثے اور ملکی سطح پر لگنے والے لاک ڈاونز نے واضح طور پر محنت کشوں کی اکثریت کے شعور کو جھنجھوڑا ہے۔ ان کی روزمرہ زندگی میں انتشار نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی نوکریوں، اپنی جگہ اور اپنی زندگیوں سے مایوس ہیں۔
ان حالات میں نام نہاد ”عظیم تشخیصِ نو“ کی بات کی جا رہی ہے جس کے مطابق محنت کش بہتر نوکریوں یا بہتر اجرت کے لئے صنعتیں تبدیل کر رہے ہیں۔
پانچ ممالک اور صنعتوں کی وسیع پرتوں پر مشتمل دیو ہیکل کنسلٹنسی میک کنزے کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 40 فیصد محنت کشوں کا کہنا ہے کہ غالب امکانات ہیں کہ وہ اگلے تین سے چھ ماہ میں اپنی نوکریاں چھوڑ دیں گے۔
اسی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اپریل سے اب تک ڈیڑھ کروڑ محنت کش نوکریاں چھوڑ چکے ہیں۔ برطانیہ اور آئرلینڈ میں محنت کشوں پر کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ رائے شماری میں شامل 38 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ اگلے چھ سے بارہ مہینوں میں اپنی نوکری چھوڑ رہے ہیں۔
درحقیقت وباء کے دوران برطانیہ اور امریکہ میں ریاست کی جانب سے گھر بیٹھے کئی محنت کشوں کو دیئے گئے پیسے عام حالات میں ملنے والی اجرتوں سے زیادہ تھے۔ ایسے حالات میں آپ کیوں کم تر اجرت میں زیادہ سے زیادہ کام کرنے کے لئے واپس نوکری پر جائیں گے؟
اس عظیم تشخیصِ نو اور صنعتوں کے درمیان محنت کشوں کی تبدیلی کی ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ وباء نے واضح کر دیا ہے کہ حقیقی طور پر سماج کو کون چلاتا ہے۔
”اہم“ یا ”کلیدی“ قرار دیے جانے، اور صف اول میں وباء کے خلاف جدوجہد کرنے اور کلیدی سروسز بحال رکھنے پر عوامی پذیرائی کے نتیجے میں محنت کشوں پر واضح ہو چکا ہے کہ حتمی طور پر انہیں مالکان کی اتنی ضرورت نہیں جتنی مالکان کو ان کی ضرورت ہے۔
4.3 million Americans quit their jobs in August — a record high.
— Heather Long (@byHeatherLong) October 12, 2021
892,000 quits in food & accommodation
721,000 quits in Retail
534,000 quits in health/social assistance
**These were all record highs**
Check out health care pic.twitter.com/Hux3c32fvc
منافع نہیں منصوبہ بندی
یہ تمام صورتحال سرمایہ داری کی عمومی بیماری کا واضح اظہار ہے۔۔ایک ایسا نظام جس کی بنیادیں اتنی کمزور ہیں کہ صرف چند تھپیڑے اسے پرانتشار بنا کر منہدم کر دیتے ہیں، ایک ایسا نظام جس میں حیران کن تضاد محنت کشوں کی قلت اور بلند ترین شرح بے روزگاری کے درمیان ہے۔
محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے تحت چلنے والی ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں ایسے بحرانوں اور تضادات پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی اور آٹومیشن میں سرمایہ کاری کر کے تمام افراد کے لئے ایک دن میں کام کے اوقات کار میں نمایاں کمی کی جا سکتی ہے۔ بقایا کام کو اجرتوں میں کمی کئے بغیر بقیہ افراد میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
ساری عمر ٹریننگ اور تعلیم معمول بن جائیں گے جس کے نتیجے میں نام نہاد ”منصوبہ بند تباہی و بربادی“ (خود منصوبہ بندی کے ذریعے صنعتوں اور لیبر کو برباد کیا جاتا ہے تاکہ صنعت کاری اور سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا ہوں) میں محنت کشوں کو جھونکنے کی بجائے معدوم صنعتوں کو بند کر دیا جائے گا اور محنت کش نئے کام اور نئے کرداروں میں ڈھل جائیں گے۔
کیریئرز کی تبدیلی سے کوئی دباؤ یا غیر یقینی صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔ کام کی جگہوں اور پوری معیشت پر قابض محنت کشوں کو ایک حقیقی زندہ رہنے والی اجرت دی جائے گی اور انہیں اپنے کام میں حقیقی عزت اور وقار محسوس ہو گا۔
لیکن ایسا سماج خود سے وجود میں نہیں آ سکتا اور نہ ہی یہ ایک گلی سڑی سرمایہ داری سے ارتقاء پذیر ہو گا۔ اس کے لئے ایک شعوری جدوجہد کرنا ہو گی۔
سماج کی صرف ایک انقلابی سوشلسٹ تبدیلی کے ذریعے ہی سرمایہ داری کے انتشار اور تباہی و بربادی کو ہمیشہ کے لئے ختم کیا جا سکتا ہے۔