|تحریر: زلمی پاسون|
21نومبر کو خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ کے ایک واقعے میں موقع پر خواتین سمیت 44 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی مسافر گاڑیوں کے ایک قافلے پر مندوری کے مقام پر اچانک نامعلوم سمت سے فائرنگ کر دی گئی۔ یاد رہے کہ یہ قافلہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں سفر کر رہا تھا۔ اب تک کی مختلف اطلاعات میں 130 سے اوپر لوگ ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ 200 کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
28نومبر کو کرم میں مخالف گروہوں کے درمیان 10 دنوں کے لیے سیز فائر ہوا، مگر وہ بدستور ناکامی کا شکار رہا، مگر تا دمِ تحریر حالات میں اب تک کچھ بہتری آئی ہے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ زمینی تنازعے کے سلسلے میں رونما ہوا جو کہ کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ رواں سال میں جولائی کے مہینے میں 50 افراد اسی تنازعے کی بھینٹ چڑھ گئے، جبکہ اس کے بعد 12 اکتوبر تک، تشدد کی ایک اور لہر پھوٹ پڑی، جب ایک گاڑی پر حملہ ہوا جس میں 16 افراد جان سے گئے۔ جس کے بعد پارا چنار پشاور روڈ ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے کرم کے تقریباً 8 لاکھ باشندے تین ہفتوں سے زائد عرصے تک بنیادی ضروریات سے محروم رہے۔
تقریباً ایک صدی تک، کرم میں سنی اور شیعہ کمیونٹیاں ہم آہنگی کے ساتھ رہتی آ رہی ہیں، اگرچہ زمین، جنگلات، آبی وسائل اور مذہبی تقریبات پر کبھی کبھار تنازعات ہوتے رہے۔ تاہم، مقامی بزرگوں اور ماہرین کے مطابق، اس ہم آہنگی کی نوعیت میں 1979ء میں گہری تبدیلی آنا شروع ہوئی، جو کہ علاقائی اور عالمی جغرافیائی سیاست کا ایک اہم سال تھا۔ جہاں ایک طرف افغانستان میں ثور انقلاب کے بعد افغانستان سے ملحقہ پشتون علاقوں بالخصوص فاٹا اور پھر کرم میں ”نام نہاد مجاہدین“ کے کیمپس کی موجودگی سے حالات یکسر تبدیل ہونے لگے، ساتھ ہی ساتھ 1979ء ہی میں ایران میں رد انقلاب کے بعد ملا اشرافیہ کی آمد نے تیل پر چنگاری کا کام کیا۔
حالیہ تنازعات کی بنیاد، بوشہرہ، جو اپر کرم کا ایک گاؤں ہے جہاں شیعہ اور سنی کمیونٹیاں قریب قریب رہتی ہیں، اور یہ گاؤں 2023ء سے شدت اختیار کرنے والے ایک زمین کے تنازعے کا مرکز بن چکا ہے۔ یہ دہائیوں پرانا تنازعہ 100 کنال 50586[ مربع میٹر] زمین کے ایک پلاٹ کے گرد گھومتا ہے اور اس کے نتیجے میں بارہا جھڑپیں، مسلح تصادم اور متعدد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ قبائلی جرگوں ]روایتی کونسلوں [ کے ذریعے مسئلے کے حل کی کوششوں کے باوجود، تنازعہ ابھی تک حل طلب ہے۔
ماہرین اور مقامی بزرگ تنازعات کے پیچھے خاص طور پر اس خطے میں زمین کی ملکیت کی پیچیدگیوں کے بارے میں گہرے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ 2021ء میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے کرم میں زمین کے تنازعات کی شدت اور ان میں ہونے والے تشدد میں اضافہ ہوا ہے، جسے پسپائی اختیار کرنے والی امریکی افواج کے شرمناک انخلا کے بعد چھوڑے ہوئے جدید امریکی ہتھیاروں کی آمد نے مزید ہوا دی ہے اور اموات کی شرح میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا ہے۔
ضلع کرم کی تاریخی اہمیت
پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ کرم کا رقبہ 3380 مربع کلو میٹر ہے اور 2023ء کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 785434 ہے۔ انتظامی طور پر کرم تین حصوں میں تقسیم ہے؛ بالائی کرم، وسطی کرم اور زیریں کرم۔ بالائی کرم سب سے زیادہ آبادی والا حصہ ہے، جہاں کے بڑے قبائل میں طوری اور بنگش شامل ہیں، جبکہ کچھ چھوٹے قبائل جیسے منگل، مقبل اور خلجی بھی یہاں آباد ہیں۔
طوری واحد پشتون قبیلہ ہے جو 100 فیصد شیعہ ہے، جبکہ بنگش قبیلے کے آدھے افراد سنی اور آدھے شیعہ ہیں۔ بالائی کرم میں تقریباً 80 فیصد آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ بالائی کرم کا مشہور مقام پارا چنار ہے۔ وسطی کرم میں زیادہ تر آبادی چمکنی، اوتھیزئی، علی شیرزئی، ماسوزئی، مقبل، خونی خیل اور زئیکمت خیل قبائل پر مشتمل ہے۔ وسطی کرم میں تقریباً 95 فیصد آبادی سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے۔ زیریں کرم میں نسبتاً کم تعداد میں طوری، سنی بنگش اور زئیکمت قبائل آباد ہیں۔
زیریں کرم کی تقریباً 80 فیصد آبادی سنی مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور اس علاقے کا مشہور مقام صدہ ہے۔ برطانوی حکومت نے 1892ء یا 1893ء میں کرم کے علاقے کا انتظام سنبھال لیا اور وہاں کرم ملیشیا قائم کی۔ کرم ایجنسی 1892ء میں قائم ہوئی اور 2018ء تک یہ قبائلی علاقہ جات (FATA) کا حصہ رہی۔ 2018ء میں کرم ایجنسی کو خیبر پختونخوا میں ضم کر کے ضلع کا درجہ دیا گیا اور برطانوی دور کے قوانین (FCR) کو ختم کر کے پاکستانی آئین کے مطابق انتظامی نظام نافذ کیا گیا۔
پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیروٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔ کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے لیکن یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو کہ اب شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان پاکستان کا گڑھ ہیں۔
کرم میں فسادات کی بنیاد کیا ہے؟
معلوم تاریخ میں کرم میں قبائل کی آپسی لڑائیوں کی ایک لمبی داستان ہے، جس کو یہاں پر تحریر میں نہیں لایا جا سکتا مگر جو لڑائیاں ہوئیں، ان تمام تر لڑائیوں کی وجہ زمینی تنازعات ہی رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً وہ حل ہوتے رہے۔ مگر ان زمینی تنازعات کو فرقہ ورانہ رنگ دینے میں حکمرانوں کا ہاتھ رہا ہے، جنہوں نے کرم کی جغرافیائی اہمیت کی خاطر وہاں پر آباد لوگوں کو خون میں ڈبو دیا۔ غیر منقسم ہندوستان میں انگریز دورِ حکومت کے دوران 1893ء کے سامراجی لکیر کھینچنے کے بعد کرم کو فرنگی سامراج کی نگرانی میں اس قبائلی علاقے کو باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا اور اس کے بعد یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی۔
مختلف رپورٹس کے مطابق کرم میں فسادات کی بنیادی وجہ زمین کی غیر منصفانہ تقسیم ہے انگریز نے اپنی پالیسی ’لڑواؤ اور حکومت کرو‘ کی بنیاد پر غیر منصفانہ تقسیم کی تھی۔ جس کی وجہ سے یہی زمینیں جن کی ملکیت پر آج اختلافات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ہر چند ماہ بعد درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرم کے زیادہ تر علاقوں میں لینڈ ریکارڈ آج تک موجود ہی نہیں ہے۔ لینڈ ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ضلع میں مختلف مقامات پر مختلف قبائل اور افراد زمین کے ٹکڑوں کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔
خیال رہے کہ پاڑا چنار کی زمین کا شمار قبائلی علاقوں کی زرخیز ترین زمینوں میں ہوتا ہے۔ سرسبز و شاداب اور پانی کے وافر ذخائر ہونے کے باعث یہاں کی فصلیں اور باغات مشہور ہیں، جن میں چاول، سبزیاں اور میوہ جات کو خصوصی شہرت حاصل ہے۔ آج یہاں زمین کا تنازعہ کم از کم پانچ مختلف مقامات پر موجود 10 یا اس سے زائد دیہاتوں اور قبائل کے درمیان ہے جن میں زمین کے ساتھ ساتھ مسلک کی تقسیم بھی موجود ہے یعنی متنازع زمینوں پر اہل تشیع اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا دعوی ہے۔ (پیواڑ اور گیدو، تری منگل، بوشہرہ، ملی خیل تنازع، مقبل، کنج علیزئی تنازع، بالیش خیل، پاڑہ چمکنی تنازع، قوم بنگش، حمزہ خیل تنازع) ان تمام تنازعوں میں ہزاروں ایکڑ زمین شامل ہے، جس پر ہونے والی لڑائی فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔
کرم میں فسادات کی تاریخ
جس طرح پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ کرم میں تمام تر فسادات اور لڑائیوں کی وجہ زمینوں کی عدم تقسیم تھی جہاں پر دو مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ زمینی تنازعات کو فرقہ وارانہ فسادات کا رنگ دیتے تھے۔ جس کی وجہ سے کرم میں پہلی لڑائی 1961ء میں ہوئی، دوسرا بڑا فرقہ وارانہ واقعہ 1966ء میں صدہ میں ایک ماتمی جلوس کے دوران ہوا۔ 1971ء میں جامع مسجد پاڑا چنار کے مینار کی تعمیر تیسرے بڑے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ بنی، جبکہ 1977ء میں جامع مسجد پاڑا چنار کے مؤذن پر قاتلانہ حملے کے بعد فسادات پھوٹ پڑے۔ پانچواں بڑا واقعہ 1982ء میں صدہ میں ہوا۔ 14 سال بعد 1996ء میں توہین مذہب کے الزامات کے بعد لڑائی شروع ہوئی اور پھر پاڑہ چنار ہائی سکول میں سنی طالب علموں کے قتل کے بعد بڑے پیمانے پر فسادات کا آغاز ہوا۔ مگر ان تمام تر فسادات کا مختصر وقت میں تصفیہ کیا جاتا تھا اور یوں بغیر کسی طویل مدت کے وقفے کے حالات جلد معمول پر آ جاتے تھے۔ مگر اس کے بعد 2007ء، 2010ء، 2017ء، 2021ء، 2023ء میں اسی طرح کے خونریز واقعات رونما ہوئے ہیں، جو کہ تا حال جاری ہیں۔
2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان سمیت دیگر دہشتگرد تنظیموں سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے یہاں فرقہ واریت کی ایک نئی لہر کی بنیاد رکھی، جو اب تک ہونے والے تمام فسادات سے زیادہ طویل اور خونریز ثابت ہوئی۔ 2007ء میں ضلع کرم میں ملکی تاریخ کے شدید فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جس میں پہلی مرتبہ فریقین نے ایک دوسرے کے دیہات پر حملے کر کے سینکڑوں مکانات نذرِ آتش کیے جبکہ شیعہ، سنی آبادی کو اپنے ہی علاقوں سے بے دخل کیا گیا۔ اپریل 2007ء میں ربیع الاوّل کے جلوس پر پتھراؤ کا واقعہ فسادات کا باعث بنا اور پھر نومبر 2007ء میں ایک مبینہ قتل کے الزام کے نتیجے میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔
یہ فسادات اس قدر شدید تھے کہ ایک امتحانی ہال میں ڈیوٹی پر موجود اساتذہ کو قتل کرکے ان کی لاشوں کو جلایا گیا، جبکہ مسافر گاڑیاں روک کر سواریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف چار سالوں میں یہاں 2000 سے 3500 افراد ان فسادات میں ہلاک ہوئے، قبائلی عمائدین کے مطابق یہ تعداد کہیں زیادہ تھی۔ ان فسادات میں پانچ ہزار سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ ان فسادات کے باعث علاقے کی مرکزی ٹل پاڑا چنار شاہراہ تقریباً چار سال تک عام ٹریفک کے لیے بند رہی اور سیکیورٹی فورسز کی نگرانی میں جانے والے قافلے بھی شدت پسند حملوں سے محفوظ نہ رہے۔
پھر پشاور سے خصوصی پروازوں کا آغاز کیا گیا جبکہ بیشتر آبادی افغانستان کے پکتیا، گردیز، کابل، طورخم روڈ کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئی، لیکن افغانستان میں بھی ان پر حملوں کے باعث یہ ایک خطرناک راستہ بن گیا۔ اس دوران طالبان کی جانب سے ایک مسجد پر قبضے کی کوشش کی گئی۔ 2008ء میں حکومت اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے طالبان کے خلاف ٹھوس اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے پاڑا چنار کے عمائدین نے قبائلی فوج قائم کی، جس نے طالبان کو شکست دی اور بگزئی گاؤں کا کنٹرول واپس سنبھال لیا، جو خطے میں طالبان کی مرکزی بیس تھا۔
کرم میں فرقہ وارانہ فسادات کے اہم وجوہات اور اسباب
پچھلے پانچ دہائیوں سے پاکستان میں بالعموم اور پشتون خطے میں بالخصوص جن سامراجی جنگوں کی وجہ سے تباہی اور بربادی ہوئی ہے، اس کے نتائج آج بھی یہی پشتون خطہ بھگت رہی ہے۔ اپنے سامراجی آقاؤں کے کہنے پر ریاست پاکستان کے پنجابی فوجی و سول اشرافیہ نے پورے پشتون خطے کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ جانی و مالی نقصانات سے ہٹ کر سماج کو جس پتھر کے زمانے میں دھکیلا گیا ہے اس کی بے شمار مثالیں اس وقت پشتون سماج کے اندر موجود ہیں۔
بالخصوص افغانستان میں برپا ہونے والے ثور انقلاب کے بعد پشتون خطے کو جس تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا، وہ شاید تاریخ میں اپنی مثال آپ ہو۔ ان سامراجی پروجیکٹس میں ریاست پاکستان کے فوجی و سول اشرافیہ نے جو مجرمانہ کردار ادا کیا وہ آج بھی قابل نفرت اور قابل مذمت و مزاحمت ہے۔ اگر ان تمام تر سامراجی کھلواڑ کی مد میں کرم کی صورتحال کو مد نظر رکھا جائے تو ہم یہ نتیجہ بآسانی نکال سکتے ہیں کہ کرم میں جن بنیادوں پر چھوٹے چھوٹے تنازعات کو فرقہ وارانہ فسادات کا رنگ دیا جاتا ہے وہ ریاستِ پاکستان اور ان کے سامراجی آقاؤں کی مجرمانہ کردار ہی ہے جنہوں نے کرم کے عوام کو پچھلے پانچ دہائیوں سے سکون سے رہنے نہیں دیا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر ایک ہی قوم کے دو مختلف قبائل ایک دوسرے کو دشمن کی طرح مار رہے ہیں جن کی تمام تر ذمہ داری ریاست، ریاستی اداروں اور یہاں کے فوجی و جرنیل شاہی پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنی عیاشی کے لیے اس خطے کو جہنم بنایا۔ اس ضمن میں ہم کرم میں سامراجی کھلواڑ کے سلسلے میں مختصراً تاریخی جائزہ لیں گے۔
کرم تزویراتی گہرائی اور سامراجی گدوں کا گڑھ
1979ء میں افغان ثور انقلاب کو خون میں ڈبونے کے بعد افغان پناہ گزین پاکستان میں بڑی تعداد میں آ رہے تھے اور ان کو خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں آباد کیا جا رہا تھا، جو پاکستان کے سرحدی صوبے ہیں۔ افغان مجاہدین کی حمایت کے لیے پاکستان کے قبائلی علاقوں، بشمول کرم ایجنسی میں، کئی تربیتی مراکز قائم کیے گئے۔ چونکہ کرم ایجنسی تین طرف سے افغانستان سے منسلک تھی، اس لیے یہ جہادی تربیت اور افغان پناہ گزینوں کو آباد کرنے کے لیے بہت اہمیت رکھتی تھی۔
سوویت یونین کی مداخلت اور پٹرول ڈالر جہاد کے نتائج نے افغان عوام کو محفوظ اور قریبی علاقوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ چونکہ پاکستان کی سرحد طویل اور افغان عوام سے ثقافتی و سماجی طور پر ملتی جلتی تھی، اس لیے یہ ان کے لیے سب سے آسان راستہ تھا کہ وہ پاکستان آئیں اور یہاں آباد ہوں۔ جنرل ضیاء الحق نے، ایک اسلامی ریاست ہونے اور سیکیورٹی خدشات کے تحت، 35 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو رہائش اور خوراک فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ افغان مجاہدین کی اخلاقی، مالی، عسکری اور سفارتی سطح پر حمایت کی ذمہ داری لی۔ پناہ گزینوں کی آمد اپریل 1978ء میں شروع ہوئی، لیکن دسمبر 1979ء میں سوویت مداخلت کے بعد یہ تیزی سے بڑھ گئی۔
ان پناہ گزینوں کے لیے پاکستان کے مختلف علاقوں میں کیمپ قائم کیے گئے، جن میں کرم ایجنسی بھی شامل تھی۔ پناہ گزینوں کی تعداد توقع سے زیادہ ہو گئی، جو حکومت پاکستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ سوویت افغان جنگ کے بعد، ان افغان پناہ گزینوں کو خوراک، رہائش اور تعلیم فراہم کرنے کے انتظامی مسائل پیدا ہوئے۔ کرم ایجنسی میں، جہاں شیعہ اکثریتی علاقے تھے، افغان پناہ گزینوں کی آبادکاری ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئی، کیونکہ وہ زیادہ تر سنی مسلک سے تعلق رکھتے تھے، جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ مسائل پیدا ہوئے۔
افغان جنگ اور افغانستان کے اندر عدم استحکام نے پاکستان اور کرم ایجنسی کی معیشت اور امن پر براہ راست اثر ڈالا۔ انتہا پسند عناصر کرم ایجنسی کے راستے پاکستان میں داخل ہو کر اپنی سرگرمیاں انجام دیتے تھے، جس سے اس علاقے میں ثقافتی بحران اور شیعہ سنی فرقہ وارانہ جھڑپوں نے علاقے کے امن کو تباہ کر دیا۔ ان جھڑپوں کی وجہ سے کرم ایجنسی میں نفرت اور تشدد پھیلا، جو پاکستان کے دیگر علاقوں تک بھی پھیل گیا۔
افغانستان پر نظر رکھنے والے نام نہاد مجاہدین اور ان کے سامراجی آقاؤں کے لیے کرم ایک خاص اسٹریٹجک اہمیت کا حامل مقام ہے۔ نام نہاد افغان مجاہدین نے پاکستانی ریاست کی ایماء پر 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے ساتھ تنازع کے دوران اسے ایک اڈے کے طور پر استعمال کیا۔ کرم اب بھی ایک انتہائی مطلوبہ علاقہ ہے کیونکہ یہ افغانستان کے کئی صوبوں تک آسان رسائی فراہم کرتا ہے اور پاکستان سے کابل تک پہنچنے کا سب سے تیز اور مختصر ترین راستہ ہے۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد، طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی آمد کے نتیجے میں کرم میں نئی کشیدگیاں پیدا ہوئیں۔ یہ گروہ اپنی روایتی پناہ گاہوں سے نکل کر یہاں آئے اور فرقہ وارانہ تصادم کو ہوا دی۔ 2007ء کے بعد سے فرقہ وارانہ تشدد اور دیگر جنگجو گروہ کرم میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ طالبان کی موجودگی کے دوران چار سالہ سڑک کی بندش کی وجہ سے، کرم وادی کے رہائشیوں کو پشاور جانے کے لیے کابل اور جلال آباد کے راستے سفر کرنا پڑا۔ یہ رسائی حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کے لیے نہایت اہم ہو گئی ہے، جو 2009ء اور 2010ء میں افغانستان کے جنوب مشرقی علاقوں میں اتحادی افواج کی کاروائیوں کی وجہ سے کابل پر اپنا اثر کم کرنے پر مجبور ہوئے۔
حقانی نیٹ ورک کو اپنی بنیادی سرگرمیوں کے علاقے، خاص طور پر افغانستان کے صوبے خوست، پکتیا اور پکتیکا، میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے انہوں نے کابل تک رسائی کے لیے نئے راستے تلاش کیے۔ شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے بھی حقانی نیٹ ورک نے اپنی پناہ گاہوں میں دباؤ محسوس کیا۔ حقانی نیٹ ورک نے کرم میں جاری شیعہ-سنی کشیدگی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، اور مبینہ طور پر پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی مدد سے اپنی کارروائیوں کے علاقے کو وسعت دی، کابل تک نئی رسائی کے راستے کھولے، اور شمالی وزیرستان میں اپنے محصور گڑھوں پر پڑنے والے دباؤ کو کم کیا۔
حقانی نیٹ ورک کی 2007-8ء امن مذاکرات میں مداخلت
ستمبر 2010ء میں اطلاعات سامنے آئیں کہ حقانی نیٹورک کرم میں شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان امن مذاکرات میں شامل تھا۔ حقانی نیٹ ورک کی کرم میں امن مذاکرات میں شمولیت کی سب سے پہلی اطلاع 2009ء کے اوائل میں ملی، حالانکہ وہ 2008ء سے وہاں شیعوں کے خلاف لڑائی میں شامل رہا تھا۔ شیعہ برادری نے حقانی نیٹ ورک کی کرم میں مداخلت اور ٹھل-پاراچنار روڈ کو افغانستان تک جنگجوؤں کے لیے راستے کے طور پر استعمال کرنے کی سختی سے مخالفت کی۔
حقانی نیٹ ورک کی مداخلت شمالی وزیرستان میں موجود ان کے ٹھکانے پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے تھی۔ شیعوں نے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ کسی بھی قسم کی مفاہمت سے انکار کر دیا کیونکہ وہ اپنے علاقوں میں نیٹ ورک کو آزادانہ رسائی دینے کے خلاف تھے۔ اس کے باوجود، حقانی نیٹ ورک نے کرم میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش جاری رکھی کیونکہ افغانستان تک ایک نیا راستہ اور پاکستان میں ایک نئی پناہ گاہ ان کے لیے ضروری ہو گئی تھی۔
کرم اور آپریشن آپریشن سایکلون
1980ء کی دہائی میں کرم ایجنسی افغان سوویت جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کے لیے ایک اہم اڈے کے طور پر کام کرتی تھی۔ اس دوران، کرم میں سنی افغانوں کی ایک بڑی تعداد نقل مکانی کر کے آئی۔ ان سنیوں کے ساتھ ایک جنگجوانہ نظریہ بھی آیا جو کرم کی شیعہ آبادی کے ساتھ ٹکرا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایرانی انقلاب کے اثرات کے باعث کرم کی شیعہ آبادی بھی شدت پسندی کی طرف مائل ہو رہی تھی۔ اگرچہ 1980ء کی دہائی کے اوائل میں شیعہ اور سنیوں کے درمیان وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی رہیں، لیکن پہلی بڑی جھڑپ 1986ء میں اس وقت ہوئی جب شیعہ طوری قبائل نے سنی مجاہدین کو افغانستان جانے سے روک دیا۔ اس کے ردعمل میں جنرل ضیاء الحق نے مجاہدین اور مقامی سنی قبائل کو اجازت دی کہ وہ بالائی کرم کے شہر پاراچنار میں شیعہ طوریوں کو نشانہ بنائیں۔ اس وقت طوری قبیلے کے رہنما علامہ عارف الحسینی کرم کے شیعوں کے روحانی رہنما تھے۔ علامہ الحسینی کو اگست 1988ء میں پشاور میں قتل کر دیا گیا۔ بہت سے طوری افراد آج بھی جنرل ضیاء الحق کو علامہ الحسینی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ طوری قبائل کی مزاحمت کے باوجود، کرم مجاہدین کے لیے اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل رہا۔
نام نہاد مجاہدین کے نمایاں شخصیت اسامہ بن لادن 1984ء میں، اسامہ بن لادن پہلی بار پاک-افغان سرحدی علاقے میں آئے اور پکتیا کے علاقے زازئی میں مجاہد کمانڈر عبدالرسول سیاف کے محاذی کیمپوں کا دورہ کیا۔ سیاف سوویت افواج کے خلاف لڑنے والے بدنام مجاہد کمانڈروں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے کم از کم ایک معروف سہولت ”خلدان“ تعمیر کی، جو شمالی کرم اور افغانستان کے مشرقی صوبے پکتیا اور ننگرہار کے درمیان سرحدی علاقے میں واقع تھی۔ اگلے چند سالوں کے دوران، بن لادن نے زازئی میں عرب جنگجوؤں کے لیے ایک اور کیمپ تعمیر کیا اور افغان مجاہدین کو سوویت افواج کے خلاف ان کی جنگ میں مدد فراہم کی۔ بن لادن نے 1980ء کی دہائی کے اواخر میں زیادہ تر جلال الدین حقانی کی افواج کے ساتھ مل کر جنگ لڑی۔
کرم ایجنسی کا دارالحکومت پارا چنار 1980ء کی دہائی میں مجاہدین کے لیے ہتھیاروں اور سامان کی ترسیل کا مرکز تھا۔ یہاں مجاہدین پشاور سے ٹرکوں کے ذریعے ہر تین سے چار دن میں لایا جانے والا اسلحہ اور دیگر سامان وصول کرتے تھے۔ پارا چنار سے نام نہاد مجاہدین لوگوں اور سامان کو افغانستان کے جنوب مشرقی صوبوں کے قریب واقع متعدد سرحدی اڈوں تک لے جاتے تھے۔ ان سرحدی اڈوں سے ”لوگر راستہ“ شروع ہوتا تھا، جو افغان صوبے پکتیا کے ضلع زازئی سے لے کر کابل کے جنوب میں واقع لوگر صوبے تک جاتا تھا۔ تقریباً 40 فیصد سامان جو مجاہدین افغانستان میں استعمال کرتے تھے، اسی ”لوگر راستے“ کے ذریعے لایا جاتا تھا۔ اگرچہ سوویت اور افغان حکومتی افواج نے کرم اور افغانستان کے درمیان سرحد کو بند کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ ناممکن ثابت ہوا۔
نتائج
اس تمام تر بحث کے کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ کرم میں پچھلے کچھ عرصے سے جو فسادات چل رہے ہیں وہ گو کہ زمین کا تنازعہ ہے مگر اس کو فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل کرنے کے پیچھے ریاست اور ریاستی دلالوں کے غلیظ عزائم کار فرما ہیں جس کا تاریخی طور پر مذکورہ تحریر کے بالائی حصے میں جائزہ لیا گیا ہے۔ اور یہی وہ بنیادی وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر کرم کے علاقے میں موجود ایک ہی قوم کے مختلف قبائل کو دست و گریبان رکھا گیا ہے۔ زمینوں کی تقسیم یا سیٹلمنٹ اس وقت سابقہ فاٹا سمیت بلوچستان کے اکثریتی علاقوں میں تشنہ لب سوال ہے اور یہی زمینی تنازعات مختلف قبائل کے آپسی تنازعات کا شکل اختیار کر لیتی ہیں جس کی ذمہ داری بلاواسطہ ریاست پر ہی عائد ہوتی ہے۔ جبکہ انہی زمینی تنازعات کا ریاست بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں پر اپنے مفادات بٹورنے میں مگن ہوتا ہے۔
حکومتی موقف اور ردعمل
اس وقت خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آئی پچھلے ایک عشرے سے برسر اقتدار ہے مگر کرم کے مسلے کو حل کرنے کی اہلیت پی ٹی آئی اور ان سے پہلے حکومتوں کی بھی نہیں رہی ہے اور نہ ہی یہ مسئلہ مختلف جرگوں کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ کرم کے حالات پچھلے دو ڈھائی عشروں سے مسلسل خراب ہیں اور حالات کو درست کرنے کے لیے درجنوں پر جرگے اور معاہدے ہوئے ہیں مگر حالات جوں کے توں ہیں۔
بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے موجودہ حکومت کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو مذکورہ پارٹی تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد اپنے قائد کو جیل سے چھڑانے پر مصر ہے، جبکہ صوبے کے اندرونی حالات کے حوالے سے ان کو کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔ یہی صورتحال خیبر پختون خواہ میں موجود دیگر نام نہاد روایتی سیاسی پارٹیوں کی بھی ہے جن کے پاس کرم کے حالات کو بدلنے کے لیے کوئی منظم پروگرامیٹک لائن آف ایکشن موجود نہیں ہے۔ جبکہ دوسری جانب کرم کے عوام ان تمام تر برسر اقتدار اور حزب اختلاف کی پارٹیوں سے بدظن ہو چکے ہیں۔
کرم کے فسادات کا حل کیا ہو سکتا ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ کرم میں برپا ہونے والی فسادات کا خاتمہ منظم عوامی جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے اس ضمن میں کرم کے عوام کی آواز محض کرم تک محدود ہونے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ کرم کے عوام کے لوگوں کو خیبر پختون خواہ سمیت پورے پاکستان کی محنت کش طبقے کی حمایت اور ہمدردی کی شدید ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہم خیبر پختون خواہ اور بالعموم پاکستان بھر کے محنت کشوں کی نمائندہ ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز کے ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس ریاستی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے آواز اٹھائیں۔
اگر محنت کش طبقہ ایک منظم لائحہ عمل کے ساتھ اس ضمن میں آواز اٹھاتا ہے تو امن دشمن تمام تر قوتیں اس گھناؤنی سازش سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ کیونکہ ابھی تک کرم کے لوگوں پر ہونے والی ریاستی جبر کو نام نہاد فرقہ وارانہ فسادات کا رنگ دے کر لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے اور اسی فرقہ وارانہ بنیادوں پر کرم کے واقعات کی مذمت کی جاتی ہے اور ان کے خلاف احتجاج کیے جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب یہ بات بھی حقیقت ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات ہو رہے ہیں مگر ان تمام تر فرقہ وارانہ فسادات کے بیج اسی ریاست نے اپنے مختلف دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے نہ صرف بوئے ہیں بلکہ ان کو آج ایک ایسے اژدھے میں تبدیل کیا ہے جو کہ اپنے بچوں کو کھا رہا ہے۔
اس کے علاوہ کرم کے عوام کو امن بحال کرنے کے لیے سب سے پہلے اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا چاہیے، جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک و زخمی ہوئے ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ دشمن کی پہچان کے لیے طبقاتی بنیادوں پر تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر کرم کے عوام کو اتحاد اور اتفاق کا دامن پکڑنا ہو گا۔ یہ اتحاد اور اتفاق دفاعی عوامی کمیٹیوں کی تشکیل کی صورت میں عملی طور پر سرانجام دیا جا سکتا ہے۔
اس وقت کرم میں ریاستی پشت پناہی میں چند ایسی شیعہ اور سنی تنظیمیں موجود ہیں، جن کا مقصد کرم کے حالات کو مزید ابتر بنانا ہے تاکہ کرم میں سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کو برقرار رکھا جائے کیونکہ سابقہ فاٹا کے جتنے بھی علاقے جو افغانستان کے ساتھ بارڈر رکھتے ہیں وہاں پر پشتون تحفظ مومنٹ کا اثر موجود ہے جبکہ بدقسمتی سے کرم مذکورہ تحریک کے اثر سے بہت دور ہے اور ان کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر اب تک ریاست
محنت کشوں کی قیادت میں جمہوری طور پر منتخب عوامی دفاعی کمیٹیوں کے ذریعے ہی ہم اس بربریت سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ گو کہ بالخصوص کرم میں یہ عمل مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ اگر اس عمل سے ہٹ کر کوئی دوسرا طریقہ راہ نجات ہے تو اس کو سامنے لایا جائے کیونکہ اس وقت کرم میں جو حالات موجود ہیں ان کے حوالے سے یہی حل ہے۔ مقامی کونسلروں یا نام نہاد نمائندوں پر انحصار کرنے کی بجائے ان کمیٹیوں کو جمہوری انداز میں چلانے کی ضرورت ہے۔ تحریکوں کی عدم موجودگی کی کیفیت میں خود جرائم پیشہ افراد ان کمیٹیوں کے سربراہ بن کر انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
اس لیے ان کمیٹیوں میں جمہوری انداز میں سب کے سامنے اور فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ان میں محنت کشوں کی بڑی تعداد کو شامل کرنے کی ضرورت ہے جن کی رائے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں جرگے، پنچایتیں یا ایسے ہی رجعتی ادارے موجود ہیں جو علاقے کے مختلف امور پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ ان جرگوں میں دولت مند اور حکمران طبقے کے افراد ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ جرگے اور پنچایتیں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں بلکہ اکثر دہشت گردی کے معاون رہے ہیں۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں حکمران طبقے کے افراد اور ریاستی اہلکاروں کی شمولیت پر پابندی لگانی ہو گی۔ اسی طرح ایسے تمام افراد بالخصوص تاجر اور کاروباری جو دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرتے رہے ہیں، ان پر بھی سخت پابندی لگانی ہو گی۔
ریاست اور یہاں موجود حکمران طبقات ان تمام اقدامات کی مخالفت کرے گی اور اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرے گی۔ اس کے علاوہ ان کوششوں کو مسخ کرنے کی بھی کوشش کی جائے گی اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان اداروں کو بدنام کروانے کی سازش بھی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ آغاز میں دیگر ساتھیوں کا اعتماد جیتنے اور خوف توڑنے میں بھی دقت ہو گی لیکن اگر یہ سار اعمل ایک تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ ادارے زیادہ فعال اور واضح شکل میں ابھر کر سامنے آئیں گے۔
طلبہ اور مزدوروں کی بڑھتی ہوئی تحریکیں ان اداروں کے کردار کو وسعت دیتے ہوئے انہیں ریاستی اداروں کی جگہ لینے کی طرف بھی دھکیل سکتی ہیں۔ ایک ملک گیر عوامی تحریک جہاں اس بوسیدہ ریاست کو دفن کرنے کی جانب بڑھے گی وہاں اس کی جگہ ایک نئی ریاست کا خلا بھی پیدا کرے گی۔ اس موقع پر اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہوتی ہے تو وہ مزدور ریاست کی تعمیر کا آغاز انہی اداروں کو بنیاد بناتے ہوئے کر سکتی ہے۔
لیکن اس پورے عمل میں عوام کی براہ راست شمولیت کلیدی کردار ادا کرے گی اور انقلابی پارٹی کو اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا نادر موقع فراہم کرے گی۔ آخری تجزیے میں دہشت گردی کی تمام تر جڑیں اسی سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں اس لیے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس لیے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے تمام افراد اور تنظیموں کو اپنی حتمی منزل سوشلسٹ انقلاب کو بنانا ہو گا۔ اس کے بعد ہی دہشت گردی کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ بھی ہو سکتا ہے۔
سامراجی و ریاستی دہشتگردی مردہ باد!
مذہبی و فرقہ وارانہ دہشتگردی مردہ باد!
کرہ ارض کو بچانا ہو گا، سرمایہ داری کو اکھاڑنا ہو گا!