لب کُشا ہوں تو اس یقین کے ساتھ . . .
قتل ہونے کا حوصلہ ہے مجھے!
| تحریر: یاسمین زہرا |
الیکڑانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر آج کل کوبانی (کُردستان) کی جنگجو لڑکیوں کی ہتھیار اٹھائے اور فتح کا نشان بنائے مسکراتی تصاویربہت گردش کر رہی ہیں۔ یونیفارم پہنے اور ہتھیار اٹھائے ان خوبصورت نوجوان لڑکیوں کی تصاویربہت سے دیکھنے والوں کو یقیناجلوہ افروز محسوس ہوتی ہوں گی لیکن ان کی اصل داستان بہت طویل اور کٹھن ہے۔ سنگین قبائلی اور مردانہ روایتوں کے خلاف ان خواتین کی جدوجہد کی تاریخ صدیوں پر محیط ہے۔ کرد قوم پرست پارٹیوں اور قومی آزادی کی تحریک میں خواتین نے ہراول کردار ادا کیا ہے۔ انقلابی مارکسزم اور سوشلزم کے نظریات کی گہری چھاپ ہمیں آج بھی آزاد کردستان کی تحریک میں نظر آتی ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد قیادت کی تمام تر مصالحت اور موقع پرستی کے باوجود کرد محنت کش عوام، خاص کر نوجوان سوشلسٹ سماج کے قیام کوہی حقیقی آزادی اور منزل مقصود سمجھتے ہیں۔
مغرب کی نام نہاد جمہوریت ’’جنسی برابری‘‘ کی بڑی دعویدار ہے لیکن کردمسلح اور سیاسی تنظیموں میں خواتین کی نمائندگی کے سامنے سرمائے کی اس طبقاتی جمہوریت کا کھوکھلا پن واضح ہوجاتا ہے۔ کرد مسلح ملیشیاؤں کے زیر کنٹرول علاقوں میں تمام علاقائی منظم کاروں کے دوعہدے ہوتے ہیں جن میں ایک خواتین کے لئے مخصوص ہے۔ مثال کے طور پر وہاں شہر کے ’’کو میئر‘‘ یعنی شریک میئر کی دو نشستیں ہیں ایک مرد اور دوسری خاتون کے لیے۔
ایک کرد جنگجو خاتون’ کُروگلو‘ کا کہنا ہے کہ ’’یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آسانی سے ہمارے ہاتھ میں آئی ہو۔ ہم نے یہ حق صدیوں کی سیاسی جدوجہد کے بعد حاصل کیا ہے…پہلے ہم نے 30 فیصد، پھر 40 فیصد کوٹہ حاصل کیا اورپھر موجودہ نصف کوٹے پر مشتمل نظام جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔‘‘ لیکن یہ کامیابی ابھی ادھوری ہے کیونکہ کُردستان میں خواتین کی اکثریت اب بھی سخت قبائلی روایتوں اور غربت کے حصار میں زندگی جینے پر مجبور ہے۔
اپنے اوپر ہونے والے قومی یا طبقاتی جبر کے خلاف برسر پیکار عوام کے سیاسی شعور اضافے کا رحجان بہت تیز ہوا کرتا ہے۔ عراق، شام اور ترکی کی ریاستوں اور اب داعش (اسلامک اسٹیٹ) کے خلاف برسرپیکار کرد عوام نہ صرف مسلح جدوجہد میں بلکہ سیاسی طور پربھی منظم اور متحرک ہیں۔ شام کے کرد علاقے کا دفاع 65 ہزار جنگجوؤں پر مشتمل مسلح عوامی ملیشیا YPG (پیپلز پروٹیکشن یونٹس) کررہی ہے جس میں 10 ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔ خواتین برگیڈ کا نام YPJ یا ’’وومن پروٹیکشن یونٹس‘‘ ہے۔ حلب، راس العین اور کوبانی کے معرکوں میں ان خواتین نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ YPGبحیثیت مجموعی بائیں بازو کی ’ڈیموکریٹک یونین پارٹی‘ کا مسلح ونگ ہے۔ عراقی کردستان میں کی مسلح افواج کو ’’پیشمرگا‘‘ کہا جاتا ہے جس کے معنی ’’سرفروش‘‘ یا ’’موت سے لڑنے والے‘‘ کے ہیں۔ پیشمرگا میں بھی سینکڑوں خواتین شامل ہیں، اگرچہ تناسب YPG سے کافی کم ہے۔ ترکی میں آزاد کردستان کے لئے مسلح جدوجہد کرنے والی قوت PKK (کردستان ورکرز موومنٹ) ہے جس کی مسلح ملیشیا میں ہزاروں خواتین شامل ہیں۔
خواتین کو ذہنی یا جسمانی طور پر ’’نااہل‘‘ اور ’’کمتر‘‘ سمجھنے والوں کی اپنی ذہنی کمتری دور کرنے کے لئے یہ بتانا بھی ضروری ہے نہ صرف داعش کے خونخوار درندوں سے کوبانی کا دفاع کرنے میں کرد خواتین نے بنیادی کردار ادا کیا ہے بلکہ کوبانی کا عوامی نظم ونسق، دفاتر، خوراک کا انتظام اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی بحالی کے لئے بھی یہ خواتین دن رات سرگرم ہیں۔
داعش کو شکست دے کر بھگانے کے بعد بھی ان نڈر خواتین کی ہر قسم کے استحصال کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔ ان دلیر خواتین نے جرمن فسطائیت کے خلاف سٹالن گراڈ کا دفاع کرنے والی سوویت خواتین اور جلال آباد سے ڈالر ’’مجاہدین ‘‘کو مار بھگانے والی افغان خواتین کی روایات کو زندہ کر کے نسل انسان کی تاریخ میں جدوجہد کا ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ کرد عوام اور خاص کر خواتین کو نجات کی منزل سے ہمکنار ہونے کے لئے انقلابی مارکسزم کے نظریات پر آگے بڑھتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر کاری ضرب لگانا ہوگی اور نجی ملکیت کی لعنت سے پاک ایسے سماج کی بنیادیں قائم کرنا ہوں گی جہاں ذرائع پیداوار مشترکہ ملکیت میں ہوں۔ سوشلسٹ انقلاب کی اس لڑائی کو خطے اور دنیا بھر کے محنت کشوں اورنوجوانوں کی جدوجہد سے جوڑنا ہوگا۔ بصورت دیگر آزادی کے لئے دی گئی تمام قربانیاں بے ثمر رہیں گی اور دہائیوں پر مشتمل قومی آزادی کی جرات مندانہ لڑائی کے تمام فوائدکرد معاشرے کی قلیل حکمران پرت تک ہی محدود ہوجائیں گے۔