|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
پچھلے لگ بھگ دو ماہ سے کراچی یونیورسٹی کے ملازمین اپنے جائز لیو انکیشمنٹ کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔ لیو انکیشمنٹ بنیادی طور پر تہواروں کے دوران دی گئی چھٹیوں کا معاوضہ ہے جو آج کے لیبر قوانین کے عین مطابق محنت کشوں کا حق ہے۔
یہ حق حکمران طبقے نے بھیک میں نہیں دیا بلکہ محنت کشوں نے جدوجہد کے ذریعہ جیتا ہے۔ لیکن کراچی یونیورسٹی کے ملازمین کے لیے انتظامیہ نے یہ حق گناہ قرار دے دیا ہے۔
ملکی تاریخ کی شدید ترین مہنگائی کے دوران جبکہ یونیورسٹی ملازمین کا تنخواہ اور الاؤنسز کے علاوہ روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں، ایسے میں انتظامیہ کا ملازمین کو ادائیگی نہ کرنا معاشی قتل عام اور معاشی دہشت گردی کے سوا کچھ نہیں۔
لیو انکیشمنٹ کے حصول کے لیے کراچی یونیورسٹی کے ملازمین کا احتجاج 17 اپریل کو شروع ہوا، جو کہ مورخہ 31مئی تک جاری ہے۔ اس دوران ایڈمن آفس کے سامنے احتجاج، کیمپس میں احتجاجی واک، احتجاجی دھرنے دیے گئے، اسی دوران آڈیٹوریم میں 4 مئی کو ملازمین کا جنرل باڈی اجلاس بلایا گیا جوکہ کیمپس ملازمین کے لیے تاریخی ثابت ہوا۔
جنرل باڈی اجلاس ایک بڑے جلسے کی صورت اختیار کر گیا جس میں ملازمین کا جوش دیدنی تھا۔ اس اجلاس میں تمام ملازمین کی جانب سے متفقہ قرارداد منظور کی گئی کہ اگر ملازمین کے جائز مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو چار مئی تا آٹھ مئی مکمل کام چھوڑ ہڑتال پر جائیں گے۔ اور اس کام چھوڑ ہڑتال کے بعد بھی مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو یا تمام ملازمین احتجاجاً چھٹی پر چلے جائیں گے یا تو غیرمعینہ مدت تک ہڑتال کی کال دی جائے گی۔
اس اجلاس کے فوری بعد تمام ملازمین اور ملازمین سے یکجہتی کے لئے موجود ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ تک گئے اور ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے محنت کشوں سے اظہار یکجہتی کا مطالبہ کیا۔ ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے محنت کشوں نے گرم جوشی سے اپنے محنت کش ساتھیوں کا استقبال کیا۔ لیکن اسی دوران انتظامیہ نے اپنی پالتو طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کو استعمال کرتے ہوئے(یاد رہے کہ یونورسٹی انتظامیہ نے جمعیت کو کیمپس کے ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ پر نافذ کر رکھا ہے) موقع پر پہنچ کر ہنگامہ بنایا۔ اس ہنگامے کو جواز بناتے ہوئے کیمپس میں ملازمین اور طلبہ کے دوران دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس کے کارکنان نے انتہائی مثبت کردار ادا کرتے ہوئے طلبہ اور محنت کشوں کے درمیان پیدا کی گئی غلط فہمیوں کو دور کیا۔
البتہ اس واقعے کو جواز بناتے ہوئے انتظامیہ نے انتقامی کاروائی شروع کی اور ملازمین کو شو کاز نوٹس جاری کرنا شروع کر دیے۔ انتظامیہ کی جانب سے ان ملازمین کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بناتے ہوئے 31 مئی کو مختلف جگہوں پر ٹرانسفر کے لیٹر جاری کیے گئے۔
ہم ملازمین کے جائز مطالبات اور محنت کشوں کے جمہوری حقِ احتجاج کو استعمال کرنے کی پاداش میں، اس انتقامی کاروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
ایک طرف نام نہاد اعلیٰ درجے کے ”تعلیمی ایگزیکٹیوز“کی تنخواہوں میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جن کا کام محض ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ریاست کے طلبہ و ملازمین دشمن فیصلے کرنا ہوتا ہے، جبکہ کیمپس ملازمین جو یونیورسٹی کے انتظامی معاملات کو چلانے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں، مالی عدم استحکام اور بحران کا شکار ہیں۔ ایک طرف تو طلبہ کی ٹیوشن فیسوں میں بھی دن بہ دن بے تحاشہ اضافہ کیا جارہا ہے اور دوسری طرف بجٹ نہ ہونے کا بہانہ بنا کر ملازمین کا معاشی قتل۔
جب طلبہ اور ملازمین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ان کے مطالبات پورے کیوں نہیں ہوئے، تو وائس چانسلر عراقی سمیت تمام اعلیٰ درجوں پر بیٹھے ان کے دلال اصرار کرتے ہیں کہ ”یونیورسٹی کی مالی حالت بہت خراب ہے“ یا ہم ”انتظامیہ کی غربت کو بھی تو سمجھیں“۔ لیکن کیا وائس چانسلر عراقی کو خاطر خواہ تنخواہ نہیں ملتی؟ کیا اسے وقت پر تنخواہ نہیں ملتی؟ یا جب جب عام ملازمین کو تنخواہ ادا کرنے اور طلبہ کی سکالرشپ کے پیسے دینے کی بات آتی ہے تب تب ہی انتظامی غربت کا ماتم کیا جاتا ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ کہنا کہ پیسے نہیں ہیں سراسر بکواس ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ اور ملازمین کے سامنے یونیورسٹی کے تمام مالی معاملات پبلک کرے تاکہ پتہ چل سکے کہ محنت کشوں کے واجبات کی ادائیگی کے لیے درکار رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ملازمین کے اس احتجاج کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے اور انتظامیہ سے فی الفور لیو انکیشمنٹ جاری کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔