|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، خیبرپختونخوا|
ملاکنڈ یونیورسٹی میں مطالعہ پاکستان کے پروفیسر عبدالحسیب کو طالبہ کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی ہراسانی کے الزام میں ملاکنڈ لیویز (Malakand Levies) نے گرفتار کر لیا ہے۔ ملاکنڈ لیویز نے ملاکنڈ یونیورسٹی کے مطالعہ پاکستان کے پروفیسر عبدالحسیب کے خلاف مبینہ طور پر جنسی ہراسگی کے خلاف دفعہ 506/ 354/ 452/ 511/ 365b درج کر لی ہے۔ درج شدہ ایف آئی آر میں اس جنسی ہراسانی کی متاثرہ طالبہ نے اپنے بیان میں کہا کہ، ”پروفیسر عبدالحسیب کئی مہینوں سے میرا پیچھا کرر ہاتھا اور مختلف طریقوں سے مجھے جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔“ درج شدہ ایف آئی آر کے مطابق پروفیسر عبدالحسیب نے متاثرہ طالبہ کے گھر میں گھس کر اس کے اہل خانہ کی موجودگی میں طالبہ کو اغوا کرنے کی کوشش بھی کی اور طالبہ کو سنگین قسم کی دھمکیاں بھی دیتا رہا۔
واضح رہے کہ پروفیسر عبدالحسیب اساتذہ تنظیم ملاکنڈ یونیورسٹی ٹیچر ایسوسی ایشن (میوٹا) کا سیکرٹری برائے اطلاعات بھی ہے۔ دوسری جانب ملاکنڈ یونیورسٹی کے اس واقعہ پر یونیورسٹی انتظامیہ کا تاحال کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔ اسی طرح متعلقہ پروفیسر کے موبائل سے طالبات کی ہزاروں تصاویر اور ویڈیوز بھی برآمد ہوئی ہیں۔
یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ملاکنڈ یونیورسٹی میں ٹیچرز کی طرف سے طالبات کو ہراساں کرنے کی رپورٹس آئی ہیں لیکن ہر بار ان واقعات کو منظر عام پر آنے سے روک دیا گیا۔ اسی طرح ماضی میں بھی گومل یونیورسٹی، پشاور یونیورسٹی، بلوچستان یونیورسٹی سمیت کئی تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات سامنے آئے لیکن ان تمام مجرموں کو ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی جانب ہر بار بچایا گیا۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ جنسی ہراسانی کے خلاف طلباء و طالبات کی منظم جہدوجہد ہی واحد حل ہے۔ انتظامیہ یا حکومت یہ اہلیت نہیں رکھتی ہے کہ وہ ہراسمنٹ کا دھندہ روک سکے کیونکہ وہ خود ہی یہ دھندہ چلا رہی ہے۔ اسی طرح یہ ریاست اور اس کے ادارے بھی کسی صورت مجرمان کو کیفرِ کردار پہنچانے کی اہلیت نہیں رکھتے، جس کا عملی ثبوت اس سے پہلے ہونے والے ہراسمنٹ کے واقعات کے مجرمان کی آج بھی اپنے عہدوں پر موجودگی ہے۔
اسی طرح ملاکنڈ یونیورسٹی میں طلبہ سیاست، اجتماعات اور سٹڈی سرکلز پر مکمل پابندی ہے اور طلباء و طالبات کے لیے یہ قانون بنایا گیا ہے کہ وہ اگر ایک دوسرے سے بات بھی کرتے ہیں یا ایک دوسرے کے ساتھ کوئی نوٹس وغیرہ شیئر کرتے ہیں تو وہ تین فٹ کا فاصلہ رکھیں اور جو ایسا نہیں کرے گا اس کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے سخت کاروائی کی جائے گی۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی سمجھتی ہے کہ یونیورسٹی کے طلبہ کو فی الفور اپنے تعلیمی اداروں میں الیکشن منعقد کروا کے طلبہ میں سے اپنے نمائندوں کا چناؤ کرتے ہوئے ہر کلاس اور ہر ڈیپارٹمنٹ کی سطح پر اپنی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دینے کی طرف بڑھنا چاہیے۔ ملک بھر میں ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ خود اپنے تعلیمی ادارے کے اندر اس عمل کا آغاز کریں۔ طلبہ کی یہ تمام کمیٹیاں ملکی سطح پر بھی مرکزی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں، اس طرح ملک گیر سطح پر ایک منظم نیٹ ورک قائم کرنا ہو گا۔ طلبہ منظم ہو کر ہی جنسی ہراسمنٹ، فیسوں میں اضافے، طلبہ یونین کی بحالی و دیگر مسائل کے حل کے لیے ایک کامیاب جدوجہد کر سکتے ہیں۔
طلبہ کی ان اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کے ذریعے احتجاج اور ہڑتالیں منظم کر کے انتظامیہ پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ انتظامیہ ان تمام مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ ان منظم اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کے ذریعے جب کسی ایک واقعہ کے گرد طلبہ ادارے کی تمام تر کلاسوں کا بائیکاٹ کریں گے تو انتظامیہ اور خود طلبہ کو ادراک ہو گا کہ یونیورسٹی کے تمام تر معاملات ان کے وجود کے بغیر اور ان کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتے۔ اس طرح وہ مستقبل میں یونیورسٹی کے انتظامی معاملات اور فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہو سکیں گے۔ نتیجتاً وہ نہ صرف ہراسمنٹ بلکہ فیسوں میں اضافے اور دیگر طلبہ دشمن اقدامات کا بھی کامیابی کے ساتھ قلع قمع کر سکیں گے۔