|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، ملاکنڈ|
ریڈ ورکرز فرنٹ کے جانب سے پورے پاکستان میں یوم مئی کے حوالے سے جلسے اور ریلیاں منعقد کی گئیں۔ اسی طرح ملاکنڈ میں بھی دو ہفتے مسلسل کمپئین کے بعد یوم مئی کو 3 بجے ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی جس میں دور دراز سے محنت کشوں اور نوجوانوں نے شرکت کی۔ تقریب میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض باسط عزیز نے سر انجام دئیے۔
تقریب کے پہلے مقرر ریڈ ورکرز فرنٹ ملاکنڈ کے آرگنائزر صدیق جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا کے اندر سرمایہ داری کا بحران ہے جس کا سارا بوجھ حکمران طبقہ محنت کشوں پر ڈال رہا ہے لیکن اس کے خلاف ہر ملک میں محنت کش طبقہ بھی متحرک ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی جب پچھلی حکومت نے نجکاری کرنی چاہی تو ان اداروں کے محنت کشوں نے اس کے خلاف بھر پور مزاحمت کی جس میں کچھ اداروں کے محنت کشوں نے کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ جیسا کہ 2016ء میں پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف تحریک جس پر اس ریاست نے جبر کرتے ہوئے دو محنت کشوں کو قتل کر دیا۔ لیکن محنت کشوں کی بھرپور مزاحمت کی وجہ سے پی آئی اے کی نجکاری روک دی گئی۔ یہ محنت کشوں کی ایک اہم کامیابی تھی۔ موجودہ حکومت بھی ماضی کی حکومتوں کی طرح ملک کے بیشتر اداروں کی نجکاری کا پروگرام پر عمل پیرا ہے جس کے خلاف متاثرہ اداروں کے محنت کش الگ الگ لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کے محنت کش متحد ہو کر اس نظام کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی لڑیں۔
شہاب چکدروال نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمیں مزدورں کے پاس جا کر ان کی زبان میں ان کے مسائل اور ان کے حل پر بات کرتے ہوئے ان کو متحد کرنے اور ایک انقلابی تنظیم میں جوڑنے کی ضرورت ہے۔ آج ایک مزدور، ایک کسان اور ایک طالب علم کو درپیش مسائل کی وجہ سرمایہ داری ہے اس لیے ان سب کو متحد ہو کر لڑنا ہوگا۔ شہاب کے بعد ثناء اللہ نے بات کی اور کہا کہ آج مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم مزدورں کے مسائل پر بات کرنے اکھٹے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے میں ریڈ ورکر ز فرنٹ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمیں یہ موقع دیا۔ اس کے بعد طاہر اللہ نے انقلابی نظم پڑھ کر سنائی۔ نظم کے بعد ننگیال نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ بہت عرصے سے یہ نعرے لگائے جا رہے ہیں کہ دنیا بھر کے محنت کشوں ایک ہو جاؤ، پھر آخر کیا وجہ ہے کہ مزدور بکھرے اور ان کا استحصال جاری ہے۔ ننگیال نے مزدورں کے حوالے سے اپنی شاعری بھی سنائی۔ اس کے بعد عزیز اللہ نے بات کی اور کہا کہ میں سعودی عرب میں مزدور رہ چکا ہوں۔ سعودی عرب کے مزدور بہت تلخ زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور ان کو بہت سارے مشکلات کا سامنا ہے۔اس کے بعد اسد نے کہا کہ کام کی جگہ پر مزدوروں کے لیے کسی بھی قسم کے سیفٹی انتظامات موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے آئے روز مزدور حادثات کا شکار ہوتے ہو رہے ہیں۔
عدنان خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس وقت سرمایہ داری یہ صلاحیت کھو چکی ہے کہ کسی بھی قسم کی اصلاحات کر سکے۔ فلاحی ریاستیں ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں اور وہاں بھی بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے اور ان سے ماضی میں حاصل سہولیات چھینی جا رہی ہیں۔ اپنے باپ دادا کے نسبت اس نسل کی زندگی بد تر ہے۔ عدنان نے مزید کہا کہ بورژوا تجزیہ نگار بھی اب یہ کہہ رہے ہیں کہ 2008ء کے بحران سے بھی ایک بڑابحران سر پر منڈلا رہا ہے۔ ماضی میں جن دانشوروں نے کہا تھا کہ تاریخ کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب سرمایہ داری ایک ابدی نظام ہوگا، وہ بھی اپنے بیانات اور دعووں سے پھر چکے ہیں۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے بہتری کی کوئی امید نہیں اور اس نظام کو ایک متبادل نظام کے ذریعے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ عدنان کے بعد چراغ حسین نے بات کی اور کہا کہ مختلف فارماسوٹیکل کمپنیوں میں کام کرنے والے میڈیکل ریپریزنٹیٹوز کا بد ترین استحصال کیا جا رہا ہے اور دیے گئے ٹارگٹس کو حاصل کرنے کے لیے 16،16 گھنٹے ان کو کام کرنا پڑتا ہے۔
تقریب کے آخر میں ورکرنامہ کے ایڈیٹر راشد خالد نے کہا کہ پوری دنیا کہ اندر سرمایہ داری کوئی ایک مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ قومی سوال حل کرنا بھی سرمایہ داری کا فریضہ تھا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ سرمایہ داری نے قومی سوال حل کر لیا ہے۔لیکن آج پوری دنیا میں پھر سے قومی سوال سر اٹھا رہا ہے۔ اس طرح پاکستان میں بھی قومی جبر اور استحصال بڑھ رہا ہے جس کے خلاف قومی تحریکیں بھی ابھر رہی ہے۔ اسطرح پی ٹی ایم قومی جبر کے خلاف پشتونوں کی تحریک ہے لیکن یہ پی ٹی ایم کا فریضہ تھا کہ وہ تمام دیگر مظلوم قومیتوں اور محنت کشوں کو اپنے ساتھ جوڑتے۔ اسی صورت میں اس ریاست اور اس نظام کے خلاف ایک فیصلہ کن لڑائی لڑی جا سکتی تھی۔ لیکن پی ٹی ایم خود کو دوسرے محکوم قومیتوں اور محنت کش طبقے کے ساتھ جورنے میں نا کام رہا۔اسی طرح ریاست کی بھی یہ کوشش ہے کہ پی ٹی ایم کو پشتونوں تک محدود رکھے جس کے لیے ریاست نے مختلف حربے استعمال کئے۔ راشد خالد نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس وقت مختلف اداروں کے محنت کش الگ الگ اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں جس کہ وجہ سے بہت کم کامیابیاں ملی ہیں۔ اس وقت اہم بات یہ ہے کہ تمام اداروں کے محنت کش متحد ہو کر عام ہڑتال کی جانب بڑھے۔ اسی صورت میں محنت کش طبقہ اس نظام کو شکست دے سکتا ہے اور ایک بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔