|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، ملاکنڈ|
اس وقت پورے ملک میں آٹے کا شدید بحران جاری ہے۔ آٹے کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ اب یہ ایک عام محنت کش کیلئے آسانی سے حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ آٹے کے حصول کیلئے لمبی لمبی قطاروں میں لوگ کھڑے ہو کر ذلیل ہو رہے ہیں۔ ان قطاروں میں بھگدڑ مچنے کی صورت میں میر پور خاص میں ایک محنت کش کی موت بھی واقع ہوچکی ہے۔
آٹے کی قلت اور قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کے خلاف گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں احتجاج ہوئے۔
بنوں، کوہاٹ اور ملاکنڈ درگئی میں احتجاج ہوئے جن میں خواتین نے بھی شرکت کی۔ ان احتجاجوں میں محنت کش عوام کا کہنا تھا کہ وہ اب مزید مہنگائی برداشت نہیں کر سکتے، اب تو انہیں دو وقت کاکھانا تک میسر نہیں۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ آٹے کی قیمتوں میں کمی کی جائے اور ہر جگہ پر سستے آٹے کی دستیابی یقینی بنائی جائے۔
ایک طرف ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے جس کا سارا بوجھ حکمران طبقہ محنت کشوں پر ڈال رہا ہے جبکہ حکمرانوں کی عیاشیوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی ہے۔ اسی طرح ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں، جو کہ درحقیقت محنت کشوں کیلئے تو پہلے سے ہی دیوالیہ ہے۔ اگر دیوالیہ ہو جاتا ہے تو اس کا بوجھ بھی محنت کشوں پر ہی ڈالا جائے گا۔ محنت کش عوام پہلے ہی بھوک کی وجہ سے خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ کچھ ہی دن پہلیلوئر دیر کے علاقے خال میں ایک ماں نے اپنے پانچ بچوں سمیت خود کو اس لیے زہر دے کر مارنے کی کوشش کی کیونکہ بچے بھوکے تھے اور ماں کے پاس بچوں کو کھانے کے لے کچھ نہیں تھا۔
اگر دیکھا جائے تو اس ملک میں دولت کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن اس تمام تر دولت پر ایک فیصد سرمایہ دار طبقے کا قبضہ ہے۔ اس لیے غربت، بیروزگاری، بھوک اور لاعلاجی کا ایک ہی حل ہے کہ تمام ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے مزدور ریاست کا قیام کیا جائے۔ اس کیلئے ملک بھر کے محنت کشوں کو منظم ہو کر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہوگا۔
سوشلسٹ انقلاب کے بعد قائم ہونے والی ایک مزدور ریاست ہی تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام شہریوں کو مستقل روزگار، رہائش، علاج، تعلیم اور دیگر سہولیات فراہم کر سکتی ہے۔