|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، خیبر پختونخوا|
حکومت خیبر پختونخواہ کی جانب سے یہ نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے جس میں وزارتی کمیٹی کی جانب سے زرعی یونیورسٹی پشاور، عبدالولی خان یونیورسٹی مردان اور انجینئرنگ یونیورسٹی مردان کی زمینوں کو اضافی اور بے کار قرار دیا گیا ہے یعنی جو زمینیں ان یونیورسٹیوں کی ملکیت ہیں، حکومت کی جانب سے ان کو بیچنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
یہ زمینیں ماضی میں عوام کے ٹیکسوں سے خریدی گئی تھیں یا کسی نے وقف کر دی تھیں تاکہ مستقبل میں یہی زمینیں نئی یونیورسٹیاں تعمیر کرنے یا موجودہ یونیورسٹیوں کو وسیع کرنے کے کام آ سکیں۔ زرعی یونیورسٹی پشاور کے علاوہ مردان میں جن زمینوں کو بیچے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ دراصل ایک ایجوکیشن کمپلیکس کے کنٹرول میں ہیں۔ ان زمینوں میں امیر محمد خان کیمپس، مردان زرعی یونیورسٹی، مردان انجینئرنگ یونیورسٹی، باچا خان میڈیکل کالج اور عبدالولی خان یونیورسٹی کی زمینیں شامل ہیں۔ ان ساری زمینوں کا حجم تقریباً پانچ ہزار کنال سے لے کر چودہ ہزار کنال بنتا ہے۔
صوبائی حکومت کے مطابق یہ زمینیں بے کار پڑی ہیں اس لیے انہیں بیچنے کی منظوری دی گئی ہے۔ صوبائی حکومت جس نے، گزشتہ گیارہ سے بارہ برس کے عرصے میں صوبے کو بدامنی، بے روزگاری، جنگلات کی بربادی، رشوت ستانی، اقربا پروری، تعلیم کے محکمے کو محض بربادی دی ہے، اب ان زمینوں کے پیچھے پڑ گئی ہے۔
یہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی عوام دشمن اور تعلیم دشمن پالیسیوں کا تسلسل ہے جس کی وجہ سے اس حکومت کے گزشتہ دو ادوار میں تعلیمی محکمے کے مالی خسارے، تعلیمی فنڈز کی کمی، محنت کشوں کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی، محکمہ تعلیم کے ملازمین کی جبری برطرفیوں، تنخواہوں میں کٹوتیوں سمیت کئی عوام دشمن فیصلے دیکھنے کو ملے۔
صوبائی حکومت نے پچھلے مہینے ہی ایک فیصلہ کیا تھا کہ سرکاری غیر سرکاری یونیورسٹیوں کو، جن کی کل تعداد 34 بنتی ہے، کم کر کے پچیس سے بارہ کیا جائے گا۔ اس سے پہلے بھی مالی کرپشن، فنڈز کی کمی کی وجہ سے مختلف یونیورسٹیوں میں کئی ڈیپارٹمنٹس کو تالے لگائے جا چکے ہیں۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تو تعلیمی ایمرجنسی کے دعویداروں نے سمیسٹر فیسوں اور داخلہ فیسوں میں اس قدر اضافہ کر دیا ہے کہ غریب اور محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک خواب بن کر رہ گیا۔ صوبائی حکومت نے اس وقت صوبے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ایک طرف اس نے سوات سے جنگلات کا صفایا کر دیا جب کہ دوسری طرف تعلیم اور صحت کے شعبے کو برباد کر دیا۔
اب وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے انسداد رشوت، بریگیڈیئر مصدق عباسی کے مشورے سے یہ کام کیے جا رہے ہیں کہ کسی طرح سے قانونی راستہ اپنا کر لیگل طریقے سے کرپشن اور لوٹ مار کو ممکن بنایا جا سکے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمینوں کو بھیجنے سے ملنے والے پیسے کیا تعلیم کے فروغ پر خرچ ہوں گے، ملازمین کے مسائل حل ہوں گے، یونیورسٹیوں میں فنڈز کی کمی پوری ہو گی، ریسرچ پر لگیں گے، فیسوں میں کمی کی جائے گی، طلبہ کے ہاسٹل اور ٹرانسپورٹ کے مسائل ہوں گے یا خزانے میں جمع ہو کر حکمران طبقے کی عیاشیوں پر خرچ ہوں گے؟
عمران خان اور اس کی ”لائق“ ٹیم نے گزشتہ بارہ سال سے خیبر پختونخوا کو ایک تجربہ گاہ بنا رکھا ہے جہاں عوام کے وسائل، ان کے حقوق اور ان کی ترقی و خوشحالی کو مذاق بنا دیا ہے۔ ان کی لائبریری بھی عوام نے دیکھی، تعلیمی ایمرجنسی بھی دیکھ لی اور تعلیم کے ساتھ یہاں کے مختلف محکموں کے ملازمین کے ساتھ کیا گیا سلوک بھی دیکھ لیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے محنت کش اور نوجوان صوبائی حکومت کے ان عوام دشمن اقدامات کے خلاف یقیناً اپنے اندر بہت غصہ رکھتے ہیں اور ان مسائل کو حل کے لیے لڑنا اور ان حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں اپنے غصے کے اظہار کے لیے کوئی پلیٹ فارم میسر نہیں ہے۔
انقلابی کمیونسٹ پارٹی ان تمام عوام دشمن اقدامات کی شدید مذمت کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت اتنے وسائل موجود ہیں کہ تمام لوگوں کو مفت اور معیاری تعلیم مہیا کی جا سکتی ہے لیکن حکمران طبقے کی کرپشن، لوٹ مار، عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں پر حکمرانوں کی عیاشی اور ان کی نااہلی کے باعث ایسا ممکن نہیں۔ اس سے بھی واضح اور بڑی حقیقت یہ ہے کہ ہم اس وقت جس نظام میں رہ رہے ہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس میں حکمران طبقہ اپنی عیاشیاں جاری رکھنے کے لیے عوام کو لوٹتا ہے اور اس نظام کے بحران کا سارا بوجھ بھی محنت کش عوام کے کندھوں پہ ڈالتا ہے تاکہ حکمرانوں کی عیاشیاں اور لوٹ مار جاری رہ سکے اور ان کے منافعوں میں کوئی کمی بھی نہ آ سکے۔
اس لیے کمیونسٹ پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ محنت کشوں اور نوجوانوں کے تمام مسائل کے مکمل خاتمے کے لیے بنیادی طور پر اس سسٹم کا مکمل خاتمہ کرنا ہو گا جو محنت کش طبقے کا حقیقی دشمن ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے پورے پاکستان کے محنت کشوں، کسانوں، خواتین اور نوجوانوں کو رنگ، نسل، مذہب، زبان اور قوم کے تمام تفرقات سے بالاتر ہو کر ایک انقلابی پارٹی کے تحت متحد ہونا پڑے گا اور آج یہی کام پاکستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کر رہی ہے جو پورے پاکستان میں محنت کشوں، کسانوں، خواتین اور نوجوانوں کو منظم کر رہی ہے، تاکہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے انسان دشمن سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے تمام تر وسائل اور دولت کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دیا جا سکے اور انہیں چند سرمایہ داروں کی لوٹ مار اور منافعوں میں اضافے کی بجائے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جا سکے۔