|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، خیبر پختونخوا|
خیبر پختونخوا سمیت ملک کے اکثر علاقوں میں اس وقت بارشوں کا ایک خطرناک سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ پچھلے چند روز سے مسلسل بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے برساتی نالوں اور دریاؤں میں سیلابی صورتحال ہے۔ خیبر پختونخوا کے دریاؤں میں اس وقت اونچے درجے کا سیلاب ہے۔
مسلسل بارشوں کی وجہ سے دیر لوئر، دیر اپر، سوات، شانگلہ، بونیر، ملاکنڈ سمیت کئی جگہوں پر سینکڑوں گھر منہدم ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے درجنوں لوگوں کی اموات واقع ہوئی ہیں جبکہ ہزاروں جانور بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
لوئر دیر اسبنڑ کے علاقے یں ایک گھر گرنے سے دو بچے ہلاک جبکہ تین افراد شدید زخمی ہوئے۔
اسی طرح لقمان بانڈہ کے علاقے میں گھر کی چھت گرنے سے ایک بچہ اور تین خواتین فوت ہوئیں۔
تالاش میں ایک گاڑی سیلابی ریلے میں بہہ گئی جس میں ایک شخص فوت ہو گیا۔
اسی طرح لینڈ سلائیڈنگ سمیت دیگر واقعات میں درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔
پہاڑی علاقے لینڈ سلائیڈنگ، برساتی نالوں اور سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے باقی ملک سے منقتع ہو گئے ہیں۔ چکدرہ تا چترال مین شاہ راہ تالاش کے مقام پر برساتی نالے میں بہہ گئی ہے اور ہر قسم کی آمد و رفت بندہے۔
چارسدہ، نوشہرہ، مردان، صوابی سمیت کئی اضلاع اس وقت سیلاب کے لپیٹ میں ہیں۔
گندم کی فصل سبزیوں اور فروٹ کے باغات تباہ ہوگئے ہیں اور کسانوں کا لاکھوں کا نقصان ہوگیا ہے۔
لیکن اس تمام تر صورت حال میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کو سہارا دے رہے ہیں جبکہ حکومت کی طرف سے صرف سوشل میڈیا پر اعلانات کئے جا رہے ہیں کہ فلاں جگہ پر روڈ بند ہے اور فلاں جگہ پر سلائڈنگ ہوگئی ہے وغیرہ۔ لیکن عملاً کوئی ریسکیو کاروائی نہیں کی جا رہی اور نہ ہی سڑکوں کو کلئیر کیا جا رہا ہے۔
اسی سال فروری کے مہینے میں بھی اس طرح سیلابی بارشیں ہوئی تھیں جن کی وجہ سے لوگوں کے گھر گر گئے تھے، مال مویشی ہلاک ہوگئے تھے اور فصل تباہی ہوگئی تھی۔ تب بھی حکومت کے طرف سے ریلیف کے بڑے بڑے اعلانات تو کیے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ جس کا نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ کیا جائے گا، لیکن ابھی تک کسی کو کچھ نہیں ملا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب تو پاکستان میں سیلاب معمول بن چکا ہے لیکن سیلاب کے تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے کوئی انفراسٹرکچر تعمیر نہیں کیا گیا۔ اگر چہ ایسا ممکن ہے اور سیلاب کی تباہی سے بچا جا سکتا لیکن ہمارے حکمرانوں کی تمام تر توجہ صرف اپنی لوٹ مار اور مال کی بندر بانٹ پر جاری اندرونی لڑائیوں پر ہے۔ ان کے پاس ایسے کاموں کیلئے وقت نہیں ہے اور نہ ہی پیسہ۔
ہر سال سیلاب کے نام پر حکمران بیرونی ممالک سے بھیک مانگتے ہیں اور ہر سال امداد کے نام پر کروڑوں اربوں ڈالر ہڑپ کر جاتے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا اصل ذمہ دار منافع خوری کی بنیاد پر قائم سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس نظام میں منافع پہلے ہے اور انسان بعد میں۔ اسی لیے تو پوری دنیا میں بغیر کسی روک ٹوک کے بڑی بڑی کمپنیوں اور فیکٹریوں سے زہریلی گیسوں اور کاربن کا اخراج جاری ہے جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہا ہے۔ مگر ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی تباہی کا بوجھ بھی غریبوں پر ہی گرتا ہے۔ سیلابوں اور طوفانی بارشوں یا پھر شدید ترین گرمی میں غریب محنت کش عوام ہی مرتے ہیں اور ذلیل و رسوا ہوتے ہیں۔ پچھلے سیلاب میں کئی چھوٹے کسانوں کی فصلیں تباہ ہوئیں جنہیں حکومت کی جانب سے کوئی ریلیف نہیں دی گئی۔ دوسری طرف حکمران بارشوں کو شیشے والے کمروں میں بیٹھ کر انجوائے کرتے ہیں اور بس ہیلی کاپٹروں پر جائزہ لینے کا ڈرامہ کرتے ہیں۔
اس لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ کسی این جی او کی خیرات کوئی حل نہیں، نہ ہی اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اور کوئی حل ہو سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی ہی ان سیلابوں کی اصل وجہ ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے اصل ذمہ دار سرمایہ دارانہ نظام اور یہاں کے حکمران ہیں۔ اس لیے ہمیں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔