|رپورٹ: امیر ایاز|
خانوزئی کاریزات علاقائی نوجوانان کی کال پر 20فروری کو خانوزئی شہر اور مضافاتی دیہی علاقوں کے نوجوانوں نے اسلحہ کلچر اور علاقے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی سازشوں کے خلاف کامیاب اور پرامن’’عوامی امن مارچ ‘‘کا انعقاد کیا۔ مارچ میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی جس میں طلبہ اور نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت شامل تھی۔ واضح رہے کہ خانوزئی، جوکہ بلوچستان کی پشتون بیلٹ کے ضلع پشین کی ایک تحصیل ہے اور 100فیصد شرح خواندگی کے حوالے سے پورے پاکستان میں سب سے آگے ہے اور یہ علاقہ انتہائی پرامن علاقوں میں شامل ہے۔ مگر گزشتہ کچھ عرصے سے اس علاقے میں نادیدہ قوتوں کی جانب سے نام نہاد ’امن کمیٹیاں‘ بنائی گئیں، اور اس کے علاوہ شہر اور دیگر مضافاتی علاقوں میں اسلحہ کلچر اور غنڈہ گردی کو ریاستی سرپرستی میں فروغ دینا شروع کیا، جن کا پہلا مسلح مظاہرہ شہر میں نادیدہ قوتوں کی آشیرباد سے ہوا۔ اس مظاہرے کا مقصد لوگوں میں عدم تحفظ، خوف، تعصب، نفرت اور خوف کی فضا کو فروغ دینا تھا۔
علاقے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی اس گھناؤنی کوشش کے خلاف خانوزئی شہر اور علاقے کے نوجوانوں نے کریم پرہر کی سربراہی میں چند دن پہلے ایک کامیاب اجلاس منعقد کیا اور اجلاس میں 20 فروری کو ’عوامی امن مارچ‘ کے انعقاد کا متفقہ فیصلہ ہوا۔
اس عوامی امن مارچ کا آغاز خانوزئی شہر کے گرڈ سٹیشن سے ہوا،جو کہ شہر سے ہوتا ہوا مین چوک پر آکر احتجاجی جلسے کی شکل میں تبدیل ہوا۔ عوامی امن مارچ میں مظاہرین نے مختلف پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر اسلحہ کلچر، دہشت گردی اور غنڈہ گردی کے خلاف نعرے درج تھے۔ مارچ کے شرکا نے شدید نعرے بازی کی جن میں جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری، ان کی سرپرستی، دہشت گردی، غنڈہ گردی اور اسلحہ کلچر کے خلاف نعرے شامل تھے۔ اس احتجاجی جلسے کے سٹیج فرائض عادل زمان نے سرانجام دیے جبکہ صدارت کریم پرہر نےکی۔
احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین جن میں ڈاکٹر مزمل پانیزئی، صدام خان کاکڑ، انجینئر ہمایوں کاکڑ، چئیرمین ملک نعیم اور ولی وطن پال نے کہا کہ گذشتہ عرصے سے بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں مسلسل دہشت گردی کی کارروائیاں ہورہی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں میں عدم تحفظ اور خوف کی فضا پھیل رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف سکیورٹی کے نام پر عام شہریوں کو جگہ جگہ پر تنگ کیا جاتا ہے جبکہ ان تمام سیکورٹی چیک پوسٹوں کے باوجود بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ خانوزئی شہر میں گزشتہ کچھ عرصے سے چند جرائم پیشہ افراد علاقے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی دانستہ طور پر کوششیں کر رہے ہیں جن کی ریاستی سرپرستی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہی لوگ علاقے کے مختلف تھانوں میں اشتہاری ملزمان ہیں مگر اس کے باوجود ان جرائم پیشہ عناصر کو ریاستی اداروں سے فول پروف سیکورٹی اور پروٹوکول ملتا ہے۔ مقررین نے کہا کہ ہم اس عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور حکام بالا سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان جرائم پیشہ افراد کو جلد از جلد گرفتار کیا جائے۔
احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان کے رہنما کریم پر ہر نے کہا کہ جس جنگ کو آج سے چالیس سال پہلے مقتدر قوتوں نے اپنے سامراجی عزائم کو پورا کرنے کیلئے اس خطے میں شروع کیاتھا، اس جنگ کے شعلوں کو یہ مقتدر قوتیں بلوچستان کے پشتون علاقوں تک پھیلانا چاہتے ہیں تاکہ اپنے غلیظ دھندے کو جاری رکھ سکیں۔ کچھ دن پہلے لورالائی میں ارمان لونی کا بہیمانہ قتل اور پے درپے دہشت گردی کے واقعات کیا ثابت کرتے ہیں۔ اتنی منظم سیکورٹی کے باوجود دہشت گردی کے اس طرح کے واقعات کا واقع ہونا بہت سارے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ اس طرح کچھ دن پہلے ریاست اور انتظامیہ کی سرپرستی میں چند غنڈہ گرد اور جرائم پیشہ عناصر نے کلاشنکوفوں کو ہاتھوں میں لہراتے ہوئے خانوزئی جیسے انتہائی پرامن شہر میں بندوق بردار جلسہ کیا۔ اس سارے عمل میں انتظامیہ اور سیکیورٹی ادارے نہ صرف خاموش تماشائی رہے بلکہ ان غنڈہ گرد عناصر کو تحفظ فراہم کرتے رہے۔ ہم خانوزئی کے عوام ان غنڈہ گرد عناصر اور ان عناصر کی پشت پناہی کرنے والے قوتوں پر واضح کرنا چاھتے ہیں کہ ہم آپ کے اس گھناؤنے کھیل کو کسی صورت نہیں چھوڑیں گے۔ ہم ان کو یہ بھی بتانا چاھتے ہیں کہ ہم آپ کی دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت مجھے اپنے نظریات اور سیاسی جدوجہد سے دستبردار نہیں کرسکتی۔
دوستو! آئیں کہ ہم اپنی عقل و شعور اور توانائیوں کو یکجا کرکے متحد ہوں تاکہ اپنے وطن اور اس خطے میں لگائی جانے والی اس آگ کا راستہ روک سکیں۔ آخر میں اُنہوں نے سب دوستوں کا بہت شکریہ ادا کیا۔