|تحریر: بین کری، ترجمہ: جلال جان|
نوٹ: یہ آرٹیکل 22 جون کو شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک کینیا میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں مسلسل شدت آ رہی ہے۔ چند روز قبل احتجاجی مظاہرین نے نیروبی میں پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بول کر اس کے بعض حصوں کو نذر آتش بھی کیا ہے۔ پولیس نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی ہے جس میں کل 23 لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے اور بیشمار زخمی ہوئے ہیں۔ رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے احتجاجی مظاہروں میں شریک ایک نوجوان نے کہا،”ہم باز نہیں آئیں گے۔حکومت ہی پیچھے ہٹے گی، ہم نہیں“۔ بالآخر 26 جون کو کینیا کے صدر روٹو کو ایک انقلابی بغاوت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اُس نے یہ اعلان کر دیا کہ فنانس بل منظور نہیں کیا جائے گا۔ یہ کینیا کے جراتمند عوام کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ کینیا کی عوام اور بالخصوص نوجوانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ منظم جدوجہد کے ذریعے بڑے سے بڑے فرعون کو شکست دی جا سکتی ہے۔ یہ کامیابی پوری افریقی عوام کیلئے ایک مثال بن چکی ہے۔ پورے افریقی براعظم پر ہمیں مستقبل میں مزید بغاوتیں دیکھنے کو ملیں گی۔
دھماکا خیز واقعات نے کینیا کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ ولیم روٹو کی حکومت (جو کہ دراصل آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلام ہے) نے عوام پر بے تحاشہ ٹیکس لگا دیے ہیں۔ حکومت کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے ہر علاقے اور شہر میں نوجوان سیلاب کی صورت اچانک امڈ آئے ہیں۔ اس صورتحال میں انقلابی عنصر موجود ہے اور کافی لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سری لنکا میں جیسا ہوا ویسا کینیا میں بھی ہونے جا رہا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
فنانس بل 2024ء نامنظور
روٹو کے ٹیکس اقدامات، جو کہ 2024ء کے فنانس بل میں پیش کیے گئے ہیں، کینیا کے تباہ حال ہوئی عوام کا معاشی قتل عام ہیں۔ عوام سے اب سرمایہ داری کے گہرے ہوتے بحران کی قیمت ادا کروائی جارہی ہے۔
چند مہینے پہلے یہ لگ رہا تھا کہ ملک ڈیفالٹ ہو جائے گا۔ کینیا بھی ان تمام غریب اور ترقی پذیر معیشتوں کی لمبی فہرست میں ایک ملک بننے جا رہا ہے جو معاشی بربادی کی طرف جا چکے ہیں۔ لیکن یہاں فروری میں ہونے والی 1.5 ارب ڈالر کی بانڈ فروخت کا شکریہ ادا کرنا پڑے گا جس کی وجہ سے حکومت نے بس اتنے پیسے جمع کیے کہ ایک اور بانڈ، جس کی معیاد قریب تھی، اسے ادا کر سکے۔
کینیا کی حکومت کی جانب سے پرانے قرضے کو ادا کرنے کے لئے مزید بلند شرح سود پر نیا قرضہ لیا جا رہا ہے۔ یہ بیوقوفی اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ کینیا کی حکومت کو اپنے بجٹ کا 30 فیصد حصہ قرضے کی ادائیگیوں میں خرچ کرنا پڑتا ہے۔
فوراً ہی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نئے قرضوں کے ساتھ ’مدد‘ کے لیے سامنے آ گئے تاکہ کینیا اپنے طفیلی قرض دہندگان کو سابقہ قرضے کی ادائیگیاں کر سکے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی نئے قرضے کے ساتھ ایک شرط منسلک تھی کہ قرضوں کی واپسی کینیا کے عام شہریوں کی ہڈیوں کا گودا نچوڑ کر کی جائے۔
آئی ایم ایف کے احکامات کی وفاداری سے پیروی کرتے ہوئے، فنانس بل 2024ء کے نام سے پارلیمنٹ میں ایک پیکج پیش کیا گیا جس میں ان تمام وحشیانہ حملوں کو شامل کیا گیا۔ اس بل میں کینسر کے علاج سے لے کر تیل، روٹی اور موٹر سائیکلوں پر بڑے پیمانے پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا۔ سب سے تکلیف دہ وہ اقدام جس نے کینیا کی ہزاروں نوجوان خواتین کو سڑکوں پر لا کھڑا کر دیا ہے وہ ہے ”ایکو ٹیکس“ کا تعارف۔ اس میں حکومت بچوں کے ڈائیپرز اور سینیٹری پیڈ جیسی ضروری اشیا پر ٹیکس لگانے جارہی ہے۔
جلد ہی ہیش ٹیگ #RejectFinanceBill2024 اور اس کے ساتھ ساتھ #OccupyParliament سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگے۔ کسی فرد یا سیاسی جماعت کی قیادت کے بغیر، منگل کے روز نوجوانوں کی اکثریت پر مشتمل بڑے احتجاجوں نے نیروبی اور دیگر شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
احتجاج میں لگنے والے نعرے حکمران طبقے اور وزیراعظم سے نفرت کی واضح عکاسی کر رہے تھے۔ پلے کارڈز پر لکھا تھا: ”روٹو چور ہے!“، ”روٹو کو جانا ہوگا!“، ”جاگو، ہمیں لوٹا جا رہا ہے!“۔ لیکن عوام اس حقیقت سے بھی واقف ہیں کہ کینیا مشرقی افریقہ میں امریکی سامراج کے سٹریٹیجک مفادات کے لیے اہم ہے، اور ان کے رہنما محض سامراج کی کٹھ پتلیاں ہیں۔
ایک پلے کارڈ پر واضح لکھا تھا کہ ”کینیا آئی ایم ایف کا چوہا نہیں ہے جس پر وہ لیبارٹری میں تجربے کرتا رہے“۔ کینیا کی آبادی کی بہت بڑی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ ان احتجاجوں میں واضح طور پر نظر آیا ہے۔ اگرچہ اس نسل کو 1980ء اور 1990ء کی دہائی کے معاشی بحران کا براہ راست تجربہ نہیں ہے، جس میں آئی ایم ایف نے عوام پر سفاکانہ کٹوتیاں مسلط کی تھیں، پھر بھی اس نسل میں یہ احساس موجود ہے کہ یہ پچھلی نسل جیسی نہیں ہے۔ یہ نسل خاموشی سے سب کچھ برداشت نہیں کرے گی، یہ نسل آئی ایم ایف کے احکامات کو قبول کرنے کی بجائے انقلاب کو ترجیح دے گی۔ ”آئی ایم ایف، ہم اپنے والدین کی طرح نہیں ہیں، ہم تمہیں برباد کر دیں گے“، یہ بات ایک اور پلے کارڈ پر رنگین الفاظ میں لکھی تھی جس سے ان احتجاجوں کا عمومی موڈ ظاہر ہوتا ہے۔
تکبر سے بھرے وزیروں کی جانب سے پہلی نظر میں تو احتجاج کو مسترد کر دیا گیا۔ ایک وزیر جان کیاری نے پارلیمنٹ کے فلور سے عوام کا مذاق اڑاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بطور سابقہ گرافکس ایڈیٹر وہ یہ بتا سکتا ہے کہ ان احتجاجوں کی سوشل میڈیا پر گردش کرنی والی تصاویر ایک ماہر فوٹو شاپ ایکسپرٹ کا کام لگتا ہے۔
حکومت نے پہلے تو جبر کے ساتھ جواب دینے کی کوشش کی جس میں لوگوں پر آنسو گیس اور واٹر کینن چلائے گئے اور ان احتجاجوں سے 300 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا، لیکن یہ واضح ہو چکا تھا کہ تشدد کے آزمودہ طریقے عوام کو دبانے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ ریاست کی جانب سے جبر میں اضافے کے باوجود شام تک احتجاجوں میں تعداد بڑھ چکی تھی۔ ایسی ویڈیوز بھی منظر عام پر آئیں جن میں ان خواتین کی جانب سے جیل کی کال کوٹھری کے اندر خوشی کے گیت گائے جا رہے تھے جنہیں ان احتجاجوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔
حکومت اس بدلتی ہوئی صورتحال میں گھبراہٹ کا شکار ہوگئی۔ حکومت نے نیا راستہ اختیار کرنے اور عوام کو رعایتیں دینے کی کوشش کی اور یکے بعد دیگرے مختلف ترامیم متعارف کروائیں جن میں روٹی اور سبزیوں کے تیل پر ٹیکس ختم کر دیا گیا اور عوام کو یقین دلایا گیا کہ ’ایکو ٹیکس‘ صرف تیار شدہ درآمدات پر ہی لاگو ہو گا حالانکہ ایسی ’ترمیم‘ ان اشیاء کے لیے بے معنی ہے جو مقامی طور پر سستے داموں پر پیدا نہیں ہوتیں۔
تحریک اپنے نازک موڑ سے گزر چکی تھی۔ عوام کو اپنی طاقت کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا جس سے ان میں ایک نئی خود اعتمادی پیدا ہوگئی۔ ایسے حالات میں جبر اور رعایتیں دونوں ہی تحریک کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی تھیں۔ جہاں جبر ایک طرف عوامی غم و غصہ بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا وہیں حکومت کی طرف سے دی گئی رعایتیں انہیں مزید مطالبات کرنے کی ہمت دے رہی تھیں۔
دن کے اختتام پر عوام نے عہد کیا کہ وہ جمعرات کے روز، ووٹ کے دن، مزید بڑی تعداد میں سڑکوں پر واپس آئیں گے، تاکہ وزیروں سے مطالبہ کریں کہ وہ فنانس بل میں صرف ترمیم نہیں بلکہ مکمل طور پر اسے مسترد کریں۔
کینیا میں دھماکہ خیز صورتحال
دھماکہ خیز تبدیلی جمعرات کے روز دیکھنے میں آئی۔ بڑے اور چھوٹے شہروں، جن میں نیروبی سے لے کر کسومو، لوڈور، کاکامیگا، کسئی، ناکورو، ایلڈورٹ، نئری، میرو، نانیوکی، ممباسا اور ساحل پر کیلفی تک، لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔ اس شاندار عوامی تحریک نے پہلی دفعہ اس نسل میں نسلی، مذہبی اور قبائلی تقسیم ختم کرتے ہوئے بڑی تعداد میں لوگوں کو متحد کیا ہے، یہ وہی تقسیم تھیں جنہیں سیاسی جماعتیں استعمال کرتے ہوئے دہائیوں سے منظم طریقے سے عوام کا استحصال کرتی آئی ہیں۔
نعرے اس بات کا واضح ثبوت تھے کہ یہ محض احتجاجی تحریک سے بڑھ کر ایک عوامی انقلاب ہے۔ مالیاتی بل 2024ء کے رد کے لئے اور روٹو اور آئی ایم ایف کے خلاف پلے کارڈز کے ساتھ ساتھ، ”انقلاب میں خوش آمدید!“، ”انقلاب نشر کیا جائے گا!“ جیسے نعرے بھی مختلف پلے کارڈز پر لکھے گئے تھے۔
نیروبی اور ممباسا جیسے بڑے شہروں کے علاوہ بھی بڑی تعداد میں لوگ ملک بھر میں سڑکوں پر نکلے۔ مغرب میں واقع کاکامیگا جس کی آبادی 1 لاکھ ہے، میں خود گھروں میں بنائے ہوئے بینروں کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ نکلے۔ اسی طرح روٹو کے آبائی شہر ایلڈورٹ جس کی آبادی 5 لاکھ ہے، میں بھی بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر آئے۔
نینیوکی، جو کہ کینیا کے پہاڑ کی بنیاد پر واقع ایک 70 ہزار کی آبادی والا قصبہ ہے اور نئری جو مرکزی پہاڑی علاقے میں ہے۔ ان دونوں جگہ بھی اسی طرح کے مناظر دیکھے گئے۔
احتجاجوں کی تمام ویڈیوز میں شاذ و نادر ہی 30 سال سے بڑی عمر کا کوئی چہرہ نظر آتا ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اسے’’جنریشن ذی (2000 ء کے بعد پیدا ہونے والی نسل) کا انقلاب“ کہا جا رہا ہے۔ بہت سے سیاستدانوں نے طاقت کے نشے میں چور یہ فرض کر لیا تھا کہ نوجوان بے حس ہیں اور وہ کبھی حرکت نہیں کریں گے۔ 2022ء کے انتخابات میں، جن میں روٹو کو اقتدار میں لایا گیا، اس وقت رجسٹرڈ ووٹرز میں سے کم از کم 40 فیصد نوجوان تھے۔ یہ ایک ایسے ملک کی بات ہو رہی ہے جہاں میڈین ایج 20 سال سے کم ہے اور 65 فیصد آبادی 35 سال سے کم عمر ہے۔
یہاں حکمران ایک بہت بڑی غلطی کر رہے تھے۔ انہوں نے جسے نوجوانوں کی بے حسی سمجھا تھا وہ حقیقت میں سیاسی نظام سے مکمل لاتعلقی اور نفرت کا اظہار تھا۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے لیے کم مواقع اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے پیشِ نظر انہوں نے پچھلے ہفتے واضح پیغام دے دیا ہے۔ ایک ٹویٹر صارف نے واضح الفاظ میں یہ لکھا کہ ”ہمارے پاس نوکریاں نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی مستقبل، لہٰذا ہمارے پاس آپ کو گرانے کے لیے وقت ہی وقت ہے، اور ہمارے پاس کھونے کچھ نہیں ہے۔“
پارلیمنٹ کے فنانس بل پاس کرنے کے بعد
جیسے جیسے دوپہر گزرتی گئی، سب کی نظریں پارلیمنٹ کی عمارت پر تھیں۔ فنانس بل 2024ء پر ووٹنگ کا آغاز ہوا جس میں 204 ووٹوں کے مقابلے میں 115 ووٹوں سے اراکین پارلیمنٹ نے اس ناپسندیدہ فنانس بل کو پاس کر دیا۔
اس موقع پر اس تحریک میں خواتین کے کردار اور ان کے ’سرکاری‘ نمائندوں کے کردار کے بارے میں بات کرنا بھی بہت ضروری ہے۔
پہلے لمحے سے ہی ان احتجاجوں میں جو چیز قابل ذکر رہی ہے وہ کینیا کی معاشرتی طور پر سب سے زیادہ مظلوم طبقے کی شرکت رہی ہے خاص طور پر محنت کش خواتین کی جنہیں ’عام‘ حالات میں سیاست میں حصہ لینے سے محروم رکھا جاتا ہے۔
ماہواری کی مصنوعات پر ٹیکس خواتین کیلئے خاص طور پر ظالمانہ اور شرم ناک دھچکا تھا وہ بھی ایک ایسے ملک میں جہاں 65 فیصد خواتین ضروری صفائی کی مصنوعات خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتیں، جس کی وجہ سے بہت سی خواتین کے لیے کام کرنا یا سکول جانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ ہزاروں خواتین کے لیے آخری تنکا ثابت ہوا۔
خواتین کے عوامی زندگی کے تمام شعبوں میں داخل ہونے میں ایسی ہی رکاوٹیں ہیں اسی لیے کینیا میں تاریخی طور پر بہت کم خواتین اراکین پارلیمنٹ رہی ہیں۔ اس کا ’حل‘ نکالنے کے لیے آئین میں پارلیمنٹ میں ’خواتین نمائندوں‘ کے لیے کوٹہ شامل کیا گیا ہے۔
انہی خواتین نمائندوں میں سے کچھ، جن میں گلوریا اوروابا جیسی وزراء شامل ہیں، جنہوں نے ماہواری کی غربت کو ختم کرنے کی مہم چلا کر اپنے ہی سیاسی کیریئر کو فروغ دیا ہے۔ احتجاج شروع ہونے سے چند دن پہلے خواتین کی اس’نمائندہ‘ کے ساتھ ایک چھوٹا سا واقعہ پیش آیا۔ جب ولیم روٹو نے تقریر ختم کی تو وہ گلوریا اوروابا کی طرف مڑا اور ہلکے سے اس کے گالوں کو دبایا جب کہ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
یہ چھوٹا سا واقعہ جسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا، اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ان ’خواتین نمائندوں‘ کا باقی نظام کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ درحقیقت وہ حکمران طبقے کی منتخب کردہ کٹھ پتلیاں ہیں جنہیں مظلوم خواتین کی بڑی تعداد کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ ان کی مدد کے لیے کچھ کیا جا رہا ہے۔
آخر میں خواتین نمائندوں کی اکثریت، جن میں خود اوروابا بھی شامل تھی، نے اپنے حکمران مرد ساتھیوں کے ساتھ مل کر کینیا کے عوام پر نئے ظالمانہ معاشی حملے، جن میں سینٹری پیڈز پر ٹیکس عائد کرنا بھی شامل تھا، کے حق میں ووٹ دیا۔
خواتین نمائندے بھی باقی اراکین پارلیمنٹ کی طرح عوامی غم و غصے کا مرکز ہیں (سڑکوں پر ان نمائندوں کو ’ایم پِگز‘ کہا جا رہا ہے)۔ اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ کوٹے سے لوگوں کو کس قدر دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ سڑکوں پر عوامی انقلابی تحریک نے خواتین کو سیاسی میدان میں شامل ہونے کا حقیقی راستہ دکھایا ہے؛ وہ یہ کہ جب عوام متحرک ہوتے ہیں اور اپنی فتح پر اعتماد رکھتے ہیں تو پھر خواتین بھی عملی جدوجہد صرف شامل ہی نہیں ہوتیں بلکہ سب سے زیادہ مضبوط اور پر عزم لڑاکا پرت کا کردار ادا کرتی ہیں، جیسا کہ کینیا کی خواتین نے اس بار کر دکھایا ہے۔
پارلیمنٹ پر قبضہ کرو
جیسے ہی پارلیمنٹ میں ووٹنگ کی خبر باہر نکلی تو عوام بھی طیش میں آگئی اور نیروبی شہر کی سڑکیں عوام سے بھر گئیں۔ اب واضح ہو گیا تھا کہ تحریک کو مزید آگے جانا ہوگا۔
اس سارے عمل میں جس میں ناپسندیدہ قانون سازی کو پاس کروایا گیا تھا، ان اقدامات میں سے ایک اہم اقدام صدر ولیم روٹو کی طرف سے قانون کی منظوری بھی تھی۔ لہٰذا عوام نے صدارتی محل، سٹیٹ ہاؤس کی طرف مارچ کرنا شروع کر دیا، اور شام تک ہیش ٹیگ #OccupyStateHouse (پارلیمنٹ پر قبضہ کرو) ٹرینڈ کرنے لگا۔
ہزاروں نوجوانوں کے ذہنوں میں انقلاب لانے اور صدر کو ہٹا دینے کا خیال جڑ پکڑنے لگا۔ یہ سب دو سال قبل سری لنکا میں بننے والے جذباتی مناظر کی یاد تازہ کررہے تھے جب سری لنکا میں عوام نے پولیس کو پیچھے دھکیل کر صدارتی محل پر قبضہ کر لیا تھا اور صدر گوتابایا راجاپکشا ملک سے بھاگنے پر مجبور ہوگیا تھا۔ احتجاجوں میں موجود کچھ لوگوں نے تو مذاقاً پوچھنا بھی شروع کر دیا کہ کیا سٹیٹ ہاؤس میں بھی کوئی نجی سوئمنگ پول ہے جہاں ہم عام عوام تیر اکی کر سکیں!
پولیس مکمل طور پر ناکام ہو چکی تھی اور یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ عوام نے ظالمانہ پولیس کے جبر کا خوف کھو دیا ہے۔ اب تک اگر دیکھا جائے تو کینیا کی پولیس واقعی ایک خوفناک قوت کے طور پر موجود رہی ہے جس کا خوف ان احتجاجوں سے پہلے قائم تھا جو کہ بھتہ خوری، گمشدگیوں، قتل اور نسلی تشدد میں ملوث رہی ہے۔ لیکن عوامی تحریک کے دھماکے نے اس کرپٹ پولیس جیسے ادارے کو بھی حیران کر دیا ہے۔
پورے دن میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے نعروں اور بنائے گئے پلے کارڈز میں نظر آنے والے عوامی موڈ کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ تھا ”ہم مزید خوفزدہ نہیں ہوں گے“۔ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا ”مت ڈرو! اب نہیں ڈریں گے!“۔ ایک اور مقبول نعرے کے طور یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی ”جب ہم اپنا خوف کھو دیتے ہیں، تو وہ اپنی طاقت کھو دیتے ہیں“۔
اس نعرے میں ایک حقیقت ہمارے سامنے واضح ہوتی ہے کہ تحریکوں میں ایک لمحہ آتا ہے جب عوام کا خوف ختم ہو جاتا ہے تو پھر حکمران طبقہ عوام کے سیلاب کو روکنے میں مکمل ناکام اور بے بس ہو جاتا ہے۔ کینیا کی عوامی تحریک اس اہم لمحے سے گزر چکی ہے۔ اس ساری صورتحال سے آگے چل کر مزید انقلابی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں جو آنے والے دنوں میں تیزی سے سامنے آئیں گی۔
جب ریاست کا سامنا ایک ایسی تحریک سے ہوا جسے وہ شکست نہیں دے پارہی تھی تو پھر پولیس کے اپنے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی، یہ عمل ہم نے ماضی کے کئی انقلابات میں بھی دیکھا ہے۔ متعدد ویڈیوز میں پولیس یا تو پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئی یا انہیں تحریک سے مکمل خوف زدہ ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہاں تک کہ کئی جگہوں پر پولیس کو عوام کے ساتھ میل جول کرتے ہوئے دیکھا گیا۔
لیکن رات ختم ہونے سے پہلے سرمایہ دار ریاست نے عوام کو خونخوار جبر کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ یہ بات واضح رہے کہ اگرچہ عوام پر امن احتجاج پر اصرار کررہی تھے، لیکن حکمران طبقہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جبر کے ذرائع استعمال کرنے سے کبھی بھی نہیں ہچکچائے گا۔
مقامی وقت کے مطابق تقریباً رات آٹھ بجے، ایک نوجوان، 24 سالہ ریکس کانیکے مسائی کو سادہ لباس میں ملبوس ایک پولیس افسر نے بڑی سفاکی کے ساتھ گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
مکمل ہڑتال
عوامی غم و غصے کو مزید بڑھانے اور انقلابی نتائج اخذ کرنے میں ریکس مسائی کے قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ آنے والے ہفتے میں احتجاجوں کی شدت میں مزید اضافہ کرنے کی حکمت عملی بنائی جارہی ہے۔ رات ڈھلتے ہی ایک نیا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے لگا: #TotalShutdown (مکمل پڑتال)۔ اب 25 جون کو عام ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔
تحریک کو آگے بڑھانے کا یہی درست طریقہ ہے۔ موجودہ قاتل حکمرانوں نے عوامی مظاہروں کو مکمل نظر انداز کیا ہوا ہے۔ ابھی ریکس مسائی کا خون بھی خشک نہیں ہوا اور روٹو فناس بل 2024ء پر مکمل عمل درآمد کروانے کے عزم کا اظہار کر رہا ہے۔
کینیا کے سماج میں ایک ایسی طاقت بھی ہے جسے کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے بغیر نہ کوئی پہیہ چلتا ہے اور نہ ہی کوئی بلب جلتا ہے اور وہ طاقت محنت کش طبقے کی طاقت ہے۔ ایک عام ہڑتال ہی اگلا درست قدم ہوسکتا ہے۔
اس عام ہڑتال کی قیادت کون کرے گا؟ سینٹرل آرگنائزیشن آف ٹریڈ یونینز (COTU-K) کی قیادت کو اب عام ہڑتال کی کال دینی چاہیے لیکن حالیہ واقعات کے دوران یونین قیادت کا کردار شرمناک رہا ہے جس کی وجہ سے عوام میں ان کے لیے نفرت بھی موجود ہے جس کی بنیادی وجہ انکا گھناؤنا کردار ہے جو انہوں نے روٹو، آئی ایم ایف اور موجودہ حکومت کو بچانے میں ادا کیا ہے۔
جب عوام فنانس بل کو ”رد کریں، ترمیم نہیں“ کا نعرہ لگا رہے تھے اسی وقت COTU-K کی قیادت پارلیمنٹ کی معمولی رعایتوں کی تعریف کر رہی تھی۔ اس سے بھی بدتر، COTU-K کے جنرل سیکرٹری فرانسس اٹولی نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ”ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ، ’کیوں کینیا کے شہریوں پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے؟‘ ٹیکس تو لوگوں پر ہر جگہ لگایا جاتا ہے۔ اور واقعی اگر ہم ٹیکس ادا کریں اور پیسہ صحیح طریقے سے خرچ ہو تو ہم قرض لینے کے مسئلے سے بچ جائیں گے۔“
ان نالائق لوگوں کو ٹریڈ یونینز کی قیادت سے باہر نکالنا چاہیے۔ لیکن اس وقت تک وہ ان طاقتور تنظیموں کو مفلوج کر کے رکھیں گے اور ہر ممکن کوشش کریں گے کہ یونین کی شکل میں تحریک کو منظم اظہار دینے سے روکا جائے۔ موجودہ صورتحال میں عوام کو خود آگے بڑھنا ہوگا۔ مکمل عام ہڑتال کو وسیع تر ممکنہ دائرہ کار تک پھیلانے کے لیے نوجوانوں کو ہڑتالی کمیٹیاں منظم کرنی ہوں گی۔
ہر محلے اور کام کی جگہ پر نوجوانوں کو کمیٹیاں تشکیل دینی چاہئیں تاکہ ہڑتال کو منظم کیا جاسکے۔ ہر فیکٹری،کام کی جگہ اور کمیونٹی میں بڑے اجتماعات بلا کر بوڑھے اور زیادہ قدامت پسند پرتوں کو بھی اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے عوام کو احتجاجی تحریک کے پروگرام پر قائل کرنا ہوگا۔
یہ کمیٹیاں ایک دوہرا کردار بھی ادا کر سکتی ہیں، ایک طرف تو یہ کمیٹیاں مزید پولیس تشدد کے خلاف عوام کا دفاع کرسکتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ شہری، علاقائی اور ملکی سطح پر رابطہ قائم کر کے وہ ایک متبادل طاقت کے طور پر سامنے آ سکتی ہیں، تاکہ وہ واقعی روٹو اور وزیروں کو ہٹا سکیں۔ انہیں مزدور طبقے، غریبوں اور نوجوانوں کی طاقت کے منظم اداروں سے ہی ہٹایا جاسکتا نہ کہ ایک نئی پارلیمنٹ، ایک نئی کابینہ اور ایک نیا صدر کوئی متبادل ہوسکتا ہے۔
سوشلسٹ کینیا اور ایک سوشلسٹ افریقہ کی جانب بڑھو!
2022ء میں سری لنکا میں جو کچھ ہوا اسے کینیا میں دہرانے کی باتیں بہت زیادہ ہو رہی ہیں لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ایک بار جب سری لنکا کے صدر کو عوام کی جانب سے ہٹا دیا گیا تو اس کی جگہ نیا صدر لا کر بٹھا دیا گیا لیکن وہ بھی اسی پرانے حکمران طبقے کی کٹھ پتلی ہی تھا۔
یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ پچھلے دو سالوں میں سری لنکا کے لوگوں کے لیے زندگی جہنم بن گئی ہے جو اس چھوٹے سے جزیرے نما ملک میں مایوسی کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ کبھی’’جنت جزیرہ“ کہلانے والے سری لنکا کو آج ”غلام جزیرہ“ کہا جا رہا ہے۔
سری لنکا کے انقلاب کے دوران نظام کو جڑ سے نہیں اکھاڑا گیا۔ اب سری لنکا کے محنت کش عوام کو سرمایہ داری کے بحران کی قیمت چکانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کینیا میں ایسے نتائج سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پرانی سرمایہ دارانہ ریاست کو توڑ دیا جائے اور سرمایہ دار طبقے کی جائیداد ضبط کی جائے اور سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔
ماضی میں مغرب نے کینیا کو جنت سے تشبیہ دے کر بہت تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ یہ امید اور خوشحالی کی علامت ہے۔ مشرقی افریقہ کا سب سے خوشحال ملک کہہ کر سرمایہ داری اور ’ترقی‘ کی کامیابی کی کہانیاں سنائی جارہی تھیں اور (سب سے اہم) کینیا نے مغربی ممالک کے لیے چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے سامنے ایک قلعہ کا کردار ادا کیا تھا۔
یہ واقعات حقیقی حالات کو بے نقاب کرتے ہیں۔ کینیا امیروں کے لیے کھیل کا کھلا میدان ہے۔ کینیا کی غیر ملکی کرنسی کی آمدن کا بہت بڑا حصہ سیاحت کی صنعت سے آتا ہے جس میں امیر سیاح دیہی علاقوں میں سفاری (جنگلی جانور وغیرہ دیکھنے کا سفر) کرتے ہیں۔ بحران سے پہلے بھی کینیا کے سب سے امیر 0.1 فیصد افراد کے پاس اتنی ہی دولت تھی جتنی کہ سب سے غریب 99.99 فیصد افراد کے پاس ہے۔ اس حقیقت پر غور کریں! یہ ایک غریب ملک نہیں ہے، بلکہ ایک امیر ملک ہے جسے سامراج اور اس کی خدمت میں مگن حکمران طبقے نے غربت میں دھکیل دیا ہے۔
2020ء کے بعد سے جس ماڈل کے ’شادیانے بجائے جا رہے تھے‘ وہ ماڈل بھی ختم ہو گیا ہے۔ نہ صرف سیاحت ختم ہو گئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کرنسی کے ذخائر بھی اور عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری نے دبوچ لیا، جبکہ بڑھتے ہوئے ڈالر اور شرح سود نے ملک کو دیوالیہ پن کے قریب پہنچا دیا۔ اس بحران کی قیمت کون چکائے گا؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔
محنت کش عوام کے لیے سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اس نظام کو ختم کر کے اس کی جگہ جمہوری منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت قائم کی جانی چاہیے۔ صرف اسی راستے پر چل کر عوام کو ایک مستقبل ملے گا جو انسانیت کے شایان شان ہو۔
ایک بار جب کینیا کے مزدور برسر اقتدار آئیں گے تو ہی ممکن ہو سکتا ہے کہ قرضے منسوخ کیے جائیں۔ بڑی بڑی کاروباری کمپنیوں اور غیر ملکی سرمایہ داروں کے اثاثے قومیائے جائیں، ملک کی وسیع قدرتی دولت کو قومیایا جائے، معیشت کی منصوبہ بندی کر کے سب کی زندگی کے معیار میں نمایاں بہتری لائی جائے۔ کینیا میں قائم ہونے والی ایسی سوشلسٹ جمہوری مزدور ریاست پورے براعظم اور پوری دنیا کے مظلوم عوام کے لیے روشنی کا مینار بن جائے گی۔ یہ ایک حقیقی انقلاب ہو گا جو جلد ہی مشرقی افریقہ اور دور تک پھیل جائے گا۔