|تحریر: بین کری، ترجمہ: فرحان رشید|
پچھلے ہفتے انقلابی نوجوانوں کی کینیا کی پارلیمنٹ کی عمارت پر چڑھائی نے ساری دنیا اور کینیا کے سیاستدانوں کو حیران کر دیا ہے اور حکمران طبقہ پریشانی اور افراتفری کا شکار ہے۔ وحشیانہ طاقت عوام کو سڑکوں سے ہٹانے میں ناکام رہی۔ حکومت کو دھوکہ دہی، چال بازی اور اشتعال انگیزی کے ملاپ پر مبنی نئے طریقے اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سرکاری طور پر، روٹو نے فنانس بل کو ختم کر دیا ہے، لیکن قوائد کی رو سے پارلیمنٹ اسے اب بھی پاس کر سکتی ہے۔ حقیقت میں، یہ پہلے ہی واضح ہو چکا ہے کہ وہ محنت کشوں اور غریبوں کے خلاف وہی معاشی پالیسی دوسرے ذرائع سے نافذ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
لیکن کینیا کے نوجوانوں کی بڑی تعداد کیلئے اب یہ صرف فنانس بل 2024 کا مسئلہ نہیں رہا۔ پچھلے منگل اور جمعرات کے واقعات کے بعد، جب حکومت کی گولیوں سے 30 لوگ مارے گئے (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق)، لاکھوں لوگوں نے اس حکومت کو گرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ’سگائی کا قصاب‘ کے نام سے مشہور روٹو کو اب جانا ہوگا۔
لیکن اس منگل کو ہونے والے نئے احتجاجوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے غور و فکر کی ضرورت ہے۔
سڑکوں پر لوگوں کی تعداد میں کمی آ چکی ہے۔ روٹو کی طرف سے دی گئی جزوی رعایتوں کا یہی مقصد تھا۔ دوسری طرف کرائے کے شرپسندوں اور سلیکٹیوو پولیسنگ کے ذریعے ان احتجاجوں کا رُخ شرانگیزی اور لوٹ مار کی طرف موڑا گیا۔ مقصد جتنا سادہ تھا اتنا ہی مکروہ بھی کہ، تحریک کے ایک حصے کو عوام سے الگ کیا جائے تاکہ سب سے زیادہ ناقابل مصالحت انقلابی عناصر کو تنہا کیا جا سکے، اور جبر کو جاری رکھنے کا جواز پیش کیا جا سکے۔
انقلابی کیسے حکمران طبقے کی ان کوششوں کو روک سکتے ہیں، اور کس طرح یقینی بنائیں کہ نہ صرف فنانس بل ختم ہو بلکہ روٹو اور اس کی پوری حکومت کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جائے؟
کٹوتیاں جاری رہیں گی
پچھلے ہفتے پارلیمنٹ پر چڑھائی کے فوری بعد، روٹو کا ابتدائی ردعمل حکمران طبقے کی غرور اور بیوقوفی کی عکاسی کرتا تھا۔ اس نے ٹیلی ویژن پر ایک جذباتی تقریر کی، جس میں پُرامن نوجوانوں کو ”غدار مجرم“ قرار دیا، جبکہ عوام کے خلاف فوج کو تعینات کرنے کا عہد بھی کیا۔
تاہم، اگلے دن، روٹو نے اعلان کیا کہ اس نے سڑکوں پر موجود لوگوں کی بات سنی ہے اور فنانس بل 2024ء کو قانون بنانے کی بجائے پارلیمنٹ کو واپس بھیجا جائے گا۔
واضح طور پر، حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں میں اب کچھ سمجھدار دماغ سامنے آئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ تحریک کو براہ راست کچلنا ممکن نہیں۔ روٹو کی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانا کینیا کے حکمران طبقے کے نقطہ نظر سے پاگل پن ہوتا۔ حقیقت میں، جب پچھلے جمعرات کے احتجاج میں فوجیوں کو تعینات کیا گیا، تو انہیں واضح طور پر مظاہرین پر گولی نہ چلانے کے احکامات دیے گئے تھے۔ اس کی وجہ صاف ظاہر تھی۔
عوام نے عام سپاہیوں کا پرتپاک استقبال کیا، اور عوام انہیں نفرت انگیز پولیس کی گولیوں کے خلاف اپنے محافظ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ اگر سپاہیوں کو عوام پر گولی چلانے کا حکم دیا جاتا، تو کیا ہوتا؟ فوج میں فوری تقسیم تقریباً یقینی ہو جاتی، اور اس کے کچھ دیر بعد حکومت گر جاتی۔
لیکن اگر کسی معصوم شخص کی یہ سوچ ہے کہ فنانس بل کے منسوخ ہونے پر معاملہ ختم ہوگیا، تو افسوس ہے کہ وہ غلط تھے۔ حکومت اب بھی آئی ایم ایف اور سامراجیوں کو اپنا حصہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس نے اس مقصد کے لیے منصوبے بنانا شروع کر دیے ہیں۔
ٹیکس بڑھانے کی بجائے، روٹو نے اس مقصد کے حصول کیلئے فوری طور پر کٹوتیوں کا اعلان کیا ہے۔ روٹو نے تمسخر اُڑاتے ہوئے کہا ہے کہ ”کینیا کے لوگوں نے بلند آواز میں کہا ہے کہ وہ کینیا کے لیے ایک کم خرچ بجٹ چاہتے ہیں“۔ حکومت نے پہلے ہی 46 ہزار اساتذہ کی برطرفی اور سڑکوں کی تعمیر، صحت، رہائش اور چھوٹے کاروباروں کے لیے امداد میں بڑی کٹوتیوں کا اعلان کر دیا ہے۔
اور پھر یہ اتفاق دیکھیں: کہ فنانس بل کی منسوخی کے صرف پانچ روز بعد کینیا پر معاشی طور پر غالب مشرقی افریقی کمیونٹی نے متعدد محصولات متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور یہ محصولات ان ہی اشیاء (بشمول ڈائپر، فون اور کھانے کا تیل) پر لاگو ہوتے ہیں جن پر روٹو نے ابتدا میں ٹیکس لگانے کا ارادہ کیا تھا۔
عوام نے روٹو کی قانون سازی کو شکست دی۔ یہ ایک کامیابی تھی۔ لیکن جب تک حکمران طبقہ اقتدار میں ہے، وہ بحران زدہ سرمایہ داری کے تحت ملک پر مسلط کردہ حالات کی وجہ سے بار بار اسی پالیسی کی طرف آتے رہیں گے: کہ محنت کشوں اور غریبوں کو بحران کی قیمت چکانے پر مجبور کیا جائے۔
منگل کو کیا ہوا؟
تحریک کے سب سے اہم مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے روٹو نے فنانس بل سے دستبرداری اختیار کی، جس کی وجہ سے جب اس منگل کو عوام دوبارہ سڑکوں پر نکلے تو ان کی تعداد قدرے کم نظر آئی۔ لیکن حکومت نے اپنے اگلے اقدامات واضح طور پر تیار کر رکھے تھے۔
ہزاروں ناقابل مصالحت اور انقلابی نوجوان منگل کو نکلنے والے تھے۔ لیکن یہ واضح تھا کہ ان کے لئے پہلے ہی کچھ مختلف تیار کیا گیا تھا۔
مظاہرین نے سب سے پہلی چیز جو دیکھی وہ یہ کہ نیروبی-تھیکا ہائی وے، نیروبی-نکورو ہائی وے، ممباسا-مالندی ہائی وے، اور کیسی-کیروکا ہائی وے سمیت دیگر شاہراہیں صبح سے ہی بند کر دی گئی تھیں۔
پارلیمنٹ کی عمارت اور سٹیٹ ہاؤس جیسے اہم مقامات سے دور رکھ کر مظاہرین کو مایوس کرنا واضح مقصد تھا۔
جب مظاہرین ایک دفعہ اپنی کمیونٹیز کو لوٹ جائیں تو ذاتی املاک اور چھوٹے کاروباروں کو نذرِ آتش کرکے ہنگاموں کو بھڑکانا حکومت کا مقصد تھا۔ سوشل میڈیا پر ہر جگہ بات ہو رہی تھی کہ کرائے کے غنڈے اور شر انگیز، مظاہرین کے بھیس میں لوٹ مار اور ہنگامہ آرائی کا آغاز کر رہے ہیں اور مظاہرین پر حملے کررہے ہیں اور ان کو زخمی کررہے ہیں۔
یہ پہلے ہی ثابت شدہ ہے کہ حکومت کرائے کے غنڈوں کو بطریقِ احسن استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پہلے ہی پچھلے جمعرات کو عمر سودی کے بھرتی کردہ غنڈوں کی جانب سے ایلڈوریٹ میں مظاہرین کو دھمکانے کی ویڈیوز گردش کر رہی تھیں۔
لیکن ان غنڈوں نے جو بھی کردار ادا کیا ہو، یہ واضح ہے کہ ہنگامہ آرائی حکومت کے تیار کردہ منصوبے کے مطابق شروع ہوئی۔ جہاں ایک ہفتہ پہلے پولیس نے پارلیمنٹ کے باہر پُرامن عوام پر دہشت پھیلائی تھی، وہاں کل کی فوٹیجز میں نظر آتا ہے کہ وہی پولیس ہجوم کے ذریعے پھیلائے گئے انتشار کے دوران بے عمل کھڑی رہی۔
آگے کیا؟
حکومت سڑکوں پر انتشار پھیلانے میں کامیاب رہی۔ حکومت کا مقصد تحریک کو تقسیم کر کے اسے کچلنا ہے۔ وہ اس میں کامیاب ہوں گے یا نہیں، یہ ایک اور سوال ہے: لیکن جس صاف ستھرے طریقے سے حکومت نے انتشار کے ذریعے لوگوں کو دھوکہ دینے کی اُمید کی ہے اتنے لوگوں کو یہ بیوقوف نہیں بنا سکے گی۔
مگر پھر بھی، وہ اپنے منصوبوں پر آگے بڑھ رہے ہیں، جن میں اب گرفتاریوں اور اغوا کاریوں کو شدت دینا شامل ہے۔
پہلے ہی کچھ افراد پر ”روٹو کو جانا ہوگا“ کی ٹوئٹ کرنے پر مجرم قرار دیا جاچکا ہے۔
یہ واقعات انقلابی محنت کشوں اور نوجوانوں کو ایک سبق سکھا رہے ہیں۔ انقلاب کوئی ایک ایکٹ کا ڈرامہ نہیں ہوتا۔ عوام نے پچھلے منگل کو اپنی بہت زبردست طاقت کو محسوس کیا ہے۔ لیکن گزشتہ روز یہ ثابت ہوا ہے کہ صرف زبردست طاقت کافی نہیں ہے۔
عوام کا سامنا ایک مضبوط دشمن سے ہے، جو کہ کینیا کا سرمایہ دار طبقہ ہے، جس کے پیچھے مغربی سامراج کی حمایت موجود ہے۔ یہ دشمن لڑائی کے بغیر ہار نہیں مانے گا۔
یہ دشمن ہر صحیح غلط طریقہ استعمال کرے گا تاکہ عوام کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ آئے روز بڑھتے ہوئے جبر اور استحصال کے طوق کو قبول کریں۔ اس طبقاتی دشمن کے پاس تنظیم،اور مادی ذرائع ہیں اور یہ اپنے مفادات کا شعور رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔
تحریک کے آغاز سے ہی ہم نے اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ عوام کو بھی اس قدر منظم ہونا ہوگا اور کل کے واقعات نے واضح طور پر اس حقیقت کو عیاں کیا ہے۔
”بغیر قائد کے، بغیر قبیلے کے، بغیر جماعت کے“ یہ نعرہ اس لحاظ سے مثبت تھا کہ یہ ہمارے طبقاتی دشمنوں کے کیمپ سے منتخب کردہ قائدین کو رد کرتا ہے، جیسا کہ اوڈینگا کے گرد موجود روٹو کی وفادار اپوزیشن کا کیمپ۔
لیکن بغیر واضح تنظیم اور قیادت کے یہ خدشہ موجود رہتا ہے کہ حکومت کی چالبازیوں سے جیسے کہ ہم نے گزشتہ دنوں میں دیکھا، عوام مایوس ہوسکتی ہے یا الجھ سکتی ہے۔ ہم نے ہر کام کے جگہ، سکول اور کمیونٹی میں کمیٹیوں کی ضرورت کو اسی لیے اٹھایا ہے تاکہ تحریک کو اس کے اندر سے اور واضح تنظیمی راستے سے ایک مخلص اور انقلابی قیادت فراہم ہوسکے۔
جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ایسی تنظیم محنت کش طبقے کو جدوجہد میں شامل کرنے میں مدد کرسکتی ہے تاکہ وہ اپنی زبردست طاقت کو استعمال کرتے ہوئے معیشت کا پہیہ جام کرسکیں۔ یہ شعوری طور پر مسلح افواج کے عام سپاہیوں کے ساتھ جُڑ کر انہیں اپنی طرف لا سکتی ہے۔ یہ احتجاجیوں کے روپ میں چھپے کرائے کے شرانگیزوں کا نقاب چاک کرنے اور ان کو نکال باہر کرنے اور حکومت کی کسی بھی گھناؤنی چال کے خلاف احتجاجوں کی حفاظت اور خود دفاع فراہم کر سکتی ہے۔
ہم اس راستے پر چلنے کی تاکید کرتے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ بھی کافی نہیں ہے۔
روٹو نے رعایتیں دی ہیں۔ اس سے کچھ لوگ عارضی طور پر مطمئن ہوئے ہیں لیکن بہت جلد یہ بات عوام کی اکثریت پر واضح ہوجائے گی کہ روٹو نے ظالامانہ دھوکہ دیا ہے۔ نوجوانوں کی ہراول پرتیں پہلے ہی اس حقیقت کا ادراک حاصل کرچکی ہیں کہ فنانس بل کی منسوخی ایک دھوئیں کی چادر ہے جس کے پیچھے معاملات معمول کے مطابق حاری رہیں گے۔ مغربی سامراجی اور کینیا کے سرمایہ دار طبقے کا پروگرام آج بھی ایجنڈے پر ہے۔
محنت کشوں اور نوجوانوں کی ہراول پرتوں کو مل کر انقلابی پارٹی بنانی ہوگی جس کے ذریعے منظم انداز میں تحریک چلاتے ہوئے حکومت کے جھوٹوں کو بے نقاب کرنا ہوگا، اور اس حقیقت کو عیاں کرنا ہوگا کہ فنانس بل فقط ان بہت سارے اقدامات میں سے ایک اقدام تھا جن کے ذریعے سرمایہ دارانہ بحران کا سارا بوجھ محنت کشوں اور غریبوں پر ڈالا جارہا ہے۔ ہمیں عام عوام پر واضح کرنا ہوگا کہ صرف فنانس بل ہی نہیں، صرف روٹو ہی نہیں، بلکہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کوہی ختم کرنا ہوگا تاکہ عوام کے لیے اچھی زندگی کی ضمانت مل سکے۔
اس تحریک کو وسعت دینے کیلئے، اس کی حدود کو روٹو اور فنانس بل کو ختم کرنے سے آگے بڑھانے کیلئے، اس تحریک کو محنت کش طبقے کے ذریعے طاقت پر قبضے کی جدوجہد میں بدلنے کیلئے، ایسی پارٹی کو عوام کی ضرورتوں سے مربوط نقاط پر مبنی پروگرام دینا ہوگا۔ اس پروگرام میں درج ذیل چند نقاط انتہائی اہم ہیں، اگرچہ یہ ہر مسئلہ کا احاطہ نہیں کرتے:
۔ حکومت کی طرف سے اغوا کردہ تمام افراد کی آزادی؛
۔ مفت، اعلیٰ معیار کی صحت اور تعلیم کا حق؛
۔ عوامی کاموں کے منصوبے کے ذریعے اچھی تنخواہ کی ملازمت کا حق؛
۔ نجکاری کا مکمل خاتمہ؛
* زمین پر قبضوں اور بڑے زمینداروں کی ملکیت کے خاتمہ؛
۔ بڑی صنعتوں، بینکوں اور انشورنس کمپنیوں پر قبضے کے ذریعے امراء کی دولت کو عوامی منصوبوں پر صرف کیا جائے گا؛
۔ سامراجی قرضوں کی ضبطگی؛
۔ سامراجی قوتوں کے ساتھ تمام فوجی معاہدوں کا خاتمہ؛
۔ انقلابی عوام کی طاقت کے ذریعے انقلابی کمیٹیوں کی بنیاد پر منظم کردہ مزدور حکومت کا قیام
انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل، کینیا کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی ہراول پرتوں کو منظم اور شعوری اظہار دینے کیلئے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کے کام میں مدد کرنے کی خواہاں ہے۔ ہم اپنے قاری سے اپیل کرتے ہیں ہم سے رابطہ کریں، ہم سے بحث کریں، اور ہمارے ساتھ اس کام میں شامل ہوں۔