|تحریر: آدم پال|
وادئ کشمیر کی تاریخ کی سب سے بڑی بغاوت برصغیر و جنوبی ایشیاکے مستقبل کی نوید سنا رہی ہے۔ گزشتہ تقریباً ایک سال سے جاری آزادی کی یہ انقلابی تحریک ہر گزرتے دن کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور سماج کی مزید پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے گہری ہوتی جا رہی ہے۔ اس عوامی بغاوت نے پاکستان اور ہندوستان کی سامراجی ریاستوں کو بوکھلاکر رکھ دیا ہے۔ اس کے علاوہ چین اور خطے میں موجود دیگر سامراجی قوتیں بھی شش و پنج میں مبتلا ہیں اور اس انقلابی تحریک کو زائل کرنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہندوستان کے سات لاکھ کے قریب تعینات فوجی، ایک لاکھ کے قریب پولیس اور لاکھوں دیگر سکیورٹی اہلکار شدید ترین جبر اور قتل و غارت گری کے باوجود اس تحریک کو کچلنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ پاکستان کی سامراجی ریاست کوبھی دہشت گردی، مذہبی بنیاد پرستی اور کٹھ پتلی سیاستدانوں کے غلیظ ہتھکنڈوں کے ذریعے اس تحریک کو زائل کرنے میں بد ترین شکست ہوئی ہے۔ کشمیر کی آزادی کا ناٹک کرنے والی پاکستان کی سامراجی ریاست خود اس تحریک سے خوفزدہ ہو چکی ہے اور پاکستانی مقبوضہ علاقوں سمیت ملک بھر میں ایسی ہی ممکنہ تحریک کو ابھرنے سے پہلے ہی مذہبی بنیاد پرستی کے ذریعے کچلنے کی مکارانہ کوششوں میں مصروف عمل ہے۔ گلگت بلتستان میں عوامی تحریکوں کے خلاف بد ترین جبر کیا جا رہا ہے تاکہ چینی سامراجی عزائم کی تکمیل کی جا سکے اور اس گماشتگی کے لیے اپنا معاوضہ وصول کیا جائے۔ ہندوستان اور پاکستان کے حکمران طبقات سرحدوں پر کشیدگی کا ناٹک رچا کر قوم پرستی اور حب الوطنی کے پھٹے ہوئے غبارے میں ہوا بھرنے کی ناکام کوشش بھی کر چکے ہیں۔ امریکہ، چین، ترکی اور دیگر سامراجی طاقتیں بھی اس شدت کے ساتھ جاری انقلابی تحریک کو کسی بھی طرح زائل کرنے کے لیے خطے کے حکمرانوں کوا پنی خدمات پیش کرنے کا اعلان کر چکی ہیں۔ لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں میں آزادی کا جذبہ ٹھنڈا ہونے کی بجائے مزید بھڑکتا چلا جا رہا ہے۔
موجودہ تحریک گزشتہ تین دہائیوں میں آزادی کے لیے ابھرنے والی مختلف انقلابی تحریکوں سے کہیں زیادہ شدت کی حامل ہے۔ اس دفعہ یہ صرف سری نگر اور دیگر شہری علاقوں تک محدود نہیں بلکہ وادی کے جنوبی حصوں سمیت دیہاتوں اور دو دراز علاقوں تک پھیل چکی ہے۔ وادی کے لاکھوں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی وسیع تر اکثریت بھی اس تحریک میں شامل ہو چکی ہے۔ اب اس میں کم عمر بچیاں بھی پورے جوش و خروش اور انقلابی جذبے کے ساتھ شامل ہو ئی ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران سری نگر سمیت پوری وادی میں طلبا و طالبات کی ایک بڑی تعداد اس تحریک کا حصہ بن چکی ہے اور کشمیر کے تعلیمی ادارے قابض فوج کے خلاف لڑائی کا میدان بن چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے دوران اخبارات میں فوج پر پتھر پھینکتی ہوئی طالبات کی تصاویر نے کھلبلی مچا دی ہے اور سرحد کے دونوں جانب محنت کشوں کی وسیع اکثریت کی ہمدردیاں کشمیر کے نوجوانوں کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہیں جبکہ حکمران طبقات کیخلاف نفرت اور غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔
روزنامہ ’دی ہندو‘ میں29اپریل کو شائع ہونے والا سدآنند مینن کا مضمون انہی تصاویر کے متعلق ایک عام ہندوستانی کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے کہ ’’جب چھوٹی بچیاں پتھر اٹھا لیں‘‘۔ مضمون میں مینن لکھتا ہے کہ اخبارات کے سر ورق پر ان بچیوں کی تصاویر نے مجھے ہلا کے رکھ دیا ہے۔ وہ لکھتا ہے،
’’ یہ تصویربہت سی وجوہات کے باعث قابل توجہ ہے۔ ایک یہ کہ پہلی دفعہ ہم کشمیر کی لڑکیوں/عورتوں کو پتھر پھینکتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ہم گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے میں کشمیری لڑکوں کی پتھر پھینکنے کی تصاویر دیکھنے کے کم و بیش عادی ہو چکے ہیں۔ ہم نے مقامی پولیس اور مسلح افواج کو بھی پتھر پھینکتے ہوئے دیکھا ہے۔ درحقیقت یہ ایک رسم بن چکی ہے جو اس مسئلے کا سیاسی حل نہ ہونے کے باعث ایک بیکار اور غیر اہم سا عمل بن کر رہ گیا ہے۔ جب بھی یہ واقعات ہوتے ہیں تو چند لازمی تصاویرمیڈیا میں نظر آتی ہیں اور کچھ ذہین کالم نگارزبانیں نکال لیتے ہیں اور دانشمندی سے لکھتے ہیں کہ تشدد کا یہ چکر بند گلی میں پہنچ چکا ہے۔۔۔ لیکن ان لڑکیوں کو پتھر پھینکتے دیکھ کر نظر آتا ہے کہ ہندوستان کوکشمیر میں شکست ہو چکی ہے۔ لڑکیوں کی باڈی لینگوئج سے یہ واضح ہے۔ ‘‘
مینن اپنے مضمون کا اختتام کرتے ہوئے کہتا ہے کہ کشمیر میں ہندوستانی افواج کے مظالم کے خلاف یہاں آواز بلند نہ کرنا ایک اجتماعی جرم ہے۔ ’’اور جب چھوٹی بچیاں پتھر اٹھا لیں اور سڑکوں پر نکل آئیں تو ہمیں اپنے ضمیر اور قومیت کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ‘‘
اسی طرح کے بہت سے تجزیے تمام ہندوستانی میڈیا میں دیکھے جا سکتے ہیں جن میں یہ واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر افواج کی موجودگی کے باوجود تحریک کو کچلا نہیں جا سکا اور تحریک ختم ہونے کی بجائے مزید آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح ماضی کے تمام دیگر طریقے بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ وادی کی دونوں بڑی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں اور انقلابی نوجوان ان کو رد کر چکے ہیں۔ نیشنل کانفرنس کو گزشتہ ریاستی انتخابا ت میں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جبکہ بر سر اقتدار آنے والی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنا کر اپنی سیاسی قبر خود تیار کی تھی۔ اس کے علاوہ علیحدگی پسند جماعتوں پر مشتمل حریت کانفرنس پہلے ہی شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اورماضی میں موجود اپنی سیاسی بنیادیں ایک لمبے عرصے سے کھو چکی تھی۔ سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق اپنے الگ الگ دھڑوں کے ساتھ سیاسی و سماجی زندگی سے دور ہو چکے تھے۔ اس تحریک کے دوران انہیں اکٹھا کر کے تحریک پر دوبارہ مسلط کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود وہ کسی بھی طرح اپنی اتھارٹی نہیں بنا سکے۔ یٰسین ملک کو بھی اس اتحاد کا حصہ بنوایا گیا لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اس صورتحال میں دہلی میں بیٹھے حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس تحریک کو زائل کرنے کے لیے سیاسی حل کا اگر ناٹک شروع کریں تو کس کے ساتھ مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جائے۔ یہ تمام تر تحریک خود رو ہے اور لاکھوں نوجوان اپنے اپنے دیہاتوں اور شہروں میں کمیٹیوں کے ذریعے اسے منظم کرتے ہیں۔ ہڑتالوں‘ جلسے جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کا شیڈول بھی یہ نوجوان خود جاری کرتے ہیں اور کسی سیاسی پارٹی اور علیحدگی پسند لیڈر کی قیادت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
اب تک سو سے زیادہ نوجوان فوجی جبر کے نتیجے میں قتل ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں قیدو بند کی صعوبتیں اور بد ترین تشدد برداشت کر رہے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد اپنی بینائی کھو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ان نوجوانوں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے مضبوط ہوئے ہیں۔
اس تحریک پر سب سے بڑا حملہ اسلامی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے ذریعے کیا جا رہا ہے تاکہ نوجوانوں کی اس تحریک کو زائل کیا جا سکے۔ پاکستان نے بھی اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے اس تحریک پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں بھی ناکامی نے ان کا منہ چڑایا ہے۔ پاکستان کی ریاست اگر کسی بھی طرح اس تحریک میں قابل ذکرمداخلت کرنے میں کامیاب ہوجا تی تو ہندوستان کی جابرریاست کو بھی سکون کا سانس ملتا اور اس تحریک کو کچلنے میں انہیں آسانی ہو جاتی۔ ایک طرف تو کشمیر کی آبادی کے وسیع حصے اور انقلابی نوجوانوں کی بڑی اکثریت کو دہشت گردانہ کاروائیوں کے خلاف ابھار کر اس تحریک سے الگ کر دیا جاتا۔ دوسرے پورے ہندوستان میں ان دہشت گردی کی کاروائیوں کا پرچار کر کے عوامی رائے عامہ تحریک آزادی کے خلاف استوار کی جاتی۔ اڑی حملے سمیت گزشتہ ایک سال میں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائیوں سے یہی کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ان تمام ہتھکنڈوں میں پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے کشمیر میں اس تحریک کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ باقی ہندوستان میں بھی محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں میں اس تحریک کی حمایت بڑھتی جا رہی ہے جس کے باعث حکمران طبقہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔ بلکہ اس تحریک سے متاثر ہو کر ہندوستان کے دیگر حصوں میں بھی حکمرانوں کیخلاف ایک بہت بڑی تحریک کے ابھرنے امکانات روشن ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے ہی وہاں محنت کشوں کی ہڑتالوں اور طلبہ تحریک میں شدت آتی جا رہی ہے جس کو زائل کرنے کے لیے ہندو بنیاد پرستی کو مسلط کیا جا رہا ہے۔
کشمیر کی تحریک کو کچلنے کے لیے دونوں قابض ریاستوں کے حکمرانوں کی جانب سے دہشت گردانہ کاروائیوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور ان کاروائیوں کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تا کہ عوامی رائے عامہ تحریک کے خلاف استوار کی جا سکے۔ لیکن ابھی تک تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق صرف 224نوجوان مسلح کاروائیوں میں ملوث ہیں اور ان کی اکثریت مقامی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سوا کروڑکی آبادی میں یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ اخوان المسلمین جیسی بہت سی دہشت گرد تنظیمیں خود ہندوستانی ریاست کی سرپرستی میں کاروائیاں کرتی ہیں اور انہیں عوام میں خوف و ہراس پھیلانے اور تحریکیں زائل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب احتجاجی مظاہروں اور جلسے جلوسوں میں لاکھوں نوجوان شریک ہیں جو آزادی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس تحریک کا آغاز گزشتہ سال 8جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کے قتل سے ہوا تھا اور نوجوان اس سے ہمدردی رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود نوجوانوں کی وسیع اکثریت نے اس رستے کا انتخاب نہیں کیا بلکہ سیاسی عمل کے ذریعے اپنی تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس سیاسی عمل میں انہوں نے تمام پرانی سیاسی پارٹیوں اور قیادتوں کو رد کیا ہے اور پوری ریاستی ڈھانچے کو ہوا میں معلق کر دیا ہے۔
ہندوستان کی ریاست نے ضمنی انتخابات کروا کر جمہوریت کا ڈھونگ بھی رچانے کی کوشش کی جسے عوام نے مکمل طور پر رد کر دیا۔ گزشتہ ماہ ہونے والے ضمنی انتخاب میں صرف سات فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالا جوحالیہ تاریخ میں سب سے کم ہے۔ جب کشیدگی کے باعث ان انتخابات کو معطل کرنا پڑا اور دوبارہ انتخاب کروایا گیا تو 38پولنگ سٹیشنوں پر صرف دو فیصد لوگوں نے ووٹ ڈالا جبکہ 27پولنگ سٹیشنوں پر ایک بھی شخص ووٹ ڈالنے نہیں آیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ریاست کی رٹ کی کیا صورتحال ہے اور دونوں قابض ممالک کے حکمران کیوں خوفزدہ ہیں۔ انتخابات منعقد کروانے کے لیے تعینات فوجیوں نے نوجوانوں کے پتھراؤ سے بچنے کے لیے ایک شخص کو فوجی جیپ کے سامنے رسیوں سے باندھ کر اپنارستہ بنایا۔ جب یہ تصاویر منظر عام پر آئیں تو فوجی جبر کے خلاف نفرت اور حقارت میں مزید اضا فہ ہوا اور تحریک کے ساتھ خطے سمیت دنیا بھر کے محنت کشوں کی ہمدردیوں میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے بعد حکومت نے انٹرنیٹ پر ہی پابندی لگا دی۔ لیکن ان تمام تر پابندیوں اور جبر کے باوجود تحریک پھیلتی جا رہی ہے۔ اس تحریک سے نپٹنے کے لیے محبوبہ مفتی کی دہلی میں وزیر اعظم نریندرا مودی سے بھی ملاقات ہو چکی ہے جبکہ اس سے پہلے مودی نے بھی انتہائی سخت سکیورٹی میں کشمیر کا دورہ کیااور کہا کہ کشمیریوں کو دہشت گردی یا سیاحت میں سے ایک کو چننا ہو گا۔ اس کے علاوہ وزیر داخلہ سمیت بہت سے وزرا اور سیاست دان کشمیر کے دورے کر چکے ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی طریقے سے اس تحریک کو زائل نہیں کیا جا سکا۔
دوسری جانب پاکستان کے حکمران بھی اس تحریک کے یہاں پھیلنے سے خوفزدہ ہیں۔ پہلے ہی مشعل خان کے ریاستی پشت پناہی میں مذہبی بنیاد پرستوں کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کیخلاف ملک بھر میں طلبہ کی ایک نئی تحریک کا جنم ہو چکا ہے اور حکمرانوں کیخلاف محنت کشوں کے جاری احتجاجوں اور ہڑتالوں میں بھی نفرت اور غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جس طرح ہندوستان میں ہندو بنیاد پرستی کو مسلط کر کے تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسی طرح پاکستان کی ریاست مذہبی بنیاد پرستوں کی سر پرستی کرتے ہوئے انہیں تحریکوں کو کچلنے کے لیے پروان چڑھا رہی ہے۔
لیکن اس تمام تر صورتحال میں واضح ہو چکا ہے کہ وادئ کشمیر کی طرح پاکستان اور ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں متروک ہو چکی ہیں اور سماج میں اپنی بنیادیں تیزی سے کھوتے ہوئے تاریخ کے کوڑے دان کی خوراک بنتی جا رہی ہیں۔ یقیناًیہ عمل ایک سیدھی لکیر میں آگے نہیں بڑھے گا لیکن عمومی رجحان یہی ہے۔ اس خطے کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کانگریس پہلے ہی گزشتہ عام انتخابات میں تاریخی شکست سے دوچار ہو چکی ہے۔ دیگر علاقائی پارٹیاں بھی اپنے انجام کی جانب تیزی سے گامزن ہیں جس کا ایک عملی نمونہ حالیہ ریاستی انتخابات میں نظر آیا جس میں اتر پردیش کی سیاست پر دہائیوں سے حاوی پارٹیوں کو شکست فاش ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹیاں پہلے ہی نظریات سے غداری کی سزا بھگت رہی ہیں اور مغربی بنگال میں ناکام ہونے کے بعد بد عنوانی اور مزدور دشمن نظریات کی دلدل میں زیادہ تیزی سے دھنستی چلی جا رہی ہیں۔ عام آدمی پارٹی کا بلبلہ قیادت کے مزدور دشمن نظریات کے عیاں ہونے پر پہلے ہی پھٹ چکا ہے۔ ایسے میں کوئی متبادل نہ ہونے کے باعث بی جے پی سیاسی افق پر موجود ہے لیکن ملک میں بڑھتی ہوئی غربت اور بیروزگاری کے باعث اس کے معاشی ترقی کے منافقانہ اور عیارانہ نعرے بازی کی قلعی بھی کھلتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان میں صورتحال اس سے بھی زیادہ بد تر ہے اور پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیاں حکمران طبقے اور ریاست کے مختلف دھڑوں کی نمائندہ بن کر رہ گئی ہیں اور سماج کے کسی بھی حصے میں ان کی بنیادیں موجود نہیں۔
ایسے میں کشمیر کے نوجوانوں سمیت خطے کے تمام انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کو ان ریاستوں کے جبر اور معاشی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے انہیں رنگ، نسل، قوم، مذہب اور فرقے کے تعصبات سے بلند ہو کر طبقے کی بنیاد پر ایک جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا اور خطے کے تمام حکمرانوں اور سامراجی طاقتوں کے خلاف ایک ناقابل مصالحت لڑائی لڑنی ہو گی۔ کشمیر کی تحریک میں پاکستانی جھنڈوں کی بڑے پیمانے پر موجودگی سے یہ غلط تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ نوجوان پاکستان کے زیر اثر ہیں یا پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ بھارتی میڈیا سمیت انٹرنیشنل ذرائع ابلاغ کے سنجیدہ حصوں نے اس تاثر کو سختی سے رد کیا ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں کی بڑی اکثریت قومی آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے اور پاکستان کی عوام دشمن اور سامراجی گماشتہ ریاست میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان جھنڈوں کا مقصد ہندوستانی افواج اور ریاست سے اپنی شدید نفرت کا اظہار کرنا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قومی آزادی کی اس لڑائی میں وہ ان نوجوانوں کا مکمل ساتھ دیں اور ان پر ہونے والے مظالم اور ان کی قربانیوں اور جدوجہد کی داستانیں محنت کشوں اور طلبہ کی وسیع تر پرتوں تک پہنچاتے ہوئے ان کے لیے حمایت حاصل کریں۔ اس انقلابی تحریک میں شامل لاکھوں نوجوانوں کی حمایت کا واحد رستہ یہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے نوجوان اور محنت کش ان ظالم ریاستوں اور ان پر براجمان حکمرانوں کے خلاف تحریک برپا کریں اور اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جانب بڑھیں جس نے اس خطے سمیت پوری دنیا کے محنت کشوں پر جنگیں، خونریزی، بھوک، بیماری اور ذلت مسلط کر رکھی ہے۔
کشمیر کی قومی آزادی کی اس انقلابی تحریک کوپورے خطے میں پھیلانے کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اس وقت محنت کشوں اور طلبہ کی مختلف تحریکیں موجود ہیں جو حکمرانوں کے خلاف اپنے اپنے مطالبات تک محدود ہیں۔ ان تمام احتجاجی تحریکوں کو یکجا کرتے ہوئے پورے خطے میں ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کے مکمل خاتمے کی جدوجہد سے منسلک کرنا اشد ضروری ہے۔ اس کے لیے انقلابی مارکسزم کے سائنسی نظریات ان نوجوانوں اور محنت کشوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے جو مختلف کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادتوں کی غداریوں اور ان کی مزدور دشمن حکومتوں کے تجربات کے باعث مارکسزم کے حقیقی نظریات سے دور ہو چکے ہیں۔ کارل مارکس نے آج سے ڈیڑھ صدی قبل نعرہ دیا تھا کہ ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘‘۔ آج یہ نعرہ وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ سامراجی جنگوں سے مسلسل تاراج ہونے والے اس خطے میں یہ نعرہ بلند کرنا ماضی کے کسی بھی دور کی نسبت آج زیادہ اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ اس خطے میں صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ایک ایسی رضاکارانہ فیڈریشن قائم کی جا سکتی ہے جس میں تمام مظلوم قومیتوں کو مکمل آزادی دی جا سکے اور نجی ملکیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے روٹی، کپڑا، مکان، روزگار، علاج اور تعلیم سمیت تمام بنیادی سہولیات ہر شخص کو فراہم کی جا سکیں اور ہر قسم کے ظلم اور استحصال سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جا سکے۔