تحریر: |راشد خالد|
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حالیہ ابھرنے والی تحریک شدید ترین ریاستی جبر کے باوجود ابھی تک جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق ابھی تک بھارتی فوجی جارحیت اور مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں 70سے زائد کشمیری شہیدہو چکے ہیں جبکہ 4000سے زائد زخمی ہیں۔ اسی طرح سینکڑوں افراد کو بھارتی افواج نے حراست میں لے رکھا ہے جہاں ان پر بد ترین تشدد کیا جا رہا ہے اور فوج کی طرف سے اس مرتبہ چھروں والی گولیوں کے استعمال سے سینکڑوں اپنی بینائی سے محروم ہو چکے ہیں لیکن اس تمام تر جبر کے باوجود تحریک پسپا ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اس تحریک کو شروع ہوئے 50دن سے زائدہو چکے ہیں لیکن سنگینوں کے خلاف ابھرنے والی یہ تحریک تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ روزانہ کرفیو کے باوجود سینکڑوں نوجوان وادی کے مختلف علاقوں میں بھارتی ریاست کی جارحیت کے خلاف سڑکوں پر نکلتے ہیں، فوج پر پتھر پھینکتے ہیں اور آزادی کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ عوامی اجتماعات میں تمام تر لوگ بوڑھے، بچے، عورتیں بلا تفریق حصہ لے رہی ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد سے اب تک کشمیرپاکستان اور بھارت دونوں ریاستوں کے بیچ پس رہا ہے۔ ایک اسے شہ رگ گردانتا ہے تو دوسرا اٹوٹ انگ۔ ایک طرف پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام مسلسل اذیت اور جبر کا شکار ہیں اوریہاں کے غلیظ حکمرانوں اور فوجی جبرسے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب بھارت میں آزادی کی تحریکیں مسلسل ابھر رہی ہیں۔ 1947ء کے بٹوارے سے اب تک یہ دونوں سامراجی ممالک اسی مسئلے پر تین جنگیں بھی کر چکے ہیں۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 1980ء کی دہائی کے اواخر میں ابھرنے والی مسلح جدوجہد کے بعد سے انڈیاآرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ لاگو ہے جس کی وجہ سے فوج کے پاس وسیع اختیارات موجود ہیں۔ آزادی کی تحریک مسلح ہونے اور اس میں پاکستانی ریاست اور ایجنسیوں کے سامراجی عزائم کے باعث مداخلت کی وجہ سے یہ قتل عام مزید گہرا ہوا، ابھی تک 80ہزار سے زائد کشمیری اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں اور 70سے 80لاکھ کی آبادی کے خطے میں 7لاکھ سے زائد بھارتی افواج تعینات کی گئی ہیں۔ بھارتی فوج کی اتنی بھاری موجودگی اور کالے قوانین کے تحت حد سے بڑھے ہوئے اختیارات کی وجہ سے اس سے قبل بھی 2008ء اور2010ء میں عوامی سرکشیاں جنم لے چکی ہیں۔ جن میں 2010ء میں ابھرنے والی تحریک جہاں ایک طرف فوج کی موجودگی کے خلاف تھی وہیں یہ تحریک ایک طبقاتی کردار کی حامل بھی تھی اور اس میں موجود نوجوان روزگار کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔
موجودہ تحریک کا آغاز بھارتی فوج کے ہاتھوں اسلامی بنیاد پرستوں کے ایک نوجوان ’’پوسٹر بوائے‘‘ برہان وانی کے قتل سے ہوا۔ اسلامی بنیاد پرست ایک لمبے عرصے سے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پہلے بھی پاکستانی ریاست کی پشت پناہی کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو مسلح دہشت گردی کی جانب دھکیل دیا گیا جس سے آزادی کے حصول کی منزل بھی کشمیریوں سے دور کر دی گئی جبکہ ہندوستان اور پاکستان کے حکمران طبقات اس خطے کے کروڑوں افراد کوایک دوسرے کا دشمن بنا کر یرغمال بنانے میں کامیا ب ہوئے۔ غریب عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے دونوں جانب اسلحے کے انبار لگا دیے گئے جس میں حکمرانوں نے کمیشن اور لوٹ مار کی انتہا کر دی۔ اسلامی بنیاد پرستی اور اس کی مسلح جدوجہد نے جہاں پاکستانی ریاست کو روایتی حریف ہندوستان میں مداخلت کے مواقع فراہم کیے وہاں ہندوستان کی ریاست کو بھی فوجی و ریاستی جبر میں اضافہ کرنے کی وجوہات اور دلائل میسر آ گئے۔ اس سارے کھلواڑ کا نقصان کشمیر کے عوام کو ہوا جو اس تحریک کو ہندوستان اور پاکستان کے محنت کش عوام سے جوڑ نہیں سکے بلکہ وادی کے بہت سے لوگ خود اس مسلح لڑائی کا شکار ہوئے اور بالآخر تحریک پسپائی کا شکار ہو گئی۔
اس دفعہ اٹھنے والی تحریک گو کہ برہان وانی کے قتل سے شروع ہوئی لیکن اس کے حالات پہلے موجود تھے اور اسے بھڑکنے کے لیے فقط ایک چنگاری کی ضرورت تھی۔ کشمیر کے نوجوان ایک لمبے عرصے سے بیروزگاری اور ریاستی جبر کا شکار ہیں اور وقتاً فوقتاً اس کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ جاری تھا۔ یہ ایک ایسا خطہ ہے جس کی اکثریتی عوام کا ذریعہ معاش سیاحت سے وابستہ ہے لیکن 1990ء کی دہائی میں یہاں سیاحت کی شعبے کو شدید دھچکا لگا ہے جس کی وجہ سے عوام کی پہلے سے مشکل زندگیاں مزید اجیرن ہو گئی ہیں۔ بیروزگاری اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے جس کی وجہ سے کشمیری نوجوانوں کو ہندوستان کے دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے۔ اس دوران ایک قتل نے پوری وادی میں آگ لگا دی اور ایک عوامی تحریک کا آغاز ہو گیا۔ لیکن اگراس تحریک کا کردار دیکھا جائے تو یہ کسی ایک مخصوص پارٹی یا گروہ کی حمایت میں نہیں ہے بلکہ اس کا کردار عوامی ہے۔ ابھی بھی دو ماہ ہونے کو آئے ہیں جس دوران زیادہ تر وقت کرفیو نافذ رہتا ہے اور باقی وقت ریلیوں، جلسوں اور جلسوں کی بدولت زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کیفیت میں علاقائی کمیٹیوں یا پنچایتوں کے ذریعے ا نتظامات چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تحریک واضح کرتی ہے کہ نوجوانوں نے برہان وانی کے مسلح جدوجہد کے طریقہ کو رد کیا اور احتجاجوں اور جلسوں ، جلوسوں کے ذریعے بھارتی افواج کے جبر کو للکارا اور ابھی تک سڑکوں پر ہیں۔ نہتے عوام پر فوج کے جبر نے ہندوستان کی ریاست کے گھناؤنے کردار کو واضح کر دیا ہے اور اس تحریک کو ہندوستان کے محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کی جانب سے حمایت مل رہی ہے۔ چند ماہ قبل ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں طلبہ کی ایک بہت بڑی تحریک ابھری تھی جس نے مودی سرکاری کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ اس تحریک میں بھی مسئلہ کشمیر ابھر کر سامنے آیا تھا اور ابھی بھی ہندوستان کے انقلابی طلبہ کی قیادت کشمیر کی آزادی کی تحریک کی حمایت کر رہی ہے جو آگے کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے۔
اس تحریک میں بھارتی جارحیت کے خلاف غصے کا اظہار کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر پاکستانی پرچم بھی لہرائے گئے جس کی وجہ سے یوں لگتا ہے کہ موجودہ تحریک بھی پاکستانی مداخلت کا ہی شاخسانہ ہے۔ بالخصوص جس طرح اس تحریک کو پاکستانی ریاست میڈیا پر چلوا رہی ہے، اس سے تو یوں لگتا ہے کہ وادی کا بچہ بچہ پاکستان کا دیوانہ ہے اور وادی کی عوام صبح دوپہر شام پاکستان کے نام کی مالا جپتے ہیں، پیاس لگی تو دو بار اور بھوک لگی تو چار بار۔ لیکن حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے۔ وادی میں اٹھائے جانے والے پاکستان کے جھنڈے پاکستان سے کسی محبت یا لگاؤ کی بنیاد پر نہیں بلکہ بھارتی ریاست سے نفرت میں اٹھائے جا رہے ہیں۔ انسان ایک حد تک جبر و استحصال کو برداشت کر سکتا ہے لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ مزید استحصال کو برداشت کرنے سے انکار کر دیتا ہے اور جب یہ کیفیت آتی ہے تو دشمن چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اس کے خلاف بغاوت فرض ہو جاتی ہے۔ یہی کیفیت اس وقت کشمیری سماج کی بھی ہے اور پاکستانی پرچم لہرانا اسی کیفیت کا اظہار ہے جس میں نوجوان بھارتی فوجیوں کو مزید غصہ اور اشتعال دلانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ یعنی نوجوان قابض فوج کو یہ باور کرواتے ہیں کہ تم چاہے ہمیں قتل کر دو لیکن ہم بغاوت سے باز نہیں آئیں گے اوراس سے قبل جو ہم نے جو کیا وہ تو کچھ بھی نہیں تھا، ہم اس انتہا تک بھی جا سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ بھارتی جبر کو مزید اکسانے کے مترادف ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا پرچم لہرانا اور وہ بھی سرعام سیدھا سیدھا اپنی موت کو آواز دینے کے مترادف ہے اور چاہے آئی ایس آئی جتنی بھی کوشش کر لے، چاہے پاکستانی ریاست اپنی تمام تر توانائیاں بھی وادی میں اس مقصد پر صرف کر لے، یہ ممکن نہیں کہ تحریک کے ایک بڑے حصے کو اس اقدام پر قائل کر سکے۔ اس لئے نہ تو ہم اسے پاکستان کے حق میں تحریک کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اسے پاکستانی سپانسرڈ تحریک کہہ کر رد کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں کشمیر میں پاکستانی مداخلت کو کسی طور رد نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اگر یوں کہیں تو بھی غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان نے اپنے مفادات کی خاطر کشمیر میں ابھرنے والی آزادی کی تحریک کو استعمال بھی کیا اور اسے برباد کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ اسلامی بنیادپرست جنگجوؤں کو کشمیر میں بھیجنے سے ہندوستان کو یہ جواز مل گیا کہ وہ کشمیر میں اپنی بھاری فوجی نفری کو ناصرف تعینات کر سکے بلکہ انہیں خصوصی اختیارات بھی دے سکے۔
موجودہ تحریک نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی امیدیں کشمیر پر لگا دی ہیں اور پاکستان میں بڑے پیمانے پر میڈیا پر کشمیر میں اٹھائے جانے والے پاکستانی پرچم دکھائے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایک مرتبہ پھر جہادی گروپس کشمیر کے نام پر چندہ اکٹھا کرنے کے لئے چوکوں چوراہوں پر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے ہیں جس سے پاکستانی ریاست کے گھناؤنے عزائم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پھر پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں مختلف پارٹیوں اور تنظیموں کی جانب سے ریاستی ایجنسیوں کے ایما پر لائن آف کنٹرول کی طرف لانگ مارچوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے، اس میں بھی اسلامی بنیاد پرست سب سے آگے ہیں۔ پاکستانی ریاست افغانستان پر بھارتی ریاست کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ سے شدید نالاں ہے اور اس تحریک کی بدولت پاکستانی ریاست کو کشمیر میں ایک دفعہ پھر مداخلت کا سنہری موقع بھی میسر آ رہا ہے۔ لیکن پاکستان کا داخلی بحران اس وقت پاکستانی ریاست کی بیرونی مہم جوئیوں کی صلاحیت کو مزید تنگ کر رہا ہے۔ اس لئے اب کی بار زیادہ تر امکانات یہی ہیں کہ اس تحریک میں مداخلت کم اور اس پر بیانات زیادہ دئیے جائیں گے۔ لیکن ہندوستانی ریاست کا تحریک کو یکسر پاکستانی مداخلت پر مبنی گرداننا اس تحریک کی اساس سے انکار کے مترادف ہے۔ اور پاکستانی ریاستی بیانات کے جواب میں مودی کے پاکستانی ریاست کے ہاتھوں بلوچستان میں قتل عام کے خلاف بیان کا واضح مطلب یہ تھا کہ مودی سرکار اس قتل عام کی یکسر حمایت کرتی ہے۔ اور یہ بیان بازی کسی محلے کی لڑائی میں توتکار سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے جس میں ایک دوسرے کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ تم نے یہ کیا، تم نے وہ کیا۔
مگر یہاں مسئلہ کچھ زیادہ گھمبیر تھا جس کی وجہ سے کچھ ہی وقت کے بعد مودی سرکار کو کشمیر میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کرنا پڑا اور تمام تر سیاسی پارٹیوں سے اپیل کرنا پڑی کہ بھارتی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اس مسئلہ کے حل کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن یہاں پھر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ کشمیر میں کونسی سیاسی پارٹی ایسی ہے جو اس تحریک کنٹرول کر سکتی ہے یا ایسی ساکھ رکھتی ہے کہ اس کے کہنے پر تحریک ٹھنڈی ہو سکے۔ محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی جو ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے انتخابات جیت کر آئی تھی وہ بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بناکر اپنے ووٹروں سے غداری کر چکی ہے۔ اس لیے یہ حکومتی پارٹی تو کسی صورت کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، جو ابتدا سے ہی اس تحریک کو دبانے کی کوشش میں مصروف ہے اور اس قتل عام میں برابر کی شریک ہے۔ نیشنل کانفرنس کو ایک لمبا عرصہ اقتدار میں رہنے کے بعد عوام نے مسترد کر دیا تھا۔ باقی رہیں پاکستان نواز یا علیحدگی پسند پارٹیاں یا تنظیمیں تو ان کی اکثریت بھی اب عوام میں اپنی ساکھ کھو چکی ہیں۔ پاکستان نواز پارٹیاں تو کھلے عام پاکستانی ریاست سے تعلقات رکھتی ہیں اور نام نہاد علیحدگی پسندوں کی اکثریت کے بھی پاکستانی ایجنسیوں کے ساتھ تعلقات وقتاً فوقتاً منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس لئے اس وقت کوئی بھی ایک سیاسی پارٹی اس وقت اس تحریک میں کوئی بڑا اور اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کشمیر میں بائیں بازو کی پارٹیاں ویسے ہی بہت کمزور ہیں اور ان کا کشمیر کی قومی آزادی کی جدوجہد پر مؤقف بھی بنیادی طور پر سٹالنسٹ زوال پذیری اور انقلاب سے غداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ درحقیقت ریاستی موقف کی نقل ہی ہے جس کی وجہ سے ان کا کردار بھی یہاں مجرمانہ ہی ہے۔
دوسری طرف بی جے پی کے یہاں مخلوط حکومت میں ہونے کے باعث مودی سرکار کی پالیسیاں اس وقت پورے ہندوستان میں تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں۔ لیکن جب سرکار کی طرف سے چھرے دار بندوقوں کے متبادل ہتھیار استعمال کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی تو اس تنقید میں مزید شدت آ گئی۔ یعنی سرکار ہتھیار ہر صورت استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اس تحریک کو پہلی بار کشمیر کے مختلف علاقوں میں واضح حمایت ملی ہے جیسے جموں میں جو ہندو اکثریتی علاقہ ہے اور جہاں سے بی جے پی کو نشستیں ملی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پہلی بار اس تحریک کے حق میں ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں بالخصوص نوجوان کشمیر میں ریاستی جبر کے خلاف باہر نکلے ہیں۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان میں پروان چڑھنے والی نئی نسل اس مسئلے کے کسی سنجیدہ حل کی خواہاں ہے۔
حالیہ تحریک خالصتاً ایک عوامی بغاوت ہے جس کا واحد مقصد بھارتی ریاستی جبر سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ فوج کے بے جا اختیارات، اس کی بدولت ڈھائے جانے والے مظالم اور سماجی زندگی میں حد سے بڑھی ہوئی مداخلت کی وجہ سے ایک لمبے عرصہ سے سرکشی کے یہ جذبات عوام کے ذہنوں میں پنپ رہے تھے، جس کا اظہار کسی نا کسی صورت ہونا تھا اور ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ مودی کی BJPسرکار کے مزدور دشمن قوانین بھی اس کی ایک اہم وجہ ہیں۔ 2014ء میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور مرکزی حکومت کی طرف سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لئے محض وعدے اور کھوکھلے دعوے سطح کے نیچے اس غصے کو مزید تقویت دیتے رہے ہیں۔ اس سے قبل کبھی بھی کشمیر میں BJPاقتدار کا حصہ نہیں رہی لیکن حالیہ انتخابات کے بعد اپریل میں محبوبہ مفتی کی PDPنے BJPکے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے موجودہ حکومت کو تشکیل دیا تھا۔ مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے اور BJPکے بنیاد پرست موقف کی بدولت ماضی میں کبھی بھی اسے یہاں عوامی حمایت میسر نہیں آئی۔ لیکن محبوبہ مفتی کے BJPکے ساتھ اتحاد نے PDPکی ماضی کے خود مختاری (Self Rule)کے سیاسی فلسفے کی قلعی کھول دی ہے اور انتہائی مختصر وقت میں PDPکے خلاف نفرت کو جنم دیا ہے۔
’’ہم کیا چاہتے۔۔۔ آزادی‘‘ کا نعرہ اپنے اندر اس تحریک کے کردار کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ برطانوی تھنک ٹینک چاتھم ہاؤس (Chatham House) نے 2010ء میں اپنے سروے میں لکھا تھا کہ’’وادی میں مسلح جدوجہداور پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے، اس کی بجائے 75فیصد سے 95فیصد عوام کشمیر کی آزادی کے حامی ہیں۔ ‘‘ یہ آزادی کا نعرہ وادیوں، دریاؤں، پہاڑوں کی آزادی کا نعرہ نہیں بلکہ یہ ایک حقیقی انسانی آزادی کی خواہش کا اظہار ہے، آزادی؛ غربت سے، آزادی؛ بیروزگاری سے، آزادی؛ اس نظام کی جکڑ سے، آزادی؛ ریاستی جبر سے۔ اور یہ آزادی صرف اسی صورت میسر آسکتی ہے جب کشمیر کی آزادی کی جدوجہد محض سرینگر کی بجائے دہلی، اسلام آباد، امرتسر، لاہور، بمبئی، کراچی اور دیگر شہروں میں یہاں کا محنت کش طبقہ لڑے گا اور آگے بڑھتے ہوئے اس خطے سے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینک کر ایک انسانی سوشلسٹ سماج تعمیر کرے گا۔ یہی وہ واحد صورت ہے جس میں کشمیر کے عوام کو ریاستی جبر اور سامراجی غلامی سے چھٹکارا میسر آ سکے گا۔