|تحریر: یاسر ارشاد|
بدلتا ہوا عہد اور ہمارے فرائض
بھارتی سامراجی ریاست کی جانب سے کشمیر کی سات دہائیوں سے چلی آنے والی ایک مخصوص متنازعہ حیثیت میں تبدیلی کا نیا جابرانہ فیصلہ نہ صرف مسئلہ کشمیر بلکہ اس پورے خطے کے حوالے سے صورتحال میں ایک معیاری تبدیلی کی عکاسی ہے۔ تمام باشعور سیاسی کارکنان کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس صورتحال کی درست سیاسی وضاحت کی جائے اور ان بنیادی سیاسی و معاشی محرکات کو سامنے لایا جائے جن کے باعث اتنی بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی زوال کا عمل سطح کے نیچے طویل عرصے تک جاری رہنے کے بعد اب سطح کے اوپر ہر قسم کے واقعات کی صورت میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ ان واقعات کی نوعیت چاہے جو بھی ہو ان کے اثرات شعور کو جھنجھوڑ دینے والے ہیں اور ہر واقعہ اس دنیا میں لمبے عرصے سے قائم توازن کے ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو زیادہ تیزی سے آگے بڑھا رہا ہے۔ ریاستوں اور ممالک کے باہمی تعلقات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور اسی طرح طبقات کے باہمی توازن میں بھی دھماکہ خیز تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ہر واقعہ جہاں پہلے سے چلے آنے تضادات کی کشمکش میں معیاری تبدیلی کے رونما ہونے کی عکاسی ہے وہیں ہر واقعہ تضادات کے نئے سلسلے کو متحرک کردیتا ہے جو پہلے سے زیادہ بڑے واقعات کے زیادہ تیز رفتاری سے رونما ہونے کی راہ ہموار کر نے کا باعث بن رہے ہیں۔ سماج کی سطح پر رونما ہونے والے ہر قسم کے واقعات کی فوری وجوہات چاہے جو بھی ہوں درحقیقت ان کی بنیاد میں سرمایہ داری نظام کا بڑھتا ہوا زوال اور بحران ہی ہے جس کے باعث ایک طویل عرصے تک قائم رہنے والا توازن ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ دہائیوں اور صدیوں سے قائم بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کا وجود مٹتا جا رہا ہے جبکہ چھوٹے چھوٹے گروپ ہفتوں اور مہینوں میں بڑی پارٹیاں بن کر سامنے آرہے ہیں لیکن اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کے غلط نظریات کے باعث ناکام ہو کر عوامی حمایت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ حکمران طبقات کی معاشی بحران سے نکلنے کے لئے اپنائی جانے والی ہر پالیسی جہاں سیاسی اور سماجی بحران کو جنم دینے کا باعث بن رہی ہے وہیں نئے معاشی بحران کی بھی راہ ہموار ہوتی جاتی ہے۔ حکمران طبقات کے ہر فیصلے کے توقعات سے الٹ نتائج برآمد ہو رہے ہیں جس کے باعث اس نظام کی عمومی تنزلی کا عمل مزید تیر تر ہوتا جا رہاہے۔ ماضی کے تمام نظریات مسترد ہوتے جا رہے ہیں اور سرمایہ داری کے متبادل نظام کے درست نظریات کی ضرورت اورتلاش شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اس لئے کسی بھی خطے میں رونما ہونے والے واقعات کو اسی تسلسل میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ایک زوال پذیر نظام کی ٹوٹ پھوٹ کا عہددیو ہیکل واقعات سے بھر پور ہوتا ہے جس میں سیاسی جدوجہد کو درست بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان واقعات کے پس پردہ محرکات کی تبدیلی کے عوامل کو شعوری بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کی سمتوں کی وضاحت کی جائے۔ سیاسی جدوجہد میں شامل انقلابی کارکنان اگر کسی بھی واقع کے رونما ہونے پر حیران و ششدر رہ جائیں تو وہ کبھی بھی ایسے واقعات کا رخ موڑنے میں کوئی کردار نہیں ادا کر سکتے۔ ایک درست سائنسی نظریے کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی شعوری پیش بندی کرنا ممکن ہو۔ مستقبل میں رونما ہو نے والے واقعات کی یہی پیش بندی ہوتی ہے جو سیاسی کارکنان کو ان واقعات میں شعوری مداخلت کرنے کے قابل بنا سکتی ہے اسی لئے موجودہ عہد میں آزادی اور انقلاب کی جدوجہد میں شریک کارکنان کے لئے سب سے کلیدی اہمیت ان درست نظریات تک رسائی حاصل کرنا ہے جو ان کو اس عہد کے کردار کو سمجھنے میں مدد فراہم کر سکیں۔
2008ء کے عالمی مالیاتی بحران نے پوری دنیا کو سرمایہ داری کی تاریخ کے سب گہرے زوال میں دھکیلا تھا جس کے باعث ورلڈ آرڈر ٹوٹ کر بکھر چکا ہے۔ نصف صدی سے قائم تمام عالمی ادارے اور معاہدے ماضی کا قصہ بن چکے ہیں اور جن کا وجود ابھی تک باقی ہے وہ بھی محض ردی کے کاغذوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یورپی یونین برطانیہ کے علیحدگی کے ریفرنڈم(بریگزٹ) کے بعد ٹوٹنے کے عمل سے دوچار ہے جبکہ یونین سے علیحدگی کے فیصلے کی وجہ سے برطانیہ جدید تاریخ کے سب سے بدترین سیاسی، آئینی اور معاشی و سماجی بحران میں دھنس چکا ہے جس کے باعث برطانیہ کا وجود ہی خطرے میں پڑ گیا ہے۔ برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم نے انتہائی اہم وقت میں برطانوی پارلیمان کو ایک ماہ کے لئے معطل کرنے کا اعلان کر دیا جبکہ اسی ایک ماہ سے کچھ زیادہ مدت میں یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ کیا جانا تھا۔ برطانیہ کی تاریخ میں پارلیمان کو اس سے پہلے صرف ایک بار 1641ء میں معطل کیا گیا تھا جس کے بعد برطانیہ میں ایک خانہ جنگی کا آغاز ہو گیا تھا۔ اس فیصلے نے برطانیہ کو جس بحران کی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے اس میں اگلے چند ہفتوں کے دوران برطانیہ میں بہت ڈرامائی واقعات کی راہ ہموار کردی ہے اور یہ واقعات برطانیہ سمیت پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کریں گے۔ امریکہ اور چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی لڑائی سے عالمی تجارت کے تمام تانے بانے ٹوٹنا شروع ہوچکے ہیں لیکن جس بحران سے نکلنے کے لئے ایک دوسرے پر تجارتی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں ان سے یہ بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور پہلے سے بڑے زوال کے آثار واضح ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اگر آنے والے چند ماہ میں یہ بحران آتا ہے تو تبدیلیوں کا پہلے سے جاری یہ عمل پہلے سے کئی گنا تیز رفتاری سے آگے بڑے گا۔ سرمایہ داری کے نامیاتی زوال کے باعث حکمران طبقات کا نظام اور واقعات پر قائم کنٹرول ختم ہوتا جا رہا ہے اور واقعات کی ایک خودرو حرکت تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ محنت کشوں کی انقلابی بغاوتیں ایک کے بعد دوسرے ملک میں ابھر کر اس نظام کے خاتمے کے حالات پیدا کر رہی ہیں لیکن ان کی قیادت ابھی تک ماضی کے نظریات سے وابستہ ہے اسی لئے یہ بغاوتیں نظام کی تبدیلی کی منزل کو حاصل نہیں کر پا رہی ہیں۔ عالمی سطح پر اس نظام کے زوال کے باعث رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تسلسل میں ہی برصغیر میں معاشی، سیاسی اور سفارتی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں جو ہندوستانی ریاست کے موجودہ فیصلے کے اصل محرکات ہیں۔ امریکی سامراج کی کمزوری کے باعث پیدا ہونے والے خلا میں مقامی سامراجی طاقتیں اپنے سامراجی عزائم کو پورا کرنے کے لئے باہم متصادم ہو رہی ہیں جس کے باعث مظلوم اقوام پر قومی جبر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور ہر خطہ ایک نئے عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کی کمزوری کے عیاں ہونے کے باعث سعودی عرب اور ایران کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش یمن، شام اور عراق جیسے خطوں کو خانہ جنگی کے ذریعے برباد کر چکی ہے اور اس تمام تر بربادی میں چین، روس، ترکی اور اسرائیل جیسی ریاستیں بھی اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے اس عمل کو مزید خونریز بنا رہی ہیں۔ درحقیقت مشرق وسطیٰ کا بحران عرب انقلاب کو قیادت نہ میسر آسکنے کے باعث ہونے والی ناکامی اور پسپائی کی پیداوار ہے۔ چین کی ابھرتی ہوئی سامراجی طاقت امریکی سامراج کے مفادات سے متصادم ہو رہی ہے جس کے باعث اس خطے میں پرانے اتحاد ٹوٹ رہے ہیں اور نئے اتحاد تشکیل پارہے ہیں لیکن یہ سارا عمل تضادات سے بھرپور ہے اور کوئی بھی نیا اتحاد صورتحال کو استحکام فراہم کرنے کی بجائے اس کو مزید انتشار کا شکار کر رہا ہے۔ اس عہد کی بنیادی خصوصیت یہی ہے کہ پرانا استحکام ہر جگہ پر تہہ و بالا ہو چکا ہے اور اس کی جگہ کوئی نیا استحکام قائم نہیں ہو پا رہا بلکہ حکمران طبقات کا ہر اقدام مزید انتشار کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔
امریکی سامراج کی کمزوری اور افغانستان سے فوجوں کے جلد از جلد انخلا کی کوشش کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکی سامراج اس خطے میں مداخلت کو مکمل طور پر ترک کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اس کے برعکس امریکی سامراج اس خطے میں اپنے پرانے غلام پاکستان کے حکمران طبقات کو اب کم تنخواہ پر ثانوی کردار ادا کرنے پر راضی کر چکا ہے اور ہندوستان کو اہم اتحادی کے طور پر چین کے مدمقابل لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ عرصے میں ہندوستان کی معیشت کی ترقی اور امریکی سامراج کی پُشت پناہی نے ہی ہندوستان کے موجودہ حکمران طبقات کو یک طرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی جیسا سامراجی فیصلہ کرنے کی بنیاد فراہم کی ہے جس پر پاکستانی حکمران طبقات کی بے عملی بھی اس تبدیل شدہ صورتحال کی واضح عکاسی ہے۔ طاقتوں کے اس بدلے ہوئے توازن نے اس خطے میں جس نئی صورتحال کو جنم دیا ہے اس سے پورے خطے میں ہر قسم کے عدم استحکام میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ہندوستان کی معیشت بھی گراوٹ کا شکار ہے اور آنے والے معاشی بحران کے ساتھ ہی اس میں زیادہ بڑی گراوٹ آئے گی جس کے باعث ہندوستان کے حکمران طبقات اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کشوں پر ڈالنے پر مجبور ہوں گے۔ محنت کشوں پر ہر قسم کے نئے معاشی حملے کئے جائیں گے جن کے خلاف محنت کشوں کی نئی بغاوتیں ابھریں گی اور ہندوستان خود بڑی عوامی تحریکوں کی لپیٹ میں آئے گا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت تاریخ کے بدترین بحران سے گزر رہی ہے اور آنے والے دنوں میں بھی اس میں بہتری کے کوئی امکانات موجود نہیں ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت جس بڑے پیمانے پر معاشی حملے کر رہی ہے، اس کے ساتھ بنیادی جمہوری حقوق پر جتنی قدغنیں لگائی جارہی ہیں یہ تمام اقدامات پاکستان کے اندر بھی بڑی سماجی تحریکوں کو جنم دینے کا باعث بنیں گے۔ درحقیقت یہ پورا خطہ بہت بڑی تبدیلیوں کے عہد میں داخل ہو چکا ہے اور یہ عمل آنے والے عرصے میں عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کے زیر اثر زیادہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔ اس اتھل پتھل کے عہد میں خطے کے حکمران طبقات مظلوم قومیتوں کے ساتھ محکوم طبقات اور عوام پر پہلے سے زیادہ جبر مسلط کرنے کی کوشش کریں گے جس کے خلاف عوامی تحریکوں، ہڑتالوں اور احتجاجوں کی نئی طوفانی لہریں بھی ابھریں گی۔
خطے میں طاقتوں کے بدلے ہوئے توازن کے باعث کسی نئے استحکام کے آنے کے امکانات بہت کم ہیں اور ہند وپاک کے درمیان آنے والے عرصے میں کسی چھوٹے یا درمیانے درجے کی جنگ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پہلے ہی کشمیر کو تقسیم کرنے والی خونی لکیر کے آر پار دونوں سامراجی ممالک کے مابین گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے جس میں دونوں اطراف کشمیر کے غریب عوام مارے جا رہے ہیں۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی اس فیصلے کے خلاف مزاحمت کو ابھرنے سے روکنے کے لئے وہاں تاریخ کا بد ترین جبر کیا جا رہا ہے اور پورے کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کیا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود عوامی ردعمل کو روکنے میں ناکامی واضح ہے اور آنے والے عرصے میں یہ ردعمل ایک بڑے دھماکے کے ساتھ سطح پر اپنا اظہار لازمی طور پر کرے گا۔ یہ تحریک ہندوستان میں جاری محنت کشوں کی عمومی تحریک پر بھی اپنے اثرات مرتب کرے گی اور ہندوستان میں رونما ہونے والے واقعات اس تحریک کو مزید تقویت فراہم کریں گے۔ آنے والے عرصے میں اگر پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں بھی کوئی سنجیدہ مزاحمت ابھرتی ہے تو پاکستانی سامراجی ریاست بھی اسی قسم کے جبر کے ذریعے اس کو کچلنے کی کوشش کرے گی۔ پہلے ہی یہ ریاست گلگت بلتستان میں جبر کے خلاف ابھرنے والے ہر آواز کو دبانے کے لئے وحشیانہ سزائیں دے چکی ہے۔ یہ بڑھتا ہوا جبر ان سامراجی ریاستوں کی زوال کے باعث کمزوری کی عکاسی ہے جس کو ایک وحشیانہ درندگی کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور دوسری جانب پہلے سے موجود نام نہاد جمہوری آزادیوں کو اب اس زوال پذیر نظام کے تحت مزید قائم رکھنے کی اہلیت کا خاتمہ بھی جھلک رہا ہے۔ حکمران طبقات کی سماج کو سیاسی ڈھانچوں اور سیاسی عمل کے ذریعے چلانے اور کنٹرول کرنے کی اہلیت ختم ہوتی جا رہی ہے، تمام سیاسی پارٹیوں کا عوام دشمن کردار عیاں ہو چکا ہے اور ان پارٹیوں کا وجود صرف حکمران ریاست اور میڈیا کی وجہ سے قائم ہے۔ ایک ننگے ریاستی جبر اور سیاسی مارشل لا کے ذریعے اس نظام کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے باعث تمام ریاستی اداروں کا عوام دشمن کردار بھی واضح ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جبر اور معاشی مسائل کا انبار ایک تازہ دم مزدور تحریک کی راہ ہموار کر رہے ہیں جو کسی بھی وقت ایک اچانک دھماکے کے ساتھ اپنا اظہار کر سکتی ہے۔
کشمیر کی تحریک آزادی میں اب تک اپنائے جانے والے نظریات اور طریقہ کار کی حاصلات اور ناکامیوں کا بھی تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے تمام جدوجہد کو از سر نو درست نظریات اور طریقہ کا ر پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کی تحریک میں سب سے بنیادی کمزوری یہ رہی ہے کہ بعض قوم پرست تنظیمیں پاکستانی سامراج کو کشمیر کی آزادی کا حمایتی سمجھتی آئی ہیں جبکہ عمومی طور پر بھی بڑے سامراجی ممالک یا ان کے بنائے گئے اقوام متحدہ جیسے ناکارہ اداروں کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کمزوری کے باعث آج تک آزادی پسند پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام میں اپنی مضبوط حمایت بنانے میں ناکام رہے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کا مقصد بھی عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے سے زیادہ نہیں رہا۔ دوسری بڑی کمزوری یہ رہی کہ کشمیر کے تین فریق اس مسئلے کو تین مختلف قومی بنیادوں پر دیکھنے اور حل کرنے کی کوشش کرتے رہے اور مودی حکومت کا موجودہ فیصلہ ان تینوں قسم کی قوم پرستی کی ناکا می کا کھلا اظہار ہے۔ پاکستان کے سامراجی حکمران کشمیر کو ایک مذہبی یعنی اسلامی قوم پرستی جیسے غلط نظریے کے ذریعے کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو چھپانے کی کوشش کرتے آئے ہیں اسی طرح ہندوستان کے حکمران طبقات کشمیر پر اپنے قبضے کو ہندوستان کی سیکیولر قوم پرستی کے لبادے میں چھپاتے آئے ہیں اور ان کے رد عمل میں کشمیری آزادی پسند بھی ان دونوں ممالک کی سامراجی قوم پرستی کو رد کرنے کے لئے کشمیری قوم پرستی کی وکالت کرتے رہے۔ کشمیر کی قوم پرستی کا اگرچہ حقیقی جواز موجود ہے لیکن اس حقیقت کو مد نظر نہیں رکھا گیا کہ قوم پرستی کے سرمایہ دارانہ نظریات قومی مسئلے کو ترقی پسندانہ بنیادوں پر حل کرنے کی تاریخی اہلیت سے محروم ہو کر مسترد ہو چکے ہیں۔ ان متروک قوم پرستی کے نظریات پر کاربند رہنے کے باعث آزادی کی تحریک اپنی کمزوریوں کو دور کرنے میں ناکام رہی۔ اسی کمزوری اور درست نظریات کے نہ ہونے کے باعث ایک یا دوسری سامراجی طاقت یا سامراجی اداروں پر ہی انحصار کیا جاتا رہا جس کا نتیجہ موجودہ صورتحال کی صورت میں برآمد ہوا کہ مودی کے موجودہ جابرانہ فیصلے کے خلاف نہ تو کوئی سامراجی طاقت یا ادارہ مظلوم کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کو رکوانے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی آزادی پسند خاص کر پاکستانی مقبوضہ حصے میں کوئی بڑے عوامی احتجاج منظم کر سکے۔ اگرچہ 26 اگست کے مظاہرے ایک اہم پیش رفت ہیں لیکن ان کو اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
مودی حکومت کے موجودہ فیصلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اب ماضی کی طرح محض احتجاجوں کا وقت ختم ہو گیا ہے اور تمام سامراجی حکمران طبقات اور ان کے اداروں سے جھوٹی امیدیں مزید وابستہ رکھنے کے بجائے جدوجہد کو عوامی بنیادوں پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ قوم پرستی کے نظریات کی بجائے جدید سائنسی نظریات کو اپناتے ہوئے آزادی کی جدوجہد کو کشمیر کے تمام منقسم حصوں میں عوامی اور محنت کشوں کی بنیاد پر استوار کرنے کی ضرورت ہے اور اس لڑائی کو پاکستان اور ہندوستان کے عوام اور محنت کشوں کی اس نظام کے خلاف کی جانے والی جدوجہد کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے مظلوم و محکوم عوام کی لڑائی اپنی بنیاد میں سامراجی جبر اور قبضے سے آزادی کی ہی لڑائی ہے لیکن اس کا حصول قومی لڑائی کے ذریعے آج کے عہد میں ممکن نہیں رہابلکہ یہ کشمیری عوام کی طبقاتی لڑائی کے ذریعے اس زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے ذریعے ممکن ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف یہ لڑائی اپنے آغاز میں کشمیر کی منقسم حالت کے باعث کشمیر کے تمام منقسم حصوں کے عوام کی قومی لڑائی کے ذریعے پاکستان اور ہندوستان کی قابض ریاستوں کے قبضے کے خاتمے کی لڑائی نہیں بن سکتی۔ پاکستانی مقبوضہ علاقوں کے عوام اور محنت کشوں کی پاکستانی ریاست کے قبضے کے خاتمے کی لڑائی اپنے آغاز میں پاکستان کے محنت کشوں اور مظلوم عوام کی اس ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف انقلاب کی جدوجہد کے ساتھ منسلک ہے اور یہ جڑت کشمیری عوام اور محنت کشوں کی اکثریت کے حق خود ارادیت بشمول حق علیحدگی کے تسلیم کئے جانے کی بنیادپر ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام اور محنت کشوں پر جاری ریاستی جبر کے خاتمے کے لئے درکار حقیقی طاقت خود ہندستان کا محنت کش طبقہ اور انقلابی ہیں جو اس وقت بھی اس ظلم کے خلاف پورے ہندوستان میں سراپا احتجاج ہیں۔ یہی محنت کشوں اور عوام کی وہ طبقاتی جڑت ہے جو ان سامراجی ریاستوں کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے اس خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو ہر قسم کی قومی و طبقاتی غلامی سے نجات دلا سکتی ہے۔
اگر کوئی سیاسی کارکن یہ تصور رکھتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کی ان وحشی ریاستوں کے وجود کو قائم رکھتے ہوئے کسی بھی طریقے سے کشمیر پر ان کے قبضے کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اورکشمیر کو ایک حقیقی معنوں میں خودمختار و خوشحال ریاست بنایاجا سکتا ہے تو اس کی سادہ لوحی اور معصومیت پر سوائے افسوس کے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی ریاست کے قبضے کو عملاً صرف اسی صورت میں ختم کیا جاسکتا ہے جب پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام اور محنت کشوں کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت میں بڑے پیمانے پر پاکستان کے عوام اور محنت کش اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کریں گے۔ پاکستان کے حکمران طبقات جہاں کشمیر یوں پر غاصبانہ قبضہ قائم کیے ہوئے ہیں اس کے ساتھ یہی حکمران طبقات پاکستان بھر کے محنت کشوں اور مظلوم عوام پر اپنی ظالمانہ طبقاتی حاکمیت قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہ غاصبانہ حاکمیت اور قبضہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچوں کے ذریعے قائم ہے اس لئے کوئی بھی حقیقی آزادی ان ڈھانچوں کو مکمل اکھاڑے بغیر ممکن نہیں۔ حکمران طبقات خواہ ان کا تعلق مظلوم قوم سے ہو یا ظالم و غاصب قوم سے دونوں کی حاکمیت اور مفادات اس سرمایہ داری نظام کو قائم رکھنے سے وابستہ ہیں جبکہ عوام اور محنت کش طبقات، خواہ ان کا تعلق کسی بھی قومیت سے ہو، کی آزادی اور نجات اس نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے خطے کی معیشت اور سیاست پر اپنا اجتماعی راج اور حاکمیت قائم کرنے سے ہی ممکن ہے۔ لیکن قومی بنیادوں پر ان حکمران طبقات کے خلاف کی جانے والی جدوجہدجو نعرے اور پروگرام اپناتی ہے ان کے ذریعے یہ جدوجہد ایک قوم کے محدود دائرے کے اندر ہی مقید ہو کر رہ جاتی ہے جس کو حکمران طبقات ریاستی طاقت کے ذریعے آسانی سے کچلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی تمام تحریک کے اسباق بھی یہی ہیں اور حالیہ عرصے میں پشتون تحفظ تحریک کی ناکامی کی بھی بنیادی وجوہات یہی ہیں۔
اس خطے کی تاریخ سے ایک اور اہم مثال سے بھی یہی نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ جب بھی محنت کشوں اور عوام کی کسی بڑی تحریک سے اس نظام کے مکمل خاتمے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے تو حکمران طبقات نظام کو بچانے کے لئے قومی منافرت پھیلا کر خطوں کو تقسیم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انگریز سامراج کے خلاف جاری ہندوستان کی قومی آزادی کی تحریک جب 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت اور اس کی حمایت میں ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریک کے ذریعے اس خطے سے انگریز راج کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے لئے بھی ایک خطرہ بننا شروع ہوگئی تھی تو انگریزوں نے بر صغیر کے مقامی حکمرانوں کے ساتھ مل کر اس خطے کی خونریز تقسیم جیسے بھیانک جرم سے بھی اجتناب نہیں کیا تھا اور اسی تقسیم کے تسلسل میں ہی کشمیر کی تقسیم وجود میں آئی۔ اس کے بعد جب 1968ء میں پاکستان میں ایوب آمریت کے خلاف ایک انقلابی تحریک ابھری جس کا کراچی سے ڈھاکہ تک ایک ہی نعرہ تھا کہ سوشلزم آوے ہی آوے تو اس تحریک کو بھی قومی بنیادوں پر تقسیم کر کے دو ملک بنا دئیے گئے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو بچا لیا گیا۔ ان مثالوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آج کے سامراجی عہد میں حکمران طبقات کے لئے بنیادی ترجیح اس نظام کا تحفظ ہے چونکہ اس نظام میں اصل حکمرانی معاشی و مالیاتی سرمائے کی زنجیروں پر مبنی ہے اور اس نظام کے تحفظ کے لئے حکمران طبقات خود قومی امتیازات کو بوقت ضرورت استعمال کرتے ہوئے اس نظام کے خلاف ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کو تقسیم کرتے ہیں چاہے اس کے لئے ان کو کسی ملک کے کتنے ہی ٹکڑے کیوں نہ کرنے پڑ جائیں۔ آج کے عہد میں قومی بنیادوں پر آزادی کی کوئی بھی تحریک حکمران طبقات کے لئے کسی خطرے کی بجائے بالواسطہ حکمران طبقات کے مفادات کو تقویت فراہم کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے چونکہ یہ حکمران طبقات جن محکوم و مظلوم محنت کشوں اور عوام کا استحصال کر رہے ہوتے ہیں وہ سب اگر حکمرانوں کی پیدا کردہ قومی، لسانی، مذہبی، علاقائی اور دیگر تقسیموں کو مسترد کرتے ہوئے ان حکمرانوں کے خاتمے کے لئے متحد ہو کر لڑائی کے میدان میں اتر آئیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ قومی شناخت اور تشخص کو حکمران طبقات ایک مقدس نظریے کے طور پر اس لئے پروان چڑھاتے رہتے ہیں کہ مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے عوام اورمحنت کشوں کو اپنی اپنی قومی عظمت اور انفرادیت کو حاصل کرنے کے زعم میں مبتلا رکھ کر ان کو آپس میں متحد ہونے سے روکا جا سکے اور جب ایک قوم کے عوام کسی بڑی تحریک میں متحرک ہوں تو ان کو باقی اقوام کے محنت کشوں سے جڑنے سے روکنے کے لئے ان کے قومی علیحدگی کے نعروں کو یہ ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکے کہ وہ تو ملک کے دشمن اور غدار ہیں یا یہ محض اس خاص قوم کا مسئلہ ہے۔ سامراجی قوم کی قومی عظمت کو مظلوم اقوام پر براہ راست اور بالواسطہ طریقوں سے اسی لئے مسلط کیا جاتا ہے کہ محکوم قوم کی قومی محرومی اور کمتری سے نجات کی خواہش اس محکومی کے حقیقی خاتمے کے نظریات کی جگہ لے لے۔ پاکستانی ریاست کے قومی قید خانے میں مقید سبھی محکوم قوموں کی قومی آزدی کی جدوجہدیں پنجاب سے شدید نفرت اور تعصب پر خود کو قائم رکھے ہوئے ہیں اوراسی نفرت کو حکمران طبقات پاکستان دشمنی کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پنجاب کے محنت کشوں اور عوام کے حب الوطنی کے جذبات کو ابھارکراپنے سامراجی تسلط کو تقویت دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
ایک ہی معاشی و سیاسی اکائی کے تحت رہنے والے مختلف اقوام کے محنت کش جس قدر سختی کے ساتھ اپنی قومی حدود میں خود کو پابند رکھیں گے اتنا ہی حکمران طبقات کے لئے ان کو قومی بنیادوں پر تقسیم کر کے ان کا استحصال کرنے اور ان کو محکوم رکھنے میں آسائش میسر رہے گی۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی تحریک میں موجود وہ تمام نعرے اور اقدامات جو اس تحریک کو پاکستان کا حمایت یافتہ ثابت کرتے ہیں اس تحریک کے لئے ایک زہر قاتل ہیں۔ اس وقت اس تحریک کی سب سے مضبوط حمایت ہندوستان کے اندر موجود ہے اور کشمیر کی تحریک کے باشعور حصوں کا سب سے اہم تاریخی و سیاسی فریضہ بھی یہی ہے کہ وہ ہندوستانی ریاست کے جبر کے خلا ف لڑنے کے لئے ہندوستان کے عوام اور محنت کشوں کے ساتھ ایک حقیقی جڑت تشکیل دینے کے عمل کو آگے بڑھائیں۔ ہمارے ارد گرد موجود ٹھوس حقائق کو اسی طرح دیکھنے کی ضرورت ہے جیسے وہ ہیں نہ کہ ان حقائق کو صرف اس لئے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جائے چونکہ وہ ہماری خواہشات کے مطابق نہیں ہیں۔ ہندوستانی مقبوضہ کشمیر ہندوستان کی معاشی، سیاسی اور ریاستی اکائی کا حصہ ہے اور اسی طرح پاکستانی مقبوضہ کشمیر بھی پاکستان کا حصہ ہے، آزادی پسند اس عمل کو غیر قانونی، غیر اخلاقی، غاصبانہ، سامراجی اور دیگر بے شمار قسم کے نام دے سکتے ہیں لیکن اس سے ان حقائق کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند پاکستان کے قبضے کو جابرانہ سمجھ کر اس کو مسترد کرتے ہیں اور اسی لئے خود کو پاکستان کی سیاست سے مکمل علیحدہ کر لیتے ہیں لیکن اس کے ذریعے پاکستان کا معاشی، سیاسی اور ریاستی قبضہ مسترد نہیں ہو جاتا بلکہ وہ بدستور اپنا جگہ پر قائم رہتا ہے۔ ہم پاکستان کے قبضے کو مسترد کرتے ہیں، اس سے نجات کی خواہش رکھتے ہیں اور اس کے لئے جدوجہد بھی کرتے لیکن ہم اس اکائی کا حصہ ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک عملاً اس سے نجات حاصل نہیں کر لیتے۔ جس طرح سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے لئے جدوجہد کرنے والے اس نظام کو متروک اور زوال پذیر کہہ کر اس سے نجات نہیں حاصل کر سکتے بلکہ اس کے اندر رہتے ہوئے ہی اس کے تمام تضادات اور حرکت و تبدیلی کے عمل کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے ظلم و استحصال کا شکار سبھی محکوم و مظلوم لوگوں کو متحد کرتے ہوئے ہی اس کے خاتمے کی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں، اسی طرح پاکستانی ریاست کے زیر قبضہ کوئی بھی محکوم قوم اس ریاست کے ظلم، جبر و استحصال کا شکار سبھی محکوموں و مظلوموں کے ساتھ مل کر ہی اپنی نجات کی لڑائی کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔ کم از کم ایک سیاسی و معاشی اکائی کے حکمرانوں کے خلاف لڑائی صوبائی یا علاقائی بنیادوں پر نہیں لڑی جا سکتی بلکہ ان الگ الگ اور بکھری ہوئی لڑائیوں کو ان حکمرانوں کے خلاف ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا فریضہ ہی آج کا سب سے انقلابی فریضہ ہے۔
کشمیر، پشتونخوا، بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے محنت کشوں اور عوام کا ایک ہی دشمن ہے اور وہ ہے سرمایہ داری نظام اور یہ حکمران ریاست۔ اگر ہم سب کا دشمن ایک ہے اور وہ ایک ہی ریاستی ڈھانچے کی صورت میں منظم ہے تو اس کے خلاف جدوجہد بھی ایک پلیٹ فارم پر منظم ہو کر کی جاسکتی ہے۔ جب تک اس ریاستی ڈھانچے کی مرکزیت کو نہیں توڑا جاتا تب تک اس کے جبر کو شکست نہیں دی جا سکتی اور اس مرکزیت کو تمام محنت کشوں کے اتحاد کی بنیاد پر ہی توڑا جا سکتا ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسندوں کو سب سے پہلے ایک ایسے سیاسی و معاشی آزادی کے پروگرام کو اپنانا پڑے گا جس پر آغاز میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام اور محنت کشوں کو متحد کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا جا سکے۔ یہی سیاسی پروگرام وہ بنیاد فراہم کرے گا جس پر پاکستان اور ہندوستان کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کی جاسکتی ہے اور ایسا پروگرام اس نظام اور حکمران طبقے کی حاکمیت کے مکمل خاتمے اور اس پورے خطے میں عوام اور محنت کشوں کے اجتماعی راج اور تمام وسائل پر اجتماعی کنٹرول کا انقلابی پروگرام ہی ہو سکتا ہے۔ اگر پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں اس پروگرام کے گرد ایک عوامی تحریک کی تعمیر کا آغاز کرنے میں کامیابی حاصل کی جا تی ہے تو اس کی پیش رفت کا ہر قدم پورے خطے کے عوام اور محنت کشوں کے لئے ایک روشنی کا مینار ثابت ہو گا۔
اس طرز کی جدوجہدکے لئے ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اس تبدیل شدہ عہد کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے خود کو تبدیل کریں۔ ذاتی، گروہی اور شخصی مفادات اور مقاصد سے خود کو بلند کرتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کے لئے ایک محدود اور مختصر پروگرام پر اتفاق رائے قائم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اس مختصر پروگرام کو عوام تک لے جانے کی جدوجہد کے دوران اس کو مزید نکھارنے اور مکمل انقلابی بنانے کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے ایک بڑی عوامی تحریک کی تعمیر کا عمل اس خطے کی سات دہائیوں پر مشتمل جدوجہد کو ایک نئی مہمیز دے سکتا ہے۔ مختلف نظریات کے مابین بحث کو نہ صرف جاری رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بحث و مباحثے کے انداز کو زیادہ جمہوری بنایا جائے اور جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے درست تجاویز اور پروگرام کو سامنے لاتے ہوئے اپنے نظریات کی درستگی کو ثابت کیا جائے نہ کہ بحث برائے بحث کے منفی طریقوں سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی غلط روش کو جا ری رکھا جائے۔
نظم و ضبط کے قیام کی بنیاد کبھی بھی آئینی ضابطوں پر نہیں رکھی جاسکتی بلکہ نظم و ضبط کے لئے اولین شرط سیاسی و نظریاتی ہم آہنگی کا قیام ہوتا ہے جس کے لئے سیاسی و نظریاتی بحث و مباحثے کے عمل کو ترجیحی اہمیت دی جانی ضروری ہے۔ ایک ہی مقصد کو مختلف طریقوں اور نظریات کے ذریعے حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والوں کے درمیان کوئی بھی پائیدار اتحاد تشکیل نہیں پاسکتا نہ ہی اس قسم کا اتحاد کسی مقصد کے حصول کی کوئی کارآمد جدوجہد کر سکتا ہے جب تک کہ سیاسی و نظریاتی مباحثے کے ذریعے ایک پروگرام اور اس کے حصول کے طریقہ کار پر شعوری ہم آہنگی پروان نہیں چڑھائی جاتی۔ متحد ہو کر آگے بڑھنے کے عمل میں سب سے بنیادی رکاوٹ کشمیر کے آزادی پسندوں کے اب تک چلے آنے والے اختلافات اور آپسی ٹوٹ پھوٹ اور گروہ بندی سے بھر پور ماضی ہے جو ہماری نفسیات اور شعور میں راسخ ہو چکا ہے۔ ماضی میں جن نظریات کی بنیاد پر یہ جدوجہد کی جاتی رہی ان نظریات کی خامیوں کے نتیجے میں ہونے والی ناکامیوں کو افراد کے سر تھونپتے ہوئے ایک دوسرے کو ان ناکامیوں کا ذمہ ٹھہرایا جاتا رہا اور کبھی بھی ان نظریات اور طریقوں کی خامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے ان کو ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کی گئی اسی لئے اس وقت اختلافات کے بنیادی مواد میں ذاتی رنجشیں زیادہ حاوی ہیں جبکہ سیاسی مواد مکمل طور پر غائب ہو چکا ہے۔ پس آگے بڑھنے کی بنیادی شرط ایک نئی سیاسی بحث کا آغاز ہے۔ واقعات کے زیر اثر ہونے والا کوئی بھی عمل زیادہ دیرپا نہیں ثابت ہوتا کیوں کہ ایسا اثر خود وقت گزرنے کے ساتھ زائل ہو جاتا ہے اس کے ساتھ ہی وہ جذبات بھی ماند پڑ جاتے ہیں جو اس کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے۔ آزادی پسندوں کے موجودہ اتحاد کا بنیادی محرک بھی ایک واقعہ ہے جس کے اثرات کی مدت بہت ہی کم ہے اس لئے ایک انقلابی پروگرام کی ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہوئے ہی اس کو مضبو ط بنایا جا سکتا ہے۔
ہمارا سماج جس سماجی و معاشی پسماندگی اور ناہمواری پر مبنی ہے ان مادی حالات سے جنم لینے والے شعور و نفسیات میں بے شمار پیچیدگیاں ہوتی ہیں جو مختلف رویوں کے ذریعے اپنا اظہار کرتی ہیں۔ خود پسندی، انفرادیت اور شخصیت پرستی وہ عام منفی رویے ہیں جو ہمارے اندر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ اس طرز کی نفسیات کے بے شمار مسائل ہوتے ہیں لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی نظریے کو کسی شخصیت سے منسوب کر کے دیکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ یہ نظریات کے مطالعے میں عدم دلچسپی ہے جس کے باعث ہم نظریات کے بجائے افراد پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنے پر لا شعوری طور پر مجبور ہو جاتے ہیں اور اسی سے ہر قسم کی شخصیت پرستی جنم لیتی ہے جو پھر مخصوص حالات میں شخصی اور ذاتی اختلافات کو بھی جنم دیتی ہے۔ اس قسم کے تمام رحجانات کے خلاف لڑنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نظریاتی تربیت کے عمل کو مسلسل آگے بڑھانے کا عمل جاری رکھا جائے اور ایک انتہائی دوستانہ ماحول پر مبنی سیاسی بحث و مباحثے کے عمل کو فروغ دیا جائے۔ آزادی اور انقلاب جیسی عظیم جدوجہدیں معیشت، سیاست، سماج، ثقافت، ریاست اور مجموعی طور پر انسانی تاریخ کے ہر پہلو کے گہرے مطالعے سے انسانی سماج کی حرکت اور تبدیلی کے بنیادی سائنسی قوانین پر عبور کی متقاضی ہوتی ہیں اور اسی مطالعے کے ذریعے سیاسی کارکنان سماجوں کو تبدیل کرنے اور تاریخ کا دھارا موڑ دینے کی اہلیت حاصل کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر دیکھا جائے تو آگے بڑھنے کے لئے ماضی کے تجربات سے اخذ کردہ اسباق اور درست نظریاتی و تنظیمیں بنیادوں پر اتحاد کو استوار کیا جائے۔ اتحاد میں اتھارٹی کی بنیاد افراد، عہدے اور اسی طرح کی دیگر فرسودہ روایات کی بجائے نظریاتی اور سیاسی ہونی چاہیے۔
ہر انقلابی کارکن کا تاریخ کی جانب رویہ سائنسی اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے جس کے ذریعے تاریخ کے مطالعے سے تاریخ کی حرکت کے اصولوں کو سمجھا جا سکے اور ماضی میں ہونے والی جدوجہدوں کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھا جا سکے، اس میں خود اپنی جدوجہد کی غلطیوں پر تنقید کرتے ہوئے اس سے سیکھنا بھی شامل ہے۔ انسانی تاریخ مسلسل تغیر پذیر اور ہر لمحہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے اور اس کے ایک عہد کے درست نظریات اور طریقہ کار دوسرے اور تبدیل شدہ عہد میں یکسر غلط ہو جاتے ہیں۔ اس لئے تمام نظریات کو سائنسی اصولوں پر پرکھ کر ان میں سے سب سے جدید نظریات کو اپناتے ہوئے ہی مستقبل کی جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ انسانی شعور کا یہ دلچسپ المیہ ہے کہ مادی پیداوار کو اپنانے کے حوالے سے یہ ہمیشہ جدت پسند واقع ہوا ہے جبکہ نظریات کے حوالے سے یہ انتہائی قدامت پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ چند دہائیاں قبل تک رابطوں کے لئے ہم خط و کتابت کو استعمال کرتے تھے لیکن آج دنیا کی جدید تکنیک یعنی موبائل فون اور الیکٹرانک میل (ای میل) کا استعمال کرتے ہیں اور اس جدت کو اپنانے کے لئے ہم نے کوئی مزاحمت نہیں کی جبکہ قومی آزادی حاصل کرنے کے لئے ہم آج بھی تین صدیاں پہلے کے نظریات اور طریقہ کار پر کاربند رہنے پر بضد ہیں۔
جدید قومی ریاست کا قیام زوال پذیر جاگیرداری کے خلاف ابھرتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کا نظریہ تھا جو اس عہد کا سب سے انقلابی نظریہ تھا جس نے جاگیر دارانہ سماج کی تنگ حدود کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک قومی اور سیکولر ریاست کی بنیاد رکھی تھی اور سائنس و فنون سمیت آج کی تمام ایجادات اور ترقی اس انقلاب کی دین ہے۔ لیکن گزشتہ صدی کے آغاز پر پہلی عالمی جنگ اس امر کا اظہار تھا کہ سرمایہ داری نظام اپنا ترقی پسندانہ کردار پورا کر چکا ہے اور اب یہ بتدریج زوال کی جانب گامزن رہے گا۔ دوسری عالمی جنگ اور اس کے بعد سرد جنگ کے دوران عالمی سطح پر ہونے والی تباہی اسی زوال کی عکاسی تھی۔ 2008ء سے شروع ہونے والے عالمی معاشی زوال سے دنیا ابھی تک نہیں نکل سکی اور ایک نئے پہلے سے بڑے زوال کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سرمایہ دارانہ بنیادوں پر آزادی حاصل کرنے والی کوئی بھی ریاست یورپی ممالک کی طرح جدید اور ترقی یافتہ ریاست اس لئے نہیں بن سکی کہ اس نظام میں ترقی کی صلاحیت ہی نہیں رہی تھی۔ کچھ دیگر ریاستوں نے اس دوران بیوروکریٹک سوشلزم یا پرولتاری پونا پارٹزم کے تحت ترقی کی لیکن سوشلزم کی بین الاقوامیت سے روح گردانی کرنے اور قومی حدود میں سوشلزم تعمیر کرنے جیسے غلط نظریات کو اپنانے کے باعث ان ممالک میں بھی روس اور چین سمیت، دوبارہ سرمایہ داری استوار ہو گئی جس نے ان ممالک میں حاصل کی گئی ترقی کو بھی برباد کر دیا۔
آج ہم عالمی سطح پر سرمایہ داری نظام کے ٹوٹ کر بکھرنے کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں اور اس عہد میں قومی آزادی سمیت کسی بھی مسئلے کو سرمایہ دارانہ نظریات اور طریقہ کار کے تحت اور اس کی حدود کے اندر رہتے ہوئے حل نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب قومی سوشلزم کے نظریات بھی وقتی اور نسبتی کامیابی کے بعد دوبارہ سرمایہ داری کو استوار کرتے ہوئے اپنی ناکامی ثابت کر چکے ہیں۔ آج کا عہد ایک بلند معیار پر سولہویں اور سترہویں صدی کے یورپ میں جاگیرداری عہد کے زوال اور ٹوٹ کر بکھرنے اور سرمایہ دارانہ انقلابات کے ابھار سے کچھ مماثلتیں رکھتا ہے۔ جس طرح ایک ہزار سال تک قائم رہنے کے بعد ایک وقت میں جاگیرداری پر مبنی چھوٹی چھوٹی راج دہانیاں سماجی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی تھیں اور ان کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک بڑی قومی ریاست کو قائم کرنا ایک ترقی پسندانہ قدم تھا اسی طرح چند صدیاں پہلے قائم ہونے والی قومی ریاست اپنا ترقی پسندانہ کردار مکمل کر کے آج انسانی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ دوسری بڑی رکاوٹ ذرائع پیداوار اور دولت پر چند لوگوں کی نجی ملکیت ہے۔ آج کے عہد میں کشمیر سمیت دنیا کے کسی بھی خطے میں قومی مسئلہ اگر موجود ہے تو یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ سرمایہ داری نظام جس کا اپنا آغاز ہی قومی ریاست کو قائم کرنے سے ہوا تھا اپنے زوال کے عہد میں اس کو حل کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہو چکا ہے، اس لئے جب تک اس نظام کو اکھاڑ کر نہیں پھینکا جاتا کشمیر یا فلسطین سمیت دیگر خطوں میں حقیقی قومی آزادی کا حصول ممکن نہیں۔
اس وقت دنیا پر اصل حاکمیت چند سو بڑی سامراجی کمپنیوں، مالیاتی اداروں یا بینکوں کی ہے جن کے مفادات کا تحفظ کرنا ہی مختلف ممالک کے حکمران طبقات اور ریاستوں کا اولین فریضہ ہے۔ ریاست کو مقدس شے سمجھنے والوں کو ریاست کے تاریخی کردار کو بھی سمجھنا ہو گا کہ ریاست سب سے پہلے منظم مسلح افراد کے جتھوں (فوج،پولیس) اور جبر کے تمام مادی ذرائع(عدالتیں، جیل وغیرہ) کا مجموعہ ہوتا ہے جس کا آغاز ہی سماج کے طبقات میں تقسیم ہونے کے نتیجے میں ہوا تھا اور یہ ہر عہد کے حکمران طبقے کی ریاست ہوتی ہے۔ غلامی کے عہد میں ریاست غلام مالکان کی ہوتی تھی اور جاگیرداری عہد میں جاگیرداروں کی اور اسی طرح ہمارے عہد میں یہ سرمایہ دار طبقے کی ریاست ہے۔ عام عوام اور محنت کش طبقے کی ریاست وہی ہوگی جس میں تمام ذرائع پیداوار اور دولت سماج کی اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے سماج پر عملاً عوام اور محنت کشوں کی حاکمیت اور راج قائم کیا جائے گا اور ایسی ریاست کا جغرافیہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں تک کشمیر کی ریاست کی طویل تاریخ سے کسی ایک عہد کے جغرافیے کو بنیاد بناتے ہوئے مستقبل کی کسی ریاست کے قیام کی جدوجہد کا تعلق ہے تو اس میں محض اس خطے کے متنازعہ ہونے کے باعث اس تاریخی حوالے سے بحث کا آغاز کیا جا سکتا ہے لیکن عملی جدوجہد ان ٹھوس حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کی جاسکتی ہے جو گزشتہ سات دہائیوں کے دوران وجود پذیر ہو چکے ہیں۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مستقبل کی جدوجہد میں ماضی کے خاکوں کی اہمیت بہت محدود ہوتی ہے اور ان کو مستقبل پر من و عن مسلط کرنے کی کوشش کی بجائے حال کی ٹھوس اورمعروضی صورتحال میں موجود مستقبل کے ترقی پسندانہ امکانات کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔
ہر وہ سرگرمی جو عوام اور محنت کش طبقے کی اکثریت کی شعوری اور عملی شمولیت کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچائی جاسکتی اس کو چھوٹے سے گروہ کی بنیاد پر کرنے کی کوشش کو مہم جوئی کہا جاتا ہے اور ایسی تمام سرگرمیاں عوام کی اکثریت کو سیاسی عمل سے دور دھکیلنے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی طرح وہ تمام نعرے اور مطالبات جو عوام کی اکثریت کے بنیادی مسائل کے حل کی نمائندگی نہیں کرتے عوام کو جدوجہد میں شمولیت سے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے ایک جانب ایسی تمام سرگرمیوں کو ترک کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری جانب ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے سیاسی و انقلابی پروگرام کی بنیاد پر ایسے نئے نعرے تخلیق کئے جائیں جو انقلابی نظریات کو عوام میں قبولیت دلانے میں معاون ثابت ہوں۔ ماضی کے نعروں کو ترک کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے مقاصد سے دستبردار ہو رہے ہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان نعروں میں جدت لاتے ہوئے ان کو عوامی بنایا جائے۔ اسی طرح تنگ نظری کی کوئی بھی شکل ہو وہ تعصب کو جنم دیتی ہے اور تعصب سے زنگ آلود ذہن انقلابی نہیں ہو سکتانہ ہی متعصبانہ ذہنیت کے ذریعے سماجی و سیاسی حقائق کی سائنسی سمجھ بوجھ حاصل کی جا سکتی ہے۔ قوم پرستی کے نظریے کے خمیر میں قومی تفاخر یعنی اپنی قوم کو سب سے عظیم سمجھنے کا رحجان موجود ہوتا ہے اور یہ نقطہ نظر یعنی قومی بنیادوں پر ہی سیاسی و سماجی مظاہر و عوامل کو سمجھنے کی کوشش ہمیں ان حقیقی معاشی و مادی وجوہات سے دور کر دیتی ہے جن کے ذریعے موجودہ حالات کی سائنسی وضاحت ممکن ہے۔ جب تک پاکستان اور ہندوستان کا محنت کش طبقہ اور عوام قومی بنیادوں پر ہندو پاک تعلقات کو دیکھتے رہیں گے تب تک ان کو صرف وہی کچھ دکھائی دے گا جو ان دو ممالک کے حکمران طبقات ان کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں چونکہ قوم پرستی ہر قوم کے حکمران طبقے کا نظریہ ہے جس کے پیچھے وہ اپنی قوم میں موجود امیر اور غریب کی تفریق اور حاکم و محکوم کی طبقاتی تقسیم کو چھپائے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح محکوم قوم کی قوم پرستی بھی حاکم طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرنے والے نظریات ہوتے ہیں اور ان میں کبھی بھی عوام اور محنت کشوں کی حقیقی نجات کا پروگرام موجود نہیں ہوتا۔ محکوموں اور مظلوموں کی حقیقی نجات کا نظریہ وہی ہے جو امیر اور غریب اور حاکم و محکوم کے مفادات کے فرق کو مکمل طور پر واضح کرتے ہوئے صرف محکوموں کی نجات کے پروگرام کو سامنے لاتا ہے۔
کشمیر کی حیثیت میں موجودہ تبدیلی جس غیر معمولی عہد کی عکاسی کرتی ہے اس میں اسی طرح کی مزید تبدیلیاں بھی واقعات کے دباؤ تحت ہو سکتی ہیں لیکن موجودہ نظام کے تحت کوئی بھی تبدیلی اس مسئلے کے کسی ایسے حل کی جانب نہیں جا سکتی جس سے اس خطے کے عوام اور محنت کشوں کو حقیقی آزادی مل سکے۔ تبدیلیوں کا یہ عمل نئی عوامی تحریکوں کو جنم دے گا جن میں اگر درست نظریات کی بنیاد پر مداخلت کی جاتی ہے تو ایک حقیقی آزادی کی جدوجہد کو مضبوط بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ آنے والے ماہ و سال عالمی سطح پر اس نظام کے ٹوٹ کر بکھرنے کے عمل کو تیز تر کریں گے جس میں اس نظام کی تبدیلی کے حالات ہر خطے میں زیادہ سازگار ہوتے جائیں گے۔ اس نظام کو تبدیل کرنے کے لئے نئی عوامی تحریکوں کے طوفان دنیا بھر میں ابھریں گے لیکن ان تحریکوں کو درست نظریات اور اجتماعی قیادت کی راہنمائی درکار ہو گی۔ جس خطے کے انقلابی بھی درست نظریات پر مبنی ایک اجتماعی قیادت تعمیر کرنے میں کامیابی حاصل کریں گے وہ اس نظام کے انقلاب کے ذریعے خاتمے کے عمل کا آغاز کر سکیں گے۔ کشمیر کے آزادی پسندوں کے سامنے بھی یہی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ آنے والے عرصے میں وہ مہم جوئی، مصالحت پسندی، موقع پرستی اور مفاد پرستی کے خلاف لڑتے ہوئے کتنی تیزی کے ساتھ ایک متبادل اجتماعی قیادت تعمیر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کشمیر کی سیاست میں عملی سرگرمیوں اور احتجاج کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جبکہ نظریاتی و سیاسی تربیت کے عمل کو کافی حد تک غیر ضروری سمجھا جاتا ہے ہمیں اس رویے کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور نظریاتی تربیت اور احتجاجی سرگرمیوں کے درمیان ایک صحت مند تناسب قائم کرنا پڑے گا۔ ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے مقاصد سے زیادہ ان کو حاصل کرنے کے لئے اختیار کئے جانے والے طریقے، نعرے، سیاسی ڈھانچے اور ان کے نام عزیز و مقدم ہو جاتے ہیں۔ ہماری ان کے ساتھ وابستگی ایک ایسی بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ ہم ان کو قائم رکھنے کے لئے اپنے مقاصد کو قربان کر دیتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی نعرہ، کسی تنظیم کا نام اور جدوجہد کا طریقہ کار ایک انقلابی عمل میں صرف اتنی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے ذریعے انقلابی اپنے نظریات کو عوام تک لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر طویل عرصے کے عمل میں ان کے ذریعے عوامی جڑت حاصل کرنے میں کامیابی نہ حاصل ہو سکے تو ان پر نظرثانی کرکے ان کو تبدیل کرتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھانا ہی انقلابیوں کا فریضہ ہوتا ہے نہ کہ ان کو مقدس سمجھ کر ان کو قائم رکھنا۔ ہمارا مقصد آزادی کی جنگ کو آگے بڑھانا اور ایک انقلاب برپا کرنا ہے اس کو کبھی بھی تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے حصول کے تمام اوزاروں کو مسلسل تبدیل کرتے رہنے اور تبدیل شدہ سماجی و سیاسی حالات کے مطابق ہم آہنگ کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کو پورا کئے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ہم آج اتحاد کو تشکیل دینے کے لئے بھی جس پروگرام کو تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں اس کی نوعیت بھی عارضی ہے جس کو مسلسل ترقی دیتے ہوئے ہی ہم اس لڑائی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔
ایک تلخ سچائی یہ ہے کہ ہم ہر قسم کی قوم پرستی(بشمول نام نہاد ترقی پسند قوم پرستی)کے نیم ترقی پسندانہ عہد سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں اور اب بھی اگر ہم آج کے عہد سے مکمل ہم آہنگ نظریات کو اپنانے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں تو تاریخ کے اس طلاطم خیز عہد میں ہمارا نشان تک بھی مٹنے کے امکان موجود ہیں۔ عوام کی اکثریت کو اپنے ساتھ جوڑنے اور ایک حقیقی عوامی تحریک کو منظم کرنے کے لئے ایک عبوری پروگرام تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں عوام، محنت کشوں اور نوجوانوں کے فوری مسائل کے حل کے مطالبات کو ایک حقیقی آزادی کے پروگرام سے منسلک کیا گیا ہو۔ مجرد نعروں کی جگہ عوامی مسائل کے حل کے ٹھوس نعروں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی کارکنان کی نظریاتی تربیت کا عمل اولین اہمیت کا حامل ہے لیکن ان نظریات کو عوام کے روزمرہ مسائل کے حل کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کا فن بھی اتنا ہی اہم ہے۔ روس کے عظیم انقلاب کی قیادت کرنے والی پارٹی کی تاریخ سے ایک مثال اس کو واضح کرنے میں کافی معاونت فراہم کرتی ہے کہ دنیا میں پہلا سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والی پارٹی نے محنت کشوں اور عوام کی حمایت ’انقلاب! انقلاب!۔۔۔ سوشلسٹ انقلاب!‘ کے نعرے کے ذریعے نہیں حاصل کی تھی بلکہ روس کی اس وقت کی ٹھوس سماجی، معاشی اور سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں اور اس سے پیدا ہونے والی بھوک ننگ کی صورتحال سے نجات کے لئے ”امن، روٹی اور زمین“ کا نعرہ دیا تھا۔ اسی طرح ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنی آزادی اور انقلاب کی جدوجہد کو عوام اور محنت کشوں کے فوری مسائل کے حل کے پروگرام کو اپناتے ہوئے ان تک لے جانے کی کوشش کریں اور ایک انقلاب کی جدوجہد کو منظم کرنے کی کوشش کریں چونکہ عوام اور محنت کشوں کی حقیقی آزادی اور ہر قسم کے استحصال و غلامی سے نجات کا حصول ایک انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔
مجوزہ عبوری پروگرام
1۔ کنٹریکٹ اور ٹھیکیداری کا فوری خاتمہ کرتے ہوئے تمام ملازمین کو مستقل کیا جائے اور محنت کشوں کی کم از کم تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کیے جانے نیز تمام اداروں کے محنت کشوں کو یونین سازی سمیت ہڑتال جیسے بنیادوں جمہوری حقوق کا حصول۔
2۔ طلبہ یونین کی بحالی کے ساتھ تعلیم اور علاج کی خرید و فروخت پر پابندی اور ہر سطح پر یکساں اور جدید تعلیم اور علاج کی سہولیات کی مفت فراہمی کا حصول۔
3۔ تعلیم اور روزگار سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین کی برابری کی بنیاد پر شرکت اور نمائندگی کا حصول۔
4۔ چائلڈ لیبر پر پابندی، محنت کے قابل تمام افراد کے لئے روزگار یا بصورت دیگر کم ازکم 15ہزار روپے بیروزگاری الاؤنس کا حصول۔
5۔ کشمیر کے آبی و تمام دیگر قدرتی وسائل اور ان کی آمدن پر آبادی کا اجتماعی کنٹرول اور منصوبہ بندی پر مبنی اجتماعی ترقی کے لئے تصرف کا حصول اور تمام آبادی کو بجلی کی مفت فراہمی۔
6۔ عوام اور محنت کشوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کرتے ہوئے حقیقی انقلابی آئین ساز اسمبلی کا قیام۔
7۔ کشمیر پر قابض غیر ملکی افواج اور ان کے مقامی گماشتوں کی حاکمیت کے خاتمے اور حقیقی قومی و طبقاتی آزادی کا حصول۔
8۔ پہلے مرحلے پر اس جدوجہد کو گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل کے حل اور آزادی کے حصول کی جدوجہد کے ساتھ جوڑنا اور اس کے ساتھ پاکستان کی مزدور تحریک سے مضبوط سیاسی روابط استوار کرنا۔
9۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے جبر کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے وہاں جاری آزادی کی تحریک کے ساتھ یکجہتی کی مہم منظم کرتے ہوئے اس تحریک کو درست نظریات و طریقہ کار اختیار کرنے میں سیاسی و نظریاتی معاونت فراہم کرنا۔
10۔ اپنی تمام جدوجہد کو واضح طبقاتی موقف پر بلا تخصیص تمام حکمران طبقات کے خلاف استوار کرنااور ہر خطے کے محنت کشوں اور عوام کے ساتھ طبقاتی جڑت و یکجہتی کے ذریعے آگے بڑھانے کے لئے جدوجہد کرنا۔
11۔ اس جدوجہد میں شامل ہونے والے تمام محنت کشوں اور نوجوانوں کی سائنسی نظریات پر مبنی تربیت کے لئے سرگرمیوں اور تحریری مواد کی اشاعت کو یقینی بنانا۔
درست سائنسی نظریات کی بنیاد پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے انقلاب کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے خلاف شعوری و سیاسی لڑائی کو غیر جذباتی ہو کر آگے بڑھایا جانا ضروری ہے۔ ایک آہنی نظریاتی ڈسپلن کو حاصل کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ مصلحتوں کے ذریعے بڑی اور ناپائیدار کامیابیوں کے حصول پر چھوٹی لیکن مضبوط بنیادیں استوار کرنے کو ترجیح دی جائے۔ سائنسی نظریات کی طاقت ان کے سچے ہونے میں پوشیدہ ہوتی ہے اس لئے ان کی جتنی بھی مخالفت کی جائے لیکن ان کی سچائی کو کبھی جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ آج کے عہد کے درست سائنسی نظریات کی سچائی اور ان کے ذریعے حاصل کی گئی شعوری ہم آہنگی، ان کو عوام اور محنت کشوں تک لے جانے کا غیر متزلزل عزم اور اس کے لئے فنی مہارت و جرأت کے باہمی امتزاج کے ذریعے ہم اس خطے میں آزادی کے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں جو دنیا بھر کے مظلوموں اور محکوموں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکے۔