|تحریر: یاسر ارشاد|
نام نہاد آزاد کشمیر میں تین ماہ قبل آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف راولاکوٹ انجمن تاجران کے صدر اور سول سوسائٹی کی جانب سے دیگر آزادی پسند سیاسی جماعتوں کے تعاون سے ایک پر امن احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس دھرنے کے بعد ضلع پونچھ کے دیگر چند مقامات پر عوامی ایکشن کمیٹیوں نے بھی پر امن دھرنوں کا آغاز کرتے ہوئے ارباب اختیار تک اپنے مطالبات پہنچانے کی کوشش کی۔ حکومت نے نہ صرف انتہائی سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پرامن دھرنوں کو نظر انداز کیا بلکہ اسی دوران اساتذہ کی احتجاجی تحریک کو بھی ریاستی جبر کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی۔
مرد اساتذہ کی بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے ذریعے اساتذہ کے احتجاج کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن ضلع پونچھ کی خواتین اساتذہ نے بڑی تعداد میں احتجاجی ریلیوں میں شرکت اور دھرنوں کے ذریعے حکومت کو گرفتار اساتذہ کو رہا کرنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن حکومت نے اساتذہ کے اسی احتجاج کے دوران ایک آرڈیننس کے ذریعے اساتذہ کی تنظیم کو ہی کالعدم قراد دے دیا اور اس کے ساتھ تمام ملازمین تنظیموں، ایسوسی ایشنز اور ٹریڈ یونینز سے احتجاج اور ہڑتال کا حق بھی چھین لیا۔
دوسری جانب پر امن احتجاجی دھرنوں کی تحریک نے بھی پہلے ایک روزہ احتجاج، اس کے بعد ایک روزہ مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن کے ذریعے حکمرانوں سے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی واپسی اور بجلی بلوں پر لگائے جانے والے تمام تر ٹیکسز کے خاتمے جیسے مطالبات تسلیم کرانے کی کوشش کی لیکن حکمرانوں نے عوامی مطالبات پر معمولی سی توجہ بھی نہیں دی۔
اسی دوران عوامی ایکشن کمیٹی پونچھ کے نمائندگان کے ایک وفد نے میر پور ڈویژن کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا اور مختلف مکاتب فکر کے نمائندگان سے تحریک کو ان علاقوں میں بھی منظم کرنے کی حکمت عملی اور ضرورت پر تفصیلی بحث و مباحثہ کیا۔ یوں ان علاقوں میں بھی وکلا تنظیموں سمیت مختلف علاقوں کی ایکشن کمیٹیوں نے تحریک کو منظم کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا اور تحریک، جو اب تک پونچھ ڈویژن تک محدود تھی، میرپور ڈویژن میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی۔ 17 جولائی کو راولاکوٹ میں انجمن تاجران راولاکوٹ کے زیر اہتمام تمام سیاسی پارٹیوں، ایکشن کمیٹیوں اور ٹرانسپورٹ یونینز کا گرینڈ اجلاس منعقد کیا گیا جس میں 3 اگست کو تمام ضلعی ہیڈکواٹرز میں بڑے احتجاج منظم کرنے کی کال دی گئی۔ اس اجلاس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں نے نہ صرف مکمل بائیکاٹ کیا بلکہ اس اجلاس کے خلاف ایک زہریلی مہم بھی چلائی لیکن اس کے باوجود عوامی مسائل کے حل کی سنجیدہ جدوجہد کرنے والی تمام تنظیموں اور پلیٹ فارمز سے وابستہ کارکنان نے بھرپور شرکت کی۔
3 اگست کی احتجاجی کال دیئے جانے کے دو دن بعد رات کے اندھیرے میں راولاکوٹ دھرنے میں موجود مزاحمت کاروں کو پولیس نے گرفتار کر لیا اور کیمپ بھی اکھاڑ دیا مگر اگلے روز اس ریاستی دہشت گردی کے خلاف راولاکوٹ میں ایک احتجاج ہوا جس نے نہ صرف گرفتار کارکنان کو رہا کرایا بلکہ احتجاجی کیمپ بھی دوبارہ لگا دیا۔ 3 اگست کو راولاکوٹ کے احتجاج میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور انجمن تاجران کے سپلائی بازار میں جاری دھرنے کو شہر کے وسط میں احاطہ عدالت کے سامنے منتقل کر دیا۔ اس احتجاج میں حکومت کو ایک ہفتے کی مہلت دی گئی لیکن بعد ازاں 7 جولائی کو کوٹلی میں ایکشن کمیٹیز اور انجمن تاجران کے مشترکہ اجلاس میں اس پروگرام میں تبدیلی لاتے ہوئے 5 ستمبر کو پورے کشمیر میں ایک روزہ عام ہڑتال کے ساتھ ہی بجلی بلوں کا بائیکاٹ کرنے کی کال دی۔
دوسری جانب کشمیر کے تمام شعبوں کی ملازمین تنظیموں نے بھی11 اگست کو اپنے مشترکہ اجلاس میں تنخواہوں میں وفاق کی جانب سے اعلان کردہ اضافے پر عملدرآمد اور ایکٹ 2016ء اور آرڈیننس 2023ء کی منسوخی کے مطالبات کو منوانے کے لیے 23 اگست سے ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ جولائی کے آخری ایام میں حکومت نے ملکیتی اراضی سے ہر قسم کے درخت کاٹنے پر پابندی عائد کردی جس کے خلاف پونچھ میں مشین مالکان، کارپنٹرز، ٹرانسپورٹرز اور زمینداروں نے بھی احتجاجات کا آغاز کر دیا۔
اسی طرح ضلع سدھنوتی میں، قلعاں، بیتراں تا پلندری سڑک کی عدم تعمیر کے خلاف ان علاقوں کے عوام نے بڑے احتجاج منظم کیے۔ ان تمام احتجاجوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے تاحال جاری ہے مگر حکومت کے لیے ملازمین کی ہڑتال کی تیاریوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ حکومت نے ملازمین کی قیادت کے ساتھ مذاکرات میں تنخواہوں میں اضافے کا فوری نوٹیفکیشن کا اجرا اور باقی مطالبات پرملازمین سے ایک ماہ کا وقت مانگ کر 23 اگست کی ہڑتال موخر کرادی۔ لیکن آٹے کی قیمتوں میں اضافے اور بجلی پر ناجائز ٹیکسز کی تحریک کا دائرہ کا ر وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے اور مظفرآباد ڈویژن میں بھی وکلا، تاجر تنظیموں، عوامی ایکشن کمیٹیوں اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے اتحاد نے 31 اگست کو مظفرآباد میں مکمل ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی پونچھ کے نمائندگان اور انجمن تاجران راولاکوٹ کے صدر نے مظفرآباد کا دورہ کیا اور 31 اگست کی ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور ساتھ ہی 5 ستمبر کے بعد پورے کشمیر میں جاری ان احتجاجی تحریکوں کو منظم و متحد کرنے کے لیے ایک مشترکہ اجلاس منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ 22 اگست کو جہلم وہلی کے علاقے گڑھی دوپٹہ میں بھی متحدہ عوامی محاذ کے پلیٹ فارم سے مہنگائی اور دیگر مسائل کے خلاف سینکڑوں کی تعداد میں عوام نے ایک احتجاج کیا۔ 22 اگست کو کشمیر کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرین نے ہزاروں کی تعداد میں بجلی بلوں کو آگ لگائی جن کی مالیت کروڑوں روپے بنتی ہے۔ بجلی بلوں کے جلائے جانے کے جرات مندانہ اقدام سے تحریک مزید وسعت اختیار کرتی جا رہی ہے اور محض سوشل میڈیا پر ان سرگرمیوں کی تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھ کر مزید علاقوں میں احتجاجات اور بلوں کے بائیکاٹ کا عمل تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔
حکومت اس تحریک کے پھیلاؤ سے خوفزدہ ہے اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے اس کو توڑنے اور تقسیم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسی قسم کی ایک گھناؤنی سازش کے طور پر چند روز قبل انجمن تاجران کے ایک گروہ کے مرکزی صدر اور دیگر چند شہروں میں ریاست کے گماشتہ نمائندگان کے ایک وفد نے وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی تصویروں کے ساتھ بجلی بلوں میں شامل بعض ٹیکسوں کی منسوخی کا ایک جھوٹا نوٹیفکیشن بھی سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا لیکن حکومتی گماشتوں کی اس سازش کے خلاف عوام نے سوشل میڈیا پر ہی خوفناک رد عمل دیا اور ان گماشتہ قیادتوں کے گزشتہ سال پونچھ کی تحریک کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے کردار کو بے نقاب کر تے ہوئے ان کی شدید مذمت کی۔ سخت ہزیمت اور ذلالت کا سامنا کرنے کے بعد یہ گماشتے اب مسلسل صفائیاں پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ حکمرانوں کی جانب سے اس تحریک کو توڑنے کی یہ آخری کوشش نہیں تھی بلکہ وہ اس تحریک کو توڑنے اور کچلنے کے لیے سازشوں کے ساتھ ریاستی جبر کے ہتھکنڈوں کو بھی مخصوص نپے تلے انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔
تحریک کی صورت حال پورے کشمیر میں یکساں نہیں ہے۔ پونچھ میں تحریک کے اہم مطالبات آٹے پر سبسڈی کی بحالی اور مفت بجلی کی فراہمی وغیرہ ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں بجلی پر ناجائز ٹیکسز کا خاتمہ یا بجلی کی مفت فراہمی ہی زیادہ اہم مطالبہ ہے۔ تحریک کی شدت اور حمایت بھی دیگر اضلاع میں ویسی نہیں ہے جیسی پونچھ میں ہے۔ اس لیے حکمران کوشش کریں گے کہ مظفرآباد اور میرپور ڈویژن میں کسی ایک یا دوسرے طریقے سے تحریک کو ختم کیا جائے اور پونچھ ڈویژن کو ماضی کی تحریکوں کی طرح تنہا کر دیا جائے۔ لیکن اس نظام اور حکومت کی حالت یہ ہے کہ محض تحریک کو توڑنے کے لیے بھی انہیں عوامی مطالبات کے حوالے سے کوئی سنجیدہ اقدام یا حقیقی ریلیف دینا پڑے گا۔ 31 اگست کو مظفر آباد ڈویژن میں ہونے والی ہڑتال اور اس کے نتائج بھی اس تحریک کے حوالے سے کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس تحریک کا مستقبل کچھ بھی ہو بہرحال یہ ایک اہم سنگ میل عبور کر چکی ہے اور پونچھ ڈویژن سے نکلتے ہوئے کم یا زیادہ شدت کے ساتھ تقریباً پورے کشمیر میں پھیل چکی ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں یہ جاری رہتی ہے اور پورے کشمیر کی سطح پر جڑت بناتے ہوئے کوئی بڑی مشترکہ احتجاجی یا ہڑتالی سرگرمی کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔ مہنگائی اور بجلی پر ناجائز ٹیکسز کے خلاف پورے کشمیر میں ہونے والے احتجاج اور ہڑتالیں پاکستان کے طول و ارض پر اپنے اثرات مرتب کریں گے جہاں غریب عوام اور نوجوان بڑی توجہ سے اس پورے عمل کو دیکھ رہے ہیں۔
سرمایہ داری کے زوال اور بحران کے اثرات
نام نہاد آزاد کشمیر میں پونچھ ڈویژن اور بالخصوص ضلع پونچھ گزشتہ چند سالوں سے مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور بجلی پر ناجائز ٹیکسز جیسے دیگر مسائل کے خلاف عوامی احتجاجوں کا ایک مرکز بن چکا ہے۔ گزشتہ سالوں کے دوران چلنی والی عوامی احتجاجوں اور ہڑتالوں کی تحریکوں کا دائرہ کار زیادہ تر پونچھ ڈویژن تک ہی محدود رہا اور مظاہرین کی کوششوں کے باوجود دیگر اضلاع میں بڑی تحریکیں نہیں بن سکیں۔ لیکن ان چند سالوں کے دوران سرمایہ داری کے گہرے ہوتے زوال اور معاشی بحران کے اثرات نے اب دیگر اضلاع میں بھی عوام، سیاسی کارکنان اور وکلا تنظیموں کے کچھ حصوں کو متحرک ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقات دیوالیہ معیشت کو اپنی عیاشیاں برقرار رکھنے کی خاطر چلائے رکھنے کے لیے عوام کی بنیادی ضروریات پر مسلسل ٹیکسوں کی بھرمار کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب عوام کا غالب حصہ اپنی خوراک جیسی بنیادی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہوتا جا رہا ہے۔ آٹے سمیت دیگر اشیا خوردونوش کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافے کے ساتھ آئے دن بجلی پر نت نئے ٹیکسز مسلط کر نے کے عمل سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ کشمیر کے عوام میں یہ سوچ تیزی سے جڑ پکڑتی جا رہی ہے کہ کشمیر کے دریاؤں کے پانی سے تقریباً مفت پیدا ہونے والی ہزاروں میگاواٹ بجلی میں سے چند سو میگاواٹ، جو پورے کشمیر کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کافی ہے، ان کو مفت کیوں نہیں مل سکتی۔ حکمرانوں اور بیوروکریسی کی عیاشیوں کے خلاف نفرت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ غریب اور امیر کی تفریق کا مبہم تصور بھی تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ احساس پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ جدوجہد کے ذریعے ہی چھوٹی یا بڑی سہولیات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
محنت کشوں اور غریب عوام پر سرمایہ داری نظام کے بحران کا بڑھتا ہوا بوجھ سماج کی زیادہ سے زیادہ پرتوں کو احتجاجوں کی جانب دھکیلتا جا رہا ہے۔ بحران زدہ اور دیوالیہ پن کے دہانے پر لڑکھڑاتی معیشت پر براجمان حکمران طبقات کے پاس عوام کے مسائل کو حل کرنے کی گنجائش اور صلاحیت ہی ختم ہو چکی ہے۔یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ کشمیر کے حکمرانوں نے تا حال اس احتجاجی تحریک کے قائدین سے مذاکرات کی ایک بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ درحقیقت حکمران طبقات کے پاس عوام کو بجلی کے نرخوں یا آٹے کی قیمتوں میں چھوٹی موٹی رعایت دینے کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان کی قرضوں اور سود کے بوجھ تلے دبی ہوئی نیم دیوالیہ معیشت کو عارضی سہارا دینے کے لیے آئی ایم ایف سے جو نئے قرض لیے گئے ہیں ان کی اور سابقہ قرضوں و سود کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے انہوں نے آئی ایم ایف کی ان شرائط کو تسلیم کیا ہوا ہے کہ بجلی، آٹے، پٹرول وغیرہ جیسی بنیادی ضروریات پر مزید ظالمانہ ٹیکسز نافذ کر کے یہ رقم جمع کی جائے گی۔ اگر عوام پر ٹیکس نہیں لگائے جاتے تو دوسرا راستہ صرف یہ ہے کہ ان حکمرانوں، سرمایہ داروں اور سول و فوجی بیوروکریسی کی عیاشیوں اور مراعات کا خاتمہ کیا جائے۔
ماضی میں اس طرح کے حالات موجود تھے کہ یہ سفاک حکمران اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار کے ساتھ عوام اور محنت کشوں کو بھی مشقتوں اور ذلتوں سے بھری ہوئی ہی سہی مگرزندہ رہنے کے حالات فراہم کر سکتے تھے۔ مگر اب اس نظام کا بحران اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں ماضی کی طرح، حکمرانوں کی عیاشیوں کو جاری رکھنے کے ساتھ عوام کو بھی چھوٹی موٹی مراعات دینے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ یہ درندہ صفت حکمران عالمی مالیاتی و سامراجی اداروں کے ساتھ اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے عوام اور محنت کشوں کے نیم مردہ جسموں کو گدھوں کی طرح نوچنے لگے ہیں۔ اب صرف یہ سوال ہے کہ حکمرانوں کی لوٹ مار کے اس نظام کو چلائے رکھنے کے لیے عوام کے قتل عام کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا یا عوام اپنی منظم اجتماعی مزاحمت سے اس عمل کو روکتے ہیں۔
(عام) ہڑتال کی کال اور محنت کشوں کی شاندار فتح!
کشمیر کے موجودہ حکمرانوں نے آغاز میں احتجاجوں اور ہڑتالوں کو یکسر نظر انداز کرنے یا ریاستی جبر کے ذریعے کچلنے کی پالیسی اپنائے رکھی لیکن کشمیر کے محنت کشوں کے اتحاد نے اپنی پہلی ہڑتال کے اعلان سے ہی ان حکمرانوں کی فرعونیت کو خاک میں ملا دیا اور حکمرانوں کو انتہائی عجلت میں ملازمین کے ساتھ نہ صرف مذاکرات کرنے پڑے بلکہ ان کے چند مطالبات کو کلی طور پر تسلیم کر نا پڑا۔ کشمیرمیں جاری احتجاجی تحریکوں کی بہتات ہے جس نے محنت کشوں کی اس شاندار فتح کو پس پشت دھکیل دیا ہے لیکن یہ کشمیر اور بالعموم پاکستان کے محنت کشوں کی مستقبل کی لڑائی کے حوالے سے انتہائی اہم اسباق کی حامل ہے۔
اگرچہ اس ہڑتال کے ایکٹ 2016ء اور آرڈیننس 2023ء کے خاتمے جیسے زیادہ اہم مطالبات تا حال ایک حکومتی کمیٹی کے ذریعے التوا کا شکار کر دیئے گئے ہیں اور ملازمین تنظیموں کے اتحاد نے جزوی کامیابی حاصل کی ہے۔ لیکن جزوی یا کلی کامیابی کی بحث کو ایک جانب رکھ کر دیکھا جائے تو ملازمین تنظیموں نے کچھ زیادہ اہم فتوحات حاصل کی ہیں۔ ایک طویل مدت سے ملازمین قیادتوں کے کچھ حصوں کی جانب سے کی جانے والی بے شمار کاوشوں کے باوجود ملازمین تنظیموں کے مابین ایک حقیقی لڑاکا اتحاد کا قیام ایک خواب ہی تھا۔ اگرچہ ان کاوشوں کے نتیجے میں بھی کوئی جوائنٹ ایکشن کمیٹی، یا کسی فیڈریشن کو بنا لیا جاتا تھا لیکن یہ اتحاد کبھی بھی کسی متحدہ لڑائی کو منظم کرنا تو درکنار، کسی ایک شعبے کے محنت کشوں کی ہڑتال کے حق میں باقی تمام محنت کشوں سے مناسب یکجہتی حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو پائے تھے۔ اس بنیاد پر دیکھا جائے تو ملازمین تنظیموں کا ایک عملی اور لڑاکا اتحاد قائم کر لینا ایک زبردست کامیابی ہے۔
دوسری اہم کامیابی یہ ہے کہ ملازمین اتحاد نے ایک ہڑتال کی کال دے رکھی تھی جس کے لیے انہوں نے عام ہڑتال کی اصطلاح استعمال نہیں کی مگر اعلان میں یہ واضح تھا کہ تمام شعبوں کے ملازمین اپنے مطالبات منظور ہونے تک مکمل ہڑتال کریں گے، جس کے معنی یہ ہیں کہ درحقیقت یہ اگرچہ پورے سماج کی نہ سہی مگر تمام محنت کشوں کی ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کی کال تھی۔ محنت کشوں کی تنظیمیں گزشتہ تمام تر عرصے کے دوران اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاجوں اور دھرنوں کے طریقہ کار پر کاربند رہی ہیں لیکن حکمرانوں کے ایک ہی رد انقلابی چابک نے انہیں اپنے روایتی اور سب سے کار آمد ہتھیار ہڑتال کو اپنانے پر مجبور کر دیا۔ تمام شعبوں کے محنت کشوں کی مشترکہ ہڑتال کے محض اعلان نے ہی حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ مشترکہ ہڑتال کی طاقت اور فتح، جزوی ہی سہی، کا یہ احساس آنے والے عرصے میں محنت کشوں کی تحریکوں پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرے گا۔ محنت کشوں کے حقیقی اتحاد کی جانب یہ پہلا قدم ہے اور اس سفر میں پسپائیوں اور ناکامیوں کے مراحل بھی آئیں گے لیکن ہر پسپائی اور ناکامی کا مرحلہ اس اتحاد کو بلند معیار کی جڑت کی جانب لے جائے گا۔ آنے والے عرصے میں اس اتحاد کا حقیقی امتحان اس وقت ہوگا جب دیگر مطالبات کے حوالے سے حکومتی کمیٹی اپنی رپورٹ پیش کرے گی یا پھرمحنت کشوں پر کوئی نیا حملہ ہوگا۔ ایک بات یقینی ہے کہ اس جڑت اور ہڑتال کے اعلان سے حاصل کردہ فتح محنت کشوں کے شعور پر نقش ہو چکی ہے اور آنے والے عرصے میں فتوحات سے زیادہ شکستیں اس اتحاد کو فولادی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گی اور ملازمین کی ہڑتال سے پورے سماج کی عام ہڑتال کی جانب دھکیلنے پرمجبور کریں گی۔
زندگی کی بنیادی ضروریات کے گرد پونچھ سے ابھرنے والے احتجاج پورے کشمیر تک وسعت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں کشمیر بھر میں ان مسائل کے خلاف ابھرنے والی تحریک پاکستان کو بھی لازمی طور پر اپنی لپیٹ میں لے گی چونکہ سیاسی عمل میں شمولیت کے حوالے سے تاخیر کے باوجود پاکستان کے محنت کش اور عوام بھی انہی مسائل کی اذیت سے دوچار ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف پاکستان کے چند شہروں میں واپڈا کے دفاتر کے سامنے احتجاج اور پتھراؤ کی خبریں سوشل میڈیا پر دکھائی دے رہی ہیں۔
24 اگست کو ایکسپریس ٹریبیون کی ویب سائٹ پر کہوٹہ شہر میں آئیسکو کے دفتر کے سامنے بڑے پیمانے پر مظاہرین نے بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف احتجاج کیا جسے انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد پر امن طور پر ختم کر دیا گیا۔ یہ آنے والے دنوں میں ابھرنے والی بڑی تحریکوں کی ابتدائی علامات ہیں۔ ایک جیسے مسائل سے دوچار عوام کا رد عمل کچھ تاخیر کے ساتھ ہی سہی مگر ایک ہی جیسا ہو تا ہے۔ سماج کی جو پرتیں سیاسی عمل میں پہلے متحرک ہوتی ہیں ان کی ہمیشہ یہ خواہش اور ضرورت بن جاتی ہے کہ عدم سرگرم پرتیں بھی فوری عمل میں کود جائیں۔ شائد متحرک پرتوں کی خواہشات کے عین مطابق نہ ہو مگر ایسا ضرور ہوتا ہے اور اس خطے میں بھی ایسا لازمی ہوگا۔ عموی طور پر بھی پوری دنیا میں سرمایہ داری کے خلاف بڑی عوامی بغاوتیں اور انقلابی تحریکیں ایک معمول بنتی جا رہی ہیں اور پاکستان تو ایک بڑی عوامی بغاوت کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اس حوالے سے یہ ضروری ہے کہ سماجی تبدیلی اور تحریکوں کے ابھار کے اس پورے عمل کو سمجھتے ہوئے عوامی احتجاجوں کو منظم کرنے کے عمل کو آگے بڑھانے کے ساتھ ہر قسم کی جلد بازی اور بے صبری سے اجتناب کیا جائے۔ہر قسم کی مہم جوئی کو رد کرنے کے ساتھ ایسے نعرے اور پروگرام اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو ان احتجاجوں کو زیادہ وسعت دینے اور ان کے عمومی پھیلاؤ کو یقینی بنا سکیں۔ ہر قسم کی تنگ نظری اور تعصب جو ان تحریکوں کو پھیلنے سے روکے یا انہیں کسی ایک علاقے تک محدود کرنے کا باعث بنے درحقیقت حکمران طبقے کے مفادات کی نمائندگی اور تحفظ کا باعث بنے گا۔
حکمران طبقات نے ہی اپنی حاکمیت کو قائم رکھنے کے لیے عوام میں ہر قسم کے رنگ ونسل، مذہبی فرقہ واریت، زبان اور علاقے سمیت قومی تعصبات کو پھیلا رکھا ہے اس لیے عوامی مسائل کے حل کی تحریک کو ان تمام تعصبات کو مٹاتے ہوئے تمام علاقوں کے عوام اور محنت کشوں کو متحد کرنے کا پروگرام اور نعرے اپنانے ہوں گے۔ عوامی مسائل کے گرد ابھرنے والے انہی احتجاجوں اور تحریکوں کا یہ سلسلہ آنے والے عرصے میں اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت سے مالا مال انقلابی بغاوتوں کو جنم دے گا اور اسی انقلابی بغاوت کی حتمی فتح اس خطے سے قومی محرومی اور طبقاتی غلامی سمیت ہر قسم کے ظلم و جبر اور استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک حقیقی آزاد انسانوں کے مکمل آزاد سماج کی تعمیر کو ممکن بنائے گی۔ ایک ایسا سماج جس میں نہ صرف ہر فرد مکمل آزاد ہو گا بلکہ ہر مظلوم قوم کے محنت کشوں کا اپنے خطے پر حقیقی اجتماعی کنٹرول اور اجتماعی حاکمیت قائم ہو سکے گی۔