تحریر: |یاسر ارشاد|
جدید پارلیمانی طرز حاکمیت جو صنعتی انقلابات کے ذریعے معرضِ وجود میں آیا؛ در حقیقت انسانی سماجی تاریخ کا سب سے پر فریب طریقہ حکمرانی ہے۔ حکمرانوں کے چناؤ کے عمل میں براہ راست تمام بالغ عوام کی شمولیت سرمائے کی حاکمیت پر ایک ایسا نقاب ہے جو محنت کش طبقے اور عوام کی اکثریت کے ذہنوں پر بھی اس جمہوریت کے حوالے سے بے شمار غلط فہمیوں کو مسلط کر دیتی ہے۔ ہر پانچ سال بعد ایک بہت منظم ناٹک کے ذریعے اس جھوٹے تاثر کو مسلسل فروغ دیا جاتا ہے کہ عوام کی اکثریت خود اپنے ووٹوں کے ذریعے اپنے حاکم منتخب کرتے ہیں۔ اس جمہوری انتخاب کا فریب اتنا مضبوط اور گہرا ہے کہ محنت کشوں اور عوام کی بڑی بڑی انقلابی تحریکیں بھی اکثر اوقات اس دھوکہ دہی کا شکار ہو کر زائل ہوتی رہتی ہیں جو درحقیقت اسی طرزِ حاکمیت کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں ابھرتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران عالمی سطح پر ایسے بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں اسی جمہوری گھن چکر نے انقلابی تحریکوں کو زائل کیا۔ جمہوری عمل کی نوعیت اگرچہ ہر ملک کے سرمایہ دارانہ ترقی کے مخصوص معیار کے مطابق منفرد خصوصیات کی حامل ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ جمہوری عمل نسبتاً صحت مندانہ رہا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک میں غیر مستحکم اور عدم تسلسل کے ساتھ انتہائی پر انتشار رہا ہے۔گو کہ پارلیمانی جمہوریت جاگیردارانہ دور کی بادشاہتوں کے مقابلے میں ایک ترقی پسندانہ قدم تھا لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے یہ اپنی بہترین صورت میں بھی سرمائے کی غلیظ آمریت پرایک نفیس نقاب کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ حقیقی جمہوریت صرف ایک غیر طبقاتی نظام میں ہی پنپ سکتی ہے۔
اس وقت عالمی سطح پر بورژوازی کو سرمایہ دا رانہ نظام کے زوال کی وجہ سے جس سب سے بڑی پریشانی کا سامنا ہے وہ محنت کش طبقے اور عوام کے شعور میں آنے والی بڑی بڑی تبدیلیاں ہیں۔ ان تبدیلیوں میں جو سب سے خطرناک رجحان سامنے آرہا ہے وہ جمہوری طرزِ حاکمیت کے پورے ڈھانچے سے محنت کش عوام اور نوجوانوں کا ختم ہوتا ہوا اعتماد ہے۔ اس جمہوری طرزِ حاکمیت کے ذریعے سرمایہ دار ایک لمبے عرصے سے محنت کش طبقے اور عوام پر وحشیانہ استحصال اور لوٹ مار پر مبنی حکمرانی کو بڑی کامیابی سے جاری رکھے ہوئے تھے۔ دائیں بازو کی انتہائی سفاک سرمایہ دارانہ پالیسیاں لاگو کرنے والی پارٹیوں کے خلاف جب محنت کش طبقہ اپنے غم و غصے کا ظہار کرتا تھا تو بائیں بازو کی اصلاح پسند(روائتی) پارٹیوں کو حکومت میں لاکر کچھ اصلاحات کے ذریعے اس غم و غصے کو زائل کیا جاتا تھا۔ لیکن عالمی سطح پر سرمایہ داری کے زوال کی شدت اب اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں اصلاح پسندی اور دائیں بازو کی پالیسیوں کے مابین فرق مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو سرمایہ داری کو چلانے کے لئے محنت کشوں کی تنخواہوں، مراعات اور روزگار پر کٹوتیوں کی واحد پالیسی پر عمل درآمد کرنا اس پارٹی کے لئے ناگزیر ہوچکا ہے۔
تیسری دنیا خاص کر پاکستان جیسے ممالک جہاں جمہوریت اور آمریت کی متبادل حاکمیتوں کے ذریعے اس نظام کو چلایا جاتا رہا ہے وہاں اب صورتحال انتہائی پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ بظاہر جمہوریت ہے لیکن فوج کی مداخلت بھی اتنی بڑھ چکی ہے کہ جمہوریت اور آمریت کے مابین فرق کرنے والی لکیر یکسر مٹتی جارہی ہے۔ پارٹیوں میں نظریاتی فرق پاکستان میں بہت پہلے کا مٹ چکا ہے اور بائیں بازو کی نمائندہ جماعتوں نے اب لفاظی کی حد تک بھی تاثر دینا ترک کر دیا ہے۔ اس تمام کیفیت میں پاکستان کے محنت کش اور عوام بھی اس عمومی سیاست سے خائف، بیزار اور لاتعلق ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال میں بے شمار دانشور بڑے شوق سے مختلف اعدادوشمار پیش کرتے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی اکثریت سیاست سے بیزار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کی اکثریت کس سیاست سے بیزار ہے؟ کیا محنت کش اپنے مسائل کے حل کے لئے ہونے والی ہڑتالوں اور احتجاجی مظاہروں میں دلچسپی نہیں لیتے یا استحصال کرنے والی پارٹیوں کے جلسوں اور دھرنوں کے ناٹکوں سے خود کو دور رکھتے ہیں؟ درحقیقت محنت کش عوام کی رائج سیاست سے بیزاری ایک انتہائی گہری اور خاموش تبدیلی کی واضح عکاسی ہے۔ یہ بیزاری اور عدم دلچسپی رائج ہر قسم کی سیاست کو عملاً مسترد کر دینے کا اظہار ہے۔ یہ شعور کی ایک جست ہے جس کے پہلے مر حلے میں مروجہ سیاست کے غلبے سے شعور نے آزادی حاصل کی ہے اور یہی وہ بنیاد ہے جس پر محنت کش طبقہ اور عوام آنے والے عرصے میں دوبارہ سیاست کے میدان میں زیادہ پر زور طریقے سے داخل ہوں گے۔
محنت کشوں اور عوام کا موجودہ وقت میں سیاسی افق پر حاوی تمام پارٹیوں سے بیزاری کا تعلق مستقبل کی پیش بینی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بیزاری اور لاتعلقی کی یہ کیفیت آنے والے دنوں میں کیا شکلیں اختیار کر سکتی ہے؟ کیا سیاسی بد ظنی کی اس کیفیت سے جلد یا بدیر باہر نکلنے کے بعد محنت کش طبقہ دوبارہ اسی افق پر حاوی سیاسی پارٹیوں میں سے کسی کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتے ہوئے اپنی حمایت سے نوازے گا اور لمبے عر صے سے چلے آرہے گھن چکر کا ایک بار پھر آغاز ہو جائے گا یا محنت کش طبقہ اور عوام موجودہ وقت میں جن عملی تجربات سے گزر رہے ہیں ان کے اسباق کی بنیاد پر نئے سیاسی تجربات کی جانب آگے بڑھیں گے؟ دوسری جانب بحران اور ٹوٹ پھوٹ کے اس عہد کے ان سیاسی پارٹیوں پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور آنے والے عرصے میں خود ان پارٹیوں کی کیا کیفیت ہو گی؟
محنت کش طبقہ اپنے معاشی حقوق کی جدوجہد کے دوران انہی پارٹیوں کی حکومتوں کے ساتھ بار بار ٹکراؤ اور تصادم کے دوران کیا سیاسی اسباق سیکھ رہا ہے اور اس کا اظہار سیاسی میدان میں کن ممکنہ صورتوں میں ہو سکتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی سطح پر پے در پے رونما ہونے والے دیو ہیکل واقعات پاکستان ا ور اس خطے کے محنت کش طبقے کے شعور پر کیا اثرات مرتب کریں گے؟ محنت کش طبقے کا سیاسی میدان میں اظہار دوممکنہ صورتوں میں ہو سکتا ہے پہلی صورت یہ ہے کہ کلی یا جزوی طور پر محنت کش اپنا اظہار اپنی ماضی کی روایت جو اب گل سڑ چکی ہے یعنی پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کریں۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ ایسا ہی ہو گا تو پھر بھی یہ اس سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں ہے۔ بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کی موجودہ قیا دت میں کوئی بھی اتھل پتھل کر لی جائے تو وہ محنت کش طبقے کی آرزوں اور تمناؤں کی نمائندہ نہیں ہو سکتی اور نہ ہی یہ قیادت اس بات کی متحمل ہو سکتی ہے کہ ایک مکمل نہ سہی نیم انقلابی پروگرام اور زیادہ ریڈیکل نعرے بازی کے ذریعے عوام اور محنت کشوں کے نہ سنبھالے جا سکنے والے طوفان کا رخ اپنی جانب موڑ لے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پیپلز پارٹی سے عوام کی دوری کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی جائے گی۔
دوسری صورت صرف یہ باقی رہ جاتی ہے کہ تین نسلیں پہلے کی جانیوالی اصلا حات کا واسطہ دے کر محنت کشوں کی آج کی نسل کو یہ کہا جائے کہ وہ اپنے اذیت ناک حالات کو بدلنے کی خواہش کو ترک کر کے اپنے حال اور مستقبل کی قربا نی دیتے ہوئے پارٹی کو اپنی حمایت سے نواز دیں۔ اگر ایسے کسی معجزے کی سماجی ارتقاء کے قوانین کے تحت گنجائش بنتی ہے تو پھر ہمیں اس مفروضے کو درست تسلیم کر لینا چاہیے کہ محنت کش طبقہ اپنے آباؤ اجداد کی ان یادوں کے نام پر جو ان کے ساتھ دفن ہو گئی تھیں کم از کم اگلی ایک یا دو نسلوں تک قربانی دیتا رہے گا۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اگر پاکستان کا محنت کش طبقہ پیپلز پارٹی کو اپنے سیاسی اظہار کے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرے گا تو وہ پارٹی کی قیادت اور پالیسیوں کا مطیع ہوکر ان کو تسلیم کرتے ہوئے کرے گا یا ان پالیسیوں اور قیادت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے پروگرام اور اپنی قیادت کے ساتھ کرے گا۔ اگر تو پہلی صورت میں کرے گا تو پھر وہ پارٹی کی قیادت کی متعین کردہ حدود سے تجاوز نہیں کرے گا یعنی وہ چھوٹے یا بڑے مطالبات کے ساتھ پارٹی کی قیادت کو اپنی تمام طاقت سونپ دے گا یعنی دوسرے الفاظ میں کوئی انقلابی تحریک نہیں ابھرے گی۔ اگر دوسری صورت میں کرے گا تو وہ موجودہ پارٹی قیادت، ڈھانچوں اور تمام پالیسیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت کر کے ہی ممکن ہو سکے گا۔ اگر ایسا ہو تا ہے تو یہ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم پر ممکن نہیں ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ پاکستان کا محنت کش طبقہ اس اذیت ناک ذلت سے نجات کے راستے پر جب نکلے گا تو وہ نکلے گا ہی اس وقت جب وہ رائج تمام سیاسی رجحانات کے خلاف ایک جنگ میں داخل ہوگا۔ لیکن اس طبقاتی جنگ کے فیصلہ کن معرکے سے قبل جو چھوٹی یا بڑی لڑائیاں اس وقت بھی جاری ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کریں گی ان کے دوران وہ کن سیاسی جماعتوں کی حاکمیتوں سے برسرپیکار ہے یا ہوگا؟ معیشت کے زوال کا دباؤ محنت کشوں کی ہڑتالوں میں شدت لانے کا باعث بنے گا اور معاشی مسائل کے حل کی یہ تمام جدوجہد یں اسی حاکمیت کے ڈھانچے کے خلاف یعنی انہی پارٹیوں کی صوبائی یا مرکزی حکومتوں کے خلاف کی جائیں گی۔ واقعات کے تیز اور شدید تھپیڑوں کے زیر اثر نہ صرف سیاسی افق پر موجود تمام پارٹیوں سے بیگانگی اپنی انتہاوں کو پہنچ کر ان کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبے کو پختہ کرے گی بلکہ مجموعی طور پر اس سرمایہ دارانہ حاکمیت کی تمام شکلوں کے خلاف بغاوت کی آگ کو بھڑکائے گی جس کی حدت اس سماجی نظام کے تمام تانے بانے پگھلا کر رکھ دے گی اور ایک نئے سماجی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے زمین ہموار کرے گی۔
اس قسم کے حالات میں نام نہاد آزاد کشمیر کے جولائی میں ہونے والے انتخابات اس خطے کے محنت کشوں کے مسائل سے کیا جانے والا سب سے بڑا کھلواڑ ہے۔ عام طور پر پاکستان میں ہونے والی سیاسی یا حکومتی تبدیلیاں کافی حد تک براہ راست کشمیر کے اس حصے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ممکنہ طور پر جولائی میں منعقد ہونے والے انتخابات کی مہم ابھی سے کافی گہما گہمی سے بھرپور ہونا شروع ہو گئی ہے ۔ وفاقی وزرا سے لے کر پارٹیوں کی مرکزی قیادتیں جلسوں میں شرکت کے ذریعے عام ووٹروں کومائل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ نواز لیگ کی کشمیری شاخ وفاقی وزرا کی جلسوں میں سٹیج پر جلوہ گری کو اقتدار کے یقینی ہونے کی ضمانت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت پانچ سالہ اقتدار کی لوٹ مار اور بد عنوانی میں سر سے پاؤں تک لتھڑی ہوئی ہے اور اب بلاول سے ایک مضحکہ خیزنقا لی پر مبنی اداکاری کروا کے اسے متبادل کے طورپر پیش کر کے اپنی ساکھ کو بہتر کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ انتہائی تباہ حال انفراسٹرکچر آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہا ہے جبکہ ترقیاتی بجٹ میں اضافہ نہ کرنے کا اعلان ابھی سے وفاقی حکومت نے کر دیا ہے۔ سال 2013-14ء کے بجٹ میں کشمیر کا ترقیاتی بجٹ20 ارب روپے تھاجو اس سے اگلے سال یعنی 2014-15ء میں 40 فیصد کم کر کے 12 ارب کر دیا گیا تھااور رواں سال کے لئے اس میں تھوڑا سا اضافہ کر کے 13.3 ارب روپے کیا گیا۔ کشمیر جیسے پہاڑی اور لینڈ سلائیڈنگ والے علاقے کے لئے یہ بجٹ اتنا کم ہے کہ اس سے اہم رابطہ سڑکوں کو بھی مناسب حالت میں بحال رکھنا ممکن نہیں اور پھر یہی وہ رقم ہوتی ہے جس میں سے تمام اسمبلی ممبران ، وزرا اور مشیروں کی فوج ظفر موج نے اپنی لوٹ کا حصہ وصول کرنا ہوتا ہے۔ دوسری جانب ہزاروں کی تعداد میں محکمہ صحت کے چھوٹے درجے کے ملازمین خاص کر لیڈی ہیلتھ ورکرز کو کئی کئی ماہ کی اجرت نہیں دی گئی۔ محکمہ صحت سمیت دیگر تمام شعبوں کے ملازمین سالوں پہلے تسلیم کئے گئے مطالبات پر عملدرآمد کے لئے آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔ اس کیفیت میں جاری انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تویہ انتہائی جعلی سطحی اور جھوٹی بڑھک بازی پر چلائی جا رہی ہے۔ کسی سیاسی جماعت کے پاس محنت کشوں اور عوام کے مسائل کے حل کا پروگرام تو درکنار ان مسائل پر کھل کر بات کرنے کی جرات کا بھی فقدان ہے۔ قبیلوں اور برادریوں کا تعصب اور مقامی سطح کی فروعی مخاصمتیں ہی وہ بنیا د ہے جس پر ایک یا دوسری جماعت کو ووٹ دینے کے فیصلے کا انحصار ہے۔ پاکستانی ریاست کی بد ترین غلامی جس میں وفاق کی ایک گھٹیا سی وزارت اس خطے کے سیاہ و سفید کی مالک ہے اور دوسری جانب انتہائی پسماندہ سماجی اور ثقافتی کیفیات میں اس قسم کا سیاسی ناٹک ایک بھونڈے مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔ محنت کش طبقے ، عوام اور نوجوانوں کی باشعور پرتیں اس ناٹک کی حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں اور متبادل کی متلاشی ہیں ۔محنت کشوں اور نوجوانوں کی حقیقی مسائل کے حل کی جدوجہدیں اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے پاکستان بھر میں ہونے والی جدوجہدوں کے ساتھ ایک طبقاتی جڑت تشکیل دینے کے عمل کو آگے بڑھائیں گی جو استحصال اور غلامی سے حتمی نجات یعنی سوشلسٹ انقلاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ناگزیر معروضی بنیاد فراہم کرے گا۔