|تحریر: راشد خالد|
وادی میں جاری تحریک کا ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ گزشتہ سال 8جولائی کو برہان وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں قتل کے بعد تحریک کا آغاز ہوا لیکن ریاست کی طرف سے بد ترین جبر کے مختلف ہتھکنڈوں کے اختیار کرنے کے باوجود بھی یہ تحریک جاری ہے۔ ’’آزادی‘‘ کے نعروں کی گونج وادی سے ابھر کر ایک بار پھر پورے کشمیر میں پھیل چکی ہے۔ تحریک تھمنے کی بجائے بار بار مزید شدت سے ابل پڑتی ہے۔ بہیمانہ بھارتی ریاستی جبر اپنی انتہاؤں کے باوجود تحریک کو پسپا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کشمیری عوام نہتے بھارتی جبر کے سامنے سینہ سپر ہو کر اپنی تحریک کو منظم کر رہے ہیں، سینکڑوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ہزاروں زخمی ہو چکے جن میں سے اکثریت پیلٹ گن کے استعمال کی وجہ سے اپنی آنکھیں کھو بیٹھے، اخباری ذرائع کے مطابق گزشتہ ایک سال میں 15000سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
گو کہ تحریک کا آغاز برہان وانی کی شہادت سے ہوا لیکن اب کی بار نوجوانوں نے بندوقوں کو اپنانے سے انکار کر دیا۔ مئی میں روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق وادی، شمالی اور جنوبی کشمیر میں عسکریت پسندوں کی کل تعداد 224 سے زیادہ نہیں۔ یہ ماضی میں کسی بھی تحریک کی نسبت عسکریت پسندوں کی سب سے کم تعداد ہے۔ جو اس بات کا اظہار بھی ہے کہ کشمیر میں تحریک میں سرگرم یہ نئی نسل ماضی کے طریقوں کو اپنانے سے انکاری ہے اور شعوری یا لاشعوری طور پر عسکریت پسندی کی حمایت نہیں کرتی۔ یہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ عسکریت پسندی نے ماضی میں قومی آزادی کی تحریک کو جو نقصان پہنچایا، اس کا ادراک بھی اس تحریک میں منظم لوگوں کو ہے۔
تحریک کی شدت اور طوالت کے باعث دہلی میں براجمان مودی سرکار مختلف ہتھکنڈے اختیار کرنے کے بعد خود کو بے بس محسوس کر رہی ہے۔ تمام تر مہرے پٹتے جا رہے ہیں۔ اس جانب پاکستانی کی سامراجی ریاست اپنی بھرپور کاوشوں کے باوجود اس تحریک میں مداخلت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ماضی کے تجربات دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، ISIکی فنکاریاں اب کی بار ثمر آور ثابت نہیں ہو سکیں۔ پاکستانی ریاستی ایما پر چلنے والی نام نہاد آزادی پسند لیڈر شپ کو تحریک نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ اس تحریک کی سیاسی بلوغت کا اظہار ہے۔ اس تحریک کی قیادت کسی ایک فرد یا رجحان کی بجائے نوعمر نوجوانوں کی مشترکہ اور وسیع قیادت کے ہاتھ میں ہے جو ماضی کی تمام تر غلاظتوں کو یکسر مسترد کر چکے ہیں۔ باوجود اس کے کہ بار بار پاکستان نواز قیادت نے یہ کوشش کی کہ تحریک کو اپنے کنٹرول میں کر سکیں لیکن تحریک نے اس قیادت کے پروگرام اور حکمت عملی کو ماننے سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ بار بار کی کوششوں کے بعد میر واعظ عمر فاروق کو یہ بیان دینا پڑا کہ ’’یہ تحریک کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے کیونکہ اس تحریک کی کوئی قیادت نہیں ہے۔‘‘ اس بیان میں جہاں ایک طرف تحریک کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ اس تحریک کو ماضی کی قیادتوں میں سے کسی کو اپنانا چاہئے،وہیں اپنے آقاؤں کے سامنے اس مسترد قیادت نے اپنی بے بسی کا اظہار بھی کیا۔
ماضی میں جہاں ایک طرف اپنی پروردہ قوتوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی ریاست کشمیر میں اٹھنے والی کسی بھی تحریک کو اپنے کنٹرول میں رکھتی تھی، ساتھ ہی ساتھ وہ جہادی تنظیموں کی سرگرمیوں کے ذریعے ایک طرف تو معصوم نوجوانوں کی بلی چڑھا کر داخلی مسائل کو کنٹرول کرتی تھی وہیں بھارتی ریاست کو اپنے جبر میں شدت لانے کا جواز بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں ابھرنے والی تحریک کو پاکستانی ریاست نے مداخلت کرتے ہوئے آگ اور خون میں نہلا دیا۔ اور اگر ان سب قربانیوں کی بات کی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ تمام تر قربانیاں رائیگاں گئیں اور مسئلہ کشمیر آج بھی جوں کا توں ہے۔ وہ تمام تر قیادتیں جو ماضی میں بھارتی ریاست سے آزادی کی بات کرتی تھیں وقت نے ان کی حقیقت عوام کے سامنے عیاں کر دی ہے۔ حریت کانفرنس کی قیادت تو اپنی ابتدا سے ہی پاکستانی ریاست کی نمک حلالی میں مصروف رہی ہے لیکن ماضی میں خودمختاری کی نعرہ بازی کرنے والی قیادتیں بھی ISIکی عنایت سے ایکسپوز ہو گئیں۔ اور ISIکی ’’عنایت‘‘ پاکستانی ریاست کی منظم کردہ سرگرمیوں میں کھلے عام خودمختاری کے نظریئے کی بجائے پاکستان سے الحاق کی وکالت کرتی نظر آ رہی ہے۔ اور پاکستانی ریاست اس تحریک میں اٹھائے جانے والے پاکستانی جھنڈوں کو ہی بار بار دکھا کر اپنا سینہ ٹھنڈا کر رہی ہے۔ اور وادی میں تحریک میں اٹھائے جانے والے پاکستانی جھنڈوں کی وجہ کی وضاحت ہم بار بار کر چکے ہیں کہ یہ جھنڈے پاکستان سے پیار کا نہیں بلکہ بھارتی ریاستی جبر سے انتہا درجے کی نفرت کا اظہار ہے۔ اس تحریک کا واحد نعرہ ’’آزادی‘‘ کا ہے اور پاکستانی ریاست اس تحریک کے اس نعرے کو محض پاکستانی پرچم کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوشش میں مصروف ہے۔ دنیا میں آزادی کا معنی تمام تر بیرونی جبر سے آزادی کا ہی لیا جاتا ہے نہ کہ ایک ریاست کے سامراجی جبر سے آزاد ہو کر دوسری ریاست کے جبر کے تابع ہو جانا۔
بھارتی ریاست تحریک کے آگے بے بس نظر آ رہی ہے۔ سال بھر کے دوران جہادی تنظیموں سے منسوب کی جانے والی تقریباً تمام ہی سرگرمیوں سے جہادی تنظیموں نے لاتعلقی کا ثبوت دیا ہے۔ حال ہی میں امرناتھ یاترا پر ہونے والی دہشت گردی کی کاروائی کی ذمہ داری لینے سے بھی جہادی تنظیموں نے انکار کر دیا۔ اور دوسری طرف عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اس طرح کی سرگرمیوں سے نفرت کا اظہار کیا ہے۔ اس دہشت گردانہ کاروائی کے حوالے سے بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی تنقید بھری موہوم سی آواز ابھر رہی ہے جس میں اس بات کے امکان کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کی اس سرگرمی کا آنے والے دنوں میں بھارتی ریاست گجرات میں ہونے والے ریاستی انتخابات سے براہ راست تعلق ہے۔ کیونکہ اس حملے میں مرنے والے تمام تر افراد کا تعلق گجرات سے ہی ہے۔ اور گجرات میں بی جے پی کی حکومت ایک طویل وقت سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ہندو مسلم تفریق کو ابھارتی رہی ہے۔ اس کے باوجود اس طرح کی سرگرمیاں تحریک پر ریاستی جبر کو مزید بڑھاوا دینے کے مترادف ہیں۔ کیونکہ گزشتہ ایک سال کے دوران تحریک کو پسپا کرنے کے لئے بھارتی ریاست ہر طرح کا ہتھکنڈہ استعمال کر چکی ہے اور اب اپنے جبر کو جاری رکھنے کا کوئی سیاسی جواز اس کے پاس موجود نہیں ، ایسے میں نہتے یاتریوں پر جان لیوا حملہ صرف بھارتی ریاست کو ہی اپنے ننگے جبر میں اضافے کا جواز فراہم کر سکتا ہے۔
ماضی کی دیگر تحریکوں کی نسبت اس تحریک نے جہاں وادی کے باہر اور بالخصوص انڈیا میں باشعور پرت کی ایک قابل ذکر حمایت جیتی ہے وہیں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں کوئی بھی سیاسی پارٹی یا تنظیم اس تحریک کی حمایت میں سرگرم نظر نہیں آرہی۔ پاکستانی ایجنسیوں کی ایما پر کچھ لوگ ’’جہاد‘‘ کے نام پر ایک بار پھر چندے اکٹھے کرتے تو نظر آتے ہیں مگر عوام میں ان کے لئے کوئی حمایت موجود نہیں۔ قوم پرست پارٹیاں ماضی میں اپنے کھوکھلے نعروں کی بنا پر عوام کے سامنے ایکسپوز ہو چکی ہیں اور اپنی داخلی لڑائیوں کے باعث خود ہی ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں۔ اس ٹوٹ پھوٹ میں وہ محض علاقائی پریشر گروپس بن کر رہ گئی ہیں۔ کشمیر کی آزادی کی بات ابھی بھی کی تو جاتی ہے مگر کسی کو بھی قومی آزادی پر ذرا بھر اعتماد نہیں رہا۔ بنیاد پرست مذہبی تنظیمیں ایک بار پھر جہاد کے نام پر ایک نیا ڈرامہ رچانے میں مصروف ہیں اور جماعت اسلامی ان میں سرفہرست ہے۔ ایک بار پھر سید صلاح الدین جیسے قاتلوں کو کشمیری عوام کے سروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں امریکی سامراج خطے کے حکمرانوں کی مدد کر رہا ہے لیکن اب کے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ غرض کوئی بھی سیاسی پارٹی اس وقت کشمیر میں جاری تحریک کی نمائندگی کرنے یا اس کی حمایت میں تحریک کو منظم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ لیکن ہمیں یہ بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ آزادی کی جدوجہد کے لیے جہاں قربانیاں ضروری ہیں وہاں اس کے لئے جدید نظریات پر مبنی ایک سیاسی پلیٹ فارم کی بھی شدید ضرورت ہے۔ جو نہ صرف اس تحریک کو آر پار کشمیر میں منظم کر سکے بلکہ اس تحریک کو پاکستان اور انڈیا میں نوجوانوں اور محنت کش طبقے تک لے کر جائے اور اس کی حمایت جیت سکے۔
عوام اور بالخصوص نوجوانوں میں اس سیاست سے اکتاہٹ اور بددلی کی کیفیت بالخصوص طلبہ سیاست کے عمومی اور قوم پرست سیاست میں بالخصوص اس خطے میں نظر آ رہی ہے۔ بنیاد پرست جہادی تنظیموں کو عوامی سطح پر کبھی کوئی وسیع حمایت حاصل نہیں ہو سکی اور جہاد کے نام پر ان کے کاروبار نے ان کے خلاف شدید عوامی نفرت کو جنم دیا ہے۔ ریاستی ایما پر پلنے والے ان عناصر کی سرکوبی اور طلبہ، نوجوانوں اور محنت کش طبقے کے مسائل کے حل کے لئے یہ خطہ ایک نئے سیاسی متبادل کا شدت سے متلاشی ہے۔
نظریات سے عاری غنڈہ گرد عناصر نے طلبہ سیاست کو تباہ کن حد تک نقصان پہنچایا ہے اور ترقی پسند نظریات کی حامل سیاست کو ختم کرنے کے اس عمل میں یہاں پر براجمان پاکستانی ریاست کے دم چھلا حکمران طبقے اور مذہبی بنیاد پرستوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور اپنے طلبہ ونگز کو نظریات کی بجائے کلاشنکوف کلچر سے آراستہ کیا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف تعلیمی ادارے سینکڑوں نوجوانوں کے لئے مقتل ثابت ہوئے بلکہ طلبہ سیاست ایک شجرممنوعہ بن گئی۔ اس عمل سے حکمرانوں نے اپنی واحد اپوزیشن طلبہ تحریک کو تباہ کر کے اپنی من چاہی پالیسیاں طلبہ پر مسلط کیں۔ جہاں ایک طرف فیسوں میں اضافے کا ایک نہ رکنے والا عمل مسلسل جاری و ساری ہے وہیں پر ایسی پالیسیاں مرتب کی گئیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو برباد کیا جائے اور ان کی بجائے تعلیم کا کاروبار کرنے والے نجی شعبے کو نہ صرف تحفظ دیا گیا بلکہ ان کو من مرضی سے پالیسیاں بنانے کی اجازت بھی دی گئی اور ان کو مکمل ریاستی پشت پناہی بھی فراہم کی گئی جس کی وجہ سے اس خطے میں تعلیم کا شعبہ تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے اور طلبہ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں کا رخ کریں مگر اس خطے میں بسنے والے اکثریتی عوام جو ایسی مہنگی تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، ان کے لئے تعلیم ایک خواب بنتی جا رہی ہے۔ اور تعلیم کے بعد روزگار کا مسئلہ ناقابل حل سطح تک پہنچ چکا ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو روزگار حاصل کرنے کے لئے عرب ممالک کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب میں ابھرنے والے نئے بحران سے ان لوگوں کو جو روزگار میسر بھی آئے تھے وہ بھی تیزی کے ساتھ چھنتے جا رہے ہیں۔ تارکین وطن کی واپسی کی یہ رفتار بہت جلد یہاں بیروزگاری کے ایک بڑے بحران کو جنم دے گی۔
ایسی کیفیت میں جب کوئی بھی طلبہ مسائل کے حل اور قومی آزادی کی تحریک کو وسیع تر طبقاتی دھارے میں جوڑنے سے قاصر ہے ہم اس خطے میں پروگریسیو یوتھ الائنس کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ ہم طلبہ اور نوجوانوں سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ آگے بڑھیں اور اس تحریک میں منظم ہو کر اس خطے سے غربت، بیروزگاری، بھوک، ننگ، قومی محرومی اور طبقاتی استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی بنیاد رکھیں۔