|تحریر: عمر ریاض خان |
ٓآزاد جموں و کشمیر میں آٹے اور بجلی کے گرد بننے والی تحریک اپنی جزوی کامیابی کے بعد پیچیدہ مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ بلا شبہ یہ تحریک آزاد جموں کشمیر کی 77 سالہ تاریخ میں پہلی کامیاب ترین تحریک رہی ہے جس میں عوام اپنے بنیادی مسائل کے گرد جمع ہوئے اور عوامی اتحاد کی بنیاد پر اس میں کامیابی حاصل کی۔ یوں تو یہ تحریک پچھلے 4 سال سے وقفے وقفے سے جاری تھی لیکن سال 2023ء سے بلا تعطل ایک تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے پورے آزاد کشمیر میں پھیل چکی ہے۔ 13 مئی کی کامیابی (آٹے اور بجلی پر سبسڈی کے حصول) کے بعد اس خطے کے عوام نے یہ اعتماد اور یقین حاصل کر لیا ہے کہ اگر ایکتا سے لڑا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت عوام کو شکست نہیں دے سکتی اور اسی وجہ سے ہمیں چھوٹے بڑے ہر شہر اور گاؤں میں عوامی ایکشن کمیٹیز کی بیداری شعور کانفرنسز میں عوام کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملتی ہے جسے اتحاد کی یہ طاقت بلا کسی لالچ کھینچ کر لے آتی ہے۔
اس تحریر میں راقم حالیہ تحریک کے واقعات پر تفصیل سے بات کرنے کی بجائے اختصار سے کام لیتے ہوئے محض تحریک کے اس عمل پر بات کرنے کی کوشش کرے گا جس کو وہ قارئین کے سامنے لانا چاہتا ہے تاکہ تحریک کی درست سمت کا تعین کیا جا سکے۔ دیانتداری کا تقاضہ یہ ہے کہ سب سے پہلے عوامی ایکشن کمیٹیوں کے بننے کے عمل کو درست طور پر سمجھا جائے، راقم کی نظر میں عوامی ایکشن کمیٹیوں کا جنم اقتدار پسند، مذہبی، قوم پرست اور ترقی پسند پارٹیوں کا عوام کی طرف سے بطور پارٹیاں مسترد ہونے کا واضح عملی اظہار ہے، اگر ایسا نہ ہوتا اور عوام کی نظر میں دائیں یا بائیں کی کوئی بھی پارٹی یا تنظیم عوامی مسائل پر درست موقف کے ساتھ عوام میں اپنی بنیادیں رکھتی ہوتی تو اس خطے کی عوام کبھی بھی اپنے مسائل کی لڑائی کے لیے عوامی ایکشن کمیٹی کے اس نئے پلیٹ فارم (اوزار) کی تخلیق نہ کرتے بلکہ پہلے سے موجود اس پارٹی کو اور اس کے اداروں کو اپنے ادارے سمجھتے ہوئے اپنی لڑائی کا آغاز کرتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور عوام نے از سر نو ایک نئے پلیٹ فارم کی تشکیل کی۔
ان پارٹیوں اور تنظیموں کے مسترد ہونے کی وجوہات بھی مختلف ہیں، حکمرانوں کی پارٹیاں عوام کے بنیادی مسائل پر بات نہ کرنے اور عوامی مسائل سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے مسترد ہوئیں جبکہ قوم پرست ترقی پسند پارٹیاں طویل مدت تک عوامی مسائل کے مجرد حل (عوام کے بنیادی مسائل سے قطع نظر غاصبانہ قبضہ کے خلاف لڑائی) کا پروگرام پیش کرنے کے باعث اجتماعی طور پر عوام کی نمائندگی حاصل کرنے میں ناکام ہوئیں، جہاں تک بائیں بازو (سوشلسٹ یا کمیونسٹ) پارٹیوں کا تعلق ہے وہ درست پروگرام (عوام کے بنیادی مسائل روٹی، بجلی، تعلیم، علاج وغیرہ) پر بات تو کرتی رہیں مگر اپنی عددی کمزوری کے باعث تا حال متبادل نہیں بن سکیں۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخی طورپر جب جب کسی بھی ملک کی عوام نے سماج کے ارتقاء کے تاریخی عمل میں شعوری مداخلت کا اظہار کیا تو انھوں نے اپنی لڑائی کے نئے پلیٹ فارم ہی تشکیل دیے ہیں۔
آئیے ذرا! ہم کشمیر سے باہر دیگر تحریکوں کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ اگر ہم حال ہی میں چلنے والی بنگلہ دیش کی تحریک پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہاں جب طلبہ نے حسینہ واجد کی پالیسیوں کے خلاف لڑائی لڑی تو طلبہ نے طلبہ ایکشن کمیٹیاں تشکیل دیں، ایسے ہی جب پشتونخوا میں ریاستی جبر کے خلاف تحریک بنی تو وہاں ایکشن کمیٹیوں سے مماثلت رکھنے والی پی ٹی ایم بنی، گلگت بلتستان کی عوام نے جب سماجی عمل میں مداخلت کرنا شروع کی تو وہاں بھی عوامی ایکشن کمیٹیاں ہی بنیں۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب اتفاق یا حادثہ تھا کہ مذکورہ بالا تمام لڑائیوں میں عوام نے اپنی لڑائی کے لیے تمام مروجہ پارٹیوں کے برعکس اپنے آزادانہ ادارے تشکیل دیے؟ کیا وہاں پہلے سے پارٹیاں موجود تھیں ہی نہیں؟ یا اگر تھیں تو کیا وہ عوام میں اپنی ٹھوس بنیادیں ہونے کے باوجود عوام کی امنگوں کے مطابق لڑائی نہیں لڑنا چاہتی تھیں؟ ان سب سوالات کے جوابات نفی میں ہیں کیونکہ ان تمام علاقوں میں دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیاں بھی موجود تھیں اور وہ عوام کے مسائل سے لاتعلق ہو کر اپنی بنیادیں کھو چکی تھیں جس وجہ سے ہمیں ہر جگہ ایک ہی مظہر نظر آتا ہے کہ عوام نے تمام پارٹیوں کو بطور پارٹیاں مسترد کرتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹیز، طلبہ ایکشن کمیٹیز اور پی ٹی ایم کو تشکیل دیا۔
اب جب تک ہم اس حقیقت کو، جو ہماری آنکھوں کے سامنے آشکار ہو چکی ہے، تسلیم نہیں کرتے تو ہم تحریک کے موجود مرحلہ کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے، یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس سارے عمل میں جہاں عوام نے تمام پارٹیوں کو اپنے عمل سے مسترد کر دیا ہے وہاں ان تمام پارٹیوں کے کارکنان کی ہی لازوال جہدوجہد سے عوامی ایکشن کمیٹیوں کا وجود عمل میں آیا ہے اورعوام اپنے اپنے علاقوں میں عوامی ایکشن کمیٹیوں کے اس پلیٹ فارم پر ان ہی تمام سیاسی کارکنان پر مکمل اعتماد کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن اگر یہی کارکنان اپنی پارٹی کے نام سے یا اس کے جھنڈے تلے کوئی سرگرمی کرنے کی کوشش کریں تو عوام واضح طور پر ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے تحریک کے موجودہ مرحلے کو، جو تحریک کے آغاز کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہے، سمجھنے کی صلاحیت اس وقت عوام کی طرف سے مسترد شدہ ان پارٹیوں کے قائدین میں ہے اور نہ ہی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی موجودہ قیادت میں، جس کے باعث تحریک میں دو واضح نقطہ نظر اور لڑائیاں پروان چڑھتی ہوئی دیکھی جا سکتی ہیں، جس کے گرد ایک تقسیم کا عمل جو سطح کے نیچے پنپ رہا ہے جو جلد یا بدیر سطح کے اوپر گروہوں کی شکل میں اپنا اظہار کرے گا، جس کا لازمی نتیجہ عوام میں تقسیم اور مایوسی کی شکل میں نکلے گا۔
تحریک کا موجودہ مرحلہ کیا ہے؟
13مئی کے کامیاب مارچ میں آٹے اور بجلی پر سبسڈی حاصل کرنے کے بعد عوام میں عوامی اتحاد کی طاقت اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت پر اعتماد بڑھ چکا ہے، براہِ راست عام آدمی کو ریلیف ملنے کی وجہ سے پہلے سے زیادہ لوگ تحریک کے ساتھ وابستہ ہو چکے ہیں اور تحریک تقریباً ہر گھر تک پھیل چکی ہے۔ اس سے قبل تحریک کے ساتھ عوام کی وابستگی کی وجہ عوام کے روزمرہ کے مسائل آٹا اور بجلی تھے جو براہِ راست عوام کے لیے کشش کا باعث تھے لیکن ان کے حصول کے بعد عوام کی عوامی ایکشن کمیٹی سے توقعات مزید سلگتے ہوئے مسائل کے حل کی توقع کی وجہ سے ہیں لیکن اس وقت جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کوئی ایسا مطالبہ نہیں ہے جو براہِ راست عوام کے روزمرہ کے مسائل میں سے ہو اور عوام کے لیے زیادہ کشش کا موجب بن رہا ہو، لہٰذا فتح مند عوام کی جرأت اور اتحاد کے پیش نظر لازم ہے کہ تحریک کے اس مرحلہ پر عوام کے روزمرہ کے مسائل میں سے نوجوانوں کے لیے روزگار کی فراہمی، 60 سال سے اوپر کے لوگوں کے لیے بڑھاپا الاؤنس، تمام عوام کے لیے مفت اور میعاری علاج کی فراہمی، اور مفت تعلیم کی فراہمی کو مطالبات میں شامل کرتے ہوئے اس کے گرد پورے ملک میں عوام کو عوامی ایکشن کمیٹیوں میں منظم کرتے ہوئے ان کی سیاسی تربیت کی جائے اور آگے کی لڑائی کے لیے بجائے ہجوم کے عوامی ایکشن کمیٹیوں میں منظم عوام کا لڑاکا لشکر تیار کیا جائے، علاوہ ازیں ان کمیٹیوں کو محلوں، گاؤں، یونین کونسل، تحصیل، ضلع اور مرکز تک (نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے تک) فعال بنایا جائے۔
ان مطالبات کے اضافے سے عوام کی تمام تر پرتیں ایکشن کمیٹیوں کی طرف پہلے سے زیادہ تعداد میں راغب ہوں گی، علاوہ ازیں یہ عمل اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر عوامی تحریک کو حکمران طبقے کا اقتدار (عوام کی طاقت کی بنیاد پر) اکھاڑنے تک تو لے کر جایا جا سکتا ہے (جو اس تحریک کی حتمی منزل ہے) مگر اس کے بغیر متبادل ریاستی، سماجی ڈھانچے تعمیر نہیں کیے جا سکتے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ تحریک یا تو تقسیم کا شکار ہو کر بکھر جائے گی یا کسی بھی مہم جوئی کا شکار ہو کر ایک یا دوسری شکل میں اسی نظام کی حدود و قیود کے اندر دم توڑ دے گی۔ لہٰذا تحریک کے موجودہ مرحلے کو درست طور پر سمجھتے ہوئے تحریک کی کامیابی کے لیے اس عمل سے گزرنا ناگزیر ہے۔
قوم پرست قیادتوں کی عجلت اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کمزوری
پچھلے چندماہ میں تحریک میں سنجیدہ سیاسی بحث و مباحثہ کا آغاز ہوا ہے جس کی بنیاد پر بار ہا قوم پرست پارٹیوں کی قیادت کی طرف سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے (تنقید کا عمل ہمیشہ تعمیری کردار رکھتا ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تنقید کا راستہ روکا جائے) جس کے نتیجے میں بعض مقامات پر کمیٹی نے اپنے خود ساختہ حریف بھی بنا لیے اور پھر کافی بڑی تعداد میں بیداری شعور کانفرنسز میں ایس او پیز کی خلاف ورزی کے جواز کی بنیاد پر شمولیت سے اجتناب بھی کیا۔
جس سے ایک خلا پیدا ہوا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ دو مختلف رجحانات سامنے آئے جن کے تحریک کے مستقبل کے حوالے سے الگ الگ لائحہ عمل ہیں، ایک طرف قوم پرست پارٹیوں کی قیادت کی اکثریت ایسی ہے جو اس تحریک کو موجودہ مرحلہ سے بنا کسی تیاری کے سیدھا آزادی کے مرحلہ پر لے جانے کی خواہش مند ہے اور دوسری طرف تحریک کی موجودہ قیادت ہے جو اس نقطہ نظر کی مخاصمت میں (یا ریاستی دباؤ میں) تحریک کو پہلے سے طے شدہ مطالبات کے گرد ہی جاری رکھنا چاہتی ہے، اور کسی حد تک 24 اکتوبر کے اعلامیہ کے مطابق آزاد حکومت کا مطالبہ بھی اپنی تقریروں کی حد تک کرتی رہی ہے (جس سے اب دستبردار ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے) جبکہ اس عمل میں دونوں گروہ تحریک کے موجودہ مرحلہ میں اوپر بیان کیے گئے لازمی فرائض کی انجام دہی کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں اور دونوں ہی عملی طور پر لڑائی کی تیاری کے لیے لازمی اوزار عوامی ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل کے عمل سے عملی طور پر عاری ہوتے ہوئے تحریک کے لائحہ عمل کا تعین مادی ضرورت کی بجائے اپنی خواہشات کے مطابق چاہتے ہیں۔
ایسے میں اگر تحریک کے موجودہ مرحلہ کو سمجھے بغیر دونوں متحرب دھڑے اپنے پنے اعلامیہ کے مطابق آگے بڑھتے ہیں تو لازماً تحریک تقسیم کا شکار ہو کر ناکامی کی طرف جائے گی، جس کا خمیازہ اس خطے میں رہنے والے تمام مظلوم عوام کو برادشت کرنا پڑے گا۔
کیا تقسیم سے بچنے کا کوئی تیسرا راستہ بھی ہے؟
راقم کے نقطہ نظر کے مطابق چیف سیکریٹری کی بے دخلی اور 24 اکتوبر کی بااختیار حکومت کے مطالبے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے کیونکہ چیف سیکریٹری کی بے دخلی سے ہی یہاں کی حکومت بااختیار بن سکتی ہے، لہٰذا دونوں دھڑوں کا نقطہ نظر اپنی اساس میں ایک ہی ہے جس پر کوئی بڑا اختلاف بننا ہی نہیں چاہیے لیکن چونکہ خیالات و تصوارات کی لڑائی پہلے پہل اپنا اظہار شخصیات کی لڑائی کی شکل میں کرتی ہے لہٰذا موجودہ تنازعے میں بھی خیالات کے ٹکراؤ سے زیادہ شخصیات کا ٹکراؤ نظر آ رہا ہے۔
اس عمل میں دونوں دھڑوں کے ذمہ داران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی جرأت و اتحاد کے پیش نظر حکمت عملی پر اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے پہلے مرحلے میں تمام قوم پرست و ترقی پسند پارٹیوں سے ایک موقف پر آپسی اتفاق کا مطالبہ کریں اور اس کے بعد اس مؤقف کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے سامنے رکھا جائے تاکہ بعد از مشاورت تحریک کے بنیادی معاشی مطالبات (روزگار، مفت تعلیم و مفت علاج) کا اضافہ کرتے ہوئے اسے تحریک کے سیاسی مطالبات (چیف سیکریٹری کی بے دخلی اور عوامی ایکشن کمیٹیوں کے نمائندوں پر مبنی انقلابی آئین ساز اسمبلی کے قیام) کو جوڑتے ہوئے عوام کو ایکشن کمیٹیوں میں منظم کیا جائے اور اگلے مرحلہ کی لڑائی کے لیے تیاری کی جائے اور پھر تیاری مکمل ہونے پر مارچ یا عام ہڑتال کے ذریعے آگے بڑھا جائے تاکہ کسی بھی طرح کی مہم جوئی سے بچا جا سکے۔
اس صورتحال میں تمام متحرک نوجوانوں اور سیاسی کارکنان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوئے اس پروگرام کے گرد عوامی ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں۔
عوامی ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل میں کس نے کردار ادا کیا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ تحریک میں عوام نے عوامی ایکشن کمیٹیوں کے تشکیل کے عمل میں تمام دائیں اور بائیں بازوں کی پارٹیوں کو مسترد کر دیاہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس خطے کی عوام نے ان تمام پارٹیوں کے کارکنان کو بھی مسترد کر لیا ہے بلکہ اس کے برعکس ان ہی تمام پارٹیوں کے کارکنان نے ملک بھر میں موجود عوامی ایکشن کمیٹیوں کی تشکیل کے عمل میں اور ان کو متحرک رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے اور تا حال یہ سچا اور دیانتدار کارکن اس عمل میں مصروف ہے۔
ایسے میں پارٹیوں کے بطور پارٹیاں مسترد ہونے اور ان کے کارکنان کا عوامی ایکشن کمیٹیوں کے وجود اور ان کی مزید تشکیل کے عمل کے لیے لازمی ہونے کی ضرورت کو سمجھنے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اگر ان پارٹیوں کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ وہ عوامی ایکشن کمیٹی سے ہٹ کر اپنے پروگرام کے گرد عوام کو متحرک یا جمع کر سکتی ہے تو وہ تاریخی طور پر غلطی پر ہے اور اگر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ وہ ان تمام پارٹیوں کے کارکنان کو چھوڑ کر (جو ہر جگہ عوامی ایکشن کمیٹی کی ریڑھ کی ہڈی ہیں) بغیر عوامی ایکشن کمیٹی کے ادارے کے عوام کو منظم کر سکتی ہے تو وہ بھی تاریخی غلطی کے مرتکب ہو رہی ہے۔ لہٰذا تمام مسترد شدہ پارٹیوں، ان کے متحرک کارکنان اور عوامی ایکشن کمیٹیوں کے وجود کے دوہرے تعلق کو سمجھے بغیر عوام کی طاقت کو غلط طور پر اپنے پلڑے میں فرض کرنا فریقین کی تاریخی غلطی ہو گی اور محض تقسیم کا ذریعہ بنے گی۔ اس لیے اس مرحلہ پر یہ لازم ہے کہ بڑے محتاط انداز میں اپنے وجود کے لیے اور خاص کر تحریک کے وجود کے لیے مندرجہ بالا لازمی عناصر کی ایکتا کی لازمیت کو سمجھا جائے اور شخصی اور گروہی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتفاق و اتحاد سے آگے بڑھا جائے۔
اجتماعی قیادت کی اہمیت اور شخصی قیادت کی محدودیت!
موجودہ نظام نے عوام کے ذہنوں پر یہ مسلط کر رکھا ہے کہ انفرادی قیادت ہوتی ہے جو اپنے آدرشوں اور عظیم صلاحیتوں کی وجہ سے عوام کے حالات کو تبدیل کر دیتی ہے اور یہ سب حکمرانوں کی طرف سے عوام پر مسلط کی گئی اس من گھڑت تاریخ سے حوالے دے کر سمجھایا جاتا ہے جس میں عظیم بادشاہ ہیں، عظیم جنگجو اور سپہ سالار ہیں، عظیم لیڈران ہیں جنہوں نے اپنے عظیم ذہنوں کی وجہ سے نسل انسانی کو آزادی دلوائی، ترقی کی منزلیں تہہ کروائیں۔ یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ عوام کسی مسیحا کے انتظار میں رہیں اور اجتماعی لڑائی کی راہ سے اجتناب کریں تاکہ اقلیتی حکمران طبقے کی حکمرانی قائم رہ سکے۔ لیکن حقیقی انسانی تاریخ و ترقی محنت کشوں کی اجتماعی کاوشوں سے ممکن ہو سکی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ میں فرد کا اہم کردار ہوتا ہے اور مخصوص مادی حالات میں فرد کا کردار اور اہم ہو جاتا ہے لیکن سماجی تبدیلی کا عمل ہمیشہ اجتماعی کاوش سے ہی تبدیل ہوا ہے اور افراد کا کردار اجتماعی عمل کے تابع رہا ہے۔
حالیہ تحریک کی کامیابی اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ اس کی قیادت کسی شخصی قیادت کے ہاتھ میں ہونے کی بجائے کمیٹیوں کے نمائندگان کی اجتماعیت پر مبنی تھی، اگرچہ پچھلے 4 سالوں میں یہ تحریک مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے اس اجتماعی قیادت کے مرحلہ تک پہنچی ہے اور اب تحریک کے دائر کار میں وسعت کے باعث پہلے سے کئی گنا زیادہ اجتماعی قیادت کی ضرورت ہے۔
اجتماعی قیادت سے مراد یہ ہے کہ قیادت کی مختلف رپرتیں ہوں جو مرکز سے گاؤں کی سطح اور گاؤں سے مرکز کی سطح تک پھیلی ہوں، ایسے میں لاکھوں کی آبادی پر مبنی اس خطے کی مجموعی قیادت کم از کم ہزاروں لوگوں کی قیادت پر مبنی ہو گی، اس کا ایک اور سب سے اہم پہلو یہ بھی ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹیاں اس وقت جس طبقے کی قیادت کر رہی ہیں وہ نہ صرف اس سماج کی اکثریت پر مبنی ہے بلکہ اس سماج کی تمام دولت کا پیداکار بھی ہے اگرچہ اس اکثریتی طبقے کی لڑائی کی حتمی منزل اس موجودہ اقلیتی طبقے کے اقتدار کے خاتمے، اس کے اقتدار کی محافظ اس سرمایہ دارانہ ریاست کے خاتمے اور اسی اکثریتی طبقے (عوام) کی حکمرانی پر منتج ہو گا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس اقلیتی طبقے کے اقتدار اور اس کے مفادات کی محافظ موجودہ ریاست (جس میں یہ 53 کا ٹولہ اور چیف سیکریٹری سمیت تمام بیوروکریٹ شامل ہیں) کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو کس سے پُر کیا جائے گا؟ اور کیا موجودہ ریاستی ڈھانچہ جو اقلیتی طبقے کی حکمرانی اور اس کے مفادات کے تحفظ کے لیے وجود میں آیا تھا وہ اکثریتی طبقے (عوام) کے اقتدار کے حصول کے بعد اس کے مفادات کا تحفظ کر سکے گا؟ یہ وہ بنیادی اور لازمی سوالات ہیں جو ہمیں اجتماعی قیادت کی ضرورت اور اہمیت بتائیں گے۔ آئیے ان سوالات پر بات کرتے ہیں۔
پہلے سوال کو ہم اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ تحریک کے اگلے مرحلے پر جب حکمران طبقے کا اقتدار چھیننے کے لیے عوامی سرکشی کی جائے گی تو موجودہ ریاستی ڈھانچہ عوام کی تحریک کو کچلنے اور حکمران طبقے کے دفاع میں اپنی پوری طاقت کا ستعمال کرے گا جس کے دفاع میں عوام اپنے ادارے (جن میں اجتماعی دفاعی کمیٹیاں، انتطامی کمیٹیاں، ٹررانسپورٹ کمیٹیاں، خوراک کی کمیٹیایوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام لازمی ادارے) تعمیر کریں گے جو موجودہ عوامی ایکشن کمیٹیوں کی ہی ذیلی کمیٹیوں کی شکل ہو گی۔ اس طرح موجودہ ریاستی ڈھانچے کے جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے اور اس کا خاتمہ کرتے ہوئے عوام اپنی حکمرانی کے لیے درکار مندرجہ بالا اداروں کی شکل میں نئے انتظامی ڈھانچے تشکیل دیں گے جو عوام کی حکمرانی کے نئے ریاستی ڈھانچے کی شکل میں اپنا اظہار کریں گے، لہٰذا عوامی ایکشن کمیٹیاں ہی وہ ادراے ہیں جو مستقبل میں عوام کی عوام پر حکمرانی کی بنیاد بنیں گے۔
دوسرے سوال کو ہم اس طرح سے سمجھ سکتے ہیں کہ اقلیت کو اکثریت پر حکمرانی کرنے کے لیے (ڈنڈا برادار گروہ، پولیس، فوج کے علاوہ عدالت و قانون ساز ٹولے، جسے قانون ساز اسمبلیاں کہا جاتا ہے، کی شکل میں) طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جو موجودہ ریاستی ڈھانچے کی شکل میں ہمیں واضح طور پر نظر آتی ہے لیکن اکثریت کی اپنے اوپر حکمرانی کے لیے عوام کی اکثریت کی سماج میں براہِ راست مداخلت درکار ہوتی ہے تاکہ اجتماعی مسائل کے حل کے لیے اجتماعی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ اس لیے موجودہ ریاستی ڈھانچہ تاریخی طور پر جس اقلیتی طبقے کی حکمرانی اور اس کے مفادات کے تحفظ کے لیے وجود میں آیا وہ اس اہل ہی نہیں ہے کہ وہ اجتماعی عوامی مفادات کو تحفظ مہیا کر سکے، اس لیے اس تاریخی ضرورت کے پیش نظر عوام کو ایکشن کمیٹیوں میں منظم کرنا مستقبل میں سماج کے نظام و نسق کو چلانے کے لیے ناگزیر ہے۔
ان تمام تر دلائل کے پیش نظر ہم اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ تحریک ایک مسلسل عمل سے گزر رہی ہے جس کے مختلف مراحل ہیں جن میں ہر مرحلہ کے متعلق قیادت کو تحریک کو منظم کرنے کی منصوبہ بندی اور تحریک کے مستقبل کی پیش بینی کرنے کی ضرورت ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ لمبے عرصے سے ہم گروہی سیاست کرتے رہے ہیں اور اب جب ہمیں ایک بڑی تحریک کا سامنا ہے تو ہم اس کی اجتماعی قیادت کی تخلیق کی ضرورت کے برعکس اسی گروہی سیاست کو اس تحریک پر مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کا نقصان اس خطے میں بسنے والے تمام عوام کو ہو گا۔
لہٰذا اس خطے کی عوام کے مجموعی مستقبل کی خاطر، آزادی کے خوبصورت خواب کی تکمیل کے لیے تقیسم کی طرف جانے والے تمام راستوں میں بند باندھنا اور اتحاد کی راہ ہموار کرنے کے لیے ذاتی انا اور ہٹ دھرمی کی بجائے عوام کے اجتماعی مفاد کے پیش نظر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا ہماری کامیابی کا ضامن ہے، ورنہ تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کی صدیوں سے چلی آنے والی حکمران طبقے کی پالیسی کو قائم رکھنے والوں میں شامل ہو کر اس خطے کی عوام کو محکوم رکھنے میں ہمارا نام تاریخ کے پنوں پر لکھا جائے گا اور ہم تاریخی طور پر غدار گردانے جائیں گے، فیصلہ آپ پر ہے کہ آپ اتحاد کے لیے لڑ کر امر ہوتے ہیں یا تقسیم کا حصہ بن کر عوام کے غدار کہلاتے ہیں۔
آواز دو، ہم ایک ہیں!
تقسیم کے دشمن، زندہ ہیں!
اتحاد کے ضامن، زندہ ہیں!