|تحریر: یاسر ارشاد|
نام نہاد آزاد کشمیر اس وقت ایک غیر معمولی عوامی بغاوت کی لپیٹ میں ہے۔ چار ماہ سے جاری یہ تحریک پورے کشمیر تک پھیل چکی ہے۔
اگست کے مہینے میں پونچھ اور میر پور ڈویژن میں بڑے پیمانے پر بجلی بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور ستمبر میں مظفرآباد ڈویژن بھی اس مہم کا حصہ بن گیا۔ کشمیر کے تمام اضلاع کے مراکز، چھوٹے بڑے قصبوں اور دیہی مراکز میں عوامی ایکشن کمیٹیز کے احتجاجی کیمپ اور دھرنے لگائے گیے ہیں جن میں بجلی کے بل جمع کیے جاتے ہیں۔ 28 ستمبر کو ان احتجاجی کیمپوں میں جمع ہونے والے بلوں کو احتجاجی جلسے منعقد کر کے بڑے پیمانے پر جلایا گیا۔ مظفر آباد کے کیمپ میں جمع ہونے والے بلوں کے جہاز اور کشتیاں بنا کر انہیں دریا نیلم میں بہا دیا گیا۔ اسی طرح بعض علاقوں میں بجلی کے بلوں کو قبریں کھود کر دفنا دیا گیا۔
کشمیر کے عوام کے اس باغیانہ اقدام نے حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا دیا ہے۔ عوام کی اس بغاوت کو روکنے کے لیے حکمرانوں نے 29 ستمبر کو احتجاجی کیمپوں میں موجود کارکنان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کیں اور کیمپ اکھاڑ دیے۔ ریاستی جبر کی اس خبر نے عوام کو بڑے پیمانے پر مشتعل کر دیا۔ کوٹلی کے عوام اور خواتین نے پولیس گردی کی خبر سنتے ہی بڑے پیمانے پر جمع ہو کر کیمپ کی جگہ پر قبضہ کر کے دوبارہ کیمپ کا آغاز کر دیا۔ باقی زیادہ تر علاقوں میں 30 ستمبر کو احتجاج کی کال دی گئی۔ 30 ستمبر کو مظفر آباد، باغ، راولاکوٹ، تھوراڑ، کھائیگلہ، ہجیرہ، عباسپور، تراڑکھل، بلوچ، پلندری، تتہ پانی، کوٹلی، نکیال اور ناڑ سمیت دیگر کئی علاقوں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ مجموعی طور پر 30 ستمبر کو لاکھوں لوگوں نے احتجاج کیا اور زیادہ تر شہروں میں اس تحریک کے دوران ہونے والے یہ سب سے بڑے احتجاج تھے۔
ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اپنے نزدیکی شہری مراکز میں احتجاجی ریلیاں اور جلسے منعقد کیے اور پولیس نے جو کیمپ اکھاڑے تھے ان کو دوبارہ لگا کر اپنی احتجاجی تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ بعض چھوٹے شہروں میں عوام کے ہجوم نے مقامی تھانے کا گھیراؤ کر گرفتار کارکنان کو رہائی بھی دلائی۔
مظفر آباد میں عوام کا جم غفیر ایک ریلی کی شکل میں مرکزی پریس کلب کے سامنے لگائے گیے اپنے کیمپ کی جانب پیش قدمی کر رہا تھا جب پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے وحشیانہ تشدد کا استعمال کیا۔ اندھا دھند آنسو گیس اور لاٹھی چارج کر کے کئی مظاہرین کو زخمی اور چند ایک کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن اس وحشیانہ ریاستی تشدد کے باوجود عوام کی احتجاجی ریلی نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور پولیس کو شکست دیتے ہوئے اپنے احتجاجی کیمپ میں پہنچنے میں کامیابی حاصل کی۔ پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپوں کا سلسلہ سارا دن جاری رہا اور شہر کے زیادہ تر علاقوں میں مظاہرین، بالخصوص نوجوانوں نے پتھراؤ کر کے پولیس کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
ریاستی جبر کے اس پہلے حملے کو عوام نے اپنی اجتماعی طاقت کے ذریعے شکست فاش دے دی ہے لیکن ریاستی جبر کا سلسلہ تا حال جاری ہے اور گھروں پر چھاپوں جیسے مختلف حربوں سے متحرک کارکنان اور کیمپوں میں بیٹھے لوگوں کا ہراساں کرنے کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ مظفرآباد سمیت کئی علاقوں میں کارکنان پر دہشت گردی کے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب تمام بار ایسوسی ایشنز اور جموں کشمیر بار کونسل نے تحریک کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ تمام تر جبر کے باوجود تحریک کی حمایت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
خواتین کا کردار
اس عوامی تحریک کی مضبوطی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں خواتین بھی پوری جرات کے ساتھ اس احتجاجی تحریک میں متحرک شمولیت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ 29 ستمبر کی رات کو جب کوٹلی میں احتجاجی دھرنا اکھاڑا گیااور دھرنے میں موجود کارکنان کو گرفتار کیا گیا تو فوری طور پر کوٹلی کے عوام کے ساتھ خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی دھرنے کے مقام پر پہنچ گئی اور دوبارہ دھرنے لگانے میں ان خواتین نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی خواتین روزانہ کی بنیاد پر دھرنے میں طویل وقت تک موجود رہتی ہیں اور بعض گرفتار کارکنان کے گھر کی خواتین بچوں سمیت دن کے وقت باقاعدگی کے ساتھ دھرنے میں بیٹھنا اپنا فریضہ سمجھتی ہیں۔
دھیر کوٹ میں دھرنے سے گرفتار ہونے والے کارکنان کی ماؤں اور بہنوں نے دھرنے میں ان کی جگہ لے لی ہے۔
2 اکتوبر کو مظفر آباد میں سینکڑوں خواتین جلوس کی شکل میں دھرنے میں شریک ہوئیں اور یہ اعلان کیا کہ اگر مردوں کو گرفتار کیا جاتا ہے تو ان کی جگہ خواتین بچوں سمیت اس تحریک کو جاری رکھیں گی۔
اسی طرح راولاکوٹ سمیت دیگر علاقوں میں بھی خواتین کی تحریک میں شمولیت عددی طور پر بڑھتی جا رہی ہے۔ ریاستی جبر کے خلاف خواتین کی تحریک میں شمولیت ایک زبر دست پیش رفت ہے جو تحریک کی معیاری بڑھوتری کی عکاسی کرتی ہے۔کشمیر جیسے پسماندہ خطے میں، جہاں خواتین (چند ایک متحرک سیاسی کارکنان کو چھوڑ کر)کی احتجاجوں میں شمولیت کے عمل کو سیاسی طور پر نہیں بلکہ عزت اور غیرت کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے اور عام طور پر اس کی مخالفت کی جاتی ہے، جدلیاتی طور پر خواتین کا زیادہ لڑاکا کردار ہو سکتا ہے اور مستقبل کی تحریکوں میں ہمیں اس کا کھلا اظہار دکھائی دے گا۔
چند ماہ قبل اساتذہ کی احتجاجی تحریک کے دوران بھی ہمیں مرد اساتذہ کے مقابلے میں خواتین اساتذہ کو زیادہ جرات مندانہ اور پرعزم جدوجہد کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ محدود پیمانے پر ہی سہی مگر خواتین کی اس تحریک میں شمولیت سماج کی بنیادوں میں رونما ہونے والی انتہائی اہم تبدیلی کی عکاسی ہے۔ 80 سے 90 فیصد تک دیہی آبادی پر مشتمل اس خطے میں، جہاں خاندانی ڈھانچہ ابھی تک قبائلی ثقافت کی باقیات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، خواتین کی احتجاجی تحریک میں شمولیت ایک حقیقی انقلابی پیش رفت ہے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 10 اکتوبر کو پورے کشمیر میں خواتین اور بچوں کی ریلیاں منعقد کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو تحریک میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے اہم سرگرمی ہوگی۔
عوامی ایکشن کمیٹیاں
موجودہ تحریک کی شدت اور وسعت کا درست ادراک حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس تحریک کو منظم اظہار فراہم کرنے والے پلیٹ فارم، عوامی ایکشن کمیٹی، کے آغاز اور ارتقا کے عمل پر سرسری سی نظر ڈالی جائے۔
کشمیر میں پارلیمانی سیاست کرنے والی الحاق نواز پارٹیوں کے ساتھ قوم پرست اور بائیں بازو کی بے شمار تنظیمیں اور دھڑے موجود ہیں۔ قوم پرست اور بائیں بازو کی پارٹیاں مختلف اوقات میں آپسی اتحاد تشکیل دے کر مختلف تحریکیں چلانے کی کوشش کرتی رہی ہیں لیکن یہ اتحاد زیادہ تر عارضی ثابت ہوئے اور ان پارٹیوں کے قائدین کی باہمی مخاصمت اور لڑائیوں کے باعث جلد ہی ٹوٹ گئے یا بے عملی کا شکار ہو کر رہ گئے۔
مختلف مسائل پر عوامی اتحاد کی بنیاد پر جدوجہد کی ضرورت کا پہلا اظہار 2005ء کے خوفناک زلزلے کے بعد امدادی کاروائیوں اور تعمیر نو کے عمل میں ریاست کی نا اہلی کے خلاف ہوا جب مختلف علاقوں میں متحدہ عوامی محاذ بنا کر عوام نے ریاست کے خلاف احتجاج منظم کیے۔ یہ عوامی پلیٹ فارم بھی جلد ہی غیر فعال ہو گئے یا کبھی کسی علاقائی مسئلے پر اِکا دُکا احتجاج تک محدود ہو گئے۔ 2019ء میں کرونا وبا کے دوران راولاکوٹ کے ایک نواحی علاقے تھوراڑ میں سیاسی کارکنان نے عوامی کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ اس کمیٹی کا بنیادی مقصد کرونا وبا سے بچاؤ کے ضروری اقدامات کو اجتماعی آگاہی کی بنیاد پر یقینی بنانے کے ساتھ احتجاج کے ذریعے ریاست کو لاک ڈاؤن کے دوران طبی اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کرنے پر مجبور کرنا تھا۔
درحقیقت اس قسم کے عوامی پلیٹ فارم کی ضرورت اس لیے روز بروز اور بالخصوص کسی بھی اجتماعی یا ہنگامی صورتحال کے دوران کھل کر سامنے آجاتی تھی کہ تمام تر سیاسی پارٹیاں عوام کے اجتماعی مسائل کی جدوجہد کو آگے بڑھانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی تھیں۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی یا تنظیم عوام کی اکثریت کی امنگوں کی ترجمانی کرنے سے مکمل طور پر قاصر تھی جبکہ دوسری جانب عوام کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا تھا۔ یہی وہ خلا تھا جس میں 2021ء کے موسم خزاں میں آٹے کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف راولاکوٹ کے نواحی علاقے میں چار دیہاتوں کے لوگوں نے عوامی ایکشن کمیٹی تشکیل دے کر احتجاج کے سلسلے کا آغاز کیا۔
اس احتجاجی تحریک کو دیگر علاقوں تک پھیلانے کے لیے عوامی مسائل کے حل کی جدوجہد کرنے والے تھوراڑ، ٹائیں، بنجونسہ، کھائیگلہ، علی سوجل اور دیگر علاقوں کے متحرک کارکنان نے ایک اجلاس منعقد کر کے عوامی ایکشن کمیٹی پونچھ تشکیل دینے کے عمل کا آغاز کیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی پونچھ کے پلیٹ فارم سے پہلے ضلع پونچھ میں احتجاج منعقد کیے گئے اور بعد ازاں اس کا دائرہ کار وسیع ہوتا گیا اور یہ تحریک پونچھ ڈویژن تک پھیل گئی اور ساتھ ہی پونچھ ڈویژن کے تینوں اضلاع میں ایکشن کمیٹیاں بناتے ہوئے پورے ڈویژن کی ایک مرکزی عوامی ایکشن کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔
ایکشن کمیٹیوں کو مختلف علاقوں میں بنانے اور پھیلانے میں مختلف سیاسی تنظیموں بالخصوص آزادی پسند اور بائیں بازو کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے کارکنان نے اہم کردار ادا کیا۔آٹے کی قیمتوں کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی نے پہلی بار پونچھ ڈویژن کی سطح تک ایک روزہ مکمل عام ہڑتال کی اور پورے پونچھ ڈویژن کو جام کردیا۔ اس تحریک کے دوران پہلی بار عوام نے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر عوامی بنیادوں پر متحد ہو کر ایک جدوجہد کی اور اپنی اجتماعی طاقت کا اظہار بھی کیا اور اس کا شعوری احساس بھی حاصل کیا۔یہ تحریک جزوی کامیابی حاصل کرتے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی مگر اس تحریک کے دوران عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک نیا متبادل پلیٹ فارم معرض وجود میں آگیا۔
عوامی ایکشن کمیٹی تمام سیاسی پارٹیوں کے جدوجہد کے لیے پرعزم کارکنان کا ایسا اکٹھ ہے جس میں کوئی عہدیدار (صدر یا جنرل سیکرٹری وغیرہ) نہیں ہے بلکہ ہر علاقائی کمیٹی کے سب سے متحرک اور زیادہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے کارکنان کو جمہوری بنیادوں پر منتخب کر کے ضلع یا ڈویژن کی کمیٹی کا ممبر بنایا جاتا ہے۔ کسی بھی احتجاج کی حکمت عملی کے لیے علاقائی کمیٹیاں اپنے نمائندوں کے ذریعے تجاویز بالائی کمیٹی تک پہنچاتی ہیں جہاں ایک جمہوری بحث و مباحثے کے ذریعے تمام تجاویز کو مدنظر رکھتے ہوئے ممکنہ حد تک اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ یا لائحہ عمل جاری کیا جاتا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات یا حکومت کے جھوٹے وعدوں پر تحریک کو ختم یا موخر کرنے کی روایت کا مکمل خاتمہ کر دیا۔اتحاد کو یقینی بنانے کے لیے ہر قسم کے اختلافی نظریاتی پرچار و تنقید اور اختلافی نعروں کی ممانعت کرتے ہوئے مسائل کے حل کی جدوجہد میں زیادہ سے زیادہ عوام کو منظم و متحرک کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف عوامی جدوجہد کا ایک حقیقی پلیٹ فارم بن کر ابھری۔
اس وقت جاری تحریک کا آغاز اگرچہ انجمن تاجران راولاکوٹ کے ایک دھرنے سے ہوا لیکن اس تحریک کی اصل طاقت بھی عوامی ایکشن کمیٹی کے دیگر علاقوں میں موجود دھرنے ہی تھے۔یہ تحریک جب ایکشن کمیٹی کے کارکنان کے مسلسل دوروں کے بعد دیگر اضلاع میں پھیلنا شروع ہوئی تو ہر علاقے کے لوگوں اور سیاسی کارکنان نے اپنے علاقے میں عوامی ایکشن کمیٹی بنا کر احتجاج کے سلسلے کا آغاز کیا۔
درحقیقت عوامی ایکشن کمیٹی اپنی وسعت و لچکدار ڈھانچوں اور سیاسی و تنظیمی مصلحتوں سے پاک ہونے کے باعث وسیع تر عوام کے اتحاد اور جدوجہد کا ایک پلیٹ فارم بن چکا ہے جو ہر علاقے میں کسی کی کاوشوں سے کم اور عوامی تحریک کے موجودہ شعوری معیار سے مطابقت رکھنے کے باعث خود رو انداز میں زیادہ فروغ پاتا گیا۔
عوامی تحریک کا موجودہ شعوری معیار یہ ہے کہ ایک جانب لوگ اپنی سیاسی وابستگیوں کو بھی کسی حد تک قائم رکھنا چاہتے ہیں، کسی نظریاتی بحث سے بھی بچنا چاہتے ہیں جبکہ بنیادی مسائل کے حل کی مشترکہ جدوجہد کو بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ عوامی ایکشن کمیٹی میں یہ وسعت اور لچک موجود ہے جو ہر سیاسی رحجان سے وابستہ کارکن کو عارضی طور پر ان اجتماعی مسائل کے حل کی جدوجہد میں یکجا کرتے ہوئے مشترکہ سرگرمیوں میں ان کو متحرک کر سکتی ہے اسی لیے عوامی ایکشن کمیٹی اس وقت پورے کشمیر میں بنیادی حقوق کی جدوجہد کا ایک غیر متنازعہ پلیٹ فارم بن چکا ہے۔
لیکن اس کے باوجود بیشتر سیاسی قائدین عوامی ایکشن کمیٹیوں کے کردار کو نہ سمجھنے کے باعث ان کے خلاف پس پرددہ سازشیں کرنے کا عمل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ تحریک کے عمومی دباؤ کے باعث اس کا حصہ بننے اور اس کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔ اہم ترین نقطہ یہ ہے کہ اس خطے کی عوام نے اپنے بنیادی مسائل کے حل کی جدوجہد میں متحرک ہوتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹیوں کی بنیاد رکھی ہے نہ کہ کسی پارٹی یا گروہ نے کسی کمرے میں بیٹھ کر عوامی ایکشن کمیٹی بنانے کا اعلان کیا اور پھر عوام ان کمیٹیوں کا حصہ بن گئی۔ یہ انتہائی میکانیکی اور کسی حد تک احمقانہ تصور ہو گا کہ کشمیر میں عوام نے اپنے مسائل کے حل کا جو ذریعہ اپنایا ہے پاکستان کے دیگر خطوں میں بھی عوام لازمی طور پر ہُو بہوایسا ہی کریں گے۔ اہم عنصر عوامی ایکشن کمیٹی کا نام یا اس کی ظاہری شکل نہیں بلکہ اس کا جوہر ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹی کا جوہر عوام کا اپنا مسائل کے حل کی اجتماعی جدوجہد کے لیے سیاسی عمل میں فیصلہ کن انداز میں متحرک شمولیت اختیار کرنا اور اپنی بکھری ہوئی طاقتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عملی راستہ تلاش کرنا ہے۔ عوامی ایکشن کمیٹیوں کا یہ جوہر ہمیں ہر اس خطے میں دکھائی دے گا جہاں عوام سیاست میں متحرک شمولیت اختیار کریں گے چاہے یہ نام استعمال کیا جائے یا کوئی اور نام ہو لیکن اصل چیز بہر حال یہی جوہر ہے اور ہمیں اسی جوہر کی تشکیل کے عمل کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے اور اس کی قبل از وقت یا کم از کم درست وقت پر اس کی پہچان کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ اس عمل کو آگے بڑھانے میں ان تمام سیاسی کارکنان کی معاونت شامل ہے جو عوامی مسائل کے حل کی جدوجہدمیں تنگ نظر پارٹی شاونزم سے بالا ہو کر عوام کو متحد کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے لیکن ان کا کردار معاونت کا ہی تھا اس سے زیادہ نہیں۔
موجودہ صورتحال اور مستقبل کی حکمت عملی
تحریک کی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ریاستی جبر کے باوجود مزاحمت بڑھتی جا رہی ہے۔ 2 اکتوبر کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا اجلاس منعقدہوا جس میں ایک ماہ کی سرگرمیوں کا شیڈول جاری کیا گیا ہے۔ 5اکتوبر کو پورے کشمیر میں ایک روزہ پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے گی، 10 اکتوبر کو خواتین کے احتجاجی پروگرامات منعقد کیے جائیں گے اور 17 اکتوبر کو طلبہ کے احتجاج منعقد کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایک یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ اگر دوبارہ گرفتاریوں کا عمل شروع کیا گیا تو اجتماعی گرفتاریوں کا اعلان بھی کیا جا سکتا ہے۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے اس اعلامیے کی بنیاد تحریک کو ہر صورت میں پرامن رکھنے اور تصادم سے بچاؤ کی سوچ پر ہے۔قیادت کی یہ سوچ بھی ایک حد تک درست ہے چونکہ عمومی طور پر ریاست کسی بھی تحریک کو پولیس کے ساتھ تصادم اور تشدد کی جانب دھکیل کر کھلی ریاستی دہشت گردی کے استعمال کا جواز پیدا کر کے کچل دیتی ہے۔ اسی لیے گرفتار کارکنان کی رہائی کا کوئی مطالبہ نہیں رکھا گیا بلکہ بنیادی مطالبات کے تسلیم کیے جانے تک تحریک کو آگے بڑھانے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔
تشدد کا سوال تحریکوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن اس کا انحصار محض تحریک کی احتیاطی تدابیر پر ہی نہیں ہوتا۔ سیاسی کارکنان کے شعور میں راسخ یہ تصور مکمل طور پر درست نہیں ہے کہ تحریک کے دوران عوام کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات ہی تحریک کو تشدد کی جانب لے جاتے ہیں یا ریاست کو تشدد کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ ریاست کئی ایک مختلف صورتوں میں تشدد کا راستہ اپناتی ہے۔ چند ایک چھوٹے مہم جوئیانہ احتجاجوں، جو خود ریاست کو تشدد کا جواز فراہم کرتے ہیں، کے علاوہ ہر بڑی عوامی تحریک کوجب مذاکرات یا دیگر غیر متشدد ذرائع سے روکا جانا ممکن نہیں ہوتا تو ریاست تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے اور اس کے لیے جواز ڈھونڈ لینا یا پیدا کرلینا ریاست کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ جہاں ایک جانب اس قسم کی احتیاط ضروری ہوتی ہے وہیں اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ ایسی سرگرمیاں کی جائیں جو زیادہ سے زیادہ عوام کو سیاسی عمل میں متحرک کریں اور اپنی اجتماعی طاقت پر ان کے اعتماد میں اضافہ بھی کریں۔ متحرک عوام کی سرگرمیوں کو زیادہ تر تحریک کے بنیادی مقاصد کے حصول کے گرد ہی رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ چھوٹی اور جزوی کامیابیوں کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں کسی تحریک کے دوران اگر چند کارکنان کو گرفتار کیا جاتا ہے تو صرف ان کی رہائی کو تحریک کا مقصد بنا لینا اور بنیادی مطالبات کو پس پشت ڈالنا درست نہیں ہوتا وہیں بنیادی مطالبات کی اہمیت کو ہی سب کچھ قرار دے کر گرفتار کارکنان کی رہائی کو یکسر نظر انداز کر دینا بھی کوئی درست حکمت عملی نہیں ہوتی۔
اگرچہ حکمت عملی کا تمام تر انحصار طاقتوں کے توازن پر ہوتا ہے اور اس کا کوئی لگا بندھا فارمولا نہیں ہوسکتا لیکن عمومی طور پر جب عوام کی زیادہ تر پرتیں تحریک میں سرگرم شمولیت اختیار کر لیتی ہیں تو طاقتوں کا توازن عوام کے حق میں ہوجاتا ہے اوراس کیفیت میں بنیادی مطالبات کی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے گرفتار کارکنان کی رہائی جیسی جزوی کامیابیوں کے لیے حکمت عملی بنانا اولین اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
تحریک کے موجودہ مرحلے پر ہم یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ طاقتوں کا توازن عوام کے حق میں ہے چونکہ لاکھوں لوگ چند گھنٹوں کے نوٹس پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ریاستی حملے کو پسپا کر دیتے ہیں۔ اس عوامی طاقت کو سیاسی کارکنان کی رہائی جیسی جزوی کامیابی کے لیے استعمال نہ کرنا کوئی درست اقدام نہیں ہے۔ کسی بھی تحریک کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ ہر قسم کی مہم جوئی سے گریز کرتے ہوئے وہ تمام اقدامات کرے جو ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔
مفت یا پیداواری لاگت پر بجلی کی بلا تعطل فراہمی اور آٹے پر سبسڈی جیسے مطالبات کی لڑائی ایک طویل مدت پر محیط جدوجہد ہے جس میں موجودہ تحریک جیسے کئی مراحل آئیں گے۔ اگر ہمیں یہ یقین ہے کہ یہ تحریک اسی رفتار اور شدت سے چلتی رہے گی اور جلد ہی کامیابی ہمارے قدم چومے گی تو ہمیں اس وقت تک گرفتار کارکنان کو جیلوں میں ہی رہنے دینا چاہیے۔ لیکن ایک امکان کے طور پر یہ بھی سوچنے اور مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ممکن ہے نتائج ہماری توقعات کے برعکس آئیں اور تحریک اپنے موجودہ مرحلے میں ہی کامیابی نہ حاصل کر پائے پھر کیا ہماری یہ حکمت عملی درست ہوگی بالخصوص جب ہم عوامی طاقت کی بنیاد کارکنان کی رہائی کے مطالبے کو با آسانی منواسکتے تھے لیکن ہم ایسا نہیں کر رہے؟
اسی طرح دیگر سرگرمیوں کے شیڈول میں بھی خامی یہ ہے کہ وقفے وقفے سے ایک روزہ احتجاج اور ہڑتال کا عمل ایک وقت کے بعد تحریک کو آگے بڑھانے کی بجائے اسے تھکانے کا باعث بنتا ہے۔ عمومی طور پر ایک روزہ ہڑتال محنت کش عوام کو متحرک و سرگرم کرنے اور کسی حد تک ان کے موڈ و مزاج کو جانچنے اور پرکھنے کا پیمانہ ہوتی ہے۔ اگر دو یا تین ایک روزہ ہڑتالوں کے بعد بھی حکمران مطالبات تسلیم نہیں کرتے تو یہ ایک روزہ ہڑتال کا طریقہ کار اپنی اہمیت و افادیت کھو دیتا ہے اور اس کے بعد تحریک کو مزید آگے بڑھانے کے لیے نئے اور زیادہ جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ چند ہفتوں بعد ایک دن کے لیے روزمرہ زندگی کے معمولات میں تعطل کو حکمران کئی ماہ تک برداشت کر سکتے ہیں اور اس کو ایک معمول کے طور پر قبول کر سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اب تحریک کو اس سے بلند مرحلے پر لے جانے کے لیے ایک غیر معینہ مدت کی مکمل ہڑتال کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری صورت میں ان ایک روزہ بے ثمر ہڑتالوں سے عوام بھی تھک کر بیزار ہو جائیں گے اور تحریک پسپائی کی جانب سرکنا شروع ہو جائے گی۔
اسی طرح اس تحریک میں خدمات اور ریاستی اداروں کو چلانے والے منظم محنت کش طبقے کی شمولیت نہ ہونا ایک بڑی کمزوری ہے اور تاحال محنت کش طبقے کی شمولیت کو یقینی بنانے کے حوالے سے کوئی حکمت عملی سامنے نہیں لائی گئی۔ محنت کش طبقے کی شمولیت اس تحریک کو اس قدر طاقتور بنا دے گی کہ حکمران طبقات کے ایوان لرزنا شروع ہو جائیں گے۔ محنت کش طبقے کی شمولیت کے بعد ہی ایک مکمل عام ہڑتال ممکن ہے جو پورے سماجی اور ریاستی ڈھانچے کو جام کر دے گی اور اسی صورت میں ہی تحریک کے آگے ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ درحقیقت قیادت کے برعکس عام عوام میں یہ بحث پہلے سے موجود ہے کہ ایک روزہ ہڑتالوں سے کچھ نہیں حاصل ہوتا ہمیں سب کچھ اس وقت تک بند کر دینا چاہیے جب تک کہ ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔
اقوام متحدہ جیسے سامراج کے دلال اداروں کے ساتھ پاکستانی ریاست کے فوج، عدلیہ اور سینٹ جیسے عوام دشمن اداروں کے سربراہان کو اپیلیں کرنا درحقیقت تحریک کی موجودہ قیادت کی بدترین خوش فہمیوں کا شاخسانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ قیادت یہ سمجھتی ہے کہ جو ظالم اور سفاک حکمران عوام کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ کر لوٹ مار کے اس گلے سڑے نظام کو صرف اس لیے برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اسی نظام کے ذریعے وہ ایک پر تعیش زندگی گزار رہے ہیں وہی حکمران عوام کو سہولیات فراہم کریں گے۔”میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔۔۔اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں“۔
عوام کے ان قاتل اداروں کی بجائے پاکستان کے ریلوے، پی آئی اے، ٹیلی کمیونیکیشن اور واپڈا سمیت دیگر تمام اداروں کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کی جانی چاہیے کہ وہ ہماری اس تحریک کے حق میں احتجاج اور ہڑتالیں منظم کریں۔ بیرون ملک مقیم کشمیریوں نے راولپنڈی، کراچی اور برطانیہ میں اس تحریک کی حمایت میں احتجاج منظم کیے ہیں۔ یہ ایک شاندار کاوش ہے اور اس کو زیادہ موثر بنانے کے لیے ان ممالک کے محنت کش طبقے اور ترقی پسند تنظیموں سے یکجہتی حاصل کرنے کی مہم کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ محنت کشوں کی تحریکوں کی حمایت محنت کش ہی کر سکتے ہیں اور محنت کش طبقے کی طبقاتی جڑت اور یکجہتی ہی ان کی جدوجہدوں کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ کشمیر کے منظم محنت کشوں کو اس تحریک کی حمایت میں متحرک کیا جائے۔ تحریک کے تمام متحرک حصوں کو نیچے سے ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال اور اس کو کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے جیسی بحثوں کا آغاز کرتے ہوئے اس کی عملی تیاریوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ایک غیر معینہ مدت کی کامیاب عام ہڑتال ہی اس نظام کو مکمل طور پر جام کر تے ہوئے حکمرانوں کو عوام کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
حکمران طبقات کی جانب سے تحریک کو توڑنے کے لیے یہ سازش بھی کی جا رہی ہے جس میں مختلف بینکوں کی چیک بکس اور اسی طرح کے دیگر سرکاری یا نیم سرکاری کاغذات پر کشمیر کے مختلف علاقوں کو پاکستان کے کچھ اضلاع کا حصہ لکھا جا رہا ہے۔ اس بحث کا آغاز بھی ہو چکا ہے کہ کشمیر کو تقسیم کر کے پاکستان کے مختلف اضلاع کا حصہ بناتے ہوئے اسے پاکستان میں ضم کرنے کی کوشش کی جارہی اور کشمیر کی شناخت مٹائی جا رہی ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کا عمل کسی بینک کی چیک بک پر کچھ لکھنے سے نہیں ہوجائے گا بلکہ اس قسم کے جعلی مواد کی تشہیر موجودہ تحریک کو توڑنے اور اسے اصل مقاصد سے بھٹکانے کی غرض سے کیا جا رہا ہے۔ اس مواد کی تشہیر کے ذریعے حکمران چاہتے ہیں کہ قوم پرست کارکنان کو مشتعل کیا جائے اور وہ احتجاجوں اور جلسوں میں اس سازش کے خلاف قوم پرستانہ تقاریر کریں تا کہ حکمرانوں کو عام عوام اور الحاق نواز پارٹیوں کے عام کارکنان کو اس تحریک سے اس جواز کی بنیاد پر علیحدگی اختیار کرنے پر اکسایا جا سکے۔ یعنی حکمران طبقات عوام کو تقسیم کرنے کا اپنا روایتی ہتھکنڈہ استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گزشتہ برس کی تحریک کے دوران بھی آئین کی پندرہویں ترمیم جیسے ہتھکنڈے کے ذریعے تحریک کو ناکام بنایا گیا تھا۔ اس لیے تحریک کے اس مرحلے پر یہ ضروری ہے کہ جذباتی رد عمل دینے کی بجائے اس قسم کی ہر سازش کو بے نقاب کیا جائے اور یہ واضح کیا جائے کہ حکمران اس تحریک کو توڑنے کے لیے اس قسم کا سازشی مواد پھیلا رہے ہیں۔
اسی طرح بعض قائدین اس تحریک کے لیے انسانیت کی تحریک جیسی مبہم لفاظی استعمال کر رہے ہیں جو تحریک کے طبقاتی کردار کی پردہ پوشی کرنے کے مترادف ہے۔ جس طرح قوم کی اصطلاح غریب اور امیر، حاکم اور محکوم، استحصال کرنے والوں اور استحصال کا شکار ہونے والوں کے درمیان تفریق و تقسیم کو چھپا دیتی ہے اسی طرح انسانیت کی اصطلاح بھی ان تقسیموں پر ایک پردہ ڈال دیتی ہے۔ کشمیر کے محنت کشوں کی یہ تحریک کشمیر کے حکمرانوں اور ان کے سامراجی آقاؤں کی لوٹ مارکے خلاف ایک بغاوت ہے اور اس کے کردار کی درست وضاحت صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اس کے جوہر کی وضاحت کرنے والے الفاظ اور اصطلاحات استعمال کریں۔ ہمیں پوری جرات کے ساتھ یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ تحریک کشمیر کے غریب محنت کش عوام کی امیر اور لٹیرے حکمرانوں اور ان کے نظام کے خلاف تحریک ہے۔ محنت کش عوام کا اتحاد ہی تحریک کی اصل طاقت اور اس کی قوت محرکہ ہے اس لیے اس اتحاد کو قائم رکھنا ہمارا بنیادی فریضہ ہے۔ اس عوامی اتحاد کو قائم رکھتے ہوئے اسے محنت کش طبقے کے ساتھ جوڑنا اور ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کی جانب بڑھنا ہی آگے کا راستہ ہے۔
محنت کش طبقہ زندہ باد!
غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کی جانب آگے بڑھو!