تحریر: یاسر ارشاد
گزشتہ سات دہائیوں سے پاک و ہند دشمنی کو زندہ رکھنے کے لیے کشمیر کو تقسیم کرنے والی سرحد جسے کنٹرول لائن کہا جاتا ہے، کے آر پار بسنے والے غریب کشمیریوں کے خون کو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ کنٹرول لائن پر پاک و ہندفوج کے مابین ہونے والی فائرنگ (جو فائربندی کے مختصر یا تھوڑے لمبے وقفوں کے ساتھ ہمیشہ جاری رہتی ہے)میں دونوں اطراف کنٹرول لائن کے قریب بسنے والے غریب کشمیری ہی مارے جاتے ہیں۔ بہت کم فائرنگ فوجی چوکیوں پر کی جاتی ہے۔ اگر کنٹرول لائن پر باقاعدہ جنگوں کے علاوہ فائرنگ میں مرنے والوں میں سویلین اور فوجی اموات کا تناسب دیکھا جائے تو یہ شائد 98:2یا 99:1ہو گا یعنی ہر سو مرنے والوں میں بمشکل ایک یا دو فوجی مارے جاتے ہیں۔ دو طرفہ فائرنگ سے غریب عوام کے گھر تباہ کیے جاتے ہیں، مالی اور جانی نقصان ہوتاہے، فصلیں برباد ہو جاتی ہیں اور یوں جو غریب لوگ براہِ راست فائرنگ میں نہیں مارے جاتے انہیں بتدریج ایک ذلت اور اذیتوں سے بھر پور موت مرنے کے لیے چھوڑ دیاجاتا ہے۔ یوں تو دنیا کی ہر سرحد پر کشیدگی کے باعث مرتے ہمیشہ غریب ہی ہیں لیکن کشمیر کی صورتحال ڈیورنڈ لائن کے آر پار مرنے والے پشتونوں جیسی ہی ہے جن کے پا س مرنے کے لیے الگ الگ قوموں سے تعلق ہونے کا جھوٹا جواز بھی نہیں، دونوں جانب کشمیری ہی مرتے ہیں۔
ضلع پونچھ اور کوٹلی کے کنٹرول لائن کے علاقوں میں گزشتہ دو ماہ سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے جس کے دوران کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کوئی درجن بھر ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں جبکہ املاک اور مالی نقصان کا اندازہ لگانے کی تاحال کوئی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی ایسا کبھی کیا جاتا ہے۔ کنٹرول لائن پر اس فائرنگ اور اس سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کی الگ الگ جھوٹی داستانیں بنا کر پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے رہتے ہیں جبکہ متاثرین اور مارے جانے والوں کی درست خبر بھی کبھی سامنے نہیں آنے دی جاتی۔ عام طور پر پاکستانی ذرائع ابلا غ میں ایک خبر یوں سننے کو ملتی ہے کہ ’’کنٹرول لائن پر بلا اشتعال بھارتی فائرنگ معاہدہ جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی اور بھارتی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور جوابی فائرنگ میں پاکستانی فوج نے بھارتی توپوں کو خاموش کرادیا‘‘، اور کبھی کبھار کوئی بھارتی چوکی بھی تباہ کر دی جاتی ہے۔ یہ تمام بلا اشتعال فائرنگ اور جوابی فائرنگ دونوں اطراف کی سویلین آبادیوں پر کی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی فوج کی فائرنگ سے کنٹرول لائن کے اُس پار مارے جانے والوں کی ایسی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں ہندوستانی فوجیوں کو امدادی کارروائیوں میں مصروف دکھایا گیا ہے۔ درحقیقت یہ دو طرفہ منصوبہ بندی کے ذریعے وقتاًفوقتاًکیا جانے والا قتل عام ہے جو نہ صرف پاک و ہند دشمنی کو زندہ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے بلکہ ہندوستان اور پاکستانی حکمران طبقات اپنے داخلی مسائل خاص کر محنت کشوں کی تحریکوں کو دبانے اور توڑنے کے لیے بھی اسی سرحدی کشیدگی کو استعمال کرتے ہیں۔
کنٹرول لائن پر فائرنگ کے موجودہ سلسلہ کے خلاف متاثرہ علاقے کے عام لوگوں میں کافی شدید غم و غصہ موجود ہے۔ متاثرین کی عمومی رائے یہ ہے کہ پاکستانی فوج ان تمام مسائل کی ذمہ دار ہے۔ بھارتی فوج نے گزشتہ چند سالوں میں کنٹرول لائن سے دہشت گردوں کی گھس بیٹھ کو روکنے کے لیے باڑ لگا کر اس پر تیز روشنی والی لائٹس نصب کر رکھی ہیں جس کے باعث دہشت گردوں کے لیے کنٹرول لائن پار کرنا کافی مشکل ہو گیا ہے۔ حالیہ عرصے میں ہونے والی فائرنگ کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ دہشت گردوں کو کنٹرول لائن عبور کرانے کی کوشش میں اس فائرنگ کا آغاز کیا جاتا ہے اور دوسری جانب سے اس کے جواب میں اور اس گھس بیٹھ کے عمل کو روکنے کے لیے فائرنگ کی جاتی ہے۔ ایسا اس سے پہلے ستمبر 2011ء میں وادئ نیلم میں بھی ہو چکا ہے جہاں لوگوں نے پاک فوج کی سر پرستی میں ہونے والی نام نہاد مجاہدین کی سرگرمیوں کے خلاف ایک زبردست احتجاجی مارچ کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کی علاقے سے بے دخلی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان مظاہرین نے بھی یہ مؤقف اپنایا تھا کہ بھارتی فائرنگ کی سب سے بڑی وجہ ان دہشت گردوں کی سرگرمیاں اور کنٹرول لائن عبور کرنے کی کوششیں ہیں۔ فائرنگ کی وجوہات کچھ بھی ہوں فائرنگ سے متاثر ہمیشہ قریبی آبادیاں ہی ہوتی ہیں اسی لیے ان علاقے کے عوام اور نوجوانوں میں اس بربادی کے خلاف غم وغصہ اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔
پاکستانی حکمران طبقہ اور ذرائع ابلاغ تو حقائق کو مسخ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ گزشتہ دنوں کنٹرول لائن کے قریبی قصبے ہجیرہ میں حلقہ بندی کے خلاف مقامی لوگوں نے ایک احتجاجی مارچ کیا جس کو الیکٹرانک میڈیا میں ہندوستان کے خلاف مارچ بنا کر پیش کیا گیا۔ درحقیقت یہ پہلی بار ہوا کہ پونچھ اور کوٹلی سیکٹر میں کنٹرول لائن کے قریبی علاقے کے لوگ نیلم ویلی کے لوگوں کی طرح پاکستانی فوج کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ غالب امکان تھا کہ یہ نفرت کسی بڑے احتجاج کی شکل میں اپنا اظہار کرتی (جو آنے والے دنوں میں ضرور کرے گی) کہ ایک قوم پرست جماعت JKLFیاسین ملک گروپ نے 16مارچ کو تتہ پانی سے مدار پور تک امن مارچ کرنے کا اعلان کیا۔ اس مارچ میں JKLFکے علاوہ بھی قوم پرست پارٹیوں کے کارکنان نے شرکت کی اور ایک بڑی تعداد میں متاثرہ علاقے کے لوگوں نے بھی اس احتجاجی مارچ میں حصہ لیا۔ امن مارچ کے نام سے کیا جانے والا یہ احتجاج جس کے ظاہری مقاصد ان متاثرہ لوگوں سے یکجہتی بتائے جا رہے تھے درحقیقت پاکستانی حکمران طبقات او ر خاص کر فوج کے خلاف مجتمع شدہ نفرت کو ایک محفوظ راستے سے نکالنے کی منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا۔ لیکن مارچ کے دوران ہونے والے واقعات نے ایک مختلف شکل اختیار کر لی۔ کشمیر کے قوم پرستوں کی پوری تاریخ اس طرح کی مہم جوئیانہ سرگرمیوں سے بھری پڑی ہے جن میں کنٹرول لائن کو عبور کرنے کے اعلانات کے ذریعے کارکنان اور عام نوجوانوں کے لیے اس سرگرمی میں ایک سرفروشانہ دلکشی پیدا کی جاتی ہے تاکہ مارچ میں شرکا کی تعداد اتنی ہو جائے کہ کامیاب مارچ کی خبر لگوائی جا سکے۔ حالیہ مارچ کے دوران بھی کنٹرول لائن کے قریب جلسہ کر کے قیادت نے جب احتجاج کو ختم کرنے کی کوشش کی توکچھ نوجوانوں نے کنٹرول لائن کی جانب جانے کی کوشش کی جن کو روکنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس، لاٹھی چارج اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں راولاکوٹ کے ایک نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والا نوجوان نعیم بٹ شدید زخمی ہو گیا اور ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد 21مارچ کی شام کو وفات پا گیا۔ اس نوجوان کی وفات کی خبر نے تمام قوم پرست جماعتوں کے کارکنان سمیت عام لوگوں میں بھی غم وغصے کی ایک لہر دوڑا دی اور JKLFکی قیادت کی مرضی کے برخلاف جب نعیم بٹ کی نعش 22مارچ کی صبح راولاکوٹ پہنچی تو ایک احتجاج کا آغاز ہوگیاجس کے دوران اس ریاستی قتل میں ملوث اہلکاروں اور پولیس کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ دن بھر کے احتجاج کے بعد وزیراعظم آزاد کشمیر کے حکم پر ا س واقعہ کی تحقیقات کے ذریعے ذمہ داران کے تعین کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا گیا۔ حکومت کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کے بعد جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اس میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران دو طرفہ فائرنگ کی گئی۔ مظاہرین کی فائرنگ کی شق کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مظاہرین کی قیادت یہ تسلیم کر چکی ہے کہ نعیم بٹ کی موت ممکنہ طور پرپولیس کی فائرنگ سے بھی ہو سکتی ہے اور اپنے کسی ساتھی کی فائرنگ سے بھی۔ اسی طرح نعیم بٹ کی شہادت کے بعد JKLFکے چیئرمین یاسین ملک نے اخبارات کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ میں نے JKLFکے مرکزی ترجمان کو 15مارچ کو ٹیلیفون کر کے ہدایات جاری کی تھیں کہ اس احتجاجی مارچ کے بارے میں وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر کو اعتماد میں لے لیں۔ اسی طرح وزیراعظم نے بیا ن جاری کرتے ہوئے کہا کہ یاسین ملک صاحب کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن بنا دیا گیا ہے۔ یاسین ملک کے ساتھ ہمارے بہت اچھے مراسم ہیں اور ان کی پارٹی پر بھی ہم بہت اعتماد کرتے ہیں۔ ان بیانات کے سامنے آنے اور نعیم بٹ کی شہادت کے خلاف ہونے والے احتجاج کوایک جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کے حکومتی اعلان پر ختم کر دینے کے خلاف سوشل میڈیا سمیت تمام قوم پرست حلقوں میں اس پرشدید تنقید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ اس تنقید میں بے شمار سوالات بھی موجود ہیں اور افسوسناک حیرت کا اظہار بھی کیا جارہا ہے۔ درحقیقت کشمیر کے قوم پرستوں اور پاکستانی حکمرانوں کے معاشقے کا فسانہ تو بہت پرانا ہے مگر جس بے شرمی سے سر بازاردونوں اطراف سے اس کا اعتراف نعیم بٹ کی شہادت کے واقع کی ہڑ بڑاہٹ میں کیا گیا ہے اُس سے اس معاشقے سے واقف احباب بھی انگشت بدنداں ہیں اور جو اس سے لاعلم تھے اُن کی حیرت تو بہرحال بجا ہے۔
’’آزاد‘‘ قوم پرستی
نام نہاد آزاد کشمیر کے قوم پرستوں کے تمام دھڑوں کی عمومی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک دلچسپ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قوم پرستوں کی ساری سیاست اور سرگرمیاں آخری تجزیے میں پاکستانی حکمرانوں کے خلاف کم اور حق میں زیادہ ہوتی ہیں اور جو دھڑے پاکستان مخالف سیاست کرنے کی کوشش کرتے بھی ہیں وہ ہندوستانی حکومت کے گماشتے بن جاتے ہیں۔ عمومی طور پر کشمیر کی زوال پذیر قوم پرست سیاست میں ایک دوسرے پر کسی نہ کسی ملک کی ایجنسیوں کا اہلکار ہونے کے الزامات لگانے کا رحجان زیادہ ہے اور یہ بات سمجھنے کی کوشش کم کی جاتی ہے کہ درحقیقت نظریاتی بانجھ پن کے باعث ان قوم پرست دھڑوں کی سیاست ایک یا دوسرے حکمران طبقے کے ہاتھوں کھلواڑ کا شکار ہوتی رہتی ہے اگرچہ بعض دھڑوں کی قیادت یا اس کے کچھ حصے اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ اپنے ضمیر تک نیلام کر چکے ہیں لیکن اس کی بھی بنیادی وجہ نظریاتی و سیاسی کمزوریاں ہی ہوتی ہیں۔
کنٹرول لائن کی جانب مارچ کی سیاست عمومی طور پر تمام دھڑوں کے نقطہ نظر سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے حوالے سے درست ہے۔ JKLFیاسین ملک گروپ پر حالیہ تنقید کی بنیادی وجہ کنٹرول لائن کی جانب مارچ کی غلط پالیسی نہیں بلکہ نعیم بٹ کی شہادت کے خلاف احتجاجی تحریک کو مصلحت کے ذریعے فوری ختم کرنے پر ہے۔ اگر نعیم بٹ کی شہادت کا المناک واقعہ نہ ہوتا تو باقی دھڑے مخاصمانہ حسد کے جذبے کے تحت اس کی تقلید کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ میں لگ چکے تھے۔ JKLF کے ایک دوسرے دھڑے نے 22 مارچ کو اسی طرح کے مارچ کا اعلان کیا ہوا تھا جو نعیم بٹ کی شہادت کے باعث ملتوی کرنا پڑا۔ گزشتہ دو سالوں میں قوم پرستوں اور نام نہاد انقلابیوں کے زیادہ تردھڑے کنٹرول لائن کی جانب اس قسم کے احتجاجی مارچ کرچکے ہیں۔ اس قدیم اور مسلسل استعمال ہونے والے طریقے کے پس پردہ جو بنیادی سوچ کارفرما ہے وہ دراصل گزشتہ 70سالوں سے پاکستانی حکمران طبقے کا کشمیر کے بارے میں اپنایا جانے والا مؤقف ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کا کشمیر کے بارے میں یہ مؤقف ہے کہ نام نہاد آزاد کشمیر ایک آزاد و خودمختار ملک ہے جو باقی ماندہ کشمیر کی آزادی کے لیے ایک بیس کیمپ کا کردار کرے گا۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے تمام قوم پرست اگر اس مؤقف کو کلی نہیں تو جزوی طور پر ضرورتسلیم کرتے ہیں اور ان کی تمام تر سیاست اس بیانیے کے عین مطابق ہوتی ہے۔ اس پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے قوم پرست بھارتی مقبوضہ کشمیر سمیت گلگت بلتستان کے حوالے سے جو رویہ رکھتے ہیں وہ مکمل طور پر ملکیت کی نفسیات پر مبنی ہے جیسے کسی اراضی کا مالک اپنی ملکیتی زمین کے بارے میں رکھتا ہے۔ ان قوم پرستوں کے بعض حلقوں کو وقتاً فو قتاً یہ احساس ہوتارہتاہے کہ ان کی سیاست کا زیادہ تر محور بھارتی مقبوضہ کشمیر کے واقعات ہوتے ہیں اسی لیے کبھی کبھار اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے گلگت کی جانب مارچ کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اگر بھارتی مقبوضہ کشمیر کی جانب مارچ پاکستان کے حکمران طبقات اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو اسی طرح گلگت کی جانب ہونے والے مارچ کو بھارت کے حکمران اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس تمام گھن چکر میں بنیادی حامی نظریات سے عاری جذباتیت کی بنیاد پر کی جانے والی سیاست ہے۔ پاکستانی قبضے کے خاتمے کی جدوجہد کی نہ کوئی حکمت عملی ہے اور نہ کبھی اس کے خلاف عملی جدوجہد کی جاتی ہے بلکہ شعوری یا لاشعوری طور پر پاکستانی حکمران طبقے کے بیانیے کو تسلیم کرتے ہوئے کبھی بھارتی مقبوضہ کشمیر تو کبھی گلگت کی مقبوضہ ملکیت کو واپس حاصل کرنے کی کوشش جاتی ہے لیکن پاکستان کے قبضے کے خاتمے کے لئے کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی گئی نہ ہی کوئی مارچ کیا گیا۔
حالیہ عرصے میں کچھ نیم پڑھے لکھے قوم پرستوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ کشمیر ی کوئی قوم نہیں ہیں (جو واقعتا نہیں ہیں) لیکن کشمیر ایک ریاست رہی ہے جس میں مختلف قومیتیں آباد رہی ہیں اور آج بھی ہیں اس دریافت کی رو سے مسئلہ کشمیر کوئی قومی مسئلہ نہیں بلکہ درندہ صفت مہاراجہ گلاب سنگھ نے سکھوں سے غداری کے عوض انگریزوں سے انعام میں یا معاوضہ دے کر جو علاقے حاصل کر کے ریاست کی تشکیل کی اور بعد میں سامراجی قبضے (گلگت بلتستان وغیرہ)کے ذریعے جو علاقے اپنی عملداری میں لائے تھے یہ اُس ریاست کی بحالی کی جدوجہد ہے۔ یہ قوم پرست اس مؤقف کو اپنا کر ہندو فاشسٹ تنظیمRSSکے موقف کے قریب تر ہو گئے ہیں۔ RSSکا یہ مؤقف ہے کہ کشمیر کی ریاست کی بنیاد ایک ڈوگرے نے رکھی تھی اس لیے یہ ایک ہندو ریاست ہے جس پر ہندوراج ہونا چاہیے اور گزشتہ برس بھارتی کشمیر کی اسمبلی میں BJPنے کشمیر کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کو قومی ہیرو قرار دلوانے اور اس کی برسی پر چھٹی کرنے کا مطالبہ کیاتھا جو منظور نہیں ہوا۔ قوم پرستوں کے نظریاتی افلاس کا عالم یہ ہے کہ مستقبل کی کسی ممکنہ ریاست کی تشکیل کی دلیل تلاش کرنے کے لئے گلاب سنگھ جیسے وحشی حکمران کی ناجائز سیاسی اولاد بن جانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ماضی کو مستقبل پر تھونپنے سے کبھی آزادی کا حصول ممکن نہیں ہوتا اگر ایسا ہوتا ہو تو مہاراجہ گلاب سنگھ ہی کی ریاست کیوں؟ کشمیر کی طویل تاریخ میں کئی ایسے حکمران گزرے ہیں جن کے دور حکومت میں کشمیر کی سرحدیں پنجاب سے افغانستان تک رہی ہیں ان میں سے کسی حکمران کے عہد میں جو ریاست تھی اس کی بحالی کا منصوبہ زیادہ دلکش ہو سکتا ہے۔ گلاب سنگھ کی سیاسی وراثت کے دعویدار وں کی دلیل کا منطقی وزن اس کے بعد یا تقسیم کشمیر کے ذمہ دار حکمران طبقات کے سیاسی ورثاء کی دلیل سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ فرق محض اتنا ہے کہ گلاب سنگھ کے عہدمیں ایک حکمران کے لئے نسبتاً بڑے علاقے پر انگریزوں کی گماشتہ حکمرانی قائم کرنا ممکن تھا۔ لیکن ایک صدی بعد اور خاص کر تقسیم ہند جیسے تاریخ کے غیرمعمولی واقعات کے دوران بھارتی اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں پاکستان اور ہندوستان کی گماشتہ حکومتیں تشکیل دینے والوں کے لئے ویسا ممکن نہیں رہا تھا۔ سادہ الفاظ میں وضاحت کی جائے تو صرف اتنا فرق تھا کہ وہ اس وقت کی سب سے بڑی سامراجی طاقت برطانیہ کا مقامی گماشتہ تھا جو بعد کی نیم سامراجی ریاستوں کے گماشتوں سے زیادہ کامیاب تھا۔ لیکن سب کا تعلق حکمران طبقے سے ہے اور سبھی عوام کے قاتل اور غدار ہیں۔ اس بنیاد پر دیکھا جائے تو کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کرنے کے لئے کسی سامراجی گماشتے کی ناجائز سیاسی وراثت کو اپنانے کی بجائے سبھی حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنے اور اقلیت کی اکثریت پر حکمرانی کے نظام کے خاتمے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت کشمیر کی جدوجہد ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے اور اس مرحلے کا تجزیہ کرنے لیے ضروری ہے کہ ہم عالمی سطح پر ایک تبدیل شدہ عہد کی کسوٹی پر صورتحال کو پرکھیں تو معیاری حوالے سے یہ تاریخ کا سب سے انوکھا اور اچھوتا عہد ہے۔ ہر قسم کی قوم پرستی اپنے مؤقف اور نعروں کے حوالے سے فرسودہ ہو چکی ہے گو کہ قومی جبر پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ نعیم بٹ کے لہو سے معذرت کے ساتھ یہ کہنا بجا ہو گا کہ کشمیر کے قوم پرست ماضی میں شہدا کی لاشوں پر خود کو اگلے کچھ عرسے کے لیے زندہ کر لیا کرتے تھے۔ اپنے بنیادی مسائل و محرومیوں کے ساتھ قابض ریاستوں کے خلاف نفرت قوم پرست تنظیموں کی حمایت میں اضافے اور نوجوانوں کی سرگرم شمولیت میں اپنا اظہار کرتی تھی لیکن نعیم بٹ کی شہادت نے عمومی طور پر اس طرز کی سیاست کے بانجھ پن کو مکمل عیاں کر دیا ہے۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں نوجوانوں کی ایک بغاوت اپنے مخصوص اتار چڑھاؤ کے ساتھ جاری ہے جس نے تمام پرانی قیادتوں کو مسترد کر دیا ہے۔ بھارتی ریاست کا وحشیانہ جبر بھی اس تحریک کو کچلنے میں ناکام ہو چکاہے۔ ستر سال میں یہ پہلی تحریک ہے جسے بڑے پیمانے پر ہندوستان کے نوجوانوں اور عوام سے ایک عملی حمائیت مل رہی ہے اور اس تحریک پر تمام کوششوں کے باوجود پاکستانی حمائیت یافتہ ہونے کا الزام نہیں لگایا جا سکا ہے۔ کنٹرول لائن پر کشیدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نہ صرف بھارتی ریاست اس تحریک کو کچلنے میں ناکام ہو چکی ہے بلکہ پاکستانی ریاست کی بھی اس تحریک پر اثر انداز ہو نے کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہو رہی۔ پاک و ہند کے حکمران طبقات آزادی کی حقیقی جدوجہد کو ایک سرحدی تنازعے میں تبدیل کرنے کے لئے اس قسم کے حربے استعمال کرتے آئے ہیں لیکن اب یہ حربے زیادہ کارآمد نہیں رہے۔
کنٹرول لائن کے حقیقی متاثرین کے مسائل کا حل یہ نہیں کہ کنٹرول لائن پر امن مارچ کیا جائے بلکہ اس کے برعکس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک اس خطے میں سرمایہ دارانہ نظام رائج رہے گا امن ممکن نہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک جانب جنگ موجودہ وقت کی کامیاب ترین صنعتوں میں سے ایک کا درجہ بھی حاصل کر لے، ان حکمرانوں کی حاکمیت کو اپنے اپنے ملک کے محنت کشوں کی سر اُٹھاتی ہوئی تحریکوں سے خطرہ بھی مسلسل بڑھتا رہے اور پھر بھی سرحدوں پر امن باقی رہے۔ وہی حکمران جو گزشتہ سا ت دہائیوں سے اپنی حکمرانی اور اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے اس جنگی کھلواڑ کو اوزار کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں وہی حکمران امن کیسے قائم کر سکتے ہیں؟ امن صرف اس خطے کے محنت کش اور عوام اپنی جدوجہد کے ذریعے قائم کرسکتے ہیں اس لئے فا ئرنگ کے متاثرین کو اپنے مطالبات کے لیے نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمرانوں کے خلاف احتجاج منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس احتجاج میں درج ذیل مطالبات کے ساتھ ہی کنٹرول لائن پر فائرنگ کے متاثرین کو پر امن زندگی گزارنے کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ انسانی جان کی قیمت لگانا انسان کی سب سے بڑی تذلیل ہے پھر بھی اس نظام میں جہاں ریاست اپنے شہریوں کی کوئی بھی ذمہ داری اُٹھانے کو تیار نہیں ایسے افرد جو خاندان کے واحد کفیل ہوتے ہیں اُن کی موت باقی خاندان کو زندہ درگور کردیتی ہے اس لیے سب سے پہلا مطالبہ کنٹرول لائن پر فائرنگ سے مرنے والے کے لواحقین کی اذیتوں میں اضافے کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مرنے والوں کا معاوضہ طلب کیا جائے۔
1۔ تمام مرنے والوں اور زخمیوں کے خاندان کو معقول معاوضہ ادا کیا جائے اور متاثرہ گھروں، کھیتوں و دیگر املاک کے ساتھ مال مویشی کی موت کی صورت سمیت ہر قسم کے نقصان کا نقد معاوضہ اد اکیا جائے اور معاوضے کا تعین اس علاقے کی عوامی کمیٹی کے ذریعے کرایا جائے۔
2۔ فائرنگ کی زد میں آنے والے علاقے کے مکینوں کو محفوظ علاقوں میں اُسی تناسب سے زمیں الاٹ کر کے گھر کی تعمیر کے لیے نقد رقم دے کر منتقل کیا جائے۔ جتنی زمین اور گھر وہ متاثرہ علاقے میں چھوڑ کر آئیں گے۔
متاثرہ علاقے کے لوگوں کو اپنے دیگر مطالبات کے ساتھ مندرجہ بالا مطالبات کو شامل کرتے ہوئے اس نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمرانوں کے خلاف اپنی جدوجہد کو منظم کرنا ہو گا۔ یہ وہ مطالبات ہیں جن کے حصول کی جدوجہد متاثرہ علاقے کے لوگوں کی فوری ضرورت ہے اور ان مطالبات کے حصول کے لیے مارچ مظفرآباد یامظفرآباد والوں کے آقاؤں یعنی اسلام آباد کی جانب بنتا ہے۔ آزادی کے معنی سب سے پہلے بنیادی مسائل کے معیاری حل کے ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ اگر بیرونی غاصب طاقت کے قبضے کے خاتمے کو بھی شامل کیا جائے تو نام نہاد آزاد کشمیر کے لوگوں کی جدوجہد پہلے پاکستانی سامراج کے قبضے سے نجات کی جدوجہد ہے۔ پاکستانی سامراجی ریاست کا مکمل خاتمہ کئے بغیر آزادی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے یہ جدوجہد صرف نام نہاد آزاد کشمیر کے عوام کی نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی قومی جدوجہد ہے بلکہ یہ پاکستانی ریاست کے جبر اور استحصال کا شکار سبھی مظلوم و محکوم محنت کشوں اور عوام کی مشترکہ جدوجہد ہے جو صرف طبقاتی بنیادوں پر متحد ہو کر ہی لڑی اور جیتی جا سکتی ہے۔ کشمیر کے تمام آزادی پسند محنت کشوں اور خاص کر نوجوانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے مستقبل کی جدوجہد کو درست سائنسی بنیادوں پر استوار کریں تا کہ قربانیوں کے اس طویل سفر کو اب مختصر کیا جا سکے۔