رپورٹ:|RWF راولاکوٹ|
گزشتہ ایک ہفتے سے نام نہاد آزاد کشمیر کے محکمہ صحت کے ملازمین ہڑتال پر ہیں۔ ہڑتال کا آغاز لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سات ماہ کی تنخواہ نہ ملنے اور باقی تمام ملازمین کو پانچ ماہ سے ہیلتھ الا ؤنس نہ ملنے جیسے فوری مطالبات کے لئے 2جون کو ایک روزہ احتجاج کی صورت میں ہوا اگرچہ اس کے علاوہ بھی ملازمین کے مطالبات کی ایک طویل فہرست ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز محکمہ صحت کی سب سے زیادہ استحصال زدہ پرت ہے جن کو سات ماہ سے اجرت بھی نہیں دی گئی اور ان پر محکمہ صحت کی بیوروکریسی کا شدید دباؤ تھا کہ وہ پولیو مہم کو عملی جامہ پہنائیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ہیلتھ ایمپلائز کے ساتھ مل کر تنخواہیں نہ ملنے کے باعث پولیو مہم کا مکمل بائیکاٹ کیا اور 2 جون کو ایک روزہ ہڑتال کی۔ اس ہڑتال کی بھر پور کامیابی سے بوکھلا کر بیوروکریسی اور پولیس نے ملازمین کے اتحاد اور طاقت کو توڑنے کے لئے (خاص کر پونچھ ڈویژن) میں پیرا میڈیکل سٹاف ایسوسی ایشن کی قیادت اور سرگرم کارکنان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرکے درجن سے زائد ملازمین کو گرفتار کر لیا جس کے خلاف 4 جون سے پونچھ ڈویژن کے محکمہ صحت کے تمام ملازمین مکمل ہڑتال پر ہیں۔اس ہڑتال کو توڑنے کے لئے غیرقانونی تبادلوں، ملازمت سے برطرفیوں، شوکاز نوٹس جاری کرنے سمیت ریاستی جبر کا ہر اوچھا ہتھکنڈہ استعمال کیا جا رہا ہے لیکن ملازمین کی جرات اور عزم و استقامت نے ریاست کے تمام ہتھکنڈوں کو ناکام بنا دیا ہے۔گرفتار قائدین نے زنداں کی سلاخوں میں قید ہونے کے باوجود نہ صرف ریاست کے جبر کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا ہے بلکہ اپنے مطالبات کے تسلیم کئے جانے اور ان پر لگے تمام جھوٹے الزامات واپس لیے جانے تک جدوجہد کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ہیلتھ ایمپلائز ایسوسی ایشن کے بانی صدر اور سرپرست اعلیٰ خالد محمود اور ضلعی صدر خورشید اقبال جو دیگر ساتھیوں سمیت اس وقت پابند سلاسل ہیں، نے RWF کے نمائندوں کو ہڑتال کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہڑتال ہمارا بنیادی جمہوری حق ہے اور حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہمیں گرفتار کر کے یا ہم پہ جبر کر کے ہمیں اس حق سے دستبردار کر دے گی تو یہ اس کی خام خیالی ہے۔ ہم گرفتاریوں کے باوجود اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کو جاری بھی رکھیں گے اور ضرورت پڑنے پر انتہائی اقدامات سے بھی گریز نہیں کریں گے ۔دوسری جانب بیوروکریسی اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے پولیو مہم کی کامیابی کی جھوٹی رپورٹیں حکومت کو بھیج کر اپنی مراعات اور کمیشن کے حصول کو یقینی بنا رہی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی افرادی قوت کے ذریعے ہی پولیو مہم کو کامیاب کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ محکمہ صحت کے پاس اور کوئی ذریعہ دستیاب ہی نہیں ہے جس کے ذریعے اس قسم کی مہم پر عملدرآمد کیا جاسکے۔ اس کے باوجود کہ کشمیر بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز نے سات ماہ کی تنخواہیں نہ دیئے جانے کے خلاف احتجاجاً اس مہم کا بائیکاٹ کیا اور اس بائیکاٹ کی کامیابی کی شرح مجموعی طور پر پورے کشمیر میں 70 سے 80 فیصد تک رہی لیکن بیوروکریسی نے مہم کی کامیابی سے تکمیل کی جھوٹی رپورٹیں حکومت کو جاری کر دی ہیں جو اس خطے کے بچوں کے مستقبل کے ساتھ ایک گھناؤنا کھلواڑ ہے۔ محکمہ صحت کے ملازمین جن کو انسانوں کا مسیحاکہا جا تا ہے وہ خود اتنے زیادہ مسائل کا شکار ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہڑتال جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب ہمارے حکمران اتنے بے حس ہیں کہ وہ ان ملازمین کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان پر وحشیانہ ریاستی جبر کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ تنخواہ اور ہیلتھ الاؤنس بند کر کے ملازمین کو بھوکے پیٹ فرض کی ادائیگی کا درس دیا جاتا ہے اور جب وہ اپنا بنیادی حق مانگتے ہیں تو ان پر ریاستی جبر کیا جاتا ہے اور کالے قوانین نافذ کر کے ان کو دبا نے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان اقدامات سے اس ریاست اور اس قوانین کی اصل حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ یہ ریاست، اس کے تمام ادارے اور قوانین صرف محنت کشوں پرجبر کرنے اور حکمرانوں اور سول و فوجی بیوروکریسی کی لوٹ مار کو تحفظ دینے کے لئے ہیں۔ محکمہ صحت کے ملازمین کی 9 سال سے ترقیوں کا سلسلہ رکا ہوا ہے۔ اسی طرح ان کے نہ ہی سروس رولز کو مکمل کیا جا رہا ہے اور نہ سروس اسٹریکچر کے دوسرے مرحلے پر عملدارآمد کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح کے بے شمار مطالبات کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے بیشتر ایسے ہیں جن کو یہ محنت کش اپنی جدوجہد کے ذریعے بارہا تسلیم کرا چکے ہیں لیکن حکمران اور بیوروکریسی مختلف حیلوں بہانوں سے ان پر عملدرآمد کو ٹالتے آ رہے ہیں ۔
حکمرانوں کے اپنے بنائے ہو ئے قوانین کے مطابق جو حقوق محنت کشوں کو لازمی طور پر ملنے چاہئیں ان کو وہ بھی نہیں دیئے جا رہے جبکہ ڈی جی ہیلتھ اپنی ملازمت کی مدت پوری کر کے غیر قانونی ایکسٹینشن لینے کی کوشش کر رہا ہے اور اپنے وفادار آفیسران کی مختلف ایسے عہدوں پر غیر قانونی تعیناتیاں بھی اپنی مرضی سے کر رہا ہے جن کے وہ کسی بھی حوالے سے اہل نہیں ہیں۔ اس تمام جبر کے خلاف محکمہ صحت کے ملازمین کی جرات مندانہ جدوجہد اور قربانیوں کی ایک درخشاں تاریخ موجود ہے۔ اس جدوجہد کی پاداش میں ان ملازمین کے قائدین پر ماضی میں بھی بغاوت جیسے سنگین مقدمات درج کر کے ان کی جدوجہد کو کچلنے کی غلیظ کوششیں کی جاتی رہی ہیں لیکن محنت کشوں نے ہمیشہ ریاست کے ہر وار کا جراتمندی سے مقابلہ کیا۔ اسی بنیاد پر اب یہ حکمران محنت کشوں کی اس مزاحمت کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لئے وہ اس نظام کے بحران کا تمام بوجھ محنت کشوں کے کاندھوں پر منتقل کر سکیں۔ لیکن محکمہ صحت کے محنت کشوں کی اس ہڑتال نے حکمرانوں کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملاتے ہوئے دیگر تمام اداروں کے محنت کشوں کے لئے بھی ایک مثال قائم کر دی ہے جو ان کو بھی جدوجہد کا ایک نیا عزم و حوصلہ فراہم کرے گی۔ دوسرے شعبوں کے ملازمین نے بھی محکمہ صحت کے ملازمین کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے مکمل ہڑتال میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ محنت کشوں کی یہ جڑت آنے والے دنوں کی بڑی لڑائیوں کے نقطہ نظر سے ایک اہم پیش رفت ہے۔
محکمہ صحت کے ملازمین کی یہ ہڑتال ایک ایسے وقت میں جاری ہے جب عالمی سطح پر سرمایہ داری کا زوال بھی تیزی کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے اور اس کے خلاف ابھرنے والی محنت کشوں کی جدجہدوں میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ اس خطے کے حکمران اس نظام کی حاکمیت اور اپنی منافع خوری کو جاری رکھنے کے لئے مسلسل محنت کشوں کی مراعات اور حاصلات میں کٹوتیاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے خلاف محنت کشوں کی تحریکیں بھی تیزی سے ابھر رہی ہیں۔ محنت کشوں کو ان کٹوتیوں کے خلاف لڑنے کے لئے اپنے وسیع تر اتحاد کو مضبوط بناتے ہوئے ایک فیصلہ کن لڑائی کی تیاری کرنا ہو گی۔ یہ لڑائی محنت کشوں کی اپنی بقاء کی لڑائی ہے جس میں انھیں ہر صورت فتح مند ہونا ہو گا چونکہ ان کے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور جیتنے کو سارا جہاں ہے۔