|تحریر: آمنہ فاروق|
یوں تو کرونا وباء کی وجہ سے پوری دنیا میں بے روزگاری میں وسیع پیمانے پر اضافہ ہو رہا ہے اور کروڑوں کی تعداد میں دنیا بھر کے تمام ممالک میں محنت کش بے روزگار ہو رہے ہیں جن میں غیر رسمی شعبہ جات سے منسلک محنت کش طبقہ سر فہرست ہے۔ موجودہ وباء کے پھیلنے سے قبل بھی اگر دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی بحران کی وجہ سے بیشتر ممالک میں محنت کش طبقہ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا اور کرونا وباء نے اس عمل کو مزید تیز تر کر دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی بے روزگاری کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ پوری دنیا میں حکمران طبقے کی نااہلی منظر عام پر آ چکی ہے اور ہر کس و ناکس سرمایہ دارانہ نظام کی نااہلی پر سوال اُٹھانہ شروع ہو گیا ہے۔ایسے میں پاکستان اور نام نہاد آزاد کشمیر میں محنت کشوں کی حالت زار جو پہلے ہی دگرگوں تھی اس عالمی وباء کے بعد مزید بد تر ہوئی ہے۔
اس ضمن میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بڑی تعداد میں محنت کش خواتین و حضرات ایسے ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بہتر مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رُخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں انتہائی کم اجرت پر اُن سے کام لیا جاتا ہے۔منافعوں کے ان مراکز میں بچوں سے فیس کی مد میں لاکھوں روپے لینے کے باوجود اساتذہ کو انتہائی کم تنخواہ دی جاتی ہے جس میں گزارہ ناممکن ہے۔ بعض تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو 150روپے دیہاڑی کے حساب سے تنخواہ دی جاتی ہے جس کے لیے انہیں پورا دن سکول میں سخت مشقت کے بعد گھر کے لیے بھی کام دیا جاتا ہے، سکول کے دورانیے میں اساتذہ کو تھوڑی دیر کے لیے بھی آرام کی اجازت نہیں دی جاتی، بات بات پر جرمانے کیے جاتے ہیں جو اس قلیل تنخواہ میں سے کاٹ لیے جاتے لیں، کسی بھی چھوٹی موٹی بات پر انتہائی توہین آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کرنے والے اساتذہ کوفارغ کر کے اسی تنخواہ میں دو نئے اساتذہ کو بھرتی کر لیا جاتا ہے،کسی قسم کی سیکورٹی نہیں دی جاتی اورکسی بھی وقت نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔
ایسے میں کوئی یونین یا پلیٹ فارم موجود نہیں جہاں اپنی شکایات درج کروائی جا سکیں یا سکول مالکان کے خلاف کوئی کارروائی کی جا سکے۔موجودہ وقت میں جہاں وباء نے باقی تمام شعبہ ہائے زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے وہاں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ پر بھی اس کے بد ترین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔نام نہاد آزاد کشمیر میں رجسٹر اور غیر رجسٹر جتنے بھی پرائیویٹ ادارے ہیں ان میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے جن میں اکثریت کی آمدن کا ذریعہ یہی ہے۔ لیکن اس وقت سکول مالکان بچوں سے فیس لینے کے باوجود اساتذہ کو تنخواہیں نہیں دے رہے۔بعض اداروں میں جو ادائیگی ہوئی ہے وہ بھی کٹوتی کے ساتھ ہوئی ہے اور اس کے باوجود اساتذہ سے کام پورا لیا گیا ہے۔جو اساتذہ آن لائن کلاسز لے رہے ہیں وہ گھروں میں رہنے کے باوجود صبح 9سے 2بجے تک بچوں کے ساتھ مصروف رہتے ہیں۔ گلی محلوں میں چھوٹے موٹے جو بھی سکول ہیں، وہاں بھی دوسرے یا تیسرے دن آدھے سٹاف کو بلا لیا جاتا ہے اور ان سے کام لیا جاتا ہے اور اداروں کے اندر کسی بھی قسم کے حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔نام نہاد آزاد کشمیر کی حکومت کی طرف سے و باء کے آغاز کے دنوں میں ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا جس کی رو سے بچوں سے فیس نہ لینے اعادہ کیا گیا اور ایسا کرنے والوں کے خلا ف سخت ترین قانونی کارروائی کیے جانے کے احکامات جاری کیے گئے۔بار بار نوٹیفیکیشن جاری ہوئے اور اس پر کسی نے کان نہ دھرے۔اس خطرے کے پیش نظر پرائیویٹ اساتذہ کی جو اتنی بڑی تعداد بے روزگار ہو چکی ہے یا آئندہ ہو گی کہیں یہ مطالبہ نہ کر دے کہ حکومت ان اساتذہ کو سرکاری خزانے سے ادائیگی کرے یا بے روزگاری الاؤنس دے،حکومت نے نیا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا کہ پرائیویٹ ادارے اپنے اخراجات کا انتظام خود کریں یعنی بچوں سے فیس لینے کو یقینی بنایا جائے۔اس وقت جو ادارے آن لائن کلاسز نہیں بھی لے رہے وہ بھی فیس وصولی رہے ہیں جبکہ اکثریتی بچے جن کے پاس انٹرنیٹ تو دور کی بات جدید فیچرز سے آراستہ موبائل ہیں موجود نہیں ہے،وہ آن لائن کلاسز نہیں لے سکتے اس کے باوجود فیس اد ا کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں اساتذہ کو بھی انٹرنیٹ کی سہولت نہیں دی جا رہی بلکہ اس بات کا پابند کیا جا رہا ہے کہ اگر انہیں تنخواہ چاہیے تو کسی بھی طرح اپنا کام کرنا ہو گا اور یہ درد سر اساتذہ کا ہو گا کہ وہ کس طرح کلاسز کو یقینی بنائیں۔ایسے میں پرائیویٹ اساتذہ کو انتہائی مشکل کا سامنا ہے۔اور والدین، جن کی اکثریت غیر رسمی شعبہ جات سے ہے اور روزگار کا کوئی مستقل ذریعہ موجود نہیں ہے، قرض اُٹھا کر اس قدر بھاری بھرکم فیسیں ادا کر رہے ہیں اور شدید غم و غصے کے کا اظہار کرتے پائے گئے ہیں۔ بعض جگہوں میں فیس نہ ادا کرنے حوالہ سے ایک بحث کا آغاز بھی ہوا ہے،لوگ خود رو طریقے سے محلوں اور گاؤں کی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دینے کی بات کر رہے ہیں تاکہ فیس دینے سے انکار کیا جائے۔ابھی تک شائد لوگوں کو یہ اُمید ہے کہ جولائی تک صورتحال بہتر ہونے کی طرف جائے گی اور پُرانا معمول دوبارہ بحال ہو گا۔لیکن حقائق اس کے بالکل اُلٹ ہیں اور آنے والے عرصہ میں حالات اس بھی بد تر ہو نے کے قوی امکان ہیں۔اس وباء نے جہاں ریاست کی نااہلی کو عیاں کیا ہے وہاں بڑی تعلیمی کاروبار سے جڑی مافیا کی حقیقت بھی عوام پر عیاں کر دی ہے۔اس اداروں کا مقصد بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا نہیں بلکہ اپنے منافعوں میں اضافہ کرنا ہے۔
وباء سے پہلے جو نام نہاد تنخواہیں اساتذہ کو مل رہی تھیں آنے والے دنوں میں یہ بھی نہیں ملیں گی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ایسے میں پرائیویٹ اساتذہ کی طرف سے بھی رد عمل آنے کے امکانات موجود ہیں جس میں ہماری شعوری مداخلت فیصلہ کُن کردار ادا کرتے ہوئے اس لڑائی کو منظم شکل دے سکتی ہے۔ اس وقت نام نہاد آزاد کشمیر میں پرائیویٹ اساتذہ کی کوئی باقاعدہ ایسوسی ایشن موجود نہیں ہے جو اس اساتذہ کے حقوق کا دفاع کر سکے۔ہمیں اس بحث کے آغاز کی طرف بڑھنا اور مختلف اداروں میں ڈھانچے ترتیب دینے ہوں گے جن کے ذریعے ہم درج ذیل مطالبات کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔
1۔ تمام تعلیمی اداروں کو سرکاری تحویل میں لیا جائے اور تعلیمی کا کاروبار بند کیا جائے۔
2۔ کرونا وباء کے پیش نظر تمام پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ کو حکومت کی طرف سے تنخواہ دی جائے۔
3۔ جو بھی سرکاری ادارے تالہ بند ہیں یا جن میں تعلیمی معیار پست ہونے کی وجہ سے تعداد کم ہے ان میں نئے اساتذہ کو بھرتی کرتے ہوئے مزید داخلے کیے جائیں۔
4۔ تمام بے روزگار اساتذہ کو رجسٹر کرتے ہوئے روزگاریا بے روزگاری الاؤنس دیا جائے۔