|تحریر: یاسر ارشاد|
گزشتہ چند ہفتوں سے ساری دنیا چین سے شروع ہونے والی ایک عالمی وبا کی زد میں ہے۔ اگرچہ تازہ ترین خبروں کے مطابق چین اور اس کے ساتھ ابتدائی طور پر اس وبا کی زد میں آنے والی ملک جنوبی کوریا میں اس پر قابو پا لیا گیا ہے لیکن باقی دنیا میں اس کے تیزی سے پھیلنے کا عمل جاری ہے۔ اس وقت اٹلی اور ایران میں اس موذی مرض کی وجہ سے موت کا شکار ہونے والے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جہاں ہر چند منٹوں میں ایک مریض کی موت واقع ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ سپین، فرانس، انگلستان اور امریکہ میں بھی اس مرض میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے۔ ایران سے یہ وبا گزشتہ چند ہفتوں سے مسلسل اور انتہائی تیزی کے ساتھ پاکستان بھر میں پھیلنا شروع ہو چکی تھی لیکن پاکستان کے نا اہل اور قاتل حکمران طبقات نے بھی باقی ممالک کے حکمرانوں کی طرح اس کو روکنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔ چند دن سے اس مرض کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس سے یہ تخمینہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں روزانہ سینکڑوں لوگوں میں اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ باقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ابتدائی مرحلے پر چند درجن اور اب چند سو مریض رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن پھر اچانک یہ تعداد برق رفتاری سے بڑھنا شروع ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے حکمران طبقات دولت کی ہوس میں اندھے ہونے کے ساتھ اتنے نا اہل، سفاکیت کی حد تک بے حس اور ظالم ہیں کہ دنیا بھر میں اس وبا سے ہونے والی روزانہ ہزاروں اموات کی دردناک خبریں منظر عام پر آنے کے باوجود بر وقت حفاظتی اقدامات بھی نہیں کر سکے۔ کوئٹہ سے اسلام آباد اور کشمیر و گلگت تک تمام ہسپتالوں کے ڈاکٹرز، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف مسلسل سراپا احتجاج ہے کہ انہیں اس وبا کا شکار مریضوں کے علاج کے لیے درکار ضروری حفاظتی سامان فراہم کیا جائے لیکن حکومت ابھی تک انہیں یہ سامان فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے اور اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مرض کی تشخیص کے لیے کیے جانے والے ضروری ٹیسٹ سے متعلقہ اور پھر علاج کے لیے درکار سازو سامان و ادویات کی ترسیل تو اگلے چند ہفتوں تک بھی ممکن نہیں ہو سکیں گی۔ محکمہ صحت کے ملازمین کو حفاظتی سامان کی عدم دستیابی کے باعث گلگت میں ایک نوجوان ڈاکٹر کی موت یا درست الفاظ کا استعمال کیا جائے تو ان حکمرانوں کے ہاتھوں پہلے قتل کا دردناک واقعہ بھی رونما ہو چکا ہے۔ دوسری جانب اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے آبادی کی نقل و حرکت کو جس بڑے پیمانے پر روکنا ضروری ہے اس کے بارے میں یہ حکمران سوچ کر ہی خوفزدہ ہو جاتے رہے۔ اسلام آباد جیسے حکمرانوں کے شہر کے سرکاری ہسپتالوں میں ابھی تک طبی و حفاظتی سامان کی فراہمی ممکن نہیں بنائی جا سکی تو اس کیفیت میں اگر نام نہاد آزاد کشمیر جیسے دیہی اور قصبہ نما شہروں پر مشتمل علاقے کا جائزہ لیا جائے تو ایک بھیانک صورتحال سامنے آتی ہے۔
نام نہاد آزاد کشمیر میں کل تین ہسپتالوں کو کرونا سے متعلقہ تشخیص و علاج کی سہولیات سے لیس ہسپتالوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ تین ہسپتال کشمیر کے تینوں ڈویژنل ہیڈکوارٹرزیعنی پونچھ(راولاکوٹ)، مظفرآباد اور میرپور میں واقع ہیں۔ ان ہسپتالوں میں بھی کرونا کے مریضوں کو چیک کرنے کے لیے مخصوص حفاظتی لباس تو درکنار ایک سادہ سرجیکل ماسک بھی ناپید ہے۔ اس کے ساتھ کرونا کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ کرنے والی مشینیں اور کٹس بھی تا حال ان ہسپتالوں کو نہیں مہیا کی جا سکیں۔ وینٹی لیٹرز کی دستیابی کا بھی یہ عالم ہے کہ راولاکوٹ سی ایم ایچ، جو تقریباً پندرہ لاکھ سے زائد آبادی کے لیے اس وبا کے چیک اپ اور علاج کے لیے مختص واحد ہسپتال ہے، اس میں کل دستیاب وینٹی لیٹرز کی تعداد تین ہے۔ اسی طرح، مظفرآباد سی ایم ایچ میں تین جبکہ عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز مظفرآباد میں صرف دو وینٹی لیٹرز دستیاب ہیں اور میر پور کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں بھی اتنی ہی تعداد ہے۔ اگرچہ، اس وقت تک کشمیر میں کرونا کا صرف ایک کنفرم مریض ہے جس کا تعلق ضلع سدھنوتی سے ہے جس کے لیے راولاکوٹ کے قرنطینہ مرکز میں کوئی بھی علاج کی سہولیات نہ ہونے کے باعث اسے میر پور بھیجا جا چکا ہے۔ میرپور میں بھی کسی مناسب قرنطینہ مرکز کا قیام ابھی تک نہیں کیا جا سکا اور اس کے لیے شہر کے وسط میں خالی عمارت تلاش کی جا رہی ہے جس پر میرپور کے عام لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اس کے خلاف احتجاج بھی کیا جا رہا ہے کہ جب میر پور میں ایسا کوئی مرکز تا حال بنایا ہی نہیں جا سکا تو کرونا کے کنفرم مریض کو کیوں یہاں بھیجا گیا۔
مظفر آباد میں بھی ینگ ڈاکٹرز نے حفاظتی سامان کی عدم فراہمی کے خلاف چند دن پہلے ایک احتجاج کیا اور حکومت و انتظامیہ کی مکمل بے عملی اور عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے 20 مارچ سے تمام ہسپتالوں کی او پی ڈیز کو بند کر دیا ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کشمیر کے صدر کا کہنا ہے کہ ہمارے ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں اور ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ جب ہمارے پاس عام ماسک بھی دستیاب نہیں ہیں تو ہم او پی ڈیز میں مریضوں کا ہجوم جمع کر لیں اور تمام لوگوں کو کرونا سے متاثر ہونے کے خطرے سے دوچار کریں۔ دوسری جانب ہم نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمارے ہسپتالوں کی چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں ہی ایک یا دو کمروں پر مشتمل قرنطینہ مراکز کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ ہم کرونا کی وبا خود باقی تمام مریضوں اور شعبہ صحت کے عملہ تک پہنچائیں۔ اس کے برعکس ہم نے ہر ہسپتال کے صدر دروازے پر کرونا ڈیسک قائم کر رکھا ہے جہاں ہمارا سٹاف ٹوٹے پھوٹے حفاظتی سامان کے ساتھ ہی آنے والے مریضوں کو چیک کر تا ہے اور ہسپتال سے الگ قرنطینہ مراکز کے قیام کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انتظامیہ کی بے حسی سے لڑنے کا ہمارے پاس واحد طریقہ یہی تھا کہ ہم ہسپتالوں میں پہلے سے داخل مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو خطرے میں ڈالنے کی بجائے او پی ڈیز بند کر کے حکام کو احساس دلائیں کہ وہ اس ضمن میں ضروری اقدامات کریں۔
پاکستان سے کشمیر میں داخل ہونے والے تمام راستوں پر بھی میڈیکل پوسٹیں قائم کی جا چکی ہیں لیکن ان کے پاس بھی چیک اپ کا بنیادی سامان میسر نہیں اور وہ بھی محض بیرون ملک سے آنے والوں کو ہی الگ کر کے علامات کے بارے میں دریافت کرنے اور ایک فارم بھرنے پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔ تا حال پورے کشمیر میں کرونا کے مریضوں کے ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک لیبارٹری بھی موجود نہیں ہے۔ دوسری جانب حکمران طبقات نے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں سے پانچ فیصد اور گریڈ سولہ سے اوپر سات فیصد کٹوتی کا اعلان بغیر کوئی وقت ضائع کیے کر دیا ہے۔ شعبہ صحت کے ملازمین کو بھی نہیں بخشا گیا جو ہنگامی صورتحال میں نہتے خود کو موت کے خطرے سے دوچار کر کے لوگوں کو علاج کی سہولیات مہیا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جبکہ حکمران طبقے اور بیوروکریسی کی عیاشیوں اور لوٹ مار کا سلسلہ زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کے باوجود ابھی تک ہسپتالوں میں حفاظتی لباس و سامان فراہم نہیں کیا جا سکا جو شعبہ صحت کی ملازمین کے ساتھ ساتھ اس پورے علاقے کے عام لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
ابھی تازہ اطلاعات کے مطابق اس ہنگامی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ذخیرہ مافیا بھی متحرک ہو گیاہے اور پونچھ ڈویژن میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس ایمرجنسی کی صورتحال اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے پہلے سے مشکلات کا شکار غریب عوام آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی شے کی قیمتوں میں اضافے میں نا صرف مل مالکان بلکہ ریاستہ اہلکار بھی شامل ہیں جو اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ مال بنانا چاہتے ہیں۔ محنت کش عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اپنی تجوریاں بھری جا رہی ہیں۔
درحقیقت، نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران بھی اپنے اسلام آباد والے آقاؤں کی طرح اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے تذبذب اور ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ نام نہاد آزاد کشمیر میں حکمرانوں کے اقدامات اپنے آقاؤں کی پیروی اور وہاں سے ملنے والی امداد کی بھیک کے مطابق ہی ہوں گے اسی لیے اس صورتحال سے لڑنے کے لیے پاکستانی حکمرانوں کی صورتحال کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ لیکن اس سے قبل کشمیر کے حوالے سے کچھ بنیادی اقدامات کو ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے:
1۔ کشمیر کے تمام ضلعی مراکز میں موجود ہسپتالوں میں کرونا کے ٹیسٹ و علاج کے لیے ضروری طبی سامان و مشینری فوری فراہم کی جائے۔
2۔ شعبہ صحت کے تمام ملازمین کو مکمل حفاظتی کٹس فوری مہیا کی جائیں۔
3۔ قرنطینہ مراکز کو تمام ضروری سہولیات سے لیس کیا جائے اور ان مراکز میں ہر مریض کو الگ کمرے میں رکھا جائے۔
4۔ تمام ضلعی مراکز کی سطح پر کرونا کے ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری قائم کی جائے۔
5۔ ہر دیہات کی عوامی کمیٹیوں کے ذریعے دیہاڑی دار مزدوروں اور ایسے تمام خاندانوں کی فہرستیں بنائی جائیں جو اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے روزگار سے محروم ہو چکے ہیں اور ان کو فی خاندان کم از کم 20 ہزار ماہانہ دیے جائیں۔
6۔ گریڈ سترہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں کی جانے والی کٹوتی کا فیصلہ فوری واپس لیا جائے اور اس سے اوپر والے گریڈ کے تمام سول و فوجی افسران، ججوں بشمول ممبران پارلیمنٹ کی تمام اضافی مراعات کو ختم کرتے ہوئے یہ تمام رقم اس وبا کو کنٹرول کرنے میں خرچ کی جائے۔
7۔ ہر قسم کے یوٹیلیٹی بلز کی معافی کے ساتھ تمام رہائشی عمارات کے نجی مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ لاک ڈاؤن کے عرصے میں اپنے کرایہ داروں سے کرائے کا تقاضا نہ کریں۔
پاکستان کے حکمران طبقات وحشی درندوں سے بڑھ کر سفاکی کا مظاہرہ کر تے ہوئے اس وبا کو وسیع پیمانے پر پھیلنے سے روکنے کے لیے جس درجے کے لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے اس سے اجتناب کر تے آ رہے تھے تا کہ غریبوں کی بڑے پیمانے پراموات اور بربادی ہو جس کو دکھا کر ساری دنیا سے بھیک مانگنے میں انہیں آسانی ہو گی۔ دنیا بھر کے سربراہان ممالک میں واحد عمران خان نے وہ اعلیٰ دماغ پایا ہے جس میں اس وبا کے آغاز پر ہی یہ خیال آگیا تھا کہ اس بہانے سے قرض معافی کی درخواست دے دینی چاہیے۔ اس کے بعد اس ملک کے حقیقی آقاؤں نے بھی اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے اس بار گیت یا ترانہ ریلیز کرنے کی بجائے عمران خان اور آرمی چیف کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک دعا ریلیز کر دی ہے۔ عمران خان اور اس کے حقیقی آقا ؤں کے لیے ڈالر کمانے کا یہ ایک نادر موقع ہے جس کو وہ کسی صورت ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے۔ وزیر اعظم کے ہر خطاب کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ ہم مکمل طور پر نا اہل ہیں اور کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اس کو ایک قومی مسئلہ اور جنگی صورتحال قرار دیے جانے کے باوجود کوئی قومی پالیسی نہیں ہے نہ ہی جنگی بنیادوں پر کوئی تیاری کی گئی۔
لاک ڈاؤن نہ کرنے کی کیا وجوہات تھیں؟
اس وبا کے دنیا بھر میں پھیلنے اور اس کو روکنے کی کوششوں کی حوالے سے دنیا کے مختلف ممالک کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں صاف صاف دکھائی دیتا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن اس کو روکنے کے لیے سب سے کلیدی اور پہلا قدم ہے۔ ہر قسم کے اندرونی و بیرونی لاک ڈاؤن کے بعد ہی متاثرہ افراد کو الگ قرنطینہ مراکز میں منتقل کرتے ہوئے ان کا علاج کرنا ایک مؤثر قدم ثابت ہوتا ہے۔ حکومت پاکستان نے خطرناک حد تک تاخیر اور پس و پیش کے بعد بالآخر گزشتہ شب یعنی 23 مارچ کو لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے جس پر عملدرآمد کے لیے فوج کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے لاک ڈاؤن نہ کر سکنے کی صرف ایک ہی وجہ بتائی جاتی رہی کہ اس سے دیہاڑی دار، ریڑھی بان اور اسی طرح کی دیگر پرتیں روزگار سے محروم ہو کر فاقہ کشی کا شکار ہو جائیں گی۔ درحقیقت، لاک ڈاؤن نہ کرسکنے کی سب سے بنیادی وجہ یہ تھی کہ حکمران اس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے یعنی وہ چند سو ارب روپے جو غریبوں کو گھروں میں دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی مہیا کرنے کے لیے درکا ر ہیں۔ موجودہ حکمران عوام کا لہو نچوڑ کر ٹیکسوں کی صورت میں جو پیسہ جمع کرتے ہیں اس میں سے چند سو ارب روپے بھی اس ناگہانی آفت کے دور میں واپس عوام پر خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن اس کے ساتھ لاک ڈاؤن کی صورت میں سرمایہ داروں کو ہونے والا نقصان، درحقیقت، لاک ڈاؤن میں پس وپیش کی حتمی وجہ تھی جبکہ باقی تمام وجوہات جو حکمران اور ان کا دلال میڈیا بتاتا ہے نری بکواس اور جھوٹ ہے۔ اس وقت تک جو بیرونی امداد مل چکی تھی وہ بھی اگلے چند ایام تک مکمل لاک ڈاؤن کے لیے کافی ہو تی لیکن حکمران امداد کی رقم کو اس وبا سے عوام اور غریبوں کو بچانے پر خرچ کرنے کی بجائے شعوری طور پر ضروری اقدامات سے اجتناب کرتے ہوئے اس وبا کو ایک بڑی تباہی میں تبدیل ہونے دے رہے تھے تاکہ زیادہ تباہی کو دکھا کر زیادہ بھیک مانگی جا سکے۔
ایک لمحے کے لیے اس دلیل کو تسلیم کر لیا جائے کہ حکومت کے پاس اس وبا کا مقابلہ کرنے کے وسائل نہیں ہیں تو اس کا کیا کیا مطلب بنتا ہے؟ کیا اس حکومت کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس انتہائی خوفناک تباہی کے دھانے پر کھڑے اس ملک کے عوام کو بار بار اتنا بتاتی رہے کہ ایک بھیا نک تباہی آنے والی ہے لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے؟ اگر واقعی وسائل کی کمی ہی حکومتی بے عملی کے راستے کی واحد اور سب سے بڑی رکاوٹ ہے تو کیا حکومت کو وسائل کا بندوبست کرنے کے لیے عالمی امداد کی بھیک کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر ہی نہیں آتا یا ایسا کوئی راستہ واقعی موجود ہی نہیں؟یہ حکومت اس وبا کو ایک قومی مسئلہ اور جنگ بھی قرار دے چکی ہے تو کیا کسی جنگ کو لڑنے کے لیے صرف بھیک پر ہی انحصار کرنا کافی ہوتا ہے اس کے لیے ملک میں موجود وسائل کے دیگر ذرائع کو بروئے کار لانے کی ضرورت نہیں ہوتی چاہے اس کے لیے کچھ لوگوں کے خلاف انتہائی سنجیدہ اقدامات ہی کیوں نہ کرنا پڑیں؟ یہ حکمران اگر اپنی نام نہاد سیاسی ساکھ کے چیتھڑوں کو بچانے کے لیے اربوں روپیہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت کے حق میں جھوٹی مہم چلانے اور حکومت کا دفاع کرنے پر خرچ کر سکتے ہیں تو وسائل کی کمی کا سوال کہاں باقی رہتا ہے؟پھر بھی ہم اس بات کو درست تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے تو آئیے وسائل کی کمی کو بھیک کا انتظار کرنے کی بجائے دیگر کون سے ذرائع اور اقدامات سے پو را کیا جا سکتا ہے اس پہلو کو زیر بحث لا تے ہیں اور اس سے پہلے ان اخراجات کا تخمینہ لگانے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں کل کتنی رقم درکا ہو گی۔
کرونا سے مقابلے کے لیے دو الگ مدوں میں رقم درکار ہے ایک تو اس کی تشخیص و علاج کے لیے ضروری سامان اور دوسرا لاک ڈاؤن کر کے روزی روٹی سے محروم ہونے والوں کی غذائی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے درکار رقم۔ ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق صرف 24 ارب روپے میں 12 ہزار نئے وینٹی لیٹرز خریدے جا سکتے ہیں اور اتنی ہی مزید رقم سے پورے ملک کے شعبہ صحت کے ملازمین کے لیے وافر مقدار میں حفاظتی سامان آ سکتا ہے۔ ہم اس تخمینے کی رقم کو دوگنا سے بھی زیادہ کر لیتے ہیں اور اس کو ایک سو ارب تک لے جاتے ہیں یعنی کرونا کی تشخیص و علاج کے لیے ہمیں سو ارب روپے درکار ہوں گے۔ دوسری جانب لاک ڈاؤن کی صورت میں ہمیں اگر اس ملک کے دس کروڑ لوگوں یعنی ملک کی تقریباً نصف آبادی کی ایک ماہ تک غذائی ضروریات پوری کرنی پڑتی ہیں تو اس کے لیے ہمیں کتنی رقم درکار ہوگی؟ بنیادی غذائی اجناس کی موجودہ ہنگامی حالات میں فراہمی کے اخراجات کا دو الگ طریقوں سے تخمینہ لگانے کی ضرورت ہے پہلا یہ کہ ان اجناس کی ان قیمتوں کے مطابق حساب کتاب لگا یا جائے جن پر وہ عام حالات میں بازار وں میں بیچی جاتی ہیں یعنی ان تمام ٹیکسوں اور منافعوں سمیت جو حکومت اور سرمایہ دار ان کی فروخت سے کماتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر ان اشیا پر تمام منافعوں اور ٹیکسوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کی صرف پیداواری لاگت کا حساب کتاب لگا یا جائے۔ اگر دس کروڑ لوگوں کو پانچ افراد پر مشتمل خاندانی اکائیوں میں تقسیم کیا جائے تو کل دو کروڑ خاندانوں کی ایک ماہ کی خوراک مہیا کرنے کے خراجات درکار ہوں گے۔ اگر اخراجات کی مد میں بیس ہزار روپے فی خاندان ماہانہ دیے جائیں تو ایک سو خاندانوں کے اخراجات کی مد میں ہمیں بیس لاکھ روپے درکار ہوں گے جبکہ اگر دس ہزار روپے ماہانہ دیے جائیں تو نصف رقم یعنی دس لاکھ روپے درکار ہوں گے۔ یوں دو کروڑ خاندانوں کو بیس ہزار فی خاندان ماہانہ کے حساب سے دینے کے لیے ہمیں چار سو ارب روپے جبکہ دس ہزار کے حساب سے دو سو ارب روپے درکار ہوں گے۔ یعنی بیس ہزار فی خاندان ماہانہ دینے کے ساتھ طبی سامان و علاج کے لیے کل پانچ سو ارب روپے کی رقم درکار ہے۔ کیا پانچ ہزار ارب سالانہ بجٹ کے حامل ملک کے لیے ان ناگہانی حا لات میں کل ملکی بجٹ کا محض دس فیصد مختص کرنا کوئی اتنی بڑی قیامت ہے کہ یہ حکمران نہیں کر سکتے؟ اگر ان تمام اشیا کی قیمتوں میں سے سرمایہ داروں کے منافعوں اور حکومتی ٹیکسوں کو نکالا جائے تو ایک خام اندازے کے مطابق تقریباً اشیا کی قیمتیں نصف پر آ سکتی ہیں پھر ماہانہ بیس ہزار کی بجائے یہی رقم ماہانہ دس ہزار رہ جائے گی اور اس صورت میں یہ مجموعی ملکی بجٹ کا پانچ فیصد بنتی ہے۔
اس تمام حساب کتاب کا مطلب یہ تھا کہ اگر حکومت اپنے آقاؤں یعنی سرمایہ داروں کے منافعوں میں کوئی کٹوتی نہ بھی کرے تو پھر بھی کل پانچ سو ارب کی رقم کے ذریعے اس ساری بربادی کو مکمل طور پر روکا جا سکتا ہے اور اگر حکومت اپنے آقاؤں یعنی سرمایہ داروں کو معمولی سی عارضی تکلیف دینا گوارہ کرے تو محض ڈھائی سو ارب کی رقم سے اس ملک کے عام عوام کو اس بھیانک موت سے بچا یا جا سکتا ہے۔ اس بحث کے بعد بھی اگر وسائل کی کمی کا ہی مسئلہ ہے تو اس کو پورے کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے موجود ہیں جن پر بات کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر دفاع کے اخراجات کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں کہ دفاعی اخراجات میں کٹوتی کر کے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار وسائل مہیا کیے جائیں۔ یہ بھی ایک درست تجویز ہے لیکن اس میں صرف ایک غلطی کی جارہی ہے کہ دفاعی اخراجات کو صرف جنگوں تک محدود کرکے یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ دفاعی بجٹ میں کٹوتی کی جائے۔ دفاع کا مطلب کسی بھی ملک کے عوام اور لوگوں کا دفاع ہوتا ہے اور صرف بیرونی دشمن سے نہیں بلکہ ہر قسم کی آفات و وبائی امراض سے بھی بچانا ہو تا ہے۔ اس وقت دفاع کا مطلب یہی ہے کہ اس وبا سے اس ملک کے تمام عوام کو بچایا جائے اس لیے ہمارا مطالبہ دفاعی بجٹ میں کٹوتی نہیں بلکہ دفاع کے لیے مختص تمام رقم کو اس وبا سے لڑنے کے لیے استعمال کرنے کا مطالبہ ہونا چاہیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ تما م حکمرانوں اور امیروں کی پچاس فیصد دولت فوری طور پر ضبط کرتے ہوئے موجودہ وسائل کی کمی کا اگر واقعی ہی مسئلہ ہے تو اسے فوری طور حل کیا جا سکتا ہے۔ گریڈ سولہ یا سترہ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان غریب محنت کشوں کی تنخواہوں میں کٹوتی کا فیصلہ فوری واپس لیتے ہوئے بلا تخصیص گریڈ سترہ سے اوپر کے تمام ملازمین بشمول فوجی افسران، ججز او ر ممبران پارلیمنٹ و سینٹ، سب کی مراعات و تنخواہوں کو گریڈ سترہ کے ملازمین کے برابر کیا جائے۔ اس کے ساتھ شعبہ صحت سے متعلقہ تمام صنعتوں سمیت نجی ہسپتالوں کو فوری قومی تحویل میں لے کر علاج و ٹیسٹ وغیرہ کی تمام سہولیات کو مفت کرنے کا اعلان کیا جائے۔
موجودہ حکومت وسائل کی کمی کی آڑ میں صرف اپنی نا اہلی اور سرمایہ داروں کی گماشتگی کے کردار کی پردہ پوشی کر رہی ہے۔ وزیر اعظم صاحب اپنی بد عنوانی کے خاتمے کی بھڑک بازی پر صرف ایک فیصد عمل کر کے دکھائیں تو وسائل کی کمی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس ملک کے عوام آپ کی مجبوری سمجھتے ہیں کہ آپ اپوزیشن کی پارٹیوں کی لوٹی ہوئی رقم واپس لانے میں مکمل ناکام ہو چکے ہیں آپ برائے مہربانی صرف اس سال کے آغاز میں آٹے اور چینی کی ذخیرہ اندوزی سے آپ کے حواریوں نے جو سینکڑوں ارب کی لوٹ مار کی ہے وہی واپس لے لیں تو دو ہفتوں کے لاک ڈاؤن اور علاج معالجے کے لیے درکاری ضروری ادویات و سامان کے اخراجات کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی کام آپ کے بس میں نہیں تو عالمی سامراجی اداروں سے قرضہ معافی کی بھیک مانگنے کی بجائے تمام قرضے دینے سے انکار کر دیں اور اگر اتنی جسارت نہیں کر سکتے تو دو سال کے لیے تمام قرضوں اور سود کی ادائیگی کو موخر کر دیں اور اس رقم کو کرونا سے بچاؤ، علاج اور تمام غریبوں کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنے کے لیے استعمال کریں۔ اگر آپ ان میں سے کوئی بھی اقدام نہیں کر سکتے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ اس ملک کے غریبوں کے لیے نہیں بلکہ سرمایہ داروں کے منافعوں میں کمی کی وجہ سے پریشان ہیں۔
درحقیقت، مکمل لاک ڈاؤن کے راستے میں پہلی رکاوٹ حکمران طبقے کی نااہلی اور عوام کی بربادی سے مال بنانے کی ہوس جبکہ دوسری سب سے بڑی رکاوٹ اس ملک کے سرمایہ دار ہیں جو محنت کشوں کو اس انجانی بلا کے منہ میں دھکیلتے ہوئے بھی اپنی لوٹ مار کے عمل کو جاری رکھنا چاہتے تھے۔ حکومت کا لاک ڈاؤن کا اعلان اس بات کا مکمل اعداد و شمار کے ساتھ ثبوت فراہم کرتا ہے کہ یہ پس وپیش صرف سرمایہ داروں کے منافعوں میں آنے والی گراوٹ کے باعث تھا۔ حکومتی اعلان کے مطابق تین ہزار فی خاندان کی رقم دی جائے گی جبکہ سرمایہ داروں کو اربوں روپے دیے جائیں گے۔ پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کی ویب سائٹ پر 24 مارچ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ”ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار نے ڈان کو بتایا، جو اس مشاورتی عمل کا حصہ تھا، کہ ریلیف پیکیج میں 200 ارب روپے کی رقم برآمدات کرنے والے سرمایہ داروں کے لیے جبکہ اتنی ہی رقم ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین کے لیے مختص کی جائے گی۔ 100 ارب روپے درمیانے اور چھوٹے درجے کے صنعتکاروں جبکہ 280 ارب روپے کسانوں سے گندم کی خریداری کے لیے رکھے جائیں گے۔ شعبہ صحت کے اور سرکاری ملازمین کے لیے 50 ارب، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے لیے بھی 50 ارب، یوٹیلٹی سٹورز کے لیے 50 ارب، نادار خاندانوں کے لیے 120 ارب، مالیاتی منڈی کے لیے 30ارب، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لیے 13 ارب، اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے لیے 75 ارب کی رقم مختص کی جائے گی۔“ اسی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تقریباً 1600 ارب روپے کا ایک پیکج زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس 1600 ارب روپے میں سے 1168 ارب کی روپے تفصیلات اوپر دی گئی ہیں جبکہ 432 ارب روپے کس مد میں خرچ کیے جائیں گے اس کو واضح نہیں کیا گیا۔
ان 1168 ارب روپے کی تفصیلات پر بھی غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ کچھ رقم براہ راست اور باقی بالواسطہ طور پر سرمایہ داروں کو دی جائے گی جبکہ عوام کو ریلیف دینے کے نام پر جو تھوڑی بہت رقم مختص کی گئی ہے اس کا بھی ایک بڑا حصہ ہمیشہ کی طرح حکمرانوں اور بیوروکریسی کی آپسی بندر بانٹ میں جائے گا جبکہ باقی تھوڑی بہت امداد کے نام پر غریبوں کی تذلیل کے لیے استعمال کی جائے گی۔ ان مختص کی جانے والی مدوں میں سے صرف 120 ارب روپے کی رقم براہ راست غریب خاندانوں کے مختص کی گئی ہے جس کے بارے میں ایک خبر یہ بھی ہے کہ پہلے سے جاری بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے 2000 روپے ماہانہ جن خاندانوں کو دیا جا رہا تھا ان کو اب تین ہزار دیا جائے گا اور اسی سکیم کا دائرہ کار بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ڈیلی ویجز ملازمین کی مد میں مختص کیے جانے والے دو سو ارب روپے بھی ان سرما یہ داروں کو ہی دیے جائیں گے جو اپنی فیکٹریوں میں ملازمین سے دیہاڑی داری پر کام لیتے ہیں چونکہ اس کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی ایسا میکنزم موجود ہی نہیں جس کے ذریعے یہ رقم براہ راست ان مزدوروں تک پہنچائی جا سکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس رقم کا بھی 80 سے 90 فیصد انہیں مزدوروں کا خون چوسنے والے سرمایہ داروں کی تجوریوں میں جائے گا۔ اس کے ساتھ اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کی مد میں رکھی جانے والی 75 ارب روپے کی رقم بھی ان سرمایہ داروں کو دی جائے گی تا کہ وہ ان اشیا کی قیمتوں میں کچھ کمی کریں۔ پیٹرولیم مصنوعات میں پہلے ہی حکومت اور سرمایہ دار اربوں روزانہ کے حساب سے عام لوگوں کی جیبوں سے لوٹ رہے تھے چونکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں 30 ڈالر سے نیچے آچکی ہیں۔ اب پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کی مد میں 50 ارب روپے ان کمپنیوں کو دیے جائیں گے جبکہ دوسری جانب عام صارفین کے لیے صرف 15 روپے فی لیٹر کمی کی گئی ہے۔
یوں اس آفت کے نام پر عوامی ٹیکسوں سے اور امداد کے ذریعے جمع ہونے والی دولت میں سے تقریباً پندرہ سو ارب روپے کا دن دیہاڑے ڈاکہ مارا گیا۔ ان گدھ ذات سرمایہ داروں کے منافعوں کو جاری رکھنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کے اس ڈاکے کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں اور ان ہنگامی حالات میں سرمایہ داروں کو دی جانے والی ان مراعات کی واپسی کے ساتھ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ادویات و اشیائے خوردو نوش کے ساتھ ساتھ لازمی شعبوں سے متعلقہ صنعتوں کے علاوہ باقی تمام شعبوں کو فوری طور پر مکمل بند کیا جائے اور ان مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ تمام محنت کشوں کو کم از کم دو ماہ کی پیشگی تنخواہ یکمشت ادا کریں اور اگر کوئی سرمایہ دار ایسا کرنے سے انکار کرتا ہے تو اس کی فیکٹری اور تمام دولت و جائیداد کو ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے حکومت اس پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ اسی طرح کسی ایک شہر کے لاک ڈاؤن کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہاں دوسرے صوبوں اور دیہاتوں سے آئے ہوئے محنت کشوں کو چھٹیوں پر ان کے آبائی علاقوں میں بھیجا جائے بلکہ جو جہاں ہے اسے وہیں رہنے کا پا بند کیا جائے۔ کرونا وائرس ایک معمولی سی وبائی بیماری ہے جس کو روکنے کے لیے ایک سخت گیر مرکزی حکومتی پالیسی اور اقدامات کی ضرورت ہے لیکن جو حکومت اپنی نا اہلی اور سرمایہ داروں کے منافعوں کو جاری رکھنے کے لیے بروقت ضروری اقدامات نہیں کرتی وہاں یہ ایک ہولناک تباہی کی شکل اختیار کر جاتی ہے جیسا کہ اٹلی یا ایران کی صورتحال ہمارے سامنے ہے جبکہ اس کے برعکس چین اور جنوبی کوریا نے پوری جرات اور طاقت کے ساتھ ضروری اقدامات کرتے ہوئے اس پر قابو پا لیا۔
پاکستان کے حکمران طبقات کے خمیر اورسرشت میں سرمایہ داروں اور سامراجی اداروں کی غلامی شامل ہے اس لیے ان سے عوام اور محنت کشوں کے حق میں کوئی دو تین ہفتے کی عارضی پالیسی یا اقدامات کی توقع بھی ایک بھیانک غلطی ہو گی اسی لیے اس ملک کے نوجوانوں اور محنت کشوں کو اپنی جدوجہد اور احتجاج کے ذریعے انہیں مجبور کرنا ہو گا کہ وہ ضروری اقدامات کریں۔ اس وقت شعبہ صحت کے محنت کش ہمارا ہر اول دستہ ہیں اسی لیے ہمیں سب سے پہلے ان کی مکمل حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کے لیے آواز بلند کرنا ہو گی۔ اس کے ساتھ ہمیں حکومت کی جانب سے احتجاج جیسے بنیادی حق پر کسی بھی قسم کی قدغن یا پابندی کی بھر پور مخالفت کرنا ہو گی۔ یہ درست ہے کہ یہ احتجاج کا وقت نہیں ہے لیکن یہ احتجاج جیسے بنیادی حق سے دستبردار ہونے کا وقت تو بالکل بھی نہیں ہے۔
اس ملک کے سرمایہ دار حکمران سات دہائیوں سے اس ملک کے عوام کو کوئی بھی بنیادی سہولت دینے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں اور موجودہ وبا کے چند دنوں نے ان کی عوام دشمنی کو مکمل طور پر عیاں کر دیا ہے۔ یہ حکمران سات دہائیوں سے نسل در نسل اس خطے کے عوام اور محنت کشوں کے خون پسینے اور ہڈیوں کے گودے تک کو چوس کر اپنی اور اپنے خاندانوں کی تجوریاں بھرتے آ رہے ہیں۔ عوام پر اس نظام کی نازل کردہ ہر آفت چاہے وہ زلزلہ ہو یا سیلاب ہمیشہ غریبوں کی بربادی اور ان حکمرانوں کے لیے امداد کی صورت میں بڑے پیمانے پر دولت میں اضافے کا ہی سبب بنتی آئی ہے۔ یہ حکمران آج اس بربادی کی گھڑی میں عوام کے خون پسینے سے نچوڑی گئی دولت میں سے چند سو ارب روپے اگر دوبارہ عوام کو روٹی اور دوا مہیا کرنے پر خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں تو کیسے عام عوام ان حکمرانوں پر اعتبار کر سکتے ہیں۔ دو ماہ ہو چکے ہیں اس وبا کا آغاز ہو ئے اور اگر ایک ڈیڑھ ماہ پہلے ضروری اقدامات کر لیے جاتے تو اس وبا کو ملک کے اندر آنے سے روکنا عین ممکن تھا۔ لیکن وہ اقدامات نہیں کیے گئے جس سے ان کی محنت کش عام کی طرف بے حسی عیاں ہوتی ہے کیونکہ اس وبا کا بھی سب سے زیادہ نشانہ عام محنت کش ہی بنیں گے۔ اگر حکمران طبقے کا کوئی شخص بدقسمتی سے اس کی زد میں آبھی جائے تو اس کے لیے بہترین علاج معالجے کی سہولیات میسر ہیں۔ اور شاید ان خونخوار حکمرانوں کو اس وبا کے پھیلنے کی صورت میں امداد کے ملنے کی توقع تھی اسی لیے انہوں نے آغاز میں کوئی اقدامات نہیں کیے۔
ملک کے مختلف حصوں میں وبا سے متاثرہ مریضوں کے یقینی اطلاعات موصول ہونے کے باوجود کوئی ضروری قدم نہیں اٹھایا گیااور اب جبکہ صورتحال کی سنگینی سب کو نظر آنا شروع ہو چکی ہے ابھی بھی شعبہ صحت کے ملازمین کو حفاظتی سامان اور علاج کے لیے درکار ادویات و مشینیں مناسب تعداد میں فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں بنائے جانے والے قرنطینہ مراکز کی حالت یہ ہے کہ وہاں متا ثرہ افراد کو کوئی بھی بنیادی سہولت فراہم نہیں کی جارہی بلکہ ان کو مریضوں کے لیے مشقتی کیمپ بنا دیا گیا ہے جہاں سے آئے روز مریضوں کے فرار یا ہنگاموں کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ ان ظالم جونک نسل کے حکمرانوں سے اس وبا سے عوام کو بچانے کی ذرا بھی امید نہیں کی جا سکتی اور اس وقت تک بھی جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ بھی ایک جانب محکمہ صحت کے محنت کشوں کے کشمیر سے لے کر بلوچستان تک ہر جگہ ہونے والی ہڑتالوں کے براہ راست دباؤ کا اور دوسری جانب سوشل میڈیا پر موجودہ حکومت کی مکمل نا اہلی پر ہونے والی بے پنا ہ تنقید کا بالواسط نتیجہ ہیں۔
احتجاج ہی وہ واحد راستہ ہے جو ان حکمرانوں کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ کسی حد تک سنجیدہ اقدامات کی جانب جائیں۔ سوشل میڈیا اس وقت اہم ہتھیار ہے جس کو استعما ل کرتے ہوئے محنت کش اور بالخصوص نوجوان اس لڑائی کو آگے بڑھانے اور حکمرانوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس ملک کے محنت کشوں اور نوجوانوں کا فوری فریضہ ہے کہ ان حکمرانوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اس وبا سے لڑنے کے لیے تمام ضروری اقدامات پر فوری اور مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اس کے ساتھ اس وبا سے محنت کشوں کو یہ اسباق بھی حاصل کرنا ہوں گے کہ جب تک اس ملک کے وسائل پر چند لٹیرے حکمران قابض ہیں اس وقت تک نہ صرف محنت کشوں کاا ستحصال اور مظلوم قومیت پر جبر کے ساتھ ان کے وسائل کی لوٹ کا عمل جاری رہے گا بلکہ ہر آنے والی وبا اور آفت عوام کے لیے پہلے سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوتی رہے گی۔ تمام وسائل پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول ہی ان کے ساتھ تمام انسانوں کے مسائل کے حل کی جانب ایک بڑی پیش رفت ہو سکتے ہیں۔ محنت کشوں کی نجات اسی میں ہے کہ اس وبا کے خاتمے کے ساتھ ہی سبھی وباؤں کی ماں اس سرمایہ داری نظام کے خاتمے کی جانب اب پہلے سے زیادہ تیزی سے پیش قدمی کی جائے۔