|تحریر: یاسر ارشاد|
ملک پاکستان کی توحالت یہ ہو گئی ہے کہ شاذونادر ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہے جب کسی بھیانک قتل و غارت و خونریزی کی دل دہلا دینے والی خبر سے کسی دن کا آغاز یا اختتام نہ ہو۔ ایک جانب اگر ان حکمرانوں کی لوٹ مار کی ہوس کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار انفراسٹرکچرمختلف حادثات کا موجب بن کر عام لوگوں کی زندگیاں نگل رہا ہے تو دوسری جانب حکمرانوں کی معاشی پالیسیاں جس غربت اور محرومی کے عفریت کو جنم دے رہی ہیں وہ ہزاروں کی جانیں لے رہا ہے۔ جو کسر باقی رہ جاتی ہے وہ 1980ء کی دہائی میں جن جنونیوں کو CIA کی ایماء پر پیدا کیا گیا تھا ان کی وحشیانہ دہشت گردی پوری کر دیتی ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ سے بلوچستان کا خطہ اس درندگی اور خونریزی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ دہشت گردی کی آئے روز ہونے والی وارداتوں میں سینکڑوں بے گناہ مارے جاتے ہیں اور اس قتل عام اور خونریزی کی تشہیر کے ذریعے دہشت گردی کی عالمی منڈی میں یہ جنونی دھڑے اپنی قیمت میں اضافہ کرواتے ہیں۔ ایک واردات میں شہید ہونے والے عام لوگوں کا ماتم ابھی چل رہا ہوتا ہے کہ اس سے بڑی واردات میں پہلے سے زیادہ بے گناہ عام لوگوں کو شہید کردیا جاتا ہے۔ پھر ان شہید ہونے والوں کے خاندان جو پل پل مرتے ہیں ان کا کہیں شمار ہی نہیں ہوتا۔
گزشتہ چند ماہ سے کچھ گروہ اس خطے (کشمیر)میں اپنے مذموم مقاصد کے لئے منافرتوں اور تعصب کی سیاست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ گروہ ایک لمبے عرصے سے اپنی عوامی حمایت میں اضافہ کرنے میں مسلسل ناکام چلے آ رہے ہیں اس لئے کہ ان کا کردار بے نقاب ہو چکا ہے۔ اب ان کے پاس مذہب جیسے حساس معاملے پر سیاست کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے اسی لئے یہ عام لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ گزشتہ دو ماہ سے ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بندی کے تحت جس طرح یہ سارا کھیل کھیلا جا رہا ہے اس کے پس پردہ جو مقاصد ہیں ان کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے کے تمام سادہ لوح لوگ پہلے بھی مذہب کے نام پر بیوقوف بنائے گئے ہیں اور اب پھر یہ سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کچھ ماہ پہلے توہین آمیز سوالات پر مبنی لیفلٹ ان لوگوں نے خود تقسیم کیا یا کرایا جو اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ دو دن پہلے پھر ایک لیفلٹ تقسیم کرایا گیا جس میں سر عام تمام ترقی پسندوں کو مارنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ یہ سیاست کی الف ب ہے کہ اپنی سیاست چمکانے کے لئے نان ایشو تلاش کیا جائے اور اگر نہ ملے تو خود پیدا کر لیا جائے۔ کسی واقع کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے صرف اتنا معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے کہ اس سے کس کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اس لیفلٹ پر کون سیاست کر رہا ہے؟۔ دوسری جانب اس تمام معاملے کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ چند لوگوں کی رچائی گئی سازش میں ریاست ان کے ساتھ برابر کی شریک ہو چکی ہے۔ ان تمام تنظیموں کا ماضی ایسے ہزاروں شواہد فراہم کرتا ہے کہ یہ ہر علاقے میں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ قتل عام پھیلانے کے لئے ہمیشہ مذہب ہی کو استعمال کرتے ہیں۔ مذہب جیسے حساس معاملے کو اس لئے استعمال کیا جاتا ہے تا کہ لوگوں پر یہ دھاک بٹھائی جائے کہ ہم مذہب کے تحفظ کے لئے یہ سب کر رہے ہیں تاکہ ہمارے خلاف کوئی بات نہ کر سکے اور اس سازش میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ تمام لوگ جو ان کے حقیقی کردار سے واقف بھی ہیں اس لئے خاموش ہیں کہ ان کو جھوٹے پراپیگنڈے اور جعلی پرچوں کی تقسیم کے ذریعے یہ دکھایا جا رہا ہے کہ یہ کوئی مذہبی مسئلہ ہے۔
تمام واقعات کا تسلسل کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو با آسانی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ایک سازش کے تحت مذہب کی آڑ میں دہشت گردی کے فروغ کی سیاست کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ اس انتہائی اہم اور نازک صورتحال میں ان دہشت گردوں کے ہاتھوں مذہب کے نام پر بلیک میل ہونے کے بجائے اس سازش کو بے نقاب کرنے اور اس کو روکنے کی جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ یہی وہ فرقہ پرور ہیں جو پاکستان میں مذہب کے نام پر نفرتیں، تعصب اور جنون کو فروغ دے کر ہر جانب قتل و غارت کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ ہر ایک فرقہ دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتا ہے اور ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو بھی مقتل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ انہی مذہبی گروہوں کی باہمی لڑائیوں نے افغانستان، عراق، اور شام سمیت کئی مما لک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہی لوگ برملا طالبان اور داعش جیسی درندہ صفت بنیاد پرست تنظیموں کی حمایت کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور قرینِ قیاس ہے کہ یہ درپردہ ان تنظیموں کی ریکروٹمنٹ کے لیئے ایک بار پھر کشمیر کی جنت نظیر زمین کو سازگار بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ یہ مذموم پراپیگنڈہ بھی اسی سلسلے کی محض ایک کڑی ہے۔ یہی وہ دہشت گرد ہیں جنہوں نے اپنے آقاؤں کی ایماء پر 1990ء کی دہائی میں ابھرنے والی تحریک آزادی کشمیر کو خون میں ڈبو دیا تھا۔ آزادئ کشمیر کے یہ وہی قاتل ہیں جن کے پھیلائے گئے فساد کے باعث ایک لاکھ کشمیریوں کے لہو کی قربانیوں کے باوجود آزادی کی تحریک کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ رجعتی قوتیں مختلف سامراجی ریاستوں نے اسی مقصد کے لئے پال رکھی ہیں اور ان کے جنم کا مقصد ہی مختلف انقلابی اور آزادی کی تحریکوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔ انہوں نے 1990ء کی دہائی میں کشمیر کی تحریک آزادی میں بھی ایک ردانقلابی کردار ادا کیا تھا۔ اس تحریک کی پسپائی کے بعد عمومی طور پر کشمیر کے نوجوانوں میں سوشلزم کے نظریات کی حمایت میں اضافہ اس لئے ہونا شروع ہوگیا تھاکیونکہ اس تحریک کی ناکامی کے اسباب ہی اس کے فرسودہ قوم پرستی اور دہشت گردی جیسے نظریات تھے۔ اسی تحریک کے تجربات سے اسباق سیکھتے ہوئے کشمیریوں کی نئی نسل نے ان نظریات کو ترک کرتے ہوئے سوشلزم اور پرولتاری بین الاقوامیت جیسے نظریات اپنائے جو کشمیر کی حقیقی آزادی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ گزشتہ چار ماہ سے ایک بار پھر کشمیر کے نوجوان اور محنت کش ایک نئی سرکشی میں ہندوستانی جبر کے ہر ہتھکنڈے کو شکست فاش دیتے ہوئے اپنی آزادی کی جدجہد کا ایک نیا باب رقم کر رہے ہیں۔ اسی تحریک کے ابھار کی وجہ سے ہمیں ایک بار پھر ان دہشت گرد تنظیموں کے وہی پرانے ہتھکنڈے نظر آتے ہیں۔ کشمیر کے اس حصے میں دوبارہ ریاستی پشت پناہی سے اپنی بنیادیں بنانے کی اسی لئے کوشش کی جا رہی ہے تا کہ اس پار ابھرنے والی تحریک کو ایک مرتبہ پھر فساد برپا کر کے اسے خون میں ڈبویا جاسکے۔
در حقیقت کشمیر کی آزادی کی کوئی بھی حقیقی تحریک پاکستان اور ہندوستان دونوں کے حکمرانوں کے لئے ایک جیسی خطرناک ہے اسی لئے ہر حقیقی تحریک کو دہشت گردی اور ریاستی جبر کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس وقت جاری تحریک ایک بار پھر ان ریاستوں کے گماشتوں کے کنٹرول سے باہر ہے چونکہ اس تحریک نے تمام پارٹیوں اور قیادتوں کو مسترد کر دیا ہے اور یہ ان حکمرانوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اسی لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان دہشت گردوں کو ایک بار پھر ریاستی پشت پناہی سے پنپنے کا موقع دیا جا رہاہے۔ کشمیر کے عوام نے بے پناہ قربانیاں دے کر ان دہشت گردوں کا سامراجی گماشتگی کا کردار بے نقاب کیا ہوا ہے اور کشمیری عوام، محنت کش اور نوجوان ان سے دوبارہ دھوکا نہیں کھائیں گے۔ پاکستان کے بیشتر علاقے جہاں دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں وہاں نام نہاد ’آزاد کشمیر‘ کا علاقہ ابھی تک اس قسم کی خونریزی سے نسبتاً محفوظ ہے لیکن یہ جس قسم کی سازشیں کی جا رہی ہیں ان کے پیچھے یہ مقاصد بھی کارفرما ہیں کہ مذہبی جذبات کو بھڑکا کر مختلف گروہ اپنی حمایت میں اضافہ کر سکیں جن کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ابھرنے والی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ دوسری ایک وجہ یہ بھی ہے اس قسم کا ماحول بنا کر دہشت گرد تنظیموں خاص کر داعش کے لئے معصوم نوجوانوں کو ریکروٹ کیا جائے۔ لیکن جونہی کسی ایک گروہ کو تھوڑی بہت کامیابی ملنا شروع ہو گی تو دوسرے گروہ بھی اس میں کود پڑیں گے اور پھر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لئے ایک ایسی پر انتشار اور خونریز جنگ کا آغاز ہو جائے گا جس کا کوئی انت نہیں ہو گا۔ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے اسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ اور خانہ جنگی مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں دیکھ رہے ہیں جہاں لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں، کروڑوں بے گھر ہیں اور مہاجرین کے کیمپوں میں ایک اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ اگر ہم نے مذہب کے نام پر دہشت کی سیاست کرنے والوں کو مذہب کا ٹھیکیدار بننے سے نہیں روکا تو ہمارے لئے شاید کشمیر کو افغانستان، شام یا عراق بننے سے روکنا مشکل ہو جائے گا۔ جس علاقے میں بھی انہوں نے اپنا من گھڑت اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی آج وہ تمام معاشرے تباہی اور بربادی کا شکار ہو کر انسانوں کے لئے جہنم بن چکے ہیں۔
یہ اب سر عام زیر بحث آنے والا راز بن چکا ہے کہ جدید بنیاد پرستی اور دہشت گردی براہ راست اور بالواسطہ دونوں طریقوں سے امریکی سامراج نے مختلف خطوں میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے پیدا کی تھی۔ آغاز میں ان کو مختلف خطوں میں ترقی پسند اور انقلابی قوتوں اور سرمایہ داری کے خلاف ابھرنے والے مختلف انقلابات کو خون میں ڈبونے کے لئے استعمال کیا گیا جبکہ اکیسویں صدی کے آغاز سے ان کو انہی پرانے مقاصد کے لئے ایک نئے طریقے سے استعمال کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ پہلے سامراج اور بنیاد پرست ایک مشترکہ دشمن روس کے خلاف لڑائی میں آقا اور غلام تھے اور اب دنیا بھر کے محنت کشوں اور عام عوام کے خلاف ماضی کے آقا اور غلام بعض علاقوں میں ایک دوسرے کے دشمن بھی بن چکے ہیں۔ جس قسم کی وحشیانہ وارداتیں پاکستان، افغانستان اور خاص کر شام، عراق، لیبیا اور یمن سمیت دیگر بے شمار خطوں میں جاری ہیں ان کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مکمل طو پر پاگل پن ہے۔ پر جیسے عظیم انگریزی ادیب شیکسپیئر نے لکھا تھا کہ ’’اگرچہ یہ پاگل پن ہے پھر بھی اس میں ایک حکمت ہے‘‘۔
یہ تمام وحشت حکمران طبقات کی پیدا کردہ ہے جسے ایک خاص قاعدے کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ناقابل تردید سچائی ہے کہ عراق پر امریکی حملے سے پہلے وہاں کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی وجود نہیں تھانہ ہی شام لیبیا یا کسی اور خطے میں اس وحشت کا کہیں شائبہ بھی موجود تھا۔ اسی طرح اگر افغانستان کا جائزہ لیا جائے تو 1978ء کے افغان انقلاب کو سبوتاژ کرنے کے لئے امریکی سامراج کے ان دہشت گردوں کی تخلیق سے پہلے اس قسم کی جنونی اور سفاک خونریزی کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کا افغانستان میں تصور بھی محال تھا۔ دہشت گردی کی اس تمام واردات کا تاریخی حوالے سے جائزہ لیا جائے تو یہ سامراجیوں اور حکمران طبقات کا تخلیق کردہ ایک زہریلا اوزار ہے جسے مختلف وقتوں میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر شام کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو وہی القاعدہ جس کو ختم کرنے کے لئے امریکی سامراج نے عراق اور افغانستان کو تاراج کیا مگر شام کی خانہ جنگی میں وہ امریکی سامراج کی زمینی فوج کی حیثیت رکھتی ہے۔ داعش جیسا وحشیانہ گروہ جس کی وجہ شہرت ہی اس کی سفاک درندگی ہے، اس کی تخلیق میں امریکی سامراج پورے طور پر شامل تھا اور یہ تمام خبریں گزشتہ عرصے میں عالمی ذرائع ابلاغ کی زینت بنی رہی ہیں۔ درحقیقت امریکی اور یورپی حکمران ان دہشت گرد تنظیموں کو بیک وقت مختلف مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک جانب وہ اپنے ان پالتو دہشت گردوں کی کارروائیوں کو اپنے ممالک کے محنت کشوں کو اس جعلی عفریت سے خوفزدہ کر کے ان پر سرمایہ داری نظام کے معاشی زوال کا تمام تر بوجھ مراعات اور اجرتوں میں کٹوتیوں کی پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے منتقل کر رہے ہیں۔ دوسری جانب انہی دہشت گردوں کی کارروائی کو جواز بنا کر مختلف خطوں پر سامراجی جارحیت کے ذریعے ان ممالک کے وسائل کی لوٹ مار اور وہاں کی منڈیوں پر اپنے تسلط کو جاری رکھنے اور بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی کے ساتھ اس جعلی دشمن کا واویلا کر کے ہر ملک کے فوجی حکمران اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے اور اسلحے کے کاروبار کو بڑھوتری دے کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔
پھر جن خطوں میں ان دہشت گردوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے وہاں ان کو ایک خاص حد تک کھل کر اپنی وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کرنے میں نہ صرف کھلی چھوٹ دی جاتی ہے بلکہ پس پردہ ان کی معاونت کی جاتی ہے۔ امریکہ سامراج کی بڑھتی ہوئی کمزوری نئی علاقائی طاقتوں کو اس خونی کھیل میں کودنے کے مواقعے فراہم کر رہی ہے جس کے باعث ہر ملک اپنے سامراجی عزائم پورے کرنے کے لئے انہی جنونی گروہوں میں سے کسی ایک یا دوسرے کی پس پردہ حما یت کر رہا ہے جس کی وجہ سے دہشت اور کالے دھن کا یہ سارا کاروبار زیادہ خونریز اور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس وحشت کی تشہیر کے لئے اپنے پالتو دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو نیوز چینلز پر راجھستان کے ایک سماجی کردار ردھالیوں کی طرح ماتم کرنے پر لگا دیا جاتا ہے جو دن رات اس وحشت کے خوف کو عام لوگوں کے شعور پر مسلط کرنے کی ذمہ داری بخوبی نبھاتے رہتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس دہشت کا خوف جب عام لوگوں کے ذہنوں سے کم ہونے لگتا ہے تو اس کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے پہلے سے کئی گنا بڑی اور زیادہ دردناک واردات کروائی جاتی ہے اور بعض اوقات یہ سامراجی خود اپنے مما لک کے محنت کشوں کا ایسی وارداتوں کے ذریعے قتل عام کرانے میں بھی گریز نہیں کرتے۔ اسی لئے ہمیں وقتاً فوقتاً یورپ اور امریکہ میں بھی اس قسم کی خونریزی نظر آتی ہے اگرچہ بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا شکار ممالک کی طرح اس کو ایک معمول نہیں بننے دیا جاتا۔
دوسری جانب سوشلزم کے نظریات کے خلاف جو پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اس کا بھی ایک بڑا حصہ اس جھوٹ پر مبنی ہے جو 1980ء کی دہائی میں افغان ڈالر جہاد لڑنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ سوشلزم کے مخالفین میں سے اگر تو کسی نے سوشلزم کے نظریات کا تفصیلی مطالعہ کیا ہوا ہے تو ایسے فرد کی رائے ہمارے لئے قابل احترام ہے اور ہم اس کو تفصیلاً سننا پسند کریں گے لیکن جس نے مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کی تحریروں کو نہیں پڑھ رکھا اس کی رائے کی کوئی وقعت ہی نہیں اور اسی لئے اس کا ذکر بھی وقت کا ضیاع ہے۔ یہ بھی ایک عام تاریخی سچائی ہے کہ ایک زوال پذیر نظام کے خاتمے کا نظریہ ہمیشہ اس نظام کے رکھوالوں کے لئے کفر کا درجہ رکھتا ہے۔ قدیم قبائلی اشتراکی نظام کے رکھوالوں کے لئے غلام داری نظام کا نظریہ اسی طرح کفر تھا جیسے کئی صدیوں بعد غلام داری نظام کے رکھوالوں کے لئے جاگیرداری نظام کا نظریہ کفر تھا۔ پندرہویں اور سولہویں صدی کے دوران جب زوال پذیر جاگیرداری کے خلاف سرمایہ دارانہ انقلاب کا آغاز ہو ا تو جاگیرداری کے رکھوالوں نے سرمایہ داری کو اسی طرح کفر کے فتووں سے نوازا جیسے آج زوال پذیر سرمایہ داری کے رکھوالے سوشلزم کو کفر قرار دے رہے ہیں۔ تین صدیاں پہلے جو خود کفر کے مرتکب ہوئے تھے اورجاگیرداری کا بزور طاقت تختہ الٹ کر سرمایہ داری کو رائج کیا تھا آج جب خود ان کا نظام تاریخ کے ہاتھوں متروک ہوچکا ہے تو وہ وہی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جن کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے انہوں نے زندگی کا حق جیتا تھا۔ ماضی اور مستقبل کی کشمکش میں فتح ہمیشہ مستقبل کی ہوتی ہے یہی فطرت کا قانون ہے۔ تاریخ کا سفر آگے کی جانب ہمیشہ جاری رہتا ہے اور اس کو پیچھے کی جانب نہیں دھکیلا جا سکتا۔ سرمایہ داری نظام نے جس طرح ناگزیر طور پر جاگیرداری کا خاتمہ کرتے ہوئے تاریخ کے ایک خاص مرحلے پر اس کی جگہ لی تھی اسی طرح لازمی طور پر اس نظام کا بھی خاتمہ ہو گا اور اس سے زیادہ جدید نظام اس کی جگہ لے گا۔ ہم عالمی طور پر ایک ایسے ہی عہد میں داخل ہو چکے ہیں جس کے دوران سرمایہ داری کے خاتمے کے لئے حالات ہر سطح پر پک کر تیار ہو چکے ہیں۔
در حقیقت سوشلزم واحد نظام ہے جو سرمایہ داری کے خاتمے اور سماج پر محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور کنٹرول قائم کرتے ہوئے ہر قسم کی نابرابری، استحصال، ظلم و جبر، غلامی اور پسماندگی سمیت تمام مسائل کے خاتمے کا طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ سوشلزم کے نظریات اس دنیا کے تمام حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی حاکمیت کے خاتمے کے نظریات ہیں۔ ان نظریات سے سب سے زیادہ خطرہ انہی حکمرانوں کو ہے اسی لئے وہ ان نظریات کو بدنام کرنے کے لئے اپنے تمام ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ جوں جوں اس نظام کا عالمی سطح پر زوال اور بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے توں توں یہ حکمران سوشلزم کے نظریات کے خلاف زیادہ واویلا کرتے جا رہے ہیں چونکہ ان کے سنجیدہ ماہرین کو یہ علم ہے کہ صرف سوشلزم کے نظریات سرمایہ داری کے مکمل خاتمے کی بات کرتے ہیں باقی ہر قسم کی مخالفت سرمایہ داری کی اصلاح کی بات کرتی ہے۔ دوسری جانب اگر غور کیا جائے تو سوشلزم کا سب سے بڑا مخالف امریکی سامراج رہا ہے اور آج بھی ہے اور سوشلزم کی مخالفت کرنے والے براہ راست یا بالواسطہ امریکی سامراج اور سرمایہ داری نظام کے تحفظ کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ سوشلزم کا بنیادی نعرہ ہے کہ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ! اس لئے کہ سرمایہ داری عالمی سطح کا ایک نظام ہے جو دنیا کے ہر خطے اور ملک میں محنت کشوں کی تخلیق کردہ دولت کے استحصال اور لوٹ پر قائم ہے۔ کوئی سرمایہ دار اس کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب سے ہووہ اپنی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کی اجرت اور اوقات کا تعین مذہب کی بنیاد پر نہیں کرتا۔ یعنی اگر وہ مسلمان ہے تو مسلمان مزدور سے چار گھنٹے کام لے کر اسے آٹھ گھنٹے کی اجرت صرف اس بنیاد پر نہیں دیتا کہ اس کا اور میرا مذہب ایک ہے اور نہ ہی ایسا کسی قومیت یا علاقائی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ بلکہ سرمایہ داری کو چلانے کا عالمی سطح پر بلا تخصیص قوم، مذہب، رنگ ونسل اور زبان ایک ہی اصول ہے کہ محنت کش کی محنت سے پیدا ہونے والی دولت کا تھوڑا سا حصہ اس محنت کش کو اجرت کی صورت میں ادا کر کے باقی تمام دولت کو لوٹ لیا جائے۔ اسی لئے آج ایک جانب مٹھی بھر لوگ جو بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے مالکان ہیں وہ دنیا کے ہر ملک کے محنت کشوں کی دولت کو لوٹ کر امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور دوسری جانب انسانوں کی وسیع اکثریت غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستی جا رہی ہے۔ دنیا میں صرف 62 ایسے امیر افراد ہیں جن کے پاس دنیا کے تین ارب انسانوں کی مجموعی دولت سے زیادہ دولت ہے۔ یہ وہ تضاد ہے جس کی مارکس نے 150 سال سے زیادہ عرصہ پہلے سائنسی وضاحت کرتے ہوئے سوشلزم کی ناگزیریت کا نظریہ وضع کیا تھا۔ اگر اس دنیا کے تمام سرمایہ دار بلا تخصیص محنت کشوں کی محنت کا استحصال کرتے ہیں تو ان کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے محنت کشوں کو بھی عالمی سطح پر متحد ہونا پڑے گا اور محنت کشوں کی ایک انٹرنیشنل تنظیم کا حصہ بنتے ہوئے اس جدوجہد کو آگے بڑھانا پڑے گا۔ ہر قسم کی تنگ نظر قوم پرستی اور انقلابی لفاظی کے لبادے میں علاقائیت یا کسی بھی دوسرے تعصب کے نام پر انٹرنیشنلزم سے انحراف اس جدجہد کے نام پر اس سے غداری کے مترادف ہے۔
سوشلزم کے آنے یا نہ آنے کی بحث سیاسی سے پہلے ایک تاریخی اور سائنسی بحث ہے کہ انسانی سماج کا ارتقا کن قوانین کے تابع ہوتا ہے اور ان قوانین کے ذریعے ہی یہ وضاحت ممکن ہوتی ہے کہ اس ارتقاء کے مختلف مراحل پرکون کون سے سماجی نظام کیوں قائم ہوتے رہے اور کیوں، کب اور کیسے اپنے سے مختلف ایک نئے سماجی نظام میں تبدیل ہوتے رہے۔ اس تمام سائنسی ارتقاء کو سمجھے بغیر یہ بحث ممکن ہی نہیں کہ سرمایہ داری کا خاتمہ کیوں اور کیسے ہو گا۔ انسانی تاریخ کوئی ایسی بے ہنگم اور ترتیب و قاعدے سے عاری چیز نہیں ہے کہ جس میں جب جو مرضی آئے کر لیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس انسانی تاریخ کے ارتقاء کے اپنے مخصوص قوانین ہیں جن کو اگر سمجھ لیا جائے تو ان کے درست اطلاق سے سماج کو بدلنے کے حوالے سے ایک درست راستہ اپنایا جا سکتا ہے۔ لیکن ان قوانین کو سمجھے بغیر اگر اس سماج کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے گی تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی فرد جراحی کے علم اور تجربے سے مکمل طو ر پر نا واقف ہو لیکن وہ ایک بیمار انسان کے دل کی جراحی کرے۔ ایک ماہر جراح ایک بیمار انسان کے دل کی بند شریانوں کو کھول کر اسے دوبارہ صحتمند بنانے کی کوشش کرے گا تو اس کی کامیابی کے سو فیصد نہ سہی 70 سے80 فیصد امکانات ضرور ہیں لیکن اگراس علم سے مکمل طور پر نابلد انسان ایسا کرنے کی کوشش کرے گا تو لازم ہے کہ وہ بیماری کا علاج کرنے کی بجائے ایک زندہ جسم کو زندگی سے ہی محروم کر دے گا۔ سماجی تبدیلی کا عمل بھی اسی سے بہت حد تک مماثل ہے۔ آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت یا نظریہ انتشار و پیچیدگی پر کوئی ایسا فرد اپنی رائے دینے کی یا تنقید کرنے کی کوشش نہیں کرتا جس نے اس کا مکمل مطالعہ نہ کیا ہو۔ اسی طرح کوئی بھی فرد مختلف عناصر کے کیمیائی خواص یا ان کے ایٹمی اوزان پر بھی بغیر پڑھے رائے دینے سے کترائے گا۔ لیکن ہمارے سماج کا ایک اور دلچسپ المیہ یہ بھی ہے کہ سماجی سائنس جیسے پیچیدہ موضوع پر وہ لوگ بھی بلا جھجک اپنی دانشوری جھاڑتے ہیں جن کو اس کے بانیوں کے نام کا تلفظ بھی ٹھیک طرح سے ادا کرنا نہیں آتا۔
درحقیقت نسل انسان کی تمام تاریخ فطرت کے قوانین کو جاننے اور ان کو اپنی تعمیر کے لئے استعمال کرنے کی تاریخ ہے۔ علم ہی وہ اوزار ہے جس پر تمام تکنیکی اور مادی ترقی کی بنیاد استوار ہوتی ہے۔ فطرت کے قوانین کو جاننا ہی آزادی کا اصل مفہوم ہے۔ علم اور تاریخ کی یہ ترقی ماضی کی اندھیری قوتوں کے ساتھ مسلسل کشمکش اور جدوجہد کے ذریعے ہی آگے بڑھتی ہے۔ یہ جدوجہد نسل انسان کی بقاء کی جدوجہد ہے جو تمام رکاوٹوں کو پار کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہی ہے اور آگے بھی ترقی کے اس عمل کو کبھی بھی نہیں روکا جا سکے گا۔ وہ تمام باشعور افراد جو انسانی تاریخ کی ترقی کے سفر کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں انہیں سماجی قوانین کا سائنسی شعور حاصل کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گاجو ان کا انسان ہونے کی حیثیت سے ایک بنیادی فریضہ بھی بنتا ہے۔ کشمیر کی آزادی اور انسانوں کی سرمائے کی غلامی سے نجات کے سائنسی نظریات کو بنیاد بناتے ہوئے اس زوال پذیر نظام اور اس کی پیدا کردہ تمام وحشتوں کے خلاف ایک ناقابل مصالحت جنگ آخری فتح تک لڑنا ہو گی۔