|تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: انعم خان|
(5 مئی کو کارل مارکس کی پیدائش کے دو سو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام بحران کا شکار ہے اور محنت کش طبقہ اپنا مقدر اپنے ہی ہاتھوں میں لینے کی خاطرمیدان عمل میں اتر رہا ہے۔ حکمرانوں کے حلقے شرمندگی کے مارے اب اس کی موت کا اعلان نہیں کر رہے۔ اس کی بجائے ان کے حلقوں میں خوف اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے مارکس کے نظریات کو پڑھنے اور سمجھنے کی جتنی ضرورت آج ہے، وہ اس سے زیادہ کبھی نہ تھی۔ مارکس کے نظریات پر مضامین کے نئے مجموعے کے لیے ایلن ووڈز کا تعارف ہم آج اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’فلسفیوں نے، مختلف انداز میں دنیا کی تشریح کی ہے، بہر حال، اہم نقطہ اسے بدلنے کا ہے۔‘‘ (کارل مارکس، فیور باخ پر تھیسس)
200 سال پہلے، 5مئی 1818ء کے دن، جرمنی کے ٹرائیر شہر میں انسانی تاریخ کے عظیم ترین لوگوں میں ایک کی پیدائش ہوئی تھی۔ دو سو سال بعدبھی اسے بطور ایک انسان اور ایک مفکر کم تر ثابت کرنے کے تمام تر زہریلے حملوں، جھوٹی تشریحات اور حقارت آمیز کاوشیں کرنے کے باوجود بھی مارکس نے تاریخ کے نظریاتی میدان میں اپنے لیے عظیم ذہن کا مقام حاصل کیا ہے۔
آپ چاہے اس کے نظریات سے متفق ہوں یا نہیں، اس بات پرکوئی شک و شبہ نہیں کہ اس نے انسانی سوچ میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا جس نے تاریخ کا دھارا ہی موڑ کر رکھ دیا۔ اس کا تعلق بے مثال مفکرین کے عظیم کنبے سے ہے۔ اس کا نام ماضی کے بڑے لوگوں، ہراکلیٹس، ارسطو، ہیگل اور چارلس ڈارون کے ہمراہ لیا جا سکتا ہے۔
فلسفہ، تاریخ اور سیاسی معیشت کے زمروں میں کی گئی اس کی دریافتیں خود اپنے آپ میں ایک قابل قدر مقام رکھتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر اس کی زندگی کاسارا کام داس کیپیٹل کے پہلے مجموعے سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو تا، صرف یہی اپنے آپ میں ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ لیکن مارکس محض ایک مفکر ہی نہیں تھا، وہ ایک عملی انسان، ایک انقلابی تھا جس نے اپنی ساری زندگی محنت کش طبقے کی جدوجہد کے مقصد اور سوشلزم کے نام کر دی۔
اتنی بھرپور اور متنوع زندگی کو محض چند فقروں میں بیان کرنے سے اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ بہر حال، مارکس کے دو سو سال مکمل ہونے کے موقع پر، اس کتاب کے تعارف کے طور پر اس کی زندگی کا ایک مختصر احاطہ کرنا لازمی ہے، جو یقیناًنامکمل ہے۔
مارکس کی زندگی
دو سو سال قبل مارکس کی پیدائش جرمنی میں ہوئی تھی جو اس وقت پروشیا کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ بہر حال، رہائین لینڈ کے جن صوبوں سے ٹرائیر شہر منسلک تھا، وہ کئی پہلوؤں سے پسماندہ، نیم جاگیردار اور مشرق میں واقع رجعتی پروشیائی علاقوں سے مختلف تھے۔
نپولینائی جنگوں کے دوران یہ علاقہ فرانس کے قبضے میں چلا گیا جس دوران یہاں کے علاقہ مکین آزادی صحافت، قانونی آزادیوں اور مذہبی رواداری جیسے نئے خیالات سے متعارف ہو چکے تھے۔ حالانکہ مارکس کی پیدائش سے تین سال قبل ہی ویانا کی کانگریس کے ذریعے رہائین لینڈ کو ایک بار پھر پروشیائی سلطنت کا حصہ بنا دیا گیا تھا، لیکن ان سالوں نے معاشرے کے سب سے روشن خیال حصوں پر ترقی پسندی کے اپنے نقوش چھوڑ دیئے تھے۔
کارل ہنریک، ہنریک اور ہنریٹا مارکس کے گھرانے کے نو بچوں میں سے ایک تھا۔ مارکس کا والد وکیل تھا جو نسبتاً ترقی پسند رحجان کا حامل انسان تھا، جو ہیگل اور والٹیئر کو پڑھتا تھا اور جو پروشین ریاست میں اصلاحات کا حامی تھا۔ یہ کافی حد تک ایک مالدارگھرانہ تھا۔ مارکس نے اپنے بچپن اور ابتدائی جوانی کے دور تک کبھی بھی غربت یا محرومی کا سامنا نہیں کیا تھا، لیکن باقی تمام زندگی میں اسے ان کا بہت زیادہ سامنا کرنا پڑا۔
اس کے والدین یہودی تھے لیکن 35 سال کی عمر میں کارل کا والد اپنا مذہب بدل کر مسیحی ہو گیا۔ اس کی وجہ 1815ء میں نافذ ہونے والا ایک قانون رہا ہوگا جس کے تحت یہودیوں کے لیے اوپری طبقے کا حصہ بننے کی ممانعت تھی۔ یہ با ت اہمیت کی حامل ہے کہ ٹرائیر کے زیادہ تر رہائشی رومن کیتھولک تھے، لیکن کارل کے باپ نے لوتھرین (Lutheran)فرقے کا انتخاب کیا کیونکہ اس کے نزدیک ’’پروٹیسٹنٹ ازم، فکری آزادی کے مترادف‘‘ تھا۔ بہر حال ہنریک مارکس قطعاً کوئی انقلابی نہیں تھااور اگر اسے اپنے پیارے بیٹے مارکس کے مستقبل کی سمتوں کا تھوڑا سااندازہ بھی ہوتا تو وہ اس سے خوفزدہ ہو جاتا۔
سکول چھوڑنے کے بعد مارکس یونیورسٹی میں داخل ہو اجہاں اس نے قانون، تاریخ اور پھر فلسفے کا مطالعہ کیا۔ برلن میں اپنے مطالعے کے دوران وہ عظیم فلسفی ہیگل کے زیر اثر آ گیا۔ اس نے دیکھا کہ خیال پرستی کے مصنوعی جھاگ کے نیچے، ہیگل کی جدلیات، بہت وسیع انقلابی نتائج کی حامل ہے۔ جدلیات کا یہی فلسفہ اس کی آئندہ تمام تر نظریاتی بُنتر کی بنیاد بنا۔
مارکس، ’’ہیگلئین لیفٹ‘‘ نامی ایک رحجا ن کا حصہ بن گیا، جو ہیگل کے فلسفے سے انقلابی اور غیر مذہبی نتائج اخذ کرتا تھا۔ لیکن بہت جلد ہی وہ اس لفظی جوڑ توڑ کرنے والے اور جدلیات کی جگالی کرنے والے انقلابی دانشوروں سے علیحدہ ہو گیا، جو بعد ازاں مزید تنزلی کا شکار ہو کر بحث و مباحثہ کرنے والے کلب کی صورت اختیار کر گئے۔
مارکس، لڈوگ فیورباخ کے نظریات سے بہت متاثر تھا، جو آغاز میں مذہب پر تنقید کر تے ہوئے فلسفیانہ مادیت پرستی کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔ لیکن اس نے ہیگل کی جدلیات کو یکسر مسترد کرنے پر فیور باخ کوتنقید کا نشانہ بنایا۔ مارکس نے بڑی کامیابی سے فلسفیانہ مادیت پرستی کو جدلیات کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک مختلف اور انقلابی فلسفے کو جنم دیا۔
ان انقلابی نظریات سے مسلح ہو کر، نوجوان مارکس نے رہائین لینڈ میں لیفٹ ہیگلئین کے ایک گروپ کے اشتراک سے Rheinische Zeitung نامی ایک انقلابی اخبار کا آغاز کیا۔ اخبار کا ایڈیٹر ہونے کی حیثیت سے مارکس نے کئی شاندار انقلابی مضامین تحریر کئے۔ اخبار تو فوراََ کامیاب ہو گیا لیکن جلد ہی اس نے پروشیائی حکومت کی توجہ بھی حاصل کر لی جنہوں اس پرشدید پابندیاں عائد کر دیں۔ نوجوان مارکس بڑی ذہانت سے ان سخت رکاوٹوں کو چکما دینے میں کامیاب ہو گیا۔ آخر میں ان کے پاس اس اخبار کوبند کر نے کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا۔
1836ء میں جب مارکس سیاسی طورپر زیادہ متحرک ہورہا تھا، اس کی خفیہ طورپر جینی وان ویسٹفالین سے منگنی ہو گئی، جو طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی ایک انتہائی خوبصورت خاتون تھی، جسے ’’ٹرائیر کی سب سے خوبصورت لڑکی‘‘ کہا جاتا تھا۔ وہ اس سے چار سال بڑی تھی اور اونچے طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ لیکن وہ اور مارکس بچپن سے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے اور ان کے بارے میں جو کچھ بھی ہم جانتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر یکسر فدا تھے۔
جینی کا والد، بارون لیڈوگ وان ویسٹفالین، شاہی پروشیا کی صوبائی حکومت کا ایک سینئر افسر ہونے کے ساتھ ساتھ دوہری اشرافیائی وراثت کا حامل بھی تھا۔ اس کا باپ سات سالہ جنگ میں فوج کا چیف آف جنرل سٹاف تھا اور اس کی سکاٹش ماں، اینی وشرٹ کا تعلق آرجل (Argyll ) کے ایرلز (Earls ) سے تھا۔ یہ وجہ تھی کہ مارکس اور جینی نے اپنے تعلق کو لمبے عرصے تک پوشیدہ رکھا تھا۔ جون 1843ء میں، Rheinische Zeitung کے بند ہونے کے تین ماہ بعد، اس نے جینی سے شادی کر لی اور اکتوبر میں پیرس منتقل ہو گئے۔
مجھے لگتا ہے کہ اس شاندار خاتون پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جس کی یہ مستحق تھی، جس نے اپنے شوہر کے انقلابی کام کی خاطر بے تحاشا قربانیاں دیں۔ اس نے اپنے خاندان سے علیحدگی، ایک ملک سے دوسرے ملک جانا، مارکس کی محرومیوں اور اس کے ساتھ انتہائی مشکل حالات میں جی کر انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کیا۔ اس نے اپنے بچوں کی مشکلات، ان کی بیماریاں اور ان کا مرنا دیکھا۔ لندن میں جب اس کا بیٹا ایڈگر فوت ہوا تو اس وقت مارکس اور جینی کے پاس اس کے کفن دفن کے پیسے تک نہیں تھے۔
جینی کا بڑا بھائی فرڈیننڈ، بعد ازاں 1850-58ء میں، یعنی یورپی رجعتیت کے عروج کے عہد میں پروشین حکومت کا ایک متعصب اور جابر وزیر داخلہ بن گیا۔ اور یہاں ہم ایک تضاد کا سامنا کرتے ہیں کہ ایک طرف لندن میں بیٹھا ایک شخص اپنے انقلابی کا م کے ذریعے پروشین ریاست کو برباد کر رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف برلن سے اسی کی بیوی کا بھائی پروشیا کے اندر اور باہر، انقلابیوں کو مٹانے کا کام سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ تاریخ کبھی اس سے مشکل حالات سے نہیں گزری ہو گی۔
پیرس میں
1843ء کے خزاں میں مارکس، آرنلڈ روگ کے ہمراہ پیرس منتقل ہو گیا اور وہاں بھی ایک جریدے کے اجرا کی کاوش کا آغاز کیا۔ اس وقت کے پیرس کے سیاسی طور پر طوفانی حالات میں مارکس نے جلد ہی جلاوطنی کا ٹنے والے جرمن مزدوروں کے منظم گروہ اور فرانس کے کئی سوشلسٹ گروہوں سے رابطے استوار کر لیے۔ اب پورے یورپ میں اور خاص کر پیرس میں انقلابی ہوائیں عروج پر تھیں۔ پہلی بار نہیں، بلکہ آخری با ر بھی نہیں لیکن 1843ء میں پیرس، پورے یورپ کا سیاسی قلب بن گیا تھا۔
بہرحال، Deutsch-Franzosische Jahrbucher نامی اس جریدے کا ایک ہی شمارہ منظر عام پر آسکا تھا۔ جرمنی میں اس کی خفیہ ترسیل میں آنے والی مشکلات اور روگ سے مار کس کے فلسفیانہ اختلافات کے باعث اس کی اشاعت رک گئی تھی۔ اس کے بعد مارکس نے ایک اور انقلابی جریدے Vorwarts کے لیے لکھنا شروع کیا، جو اس تنظیم سے منسلک تھا جوآگے چل کر کمیونسٹ لیگ بنی۔
اس وقت تاریخ میں ایک انتہائی غیر معمولی معاونت دیکھنے کو ملتی ہے۔ ستمبر 1844ء میں فریڈرک اینگلز نام کا ایک شخص اسی جریدے کے لیے کام کرنے کی خاطرکچھ دنوں کے لیے پیرس آیا۔ اس کے بعد سے وہ مارکس کا قریب ترین ساتھی اور معاون بن گیا۔ آج مارکس اور اینگلز کا نام اتنا جڑ چکا ہے کہ یہ تقریباََ ایک ہی شخص معلوم ہوتا ہے۔
اکتوبر 1843ء سے جنوری 1845ء تک کے پیرس کے اس کے قیام کے دوران مارکس Rue Vanneau ، پیرس میں رہائش پذیر رہا۔ یہیں پر ہی مارکس نے سیاسی معاشیات کا تفصیلی مطالعہ کیا، جس میں اس نے ایڈم سمتھ، ڈیوڈ ریکارڈو، جیمزسٹورٹ مِل اور اس کے علاوہ فرانسیسی خیالی سوشلسٹوں سینٹ سائمن اور فورئیے کا بھی مطالعہ کیا۔ یہاں ہمیں مستقبل میں معیشت میں ہونے والی دریافتوں کے بیج بھی نظر آتے ہیں۔
برسلز
مارکس کی انقلابی سرگرمیوں نے جلد ہی برلن کے حکام کی توجہ حاصل کر لی۔ پروشین حکومت نے فرانس کے حکام سے ایکشن کرنے کا مطالبہ کیا جو انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے سر انجام دیا۔ 1844ء میں پیرس سے نکالے جانے کے بعد مارکس برسلز منتقل ہوگیا جہاں وہ ایک خفیہ پروپیگنڈہ گروہ، کمیونسٹ لیگ کا حصہ بن گیا۔ منتقلی کے باوجود بھی مارکس کی سرگرمیوں پر شدید پابندیاں عائد رہیں۔ اس پر پابندی تھی کہ وہ عصری سیاست پر کچھ بھی نہیں لکھے گا۔
مارکس اور اینگلز نے فوراََ ہی ایک قریبی تعلق استوار کرلیا، جس میں ان دو افراد نے انتہائی مختلف تجربات اور مزاج کے امتزاج کے ساتھ مل کر کام کیا، جو یکسر مختلف اور نئے نظریات کا با عث بنا۔ ایک امیر جرمن مینوفیکچرر کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے اینگلز سرمایہ دارانہ پیداوار کے اپنے ٹھوس تجربے کو مارکس کے فلسفے کے میدان میں ہونے والی تہلکہ خیز پیش رفت کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوگیا۔ اینگلز نے مارکس کو اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’انگلینڈ میں محنت کشوں کے حالات‘ دکھائی۔ وہ پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ سماجی تبدیلی کے عمل میں محنت کش طبقے نے ہی کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔
یہ اینگلز ہی تھا جس نے پہلے ان بنیادی اصولوں پر کا م کرنا شروع کیا جو کہ آگے چل کر مارکس کی داس کیپٹل کی تینوں جلدوں کی بنیاد بنے۔ لیکن اپنے مزاج کی عاجزی کے باعث اس نے نظریاتی میدان میں ہمیشہ مارکس کی سبقت کو تسلیم کیا اور اپنے لیے ایک شفیق اور وفا دار شاگرد کا مقام بنائے رکھا، جبکہ در حقیقت مارکسی نظریات میں اس کامقام خود مارکس کے ہم پلہ بنتا ہے۔
اپریل 1845ء میں اینگلز، مارکس کی ہمنوائی کے لیے جرمنی سے برسلز منتقل ہو گیا۔ دونوں نے مل کر ایک نوجوان ہیگلئین برونو بائیر کے فلسفے پر تنقید لکھنا شروع کی جو اس سے پہلے مارکس کے قریبی دوستوں میں سے تھا۔ مارکس اور اینگلز کی پہلی مشترکہ تحریر ’’The Holy Family‘‘ تھی جو کہ 1845ء میں شائع ہوئی۔ یہی وہ نقطہ تھا جہاں سے لیفٹ ہیگلئین رحجان سے علیحدگی اورایک بالکل نئے سفر کا آغاز ہوا۔
1846ء میں مارکس اور اینگلز نے ’جرمن آئیڈیالوجی‘ تحریر کی جس میں انہوں نے تاریخی مادیت کے نظرئیے کو ترویج دی۔ اسی کتاب نے ینگ ہیگلئین سے علیحدگی کے عمل کو مکمل اور ناقابل مصالحت بنا دیا۔ بالآخر مارکس نے سوشلزم کے نظرئیے کو انسانیت کے تمام مسائل کا واحد حل قرار دے دیا۔ بد قسمتی سے کسی بھی پبلشر نے ’فیور باخ پر تھیسس‘ کے ہمراہ ’جرمن آئیڈیالوجی‘ چھاپنے سے انکار کردیا اور مارکس کی موت تک اس کتاب کو دن کی روشنی نصیب نہ ہوئی تھی۔
مارکس اور اینگلز نے ساتھ مل کر تذبذب کا شکار پیٹی بورژوا سوشلزم کے نظریات کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے سوشلزم کے نظریات کو سائنسی بنیادیں فراہم کیں۔ اس وقت پیرس میں پرودھون کے نیم انارکسٹ نظریات کو چند انقلابی گروہوں میں حمایت مل رہی تھی۔ مارکس نے دلائل اور خود پرودھون کی تحریروں سے ضروری حصوں کی نقل پر محیط1847ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب’’فلسفے کی غربت‘‘(Poverty of Philosophy ) میں انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
1846ء کے آغاز میں مارکس نے یورپ کے تمام سوشلسٹوں کو کمیونسٹ کورسپونڈنٹ کمیٹی کے ذریعے جوڑنے کی کوشش کی۔ وہ پیرس اور فرینکفرٹ کے دستکاروں کی خفیہ تنظیم ’لیگ آف جسٹ‘ کے ساتھ بھی رابطے میں تھا۔ یہ ایک چھوٹا سا متذبذب نظریات کا حامل گروپ تھا جس کے پیرس میں سو اور فرینکفرٹ میں لگ بھگ اسی ممبر تھے۔ مارکس نے ان پر زور دیا کہ یہ کام کا خفیہ طریقہ کار چھوڑ یں اور کھل کر مزدوروں کی سیاسی پارٹی کے طور پر کام کریں۔ اسی تنظیم نے دوسروں کے ساتھ مل کر کمیونسٹ لیگ بنائی۔
لندن میں نومبر 1847ء میں ہونے والی کمیونسٹ لیگ کی دوسری کانگریس میں مارکس اور اینگلز کو ایک دستاویز تحریر کرنے کی ذمہ داری دی گئی جو کہ ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ یہ تاریخ ساز دستاویز 1848ء میں شائع ہوئی۔
کمیونسٹ مینی فیسٹو اور Neue Rheinische Zeitung
یہ آج حیران کن محسوس ہوتا ہے کہ جب کمیونسٹ مینی فیسٹو لکھا گیا تب مارکس اور اینگلز بہت کم عمر تھے۔ مارکس ابھی تک تیس سال کا نہیں ہوا تھا اور اینگلز اس سے بھی تین سال چھوٹا تھا۔ تاہم یہ اہم دستاویز تاریخ کے ایک اہم موڑ کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ آج بھی اتنا ہی تازہ اور درست ہے جتنا کہ یہ اپنی تحریر کے وقت تھا۔ در حقیقت یہ آج اس وقت سے بھی کہیں زیادہ درست ہے۔ اس دستاویز کی اشاعت کا وقت اس سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا۔ ابھی اس کے اوراق کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سارے یورپ کو ایک انقلابی لہر نے آن لیا۔ فرانس میں فروری انقلاب نے بادشاہت کا تختہ الٹ دیا اور دوسری جمہوریہ کی بنیا د رکھی۔
یہ مشہور ہے کہ مارکس کو حال ہی میں اپنے باپ کی وراثت (چچا کی وساطت) سے ملنے والے ورثے کا بڑا حصہ اس نے ان بیلجین مزدوروں کے لیے اسلحہ خریدنے پر خرچ کر دیا جو انقلابی اقدام کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ کہانی سچ ہے یا جھوٹ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن بیلجین وزارت انصاف کو واقعی اس پر یقین تھا۔ انہوں نے اسے مارکس کو گرفتار کرنے کے لیے استعمال کیا۔ پھر مارکس کو واپس فرانس جانے پر مجبور کیا گیا جہاں اسے یقین تھا کہ وہ نئی جمہوریہ کی حکومت میں محفوظ ہو گا لیکن یہ امید پوری نہیں ہو سکی۔ فرانسیسی بورژوا ریپبلکنز مزدوروں سے خوفزدہ تھے جنہوں نے آزادانہ طبقاتی مطالبات کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی جو نجی ملکیت کے لیے خطرہ تھی۔ ان حالات میں جس آخری چیز کی ان کو ضرورت تھی وہ پیرس میں مارکس جیسے شخص کی موجودگی تھی۔
مارکس کو یقین تھا کہ فرانس کے بعد جرمنی انقلاب کے دہانے پر ہے، وہ جرمنی کے شہر کولون چلا گیا جہاں اس نے نئے اخبا ر Neue Rheinische Zeitung کی بنیا د رکھی، جو یکم جون 1848ء کو شروع ہو ا۔ اخبار نے پروشین آمریت کے خلاف انتہائی ریڈیکل جمہوری نقطہ نظر اپنایا اور مارکس نے اپنی زیادہ تر توانائی اس کی ادارت کے لیے وقف کر دی۔ (اسی اثنا میں کمیونسٹ لیگ کا شیرازہ بھی بکھر گیا)۔ اس نے جون 1848ء سے 19 مئی 1849ء تک اسی کام کو جاری رکھا اور پھر یہ اخبار بھی بند کر دیا گیا۔
Neue Rheinische Zeitung ایک انقلابی صحافت کا نمونہ تھا، اور اس نے 1848-49ء کے انقلابی واقعات میں فعال کردار ادا کیا لیکن رد انقلاب کی کامیابی نے اس سرگرمی کو اختتام پذیر کر دیا۔ اس انقلابی سرگرمی کی وجہ سے مارکس پر مقدمہ چلایا گیا، اسے 9فروری1849ء کو بری کر دیا گیا لیکن بعد ازاں 16مئی1849ء کو جرمنی سے بے دخل کر دیا گیا۔
مارکس پھر پیرس واپس چلا گیا تاہم 13 جون1849ء کے مظاہرے کے بعد اسے فرانس سے بھی نکال دیا گیا۔ پروشیا نے اسے پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا، اب مارکس کے پاس نہ کسی ملک کی شہریت تھی نہ ہی پیسے۔ انتہائی غربت کی حالت میں وہ لندن چلا گیا جو ان دنوں زیادہ معتدل اور سیاسی جلا وطنوں کے لیے آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ خیر مقدمی تھا۔ اگر چہ برطانیہ نے بھی اسے شہریت دینے سے انکار کر دیا مگر وہ اپنی وفات تک لندن میں ہی رہا۔ مئی 1849ء میں اس نے جلا وطنی کی طویل اور بے سکون رات کا آغاز کیا جو اس کی باقی ماندہ زندگی تک جاری رہی۔
لندن
لندن پہنچ کر مارکس یورپ میں ایک نئی انقلابی لہر کے ابھار کے حوالے سے پر امید تھا۔ اس نے فرانس کے 1848ء کے انقلاب اور اس کے نتائج کے حوالے سے دو طویل پمفلٹ بھی تحریر کئے، جن میں سے ایک کا عنوان ’’فرانس میں طبقاتی جدوجہد‘‘ اوردوسرا ’’لوئی بونا پارٹ کی اٹھارویں برمئیر‘‘ تھا۔ اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ ’’ایک نیا انقلاب صرف اور صرف ایک نئے بحران کی صورت میں ہی ممکن ہے‘‘۔ اور پھر اس نے سرمایہ دارانہ بحران کی وجوہات اور نوعیت کا تعین کرنے کے لیے اپنے آپ کو سیاسی معاشیات کے مطالعے کے لیے وقف کر دیا۔
لندن میں مارکس اور اس کا خاندان زیادہ تر انتہائی غربت کے حالات میں زندہ رہے۔ اسے نیویارک ڈیلی ٹریبون کے نمائندے کے طور پر کا م مل گیا جو 1852ء سے1862ء تک دس سال جاری رہا۔ تاہم مارکس کبھی بھی صحافت سے قابل گزر بسر اجرت نہیں کما سکا۔ 1850ء کی دہائی کے پہلے نصف کے دوران مارکس کا خاندان انتہائی مشکل حالات میں لندن کے سوہو کوارٹر کے تین کمرے کے فلیٹ میں زندہ رہا۔ مارکس اور جینی کے پہلے ہی چار بچے تھے اور دو مزید ہوئے، ان میں سے صرف تین زندہ بچے۔
جون 1854ء میں مارکس نے اینگلز کو ایک خط میں لکھا ’’وہ خوش قسمت ہے جس کا کوئی خاندان نہیں‘‘۔ وہ اس وقت چھتیس سال کا تھا اور اس کا اپنے تمام رشتے داروں سے تعلق ختم ہو چکا تھا اس کا باپ وفات پا چکا تھا اور ماں سے اس کے تعلقات خراب تھے۔ صرف اس کے دوست فریڈرک اینگلز کی بے غرض سخاوت کی وجہ سے مارکس اور اس کے خاندان کی بقا ممکن تھی۔
مارکس کے خاندان میں سات بچے تھے جن میں سے چار شیر خوارگی یا بچپن میں ہی فوت ہو گئے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود وہ ایک خوش خاندان تھا۔ مارکس کو اپنی بیٹیوں سے بے انتہا محبت تھی جو بدلے میں اس سے اتنی ہی محبت کرتی تھیں۔ وہ شام کو اپنی فرصت کے اوقات میں ان کے ساتھ کھیلتا تھا اور کلاسیکی ادب پڑھتا تھا۔ ڈان کیخوٹے خاص طور پر ان کا پسندیدہ تھا لیکن وہ شیکسپیئر کے ڈرامے بھی پر فارم کیا کرتے تھے، جن میں مارکس اور اسکے بچے مختلف حصے پڑھا کرتے تھے۔ اس کی بیٹی ایلیانور اپنی یادداشتوں میں لکھتی ہے کہ ’’وہ ایک منفرد اور بے مثال داستان گو تھا‘‘۔ بچ جانے والی تین بیٹیوں، جینی، لورا اور ایلیانور میں سے دو نے فرانسیسیوں سے شادی کی۔ ان میں سے ایک پال لافارج نے مارکسی تحریک میں فعال کردار ادا کیا اور سپین میں سوشلسٹ پارٹی کی تشکیل میں مدد کی۔ ایلیانورمارکس برطانوی مزدور تحریک میں ایک لڑاکا مزدور آرگنائزر کے طور پر متحرک تھی۔
مارکس کا کام صرف نظرئیے تک محدود نہیں تھا، لندن کی پوری زندگی وہ عالمی مزدور تحریک کو بڑھانے اور پھیلا نے میں فعال کردار ادا کرتا رہا۔ مارکس نے جرمن ورکرز ایجوکیشنل سوسائٹی بنانے میں مدد کی اور ساتھ ہی کمیونسٹ لیگ کا نیا ہیڈ کوارٹر بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ لیکن جلا وطن لوگوں میں لا امتناعی فرقہ واریت سے وہ مسلسل پریشان اور دباؤ کا شکار رہتا تھا اور با لآخر اس نے ان سے تمام تعلقات منقطع کر دئیے، جبکہ اس نے برطانوی مزدور تحریک کے فعال کارکنوں سے قریبی رابطے ہمیشہ بحال رکھے۔
صورتحال میں فیصلہ کن موڑ 1864ء میں آیا۔ 28 ستمبر کو انٹر نیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن بنائی گئی جسے ہم پہلی انٹر نیشنل کے طور پر جانتے ہیں۔ بالکل آغاز سے ہی مارکس اس تنظیم کا روح رواں تھا، وہ اس کی پہلی تعارفی دستاویز کا مصنف اور قراردادوں، اعلانات اور منشور کا مصنف تھا۔ آئندہ چند سالوں تک اس کا زیادہ تر وقت انٹر نیشنل کے کام کو منظم کرنے میں گزرا۔ اینگلز کے ساتھ مل کر اس نے ہراول مزدوروں اور روس سمیت بہت سے ممالک کے ساتھی مفکرین سے رابطے جاری رکھے۔
مارکس نے پہلی انٹر نیشنل کی صفوں میں ہر قسم کے پیٹی بورژوا انحراف؛ جیسا کہ پرودھون کے خیالی سوشلزم، اطالوی میزینی کی بورژوا قوم پرستی، برطانوی اصلاح پسند ٹریڈ یونین لیڈروں کی موقع پرستی اور سب سے بڑھ کر انارکسٹ باکونن اور اس کے پیروکاروں کی سازشوں، کے خلاف مسلسل جدوجہد کی ذمہ داری نبھائی۔
آخر میں مارکس ان نظریاتی لڑائیوں میں کامیاب رہا لیکن جن حالات میں انٹر نیشنل کی نوخیز قوتیں تعمیر ہو رہی تھیں وہ غیر موزوں سمت اختیار کر گئے۔ پیرس کمیون کی شکست پہلی انٹر نیشنل کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ یورپ میں غیر موزوں حالات کے باعث مارکس نے جنرل کونسل کی سیٹ لندن سے نیو یارک منتقل کرنے کی تجویز 1872ء میں اس امید پر دی کہ نئی دنیا (امریکہ )میں طبقاتی جدوجہد انٹرنیشنل کو آگے بڑھنے کے نئے مواقع فراہم کر ے گی۔ لیکن کچھ بھی انٹر نیشنل کے زوال کو روک نہ سکا۔ پہلی انٹر نیشنل کی اہم ترین حاصلات یہ تھیں کہ اس نے مستقبل کے لیے مضبوط نظریاتی بنیادیں فراہم کی لیکن ایک تنظیم کے طور پر یہ مکمل منہدم ہو گئی۔
انٹرنیشنل کے تھکا دینے والے کام اور شدید نظریاتی مطالعے اور تحریری کام کی وجہ سے مارکس کی صحت خراب ہو گئی۔ اس نے سیاسی معاشیات کے سوال اور سرمایہ کی تکمیل کے لیے انتھک کام کیا جس کے لیے اس نے بہت سا نیا مواد جمع کیا اور روسی سمیت بہت سی زبانیں پڑھیں۔
وفات
مارکس نے اپنی صحت کا کبھی خیال نہیں رکھا۔ مصالحے دار کھانے اور مے نوشی کا شوق اور ساتھ ہی تمباکو نوشی کی زیادتی نے اس کی صحت کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو پہلے ہی غربت کے معمول کے باعث زبوں حالی کاشکار تھی۔ اس کی زندگی کے آخری درجن سالوں میں اس کی مسلسل بیماری نے اسے باقاعدگی سے ذہنی کام کرنے کی اجازت نہ دی۔
بیماری کے مسلسل بڑھتے ہوئے دوروں کے باوجود مارکس نے اپنے آپ کو سرمایہ داری کی تاریخ اور قوانین کے وسیع مطالعے کی طرف راغب کیے رکھا اور اس نے ایک بالکل نئے معاشی نظرئیے کی بنیا د رکھی۔ سرمایہ کی تصنیف کی تیاری میں اس نے معاشی اور مالیاتی نظرئیے اور عمل پر دستیاب ہر مواد کا مطالعہ کیا۔ اس کی وضاحت کے لیے حیران کن پیمانے کی محتاط تحقیق کا اندازہ لگانے کے لیے اس عظیم کتاب کے بے پناہ حاشیوں کا مطالعہ ہی کافی ہے۔
1867ء میں اس نے سرمایہ کی پہلی جلد شائع کی۔ اس نے اپنی زندگی کا باقی حصہ دیگر جلدوں کے مسودات کی تحریر و ترمیم میں لگا دیا، جو اس کی وفات تک نا مکمل رہے۔ باقی ماندہ دو جلدوں کی بعد ازاں انتہائی محنت سے اینگلز نے ترتیب، تدوین، ادارت اور اشاعت مکمل کی۔
مارکس کی صحت کو آخری دھچکا جینی کی وفات سے لگا جو 2 دسمبر 1881ء کو 67 سال کی عمر میں کینسر کی وجہ سے وفات پا گئی۔ اس کی بڑی بیٹی کی وفات کے ساتھ یہ ایک انتہائی ظالمانہ ذاتی المیہ تھا جس سے مارکس کبھی بھی باہر نہیں آ سکا۔ یہ اس کی زندگی کے آ خری سالوں پر حاوی رہا۔
کارل مارکس 14 مارچ1883ء کو لندن میں پھیپھڑوں میں سوزش (Pleurisy) کی بیماری کے باعث اپنی آرام کرسی پر بیٹھے ہوئے وفات پاگیا۔ اسے لندن کے ہائی گیٹ قبرستان میں اس کی بیوی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ جب اس کی وفات ہوئی تو اس کی قمیص کی جیب سے اس کے والد کی تصویر بر آمد ہوئی۔ اسے بھی اس کے کفن میں رکھ دیا گیا تھا۔ اس کی اصل قبر پر ایک چھوٹا سا کتبہ نصب تھا جو بدقسمتی سے برباد ہو چکا ہے۔ مارکس اور اس کی بیوی کی پرانی قبرکے قریب ہی نئے مقام پر ازسر نو تدفین کے وقت نومبر1954ء میں بننے والی دیوہیکل یادگار پر آنے والے سیاحوں کی بڑی تعداد نے بھی اسے نظر انداز کر دیا۔
نئی یادگار کی رونمائی 14مارچ1956ء کو ہوئی جس پر درج ہے کہ ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘‘ اور فیورباخ پر تھیسس کے مشہور زمانہ الفاظ ’’فلسفیوں نے دنیا کی تشریح کی ہے، مسئلہ اس کو بدلنے کا ہے۔‘‘
لیکن مارکس کی حقیقی یادگار ہائی گیٹ قبرستان میں نہیں ہے۔ یہ پتھر یا کانسی سے نہیں بنی ہوئی بلکہ اس سے کہیں زیادہ مضبوط اور پائیدار مواد سے بنی ہوئی ہے۔ یہ یادگاراس کے مجموعۂ تصانیف کے پچاس سے زیادہ جلدوں پر مشتمل لافانی نظریات ہیں۔ یہ واحد وہ یادگا ر ہے جس کی مارکس واقعی خواہش کرتا۔ یہ عالمی مزدور تحریک کا سنگِ بنیا د اور اس کی مستقبل کی فتح کی ضمانت ہے۔