|تحریر: جان پیٹرسن؛ ترجمہ: ولید خان|
دو صدیوں پہلے ایک ایسے بچے کا جنم ہوا جس کے نام اور کمیونسٹ انقلاب کے خیال سے ہی عالمی حکمران طبقات لرز اٹھے تھے۔ لیکن ایک صدی سے زیادہ عرصے کے جھوٹ، بہتان تراشی، کردار کشی اورتمسخر کے باوجود کارل مارکس کا بھوت آج بھی ان کے اعصاب پر سوار ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے: مارکس درست تھا! آج پہلے سے بھی کہیں زیادہ اس کی کتابیں، پمفلٹ، تقاریر، مشاہدات اور خطوط محنت کش طبقے کی ایک بہتر دنیا کی جدوجہد کے لئے بے نظیر نظریاتی اور عملی اوزار ہیں۔
ہم یہاں 170 سال پہلے یورپی انقلابات کے عہد میں شائع ہونے والے شاہکار ’’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ کی مثال لیتے ہیں۔ مارکس اور اس کا دیرینہ دوست اور نظریاتی شراکت دار اینگلز، سرمایہ داری کے ارتقاء اور عالمی پھیلاؤ کی سمجھ بوجھ میں ہماری رہنمائی کرتے ہوئے ایسی تحریر بنتے ہیں جس کا ایک ایک جملہ معانی اور حسن تحریر کا اعلیٰ شاہکار ہے۔ ٹھوس لیکن شاعرانہ تحریر میں وہ سرمایہ داری کے ان اندرونی تضادات کی منظر کشی کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہر گزرتے دن کے ساتھ نظام کا منافع ساز ’’گورکن‘‘، محنت کش طبقہ نظام کے انقلابی اکھاڑ پچھاڑ کا موجب بنے گا۔
’’وہ سب جو ٹھوس ہے ۔۔۔‘‘
اس تحریر میں ایک ایسی دنیا کی غیر معمولی پیش بندی ہے جس کے مبہم خدوخال صرف تازہ چھپے کاغذوں میں ہی موجود تھے۔ شاید کچھ لوگ ریل اور ٹیلی گراف کے انقلابی زمانے میں ترتیب دئیے گئے الفاظ کی خلائی سفر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں افادیت پر سوالات اٹھائیں۔ لیکن اپنی تمام تر بنیادی اساس میں مینی فیسٹو میں بیان کردہ سرمایہ داری اوراس میں موجود طبقاتی تعلقات آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے نظام کی حرکیات کو سمجھنے کی مارکس کی کوششوں کے وقت موجود تھے۔
جدلیاتی مادیت کی تنقیدی اور تشریحی طاقتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اور اپنے وقت کی سب سے جدید معاشی اور سائنسی تحریروں پر عبور حاصل کرتے ہوئے مارکس نے ایک ایسے نظام کی لازم حرکیات اور تضادات سے پردہ اٹھایا جس کی واحد قوت محرکہ منافع کا حصول ہے:
’’پیداوار میں مسلسل انقلابی ترقی، تمام سماجی حالات کی مستقل افراتفری، ہر لمحہ موجود بے یقینی اور اضطراب؛ بورژوا عہد کو پچھلے تمام عہدوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ تمام ٹھوس منجمد تعلقات، جن پر قدیم اور مقدس تعصبات اور عقائد کا بوجھ سوار ہوتا ہے،
تنکوں کی مانند بہہ جاتے ہیں؛ تمام نئے (تعلقات) ٹھوس ہونے سے پہلے فرسودہ ہو جاتے ہیں۔ وہ سب جو ٹھوس ہے، ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے، وہ سب جو مقدس ہے، مکروہ ہو جاتا ہے اور بالآخر انسان سنجیدگی سے اپنے حقیقی حالات زندگی اور اپنی نوع کے ساتھ تعلقات کا سامنا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
پیداوار اور تبادلے کے طریقہ کار، جس کی بنیاد پر بورژوازی نے اپنی تعمیر کی ہے، جاگیردار انہ سماج میں پنپے تھے۔ ذرائع پیداوار اور تبادلے کے ارتقاء کی ایک مخصوص سطح پر، وہ حالات جن میں جاگیردار انہ سماج پیداوار اور تبادلہ کیا کرتا تھا، زراعت اور مینو فیکچرنگ صنعت کا نظم، ایک لفظ میں جاگیردارانہ ملکیتی رشتے؛ پیدا کردہ (جدید) پیداواری قوتوں سے ہم آہنگ نہ رہے؛ وہ دیو ہیکل رکاوٹیں بن گئے۔ ان کو پارہ پارہ ہونا تھا؛ وہ پارہ پارہ ہو گئے۔‘‘
ایک مرتبہ جب سرمایہ داری پورے عالم میں سب سے بالاتر ذریعہ پیداوار بن گیا تو اس کا ارتقائی عمل بھی واضح ہو گیا:
’’سماج کے تابع پیداواری قوتیں اب بورژوا ملکیت کو مزید تعمیر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں؛ اس کے برعکس، وہ ان حالات سے بہت زیادہ طاقتور ہو چکی ہیں، جو اب رکاوٹیں بن چکی ہیں اور و ہ جیسے ہی ان رکاوٹوں کو عبور کرتی ہیں وہ بورژوا سماج میں انتشار کا سبب بنتی ہیں جس کی وجہ سے بورژوا ملکیت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اپنی ہی پیداکردہ دولت سمونے کے لئے بورژوا سماج کی ساخت انتہائی تنگ ہے۔‘‘
عدم مساوات
وائٹ ہاؤس سے لے کر ویٹی کنتک، بورژوا تسلط کے تمام ستون جو ایک وقت میں ’’مقدس‘‘ تھے اب مکروہ ہو کر عوام کے ذہنوں پر اپنی طاقت کھوتے جا رہے ہیں۔ ایک ایسے معاشی اور سیاسی بالائی ڈھانچے کی موجودگی میں جو ’’تعمیر کردہ (جدید) پیداواری قوتوں سے ہم آہنگ نہیں رہا‘‘، سماج کے ہر مسام میں اعتماد کا بحران اور مایوسی پھیلتی جا رہی ہے اور ہر چیز بے رحمی سے خود سرمایہ داری کو ’’پارہ پارہ‘‘ کرنے کی جانب دھکیل رہی ہے، جو عرصہ دراز پہلے انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا تھا۔
نامیاتی گراوٹ کے عہد میں نظام میں ’’ہر لمحہ موجود بے یقینی اور اضطراب‘‘کے انسانی تعلقات، سماجی بندھنوں، ذہنی اور جسمانی صحت پر تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ دی انڈی پینڈنٹ اخبار نے حال ہی میں رپورٹ دی کہ: ’’ایک نئی تحقیق کے مطابق اس صدی میں پیدا ہونے والے 10 میں سے 6 افراد کا کہنا ہے کہ وہ ’’ ایک چوتھائی زندگی‘‘ کے بحران سے گزر رہے ہیں۔ ہم میں بہت سے افراد ادھیڑ عمری کے بحران سے واقف ہیں۔۔ادھیڑ عمر کا ایک شخص اپنے آپ کو کولہو کے بیل جیسا محسوس کرتا ہے اور اس کا پرانتشار ردعمل اچانک اپنے کیریئر کی تبدیلی یا ایک موٹر سائیکل خریدنے کی شکل میں نکلتا ہے۔ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم میں زیادہ سے زیادہ افراد بہت پہلے اپنے وجود کو ماپ رہے ہیں‘‘۔
آگے چل کر وہ عوام کو مشورہ دیتے ہیں کہ ’’1۔ دوسروں کے ساتھ اپنا موازنہ کرنا بند کرو۔2۔ ایک لمحہ بنیادی مسئلے کی شناخت پر غور کرو۔‘‘
ایک ایسے دور میں جب تین امریکیوں کے پاس اپنے غریب ترین 50 فیصد ہم وطنوں سے زیادہ دولت ہے، کیا یہ کوئی حیرت کی بات ہے کہ لاکھوں کروڑوں لوگ ’’اپنے وجود کو ماپ رہے ہیں‘‘ اور لا متناہی بحران اور عدم استحکام، قرضوں کے پہاڑ اور عارضی ’’ کام‘‘کے حوالے سے ’’ایک لمحہ بنیادی مسئلے کی شناخت پر غور ‘‘ کر رہے ہیں؟
فوکس نیوز کی ایک حالیہ رائے شماری کے مطابق 36 فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ ’’اچھا‘‘ ہو گا اگر ملک ’’سرمایہ داری سے زیادہ سوشلزم کی جانب چلتا ہے‘‘۔ 2009ء میں یہ شرح 23فیصد تھی۔ نام نہاد معاشی بحالی کے دسویں سال میں امریکیوں کی سوشلزم کے حوالے سے مثبت خیالات کی بڑھتی شرح خود ایک دیو ہیکل دلیل ہے۔ گیلپ کی ایک رائے شماری کے مطابق 18-29 سال کی عمر کے نوجوانوں میں سرمایہ داری کے حوالے سے مثبت خیالات میں ’’اس دہائی میں شدید کمی آئی ہے جو 2010ء میں 68فیصد سے 2018ء میں صرف 45 فیصد کی شرح پر آ چکے ہیں‘‘۔
جہاں تک ’’دوسروں سے اپنا موازنہ‘‘ کرنے کا تعلق ہے، مارکس نے ’’اجرتی محنت اور سرمایہ‘‘ میں بیان کیا تھا کہ سماج میں کسی بھی شخص کی ساکھ سماجی ہوتی ہے:
’’ایک گھر چھوٹا یا بڑا ہو سکتا ہے؛ جب تک اس کے ہمسائے میں موجود گھر بھی چھوٹے ہیں تو ایک رہائش کی تمام سماجی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔ لیکن اگر اس چھوٹے گھر کے ساتھ ایک محل تعمیر ہو جائے تو پھر وہ چھوٹا گھر سکڑ کر جھگی بن جاتا ہے۔ چھوٹا گھر اب یہ واضح کر رہا ہے کہ اس کے رہائشی کی کوئی سماجی حیثیت نہیں یا پھر بہت ہی چھوٹی (سماجی حیثیت) ہے؛ اور سماجی عمل میں رہائشی جتنی مرضی ترقی کر لیں، اگر ہمسایہ محل بھی اسی رفتار یا اس سے برتر رفتار سے ترقی کرتا ہے تو چھوٹے گھر کا رہائشی ہمیشہ زیادہ بے آرام، زیادہ غیر مطمئن، اپنی چار دیواری میں زیادہ گھٹن کا شکارہے گا۔‘‘
سرمایہ دار اور ان کے وظیفہ خوار اکثریت کابے رحم استحصال اوران پر ظلم و جبر کرتے ہوئے بے حیائی سے واویلا مچاتے رہتے ہیں کہ وہ سب کی دولت اور طمانیت میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن جیف بیزوس، بل گیٹس، مارک زکربرگ، وارن بوفیٹ اور کاک برادران بھی آسمان سے تارے نہیں توڑ سکتے۔ اربوں انسان لا شعوری طور پر امکانات اور حقائق کے تضادات کو محسوس کر رہے ہیں اور بیتابی سے کسی حل کے متلاشی ہیں۔ پچھلے چند سالوں کی حوصلہ افزا تحریکیں اس حقیقت کا ایک مظہر اور آنے والے وقت کی نوید ہیں۔ اگر محنت کش طبقہ درکار انقلابی قیادت تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ہم حتمی طور پر کسی ایک ملک میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کا ظہور دیکھیں گے جو پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جائے گا۔
ہماری زندگیوں میں سوشلزم!
خوش قسمتی سے آج جو افراد زندہ ہیں ان کے لئے سوشلسٹ انقلاب کوئی خام خیالی نہیں۔ جیسا کہ مارکس نے ’’سیاسی معاشیات پر تنقید کا تعارف‘‘ میں واضح کیا:
’’پس انسانیت اپنے لئے وہی اہداف وضع کرتی ہے جنہیں حاصل کیا جا سکتا ہے کیونکہ باریک بینی سے ہمیشہ ادراک ہو گا کہ مسائل بذات خود اسی وقت جنم لیتے ہیں جب ان کے حل کی مادی بنیادیں موجود ہوں یا پھر کم از کم پنپ رہی ہوں۔‘‘
ان سطور کے لکھے جانے کے دہائیوں بعد، آج سوشلزم کے لئے حالات پک کر اتنے تیار ہو چکے ہیں جن کا ادراک شاید مارکس کو بھی نہیں تھا۔ سرمایہ داری نے پچھلے ایک سو سالوں میں ثابت کر دیا ہے کہ کیا ممکن ہے۔۔اور کیا ممکن نہیں۔ ممکن یہ ہے کہ اربوں انسانوں کو مایوسی، جہالت اور لامتناہی محنت کی چکی میں پسنے کی سزا دی جا سکتی ہے جبکہ بے پناہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جاتی ہے۔ ممکن یہ نہیں ہے کہ ہر کسی کو بہترین نوکری، اشیائے خوردونوش، رہائش، صحت اور تعلیم فراہم کی جائے۔ نہ ہی ہم میں سے ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے بھرپور ممکنات پرکھ سکتا ہے۔ مارکس درست تھا کیونکہ اس نے نشاندہی کی تھی کہ سرمایہ داری ہمیشہ سے موجود نہیں تھی اور نہ ہی ہمیشہ موجود ہو گی، کہ وہ اپنے اندر ہی ایسے ذرائع تخلیق کر چکی ہے جن کے ذریعے ایک نیا سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ ایک سوشلسٹ انقلاب ہے۔
اس کا فانی جسم تو موت سے ہمکنار ہو سکتا ہے لیکن اس کے نظریات زندہ وجاوید ہیں۔ ایک کے بعد دوسرے مضمون پر اس کی باریک بینی اور تیزوتند بذلہ سنجی محنت کش طبقے اور سوشلسٹ مستقبل پر اٹل اعتماد اور فہم و فراست کا شاہکار ہے۔ اس نے صرف فلسفے میں ہی انقلاب برپا نہیں کیا بلکہ اس نے عالمی محنت کش طبقے کو انقلابی بنا کر نسل انسانی کو حقیقی آزادی کی راہ دکھائی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام تک مارکس اس تناظر پر پراعتماد قائم و دائم رہا۔ اپنی آخری تحریروں میں وہ اپنے ایام جوانی کے پر امید خیالات کو یاد کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’حقیقی آزادی کے دور کا آغازصرف اسی وقت ہوتا ہے جب محنت کا تعین روزمرہ کی ضروریات اور معمولی کاموں سے ہونا ختم ہو جائے۔پس اشیا کی فطرت میں آزادی کے دور کا تعلق حقیقی مادی پیداوار کے دائرے سے پرے ہوتا ہے۔۔۔فطرت کی اندھی قوتوں کے غلام ہونے کے بجائے اس کو مشترکہ اختیار میں لاتے ہوئے ان کے ساتھ باضابطہ منطقی تبادلے کے ذریعے ہی صرف سماجی انسان اور شریک پیداکار اس شعبے میںآزاد ہو سکتے ہیں۔اور یہ سب کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے اور انسانی فطرت سے موافق اور اس کے شایان شان حالات کے تحت حاصل کرنا ہوگا۔ لیکن بہرحال ابھی بھی یہ ضرورت کا دور ہے۔ اس سے آگے انسانی قوت کی وہ تعمیر شروع ہوتی ہے ہے جو اپنے اندر ایک منزل ہے، آزادی کا سچا دور، لیکن وہ اس ضرورت کے دور کی بنیاد پر ہی تعمیر ہو کر نکھر سکتا ہے۔کام کے دن کا مختصر ہونا اس کی سب سے بنیادی شرط ہے۔‘‘
آج ہم انسانی تاریخ کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہمارے سامنے انتخاب ’’سوشلزم یا مروجہ حالات کا بدستور تسلسل‘‘ نہیں ہے بلکہ ’’ہماری زندگی میں سوشلزم یا پھر نسل انسانی کا خاتمہ‘‘ ہے۔ لیکن ہمیں قطعاً مایوس ہونے کی ضرورت نہیں؛ محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں بے پناہ قوت مرتکز ہے۔ اگر آج ہی سے ہم سوشلسٹ انقلاب کی تیاری شروع کر دیں تو ایک ایسی قیادت ، جو موجودہ نظام کی مصنوعی کٹھ بندیوں سے آزاد ہو، محنت کش طبقے کی دیو ہیکل قوت کے ساتھ مل کر زیادہ تر لوگوں کی سوچ سے بہت پہلے ہی سوشلسٹ انقلاب کو حقیقت بنا سکتی ہے۔
عالمی مارکسی رجحان نے حقیقی طور پر ’’مارکسی‘‘ کو اپنے نظریات اور سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہے۔ ہمارا نصب العین مارکس اور اینگلز کے شروع کردہ کام کو محنت کش طبقے کے ساتھ جدوجہد کر کے پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ انقلابیوں کی نئی نسل کو ہر صورت ان کے نظریات اور کام میں ڈوب کر ان کو سمجھنا ہے۔ مارکس کے ’’بارے‘‘ میں یا اس کے کسی جملے کو کاٹ کر پڑھنا کافی نہیں ہے۔ آج مارکسزم کے شاندار خزانے، جو محنت کش طبقے کے مجموعی تجربے کا عرق اور سوشلسٹ انقلاب کے لئے مشعل راہ ہے، سے فیض یاب ہونے کا انسانی تاریخ میں یہ سب سے بہترین موقع ہے۔ کیوں نہ ’’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ سے آغاز کیا جائے؟ کیوں نہ آئی ایم ٹی سے بحث و مباحثے کے لئے رابطہ کیا جائے؟کیونکہ ’’مزدوروں کے پاس اپنی زنجیریں کھونے کے سوا اور کچھ نہیں۔ ان کے سامنے جیتنے کو ایک شاندار جہاں ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشوایک ہو جاؤ!‘‘