کراچی یونیورسٹی: اساتذہ، طلبہ اور ملازمین کے عذابوں کی آماجگاہ!

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، کراچی|

کراچی یونیورسٹی ملک کا بہت بڑا اور اہم تعلیمی ادارہ ہونے کے باوجود اپنے طلبہ، اساتذہ اور ملازمین (مستقل و عارضی) کے لیے مسائل اور عذابوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ معاشی بحران جو کہ یہاں پاکستان میں بھی عالمی بحران کا ہی تسلسل ہے، ناقابلِ اصلاح ہو چکا ہے، آئی ایم ایف جیسے سامراجی ادارے یہاں کے حکمرانوں کو اخراجات کم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ اس کا سب سے منفی اثر تعلیم کے شعبے پر پڑ رہا ہے جہاں یونیورسٹیوں کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے فنڈز کم کرتے ہوئے ان کی غیر اعلانیہ نجکاری کی جا رہی ہے۔

نجی یونیورسٹیوں کی طرح اب سرکاری یونیورسٹیوں کو طلبہ سے نچوڑی گئی بھاری بھرکم فیسوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ گزشتہ 4 سالوں میں کراچی یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں 60 فیصد اضافہ کیا گیا ہے لیکن تمام اساتذہ و ملازمین کی اجرتوں کی ادائیگی مسلسل تاخیر کا شکار ہو رہی ہے یعنی کراچی یونیورسٹی میں اساتذہ و ملازمین سے مفت میں کام کروایا جا رہا ہے جو کہ استحصال کی بدترین شکل ہے۔

گزشتہ دو سال سے ایوننگ فیکلٹی کے بلز ادا نہیں کیے گئے۔ اجرتوں کی تاخیر کے خلاف وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کیے جا رہے ہیں۔ یہی حال کراچی کے دیگر تعلیمی اداروں کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں کراچی و اردو یونیورسٹی کے اساتذہ ملازمین اور طلبہ کی جانب سے مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی گئی ہے اور مشترکہ جدوجہد کے عمل کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

کراچی یونیورسٹی میں تدریسی عمل کے لیے یونیورسٹی کے عارضی ٹیچرز (وزٹنگ ٹیچرز فیکلٹی) کی تعداد 700 ہے، اس کے علاوہ 150 کے قریب اسسٹنٹ ٹیچرز ہیں اور باقی ٹیچر ایسوسی ایٹ ہیں جن کا مقررہ دورانیہ پانچ سمسٹر ہے اور ان کا شمار ریگولر میں ہوتا ہے، جنہیں ہر ماہ 25 سے 40 ہزار تک تنخواہ دی جاتی ہے اور پانچویں سمسٹر کے بعد ان کو فارغ کر دیا جاتا ہے، ایچ ای سی کے قانون کے مطابق ایسوسی ایٹ ٹیچر کو مسلسل چھ سمسٹر یا تین سال رہنے کے بعد ان کو مستقل کیا جانا ہوتا ہے۔

غیر مستقل اساتذہ کی فی لیکچر اجرت محض چھ سو روپے ہے، جو کہ 2010ء کے ریٹ ہیں، اس اجرت میں فی الفور اضافہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ عارضی لیب اسسٹنٹ کو فی گھنٹہ 150 روپے کے حساب سے دیا جاتا ہے۔ عارضی لیکچرز کو 600 روپے ادائیگی کی جاتی ہے جس میں 180 روپے ٹیکس منہاں ہو کر 480 دی جاتی ہے!

ایک سبجیکٹ کی پوری سمسٹر کی کل اجرت محض 18 ہزار بنتی ہے! اس کی ادائیگی میں بھی انتظامیہ رکاوٹیں ڈالتی ہے۔ بقول ٹیچرز جب رقم کی ادائیگی کے لیے آواز اٹھانے کی بات کرتے ہیں تو ان کو ہراساں کیا جاتا ہے اور سبجیکٹ نہ دینے کی دھمکی دی جاتی ہے، ان تمام مشکلات کے باوجود بھی عارضی ٹیچرز کی ایسوسی ایشن اساتذہ کو متحرک کرنے کے عمل کا آغاز کر چکی ہے۔

حال ہی میں مزاحمت پر سینڈیکیٹ کے ممبر ڈاکٹر ریاض احمد کو ریاستی اداروں کی جانب سے جبری طور پر اٹھایا گیا لیکن تمام اساتذہ، شہر و ملک بھر کے ترقی پسند دوستوں اور انقلابی ساتھیوں کی جانب سے شور اور شدید غم و غصّے کے اظہار کے سبب انہیں مجبوراً چھوڑ دیا گیا جو کہ مزاحمت کی طاقت کا ثبوت ہے۔

اس سلسلے میں سینٹر آف ایکسیلنس میرین بائیولاجی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر منور رشید کو اساتذہ دشمنی کے خلاف مزاحمت کرنے کی پاداش میں برطرف کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سراسر ناانصافی اور غیر قانونی عمل ہے۔ ٹیچرز کی مختلف تنظیمیں دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر جدوجہد کا آغاز کر چکی ہیں۔ جس میں نااہل انتظامیہ کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی جائے گی۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی اس غیر اعلانیہ نجکاری کی صورت میں ہونے والے ظلم و استحصال کے خلاف طلبہ، اساتذہ اور ملازمین کے ساتھ شانہ بشانہ جدوجہد کر رہی ہے اور اس جدوجہد کو ملک بھر میں پھیلانے اور بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔

Comments are closed.