(نمائندہ ورکر نامہ، کراچی)
انتظامیہ کی لوٹ مار کے خلاف کیپٹنز کی جدوجہد اگلے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جس میں 10 دسمبر کو گلشن اقبال کے مرکزی گراؤنڈ سے کراچی پریس کلب تک اور پھر وہاں سے ڈی ایچ اے میں واقع ہیڈ آفس تک 18 کلومیٹر طویل احتجاجی کار و موٹر سائیکل ریلی نکالی گئی جس میں بڑی تعداد میں کیپٹنز نے شرکت کی۔ کراچی پریس کلب کے باہر میڈیا کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور پھر وہاں سے احتجاجی قافلے نے ہیڈ آفس تک ریلی نکالی۔ احتجاجی قافلے کے پہنچے سے قبل ہی انتظامیہ نے مظاہرین کا سامنا کرنے کے خوف کے سبب ہیڈ آفس کو اندر سے تالے لگا لیے تھے۔ پولیس کی موجودگی کے باوجود بھی انتظامیہ کی جانب سے کوئی بھی مذاکرات کرنے کے لیے باہر نہیں آیا۔ اس کے بعد 17 دسمبر کو گورا قبرستان شاہراہِ فیصل سے ہیڈ آفس تک احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی، اس دن بھی انتظامیہ نے خوفزدہ ہو کر یہی طریقہ اپنایا تھا۔
کمپنی انتظامیہ الاؤنسز میں کٹوتیاں کرکے ایک رائڈ پر ملنے والی آدھے سے زائد آمدن اپنے پاس رکھ رہی ہے، جو کہ سراسر ڈاکہ ہے کیونکہ گاڑی اور اسے چلانے والے کو آدھے سے بھی کم رقم میں گزارہ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ اس آدھی آمدن سے گاڑی کی مینٹیننس، فیول اور پھر ڈرائیور کا اپنا گھر چلانا ناممکن ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ہر رائڈ پر حکومتی ٹیکس کے نام پر بھی کٹوتی کی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جہاں زیادہ تر ڈرائیورز نے بنکوں سے بھاری شرح سود پر قرض لے کر گاڑیاں خریدی ہوئی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے گھر کا خرچہ چلانا مشکل ہوچکا ہے، گاڑی کی اقساط کہاں سے ادا کریں۔ محض ایک ایپ کے عوض آدھی آمدن ہڑپنا سراسر ظلم ہے جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔ کیونکہ عوام کو فزیکل سروس ہم ڈرائیورز مہیا کرتے ہیں کمپنی نہیں۔ احتجاجی کیپٹنز کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ان کے گھرانوں کو فاقوں پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
ایک ماہ میں تین بڑے احتجاج جہاں ایک جانب کیپٹنز کے دگرگوں حالات کی عکاسی کر رہے ہیں، جس کا اظہار ان کی جدوجہد کے معیار میں بھی بخوبی نظر آ رہا ہے۔ وہیں پر انتظامیہ کی مسلسل بے حسی اور ہٹ دھرمی کہیں زیادہ ثقیل اور منظم لائحہ عمل کی متقاضی بن چکی ہے۔ اس سلسلے میں کراچی آن لائن ٹیکسی ایسوسی ایشن (KOTA)کی رجسٹریشن کا عمل کلیدی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ لیکن اس ایسوسی ایشن کے واضح اغراض و مقاصد پر سب کیپٹنز کا اعتماد ہونا یعنی یہ ہر صورتحال میں ان کے مفادات کی نگہبانی کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسوسی ایشن کا موجودہ جدوجہد میں کارآمد استعمال بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ کیپٹنز کی جانب سے گِزری تھانے میں انتظامیہ کے خلاف کئی درخواستیں بھی جمع کروائی جا چکی ہیں، لیکن پولیس کی جانب سے ان پر عملاً کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کیپٹنز کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے، ہم ہر قدم پر ہمیشہ کی طرح آپ کی جدوجہد میں شانہ بشانہ رہے ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اوبر اور کریم کے خلاف کیپٹنز کی جدوجہد کی شاندار طاقت کو درست اور کارآمد انداز میں استعمال کیا جانا وقت سب سے اہم ضرورت بن چکا ہے۔ کیونکہ بارہا آف لائن ہونا کیپٹنز کے پہلے سے ہی مشکل حالات کو اور زیادہ دشوار کر دیتا ہے، اس لیے بہت ضروری ہو چکا ہے کہ نپے تلے انداز میں درست نشانے پر زوردار وار کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایسوسی ایشن کی رجسٹریشن ہونے کے بعد قانونی چارہ جوئی کی طرف جانا زیادہ فائدے میں نہیں جا سکتا کیونکہ اوبر ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہے، پاکستان کے غلام حکمران (چاہے کوئی بھی پارٹی اقتدار میں ہو) اور اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ نے آج تک کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے مالکان کے خلاف اور اس میں کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کے حق کبھی کوئی ایک فیصلہ بھی نہیں دیا۔ ملٹی نیشنل تو دور بلکہ یہاں کے لوکل مالکان اور اداروں کی انتظامیہ کے خلاف کبھی کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا، بلکہ مزدوروں کو عدالتوں کے چکر لگوا کر بھی انہی مزدوروں کے خلاف فیصلے دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ بجائے عدلیہ کی جانب امیدیں وابستہ کرنے کے کیپٹنز کو اپنی طاقت پر انحصار کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایسوسی ایشن بننے کا عمل مکمل ہوتے ہی وہ نقطہ جو یہاں کے حکمرانوں اور عدلیہ کو بھی لاغر کردیتا ہے، یعنی UBER کا ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہونا، اسی کو کیپٹنز اپنی طاقت بناتے ہوئے دیگر ممالک میں موجود UBER کے اپنے جیسے مزدور ساتھیوں اور ان کی یونینز و ایسوسی ایشنز سے رابطے کرنا چاہئیں، ان کو اپنا احوال بتا کر ان سے یکجہتی اور مدد کی اپیل کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا کے دور میں ان کو کھوجنا اور رابطہ استوار کرنا ذرا بھی مشکل نہیں رہا۔ امریکہ اور یورپ میں موجود کیپٹنز، کمپنی کے عالمی مرکزی مالکان تک یہاں کے حالات پہنچا کر انہیں جنجھوڑ سکتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ پاکستان میں کمپنی انتظامیہ کس حد تک گر چکی ہے۔ اس کے علاؤہ وہاں کے کیپٹنز سے پاکستانی مزدور کیپٹنز کے لیے علامتی احتجاج کرنے کی اپیل بھی کی جا سکتی ہے خاص کر امریکہ اور برطانیہ میں موجود کپیٹنز سے احتجاج کرنے کی اپیل کرنی چاہیے جنہوں نے گزشتہ عرصے میں شاندار جدوجہد کرکے اپنا لوہا منوایا ہے۔ ان کے احتجاج سے نا صرف کمپنی کے مرکزی مالکان دباؤ میں آئیں گے بلکہ پاکستان کے غلام حکمران اور یہاں کی انتظامیہ کے بھی صرف اسی صورت میں ہی ہوش ٹھکانے لگیں گے اور ان پر حقیقی دباؤ پڑے گا۔ اس کے ساتھ پاکستان میں بھی ایک شہر کی بجائے ملک گیر سطح پر منظم ہونے کی ضرورت ہے اور ایسوسی ایشن کو ملکی سطح پر تعمیر کیا جانا چاہیے۔ یہاں کے کیپٹنز کے حالات صرف اسی راستے پر چل کر ہی بدلے جا سکتے ہیں اور اتنی شاندار جدوجہد کو رائیگاں ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
کپیٹنز کے مطالبات اور گزشتہ جدوجہد پر ہم پہلے بھی تفصیلی رپورٹ شائع کر چکے ہیں جس میں 2 دسمبر کو بھی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا۔ کیپٹنز کے مطالبات کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ مستقل بنیاد پر کریم، اوبر اپنی پالیسی ٹیم کے ساتھ 10رکنی کپتان کمیٹی کو اپنے ساتھ شامل حال رکھ کر کپتان کمیٹی کو اعتماد میں لے کر پالیسی مرتب کرے۔ اس کی بنیادی وجہ گاڑیاں کریم،اوبر کی نہیں بلکہ وینڈروں اور کپتانوں کی ملکیت ہے اور کپتان کریم، اوبر کے تنخواہ دار ملازم نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کمپنیوں کے وعدوں کے مطابق پرافٹ کے وینڈر کپتان 80 فیصد سے اوپر کے پارٹنر ہیں، لہٰذا نئی پرانی اور آئندہ آنے والی پالیسیز میں کریم، اوبر کو کپتان کمیٹی کو اعتماد میں لینا کپتان کمیٹی کا قانونی حق و تقاضا ہے۔
2۔ کریم، اوبر کپتان وینڈر سے اپنا پرافٹ فکس کرے۔ پرسنٹ کی مد میں جو کہ 10 فیصد کریم جیسا کہ شروع میں وعدہ کیا گیا تھا اور 5 فیصد سندھ گورنمنٹ ٹیکس جو کہ بعد میں لاگو ہوا، کل 15 فیصد ہوئے۔ باقی 85 پرسنٹ ہم چارحصوں میں تقسیم کریں گے 25 فیصد وینڈر، 25 فیصد آئل و فیول 10 فیصد مینٹینینس اور 25 فیصد کپتان۔
3۔ بونس کی شرائط ریٹنگ اور Acceptance سے ہٹا کر، جو کہ کپتانوں کے لیے ذہنی اور مالی پریشانیوں کے علاوہ دیگر بہت سی پریشانیوں کا سبب بن رہا ہے، نمبر آف کمپلیٹ رائیڈز یا ارننگ پر رکھی جائے یا تو بونس ہی ختم کر کے فئیر بڑھا دیا جائے۔
4۔ کریم، اوبر اپنی کوالٹی کو یقینی بنانے کے لیے ریٹنگ کی کنڈیشن رائڈ سائن پر لگائے مطلب جس کی اچھی ریٹنگ ہوگی اس کو زیادہ رائیڈ ملے گی جو اچھا کام کرے گا اس کو زیادہ کام ملے گا جس سے کریم، اوبر کی کوالٹی بھی برقرار رہے گی اور کپتان پہلے سے زیادہ دل لگا کر کام کریں گے۔
5۔ فیک رائیڈ کو کریم، اوبر اپنی کپتان ایپ سے اصلاح کرکے ختم کرے جوکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے ہفتے کے اندر اندر ایک ہی کسٹمر کی دوبارہ رائیڈ آنے پر کمپنی رائیڈ کو فیک قرار دے کر کپتان کی آئی ڈی کا بلاک کرنا بونس اور ارننگ کا واپس لینا بھاری بھاری جرمانے لگانا کپتان کو مالی نقصان اور ذہنی بیمار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
6۔ کریم، اوبر کسٹمر کی ویٹنگ سہولت ختم کریں جو کپتان اور کسٹمر کے تکرار اور ریٹنگ گرنے کا سبب بنتا ہے نہیں تو ویٹنگ ریٹ بڑھایا جائے تاکہ کپتان خوشی خوشی نبھائے۔
7۔ کسٹمر کی جھوٹی سچی کمپلین پر جرمانہ نہ لگایا جائے بلکہ کپتان سے بھی انویسٹی گیٹ کیا جائے۔ اگر کپتان غلطی پر ہے توکپتان کو پتہ ہو کہ غلطی کیا ہے تاکہ کپتان کی جانب سے آئندہ احتیاط کی جائے۔
8۔ جھوٹی کسٹمر کمپلین اور جھوٹے کرریم، اوبر کی طرف سے ایپ پر ٹیکنیکل اصلاح کی کمی کی وجہ سے ٹیکنیکل غلطی جسے کریم، اوبر فراڈ کہتی ہے، پر جتنے کپتان کی آئی ڈی بلاک ہیں انہیں دوبارہ انویسٹی گیٹ کرکے ایک موقع اور دے کر مستقل بحال کی جائے۔
9۔ رائڈ کو کینسل کرنے کا جتنا حق کسٹمر کو ہے ویسے ہی یہ کپتان کا بھی بنیادی حق ہے جو کپتان کو کریم، اوبر ایپ پر ہی ہر رائڈ پر دیا جائے جس سے کریم اوبر کسٹمر اور کپتان کے کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
10۔کریم کپتان ایپ سے Completeکا آپشن جو کہ صرف کریم، اوبر کسٹمر اور کپتان کے درمیان تکرار کا سبب ہے، مستقل طور پرختم کیا جائے۔