|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ، کراچی|
پچھلے دو سال میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور معاشی بحران کے باعث کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے اندر صرف گزشتہ 5 مہینوں میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے پر 62 لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ حقیقی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں موبائل فون، موٹر سائیکلیں اور دیگر قیمتی اشیاء ڈکیتیوں میں چھینی جا چکی ہیں۔
ان تمام واقعات کے سدباب کے حوالے سے ریاست مکمل طور پر بے حس نظر آ رہی ہے۔ سابق وزیر داخلہ کا تو کہنا تھا کہ ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ ان تمام لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے جو ان واقعات سے متاثر ہو چکے ہیں۔ ریاستی ادارے انہی واقعات سے اپنی موجودگی کا جواز پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
ان تمام واقعات میں جو لوگ متاثر ہو رہے ہیں ان میں اکثریت کا تعلق نچلے متوسط طبقے اور محنت کش طبقے سے ہے۔ اس لیے اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام ریاست کے لیے ترجیح نہیں بلکہ وہ اسے محنت کشوں کو تقسیم کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اسٹریٹ کرائم کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ”غیر مقامی“ محنت کشوں کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام جرائم میں ریاستی ادارے بالخصوص پولیس اور رینجرز شامل ہیں اور ان کی آشیرباد سے ہی یہ جرائم کیے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو میں بھی صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک ڈکیت تمام جرائم اور ڈکیتیوں کی ”منتھلی“ علاقے کے تھانیدار کو جمع کرواتا تھا تاکہ پولیس کی جانب سے ان جرائم پیشہ افراد کو تحفظ ملتا رہے۔ اسٹریٹ کرائم کی اس وبا کے خلاف فوری طور پر محنت کشوں کو اپنی علاقائی کمیٹیاں تشکیل دینی ہوں گی۔
یہی کمیٹیاں ان کی حفاظت کی ضامن ہو سکتی ہیں۔ سیکیورٹی اداروں سے کسی قسم کے تحفظ کی امید نہیں رکھنی چاہئے۔ اس وقت سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ادارے اتنے گل سڑ چکے ہیں کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ان کا خاتمہ کر کے اور ایک مزدور ریاست و غیر طبقاتی سماج قائم کر کے ہی اسٹریٹ کرائمز کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے، غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے، سب کو تعلیم و علاج فراہم کیا جا سکتا ہے اور بے روزگاری کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس سب کے لیے ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کے عمل کو تیز تر کرنا ہو گا۔