|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
دو سال کی لگاتار جدوجہد، دھرنوں، احتجاج، گرفتاریوں، مار پیٹ، آنسو گیس کے حملوں کے بعد نرسز نے بالآخر سندھ حکومت سے اپنی احتجاجی تحریک کے تین بنیادی مطالبات میں سے ایک بڑے مطالبے کو عملاً منوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ یقیناً بہت اہم پیش رفت ہے کیونکہ اتنی طویل جدوجہد میں حکمرانوں اور ان کے خدمت گار افسران کے بارہا دلاسوں اور جھوٹے وعدوں کے بعد ان سے سروس سٹرکچر کا نوٹیفکیشن نکلوانا مگرمچھ کے منہ سے نوالہ نکالنے کے مترادف ہے۔ سروس سٹرکچر کے علاوہ دو مزید اہم مطالبات ہیں جن پر ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی جن میں بنیادی تنخواہ کے برابر ہیلتھ رسک الاؤنس اور نرسنگ سٹوڈنٹس کیلئے 25ہزار وظیفہ شامل ہیں۔ خاص کر سٹوڈنٹ وظیفہ پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے ان میں شدید بے چینی اور غصّہ پایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈگری کے دوسرے سال ہی انہیں ہسپتالوں میں ڈیوٹی پر لگا دیا جاتا ہے جس کے اوقات کار سینئر نرسز کے برابر ہی ہوتے لیکن انہیں معاوضہ محض 8ہزار روپے ماہانہ دیا جاتا ہے جو کہ سراسر مذاق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نرسنگ قیادت جلد ہی ان کے مطالبے کے حصول کے لیے عملاً کچھ کریں کیونکہ تمام تر تحریک میں انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
نرسز کی تحریک کا مرکزی محور کراچی شہر تھا لیکن اس کے علاوہ بھی روزانہ کی بنیادوں پر سندھ کے تمام شہروں میں نرسز نے احتجاجی کیمپ لگائے رکھے اور تمام شہروں میں کام چھوڑ ہڑتال جاری رہی جن میں لاڑکانہ، میرپور خاص، شکارپور، نواب شاہ، مورو، ٹھٹھہ، نوشیروفروز اور سکھر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک کے دنوں میں بڑے منظم انداز سے ہر دن کسی ایک شہر سے نرسز کا قافلہ کراچی میں پریس کلب پر جاری مرکزی دھرنے میں شریک ہوتے رہے۔
نرسز کی تحریک کے ہر مرحلے پر ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان نے بھرپور شرکت کی اور شہر میں ہونے والی دیگر تحریکوں اور احتجاجوں میں نرسز کے حقوق کی آواز بلند کرتے رہے۔
احتجاجی تحریک کے دوران نہ صرف حکمرانوں اور ان کی نوکر شاہی نے شدید بے حسی کا مظاہرہ کیا بلکہ امیروں کی رکھیل میڈیا انڈسٹری نے بھی ساتھ نہیں دیا۔ میڈیا کوریج حکمرانوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن اس کے حصول کے لیے بھی نرسز کو کبھی PPP کے محل سرا یعنی سی ایم ہاؤس جا کر ماریں کھانا پڑتی تو کبھی PTI کے محل سرا یعنی گورنر ہاؤس کے باہر جا کر آنسو گیس، شیلنگ ڈنڈوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس کے بغیر کوئی میڈیا ہاؤس ایک لائن کی خبر نہیں چلاتا تھا۔
اس بار سولہ دن جاری رہنے والے دھرنے نے نرسز کو بہت اسباق بھی سکھائے ہیں جن میں سب سے اہم منظم اور مسلسل جدوجہد کی ناگزیریت ہے اور سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اتنی جدوجہد کے بعد تین میں سے صرف ایک مطالبہ مانا گیا ہے جو بہت اہم پیشرفت ہونے کے باوجود بھی ادھورا کام ہے۔ نرسز قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ سروس سٹرکچر کے نوٹیفکیشن اس وقت قبول کرتے جب باقی دو مطالبات کا بھی نوٹیفکیشن جاری کیا جاتا۔ کیونکہ اس جزوی کامیابی نے جہاں نرسز کے حوصلے بلند کیے ہیں وہیں اکثریت کو جن میں خاص کر سٹوڈنٹس شامل ہیں انہیں شدید بے چینی، تذبذب اور یہاں تک کہ غصے کا شکار کر دیا ہے۔ ان دونوں مطالبات کے لیے جلد ہی ایک بار پھر نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے رہنما کامریڈ صفدر جبار نے کامریڈ جینی علی اور انعم کے ہمراہ مسلسل دھرنے میں شریک ہوتے رہے۔