|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
8 فروری 2019ء کو پورٹ قاسم کراچی کے ڈاک ورکرز کے پریس کلب کراچی پر جاری احتجاجی دھرنے کو 137 دن مکمل ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں وقتاً فوقتاً ریلیاں بھی نکالی گئیں اور صوبائی حکومت نے مزدوروں پر لاٹھی چارج بھی کیا۔ 8 فروری کو بھی احتجاجی ریلی کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاک ورکرز کے علاوہ دیگر اداروں کے مزدوروں نے بھی شرکت کی۔ پانچ کلومیٹر طویل ریلی میں مزدوروں کی تعداد 800 سے زائد تھی۔ ریلی کراچی پریس کلب سے شروع ہوئی اور شہر کے اہم مرکز صدر سے گزرتی ہوئی ٹاور کے قریب دھرنے میں تبدیل ہو گئی۔ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے رینجرز اور سیکورٹی اداروں نے جگہ جگہ ریلی کو روکا اور جاری رہنے دیا کیونکہ محنت کشوں کی اتنی بڑی ریلی کو یکسر روکنا ان کے بس سے باہر تھا۔ ریلی جن راستوں سے گزر ی وہاں اہم ادارے موجود ہیں جن کے ورکرز مزدوروں کی سرخ جھنڈوں والی اس طویل ریلی کو غور سے دیکھ رہے تھے۔
قاسم پورٹ کی برتھ نمبر 3 اور 4 کو ٹھیکے پر ایک چینی کمپنی دیا گیا تھا جس نے پہلے مزدوروں کی 9 ماہ کی تنخواہیں روکیں اور پھر مزدوروں کو بلا جواز کام سے نکال دیا جس پر مزدوروں نے پریس کلب کے باہر مطالبات کی منظوری تک مستقل احتجاجی دھرنے کا آغاز کیا جو آج 137 دن گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ یہ دھرنا ایک طرف محنت کش طبقے کی استقامت کی شاندار مثال بن چکا ہے اور دوسری طرف قیادت اور جدوجہد کے طریقہ کار پر اہم سوالات کھڑے کر رہا ہے کیونکہ مزدوروں کی اس شاندار جدوجہد کے باوجود مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔
ریلی کے دوران ’’ مزدور جدوجہد زندہ باد! مزدور اتحاد زندہ باد! شپنگ منسٹر علی زیدی مردہ باد! ہم چھین کے لیں گے مزدوری، ہے حق ہمارا مزدوری‘‘ کے واشگاف نعرے لگتے رہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کے ساتھیوں صفدر جبار، لیاقت کلمتی، امیر بخش اور انعم خان نے مزدوروں کا اخبار’’ورکر نامہ‘‘ فروخت کیا، نعرے لگوائے اور دھرنے میں تقریر کی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ڈاک ورکرز کی اس شاندار جدوجہد کو سلام پیش کرتا ہے اور ان کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ لیکن کامیابی کے لیے مزدور ساتھیوں کو پورٹ قاسم پر حاضر سروس مزدور ساتھیوں سمیت دیگر تمام اداروں کے محنت کشوں سے ساتھ دینے اور مل کر جدوجہد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے احتجاج کا دائرہ کار وسیع کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں ریڈ ورکرز فرنٹ ان مزدور ساتھیوں کے ہمراہ شانہ بشانہ کام کرے گاکیونکہ لامحدود مدت تک سب کو متحرک نہیں رکھا جا سکتااور اتنی طویل جدوجہد کی پسپائی مزدور تحریک کے لیے نقصان اور مایوسی کا باعث بنے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر احتجاج کے دائرہ کار کو دیگر اداروں تک لے جایا جائے۔