رپورٹ: |ریڈ ورکرز فرنٹ|
پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، ادارے کے تیرہ ہزار ملازمین زندہ درگور ہو گئے ہیں، جبکہ CBAیونین کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔ اسٹیل مل سے وابستہ درجنوں ادارے بند ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں حکومت اور نااہل انتظامیہ کی ملی بھگت سے ملازمین کے ویلفیئر فنڈزسے 45ارب روپے ہڑپ کر لیے گئے ۔ جبکہ ملازمین کو کئی ماہ تک تنخواہیں بھی ادا نہیں کی جاتیں۔ حکومت وقت کی مجرمانہ خاموشی اسٹیل مل کی نجکاری اور نجی اجارہ داریوں کی پشت پناہی کی عکاس ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن گزشتہ 8 برس سے مسلسل خسارے میں رہنے اور اب گیس کی مطلوبہ مقدار نہ ملنے کے باعث پیداوار کے قابل نہیں رہا ہے۔ برسوں منافعے میں رہنے والے ادارے کی تباہی کی داستان کا آغاز 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد ہوا۔ واضح رہے کے پاکستان اسٹیل اپنے ذمے واجب الادا قرضے 2002میں ادا کر چکی تھی۔ 2008میں حکومتی سطح پر کیے جانے والے فیصلوں کے باعث منافع بخش ادارہ خسارے میں چلا گیا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے خلاف قانون CBA یونین کے چیئرمین شمشاد قریشی کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر نامزد کیا جو 2008سے 2013تک بورڈ کے ممبر رہے اور اسی عرصے میں اسٹیل مل کا بھٹہ بٹھا دیا گیا۔ شمشاد قریشی نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ٹاؤن شپ کی پالیسی کے خلاف اپنے لیے 2فرنشڈفلیٹ حاصل کیے جو صرف چیئرمین اور CEOکو مہیا کیے جاتے ہیں۔ شمشاد قریشی کے ان دو فلیٹس میں 8ائرکنڈیشنر لگائے گئے ہیں جن سے ان کی مزدور دشمنی کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
2007-08میں اسٹیل مل کی کنٹینوں کا ٹھیکہ دو کروڑ پچھتر لاکھ تھا شمشاد قریشی نے اس سے بڑھا کر 13کروڑ 85لاکھ تک پہنچا دیا۔ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے بعد سابق ایف آئی اے سربراہ طارق کھوسہ کی رپورٹ کے مطابق کینٹین کیس میں شمشاد قریشی مرکزی ملزم تھاجبکہ یونین کے دیگر عہدے داران بھی شریک جرم تھے مگر تحقیقاتی اداروں میں بیٹھی کالی بھیڑوں کی وجہ شمشاد قریشی بچ نکلا۔ CBA کے پاس 20گاڑیاں بمعہ پیٹرول ڈرائیور موجود ہیں جبکہ انہیں ماہانہ دو کروڑ روپے کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ پی پی کی حکومت کے دور میں پارٹی سے منسلک ہونے کے باعث شمشاد قریشی کو جو مراعات مل رہی تھیں وہ گنگا اب تک بہتی ہی جارہی ہے۔ جبکہ گزشتہ دو برسوں سے ایک ریٹائرڈ جنرل کو اسٹیل مل کی بحالی کا ایجنڈا دے کر ادارے کی تاریخ کی سب سے بڑی تنخواہ کے عوض بٹھا رکھا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اسٹیل موجودہ حالت تک کیسے پہنچی۔
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب ادارے کے 13000ہزار ملازمین کی تنخواہیں کئی مہینوں تک ادا نہیں کی جاتیں۔ واضح رہے کے اسٹیل مل سے وابستہ افسران اور ورکرز کی تنخواہوں میں 2012کے بعد کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ دوسری طرف حکومت اور انتظامیہ کی ملی بھگت سے ملازمین کے گریجوئیٹی فنڈز ٹرسٹ اور پراویڈنٹ فنڈز ٹرسٹ سمیت دیگر اکاؤنٹس سے 45ارب روپے ہڑپ کر لیے گئے ہیں لیکن آج تک اس مجرمانہ فعل پر کسی افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2013سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین اپنے بقایاجات سے محروم ہیں۔ جبکہ وہ ملازمین جو 2015کے بعد وفات پا گئے ہیں ان کے لواحقین ابھی تک بقایاجات کے لیے ترس رہے ہیں۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال کے سبب ملازمین کے لیے میڈیکل کی سہولتیں بھی ختم ہو کر رہ گئی ہیں،پاکستان اسٹیل اسپتال 2008میں ایک کروڑ روپے ماہانہ کماتا تھاجبکہ آج شوگر ٹیسٹ کی سہولت سے بھی محروم ہے۔
پاکستان اسٹیل کے بارے میں حکمرانوں کی جانب سے کیا جانے والا مکروہ پروپیگنڈہ کہ یہ ادارہ ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے حقائق کے منافی ہے۔ پاکستان اسٹیل نے اپنے ذمے واجب الادا قرضہ 2002میں ادا کر دیا تھا جبکہ جون 2013تک 113ارب روپے کے ٹیکسز اور دیگر محصولات قومی خزانے میں جمع کروائے۔ پاکستان اسٹیل کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعمیر سے ملک میں سلیگ سیمنٹ،Billetsاسٹیل بار،Twist بار اور میٹل وائر بنانے والی صنعت نے فروغ پایا جو اس سے پہلے ملک موجو د نہیں تھی۔ موجودہ حکومت اقتدار میں آنے سے پہلے ایسے اداروں کو فعال بنانے کی بات کر رہی تھی مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہی پرانی پالیسیز کو ہی چلایا جارہا ہے۔ انتظامیہ اور کرپٹ یونین عہدے داران کولوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے جب کہ حکومت کی طرف سے مجرمانہ خاموشی اس بات کی عکاس ہے کہ وہ اسٹیل مل کی تباہی چاہتی ہے تاکہ نجی اجارہ داریوں کا اسٹیل کی صنعت پر اجارہ قائم کیا جا سکے۔