|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
8 جولائی سے شروع ہونے والی Early Childhood Education-ECE سے منسلک اساتذہ کے احتجاجی دھرنے کو ایک ماہ پورا ہونے کو ہے لیکن ابھی تک کسی بھی حکومتی یا محکمے کے نمائندے نے احتجاجی ٹیچروں سے رابطہ تک نہیں کیا۔
300 کے قریب ECE ٹیچرز کو 2009ء میں کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا تھا، جنہوں نے اپنے اسکولز میں ماڈل کلاسز بنائیں، جن پر انہیں انعامات بھی دیے گئے۔ لیکن دس سال بعد ان اساتذہ کو ریگولائز کرنے کی بجائے برطرف کردیا ہے۔ تنخواہیں روک دی گئی ہیں۔ دیگر صوبوں کی طرح سندھ میں بھی تعلیم کی انتہائی ابتر صورتحال ہے ایسے میں اساتذہ کی برطرفیاں حکومتی ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں کہ سندھ کے تمام حکمران محض لوٹ مار کے اور کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ اپنے مطالبات کی شنوائی کے لیے تین بار ان اساتذہ نے سی ایم ہاؤس کی جانب احتجاجی مارچ بھی کیا لیکن وہاں خواتین اساتذہ سمیت ان پر بدترین تشدد کیا گیا اور گرفتاریاں کی گئی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اس تشدد کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور اساتذہ کے مطالبات کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتا ہے۔ اس سلسلے میں سندھ کے گورنمنٹ ٹیچرز کی یونین نے بھی کراچی پریس کلب پر لگے ان کے احتجاجی کیمپ میں آکر حمایت اور یکجہتی کا اعلان کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ درست سمت میں ایک شاندار قدم ہے کیونکہ سرکاری اساتذہ ہی اس وقت نکالے گئے ECE ٹیچرز کی وہ طاقت بن سکتے ہیں جن کے ذریعے حکمرانوں اور محکمہ تعلیم کے افسران پر مطالبات کی منظوری کے لیے دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔