|تحریر: فارس راج|
موجودہ عالمی صورتحال کے پس منظر میں کئی بڑے اور چھوٹے واقعات کے تانے بانے جڑے ہیں۔ یہ بات اب بآسانی سمجھی جا سکتی ہے کہ موجودہ عالمی صورت حال کی واحد مشترک بنیاد عالمی معیشت ہے اور عالمی معیشت تاریخی طور پر اپنے نامیاتی اور2008ء سے مسلسل مالیاتی بحران سے دوچار ہے۔ بریگزٹ ہو یا ٹرمپ کا الیکشن جیتنا، یا پھراردوان اور مودی ایسے غنڈوں کا اقتدار پر آنا ہو، درحقیقت یہ سب کچھ ایک متروک عہد اور نظام کی عکاسی کر رہا ہے۔ البتہ صورت حال کا حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے اس صورتِ حال کوقبول کرنے سے انکار کر دیاہے۔
اس تناظر میں پاکستان جیسی پسماندہ ریاستوں کے بحران میں اضافہ ایک منطقی سی بات لگتی ہے۔ موجودہ عالمی معاشی بحران کے باعث ان ریاستوں کے معاشی، سیاسی اورثقافتی بحران میں مزید شدت آ گئی ہے۔ اس صورتِ حال کو پاکستان کی سطح پر دیکھا جائے تو دوقومی نظریے کی بنیاد پر بننے والی اس ریاست سے محنت کشوں کے طبقاتی مفادات کے تحفظ کی توقع رکھنا ہی غلط ہے مگر آ ج یہ ریاست ایک ایسی صورتِ حال سے دوچار ہے جہاں وہ اپنے وضع کردہ مفادات سے بھی متصادم ہو چکی ہے۔
تزویراتی گہرائی کے نام پر یہاں دہائیوں تک جہادی فصل کی نمو کی گئی جس کے نتیجے میں وحشی درندوں کی پیداوار کاحجم اس حد تک بڑھ گیا جس کی کھپت کے لیے افغانستان اور کشمیر کی جہادی منڈی ناکافی ثابت ہوئی۔ بدلتے عالمی حالات کی وجہ سے بھی مندی کے رجحان میں مزید اضافہ ہوا، جس نے قدرتی طور پر ان وحشی درندوں میں اس احساس کو جنم دیا کہ ان کے غیرملکی اور ملکی آقاؤں کے پاس انہیں دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس مشکل کا حل تحفظاتی پالیسی کا اجرا کرتے ہوئے کیاگیا جس کے مظاہر گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے اس ملک کے طول وعرض میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دیگر وارداتوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب تک ساٹھ ہزار سے زائد نفوس اس دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اوریہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
2013ء میں مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو ریاست نے آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا( اب ردالفساد کو بھی لانچ کیا جا چکا ہے)۔ کچھ ہی عرصے بعد قوم کو دہشت گردوں کی کمر توڑ دینے کی نوید سنادی گئی، اگرچہ یہ بات درست ہے کہ وقتی طور پر دہشت گرد کارروائیوں کی مقدارمیں قدرے کمی واقع ہوئی مگر ان ٹوٹی کمر والے دہشت گردوں نے بھی بارہا تباہی و بربادی پھیلانے کی صلاحیت کو مضبوط کمر والے دہشت گردوں سے زیادہ ثابت کیا ہے۔ دہشت گردی کے متعلق بنیادی نوعیت کے سوالات کا جواب دینے سے ریاست پہلے کی طرح اب بھی قاصر ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ انتشار ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا جا رہا ہے مگر انتشارکیوں ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں اس پر کبھی بات نہیں کی جاتی، یہ سب کچھ جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے کیوں کہ ان سوالات کے سرے پھر ریاست تک جا پہنچتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ریاست کی معاشی دہشت گردی کو بے نقاب کرتے ہیں، جس کی شکل زیادہ بھیانک اور خوفناک ہے۔ دہشت گردی کی بنیادی نرسریاں ملک بھر میں پھیلے رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مدارس ہیں جن کی فنڈنگ کھلے عام ابھی بھی جاری ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف ایک ناٹک ہے اور وہ اس پورے کھیل کو بھی اپنے طبقاتی استحصال کو جاری و ساری رکھنے کے لیے استعمال کر رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں پر اچھے اور برے دہشت گردوں کی لایعنی تکرار سنتے رہتے ہیں۔ اس لیے دہشت گردی سے چھٹکارے کے لیے نام نہاد امن کے نعرے کے خلاف ہم طبقاتی جنگ کانعرہ بلند کرتے ہیں یہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے سے دہشت گردی کی ہر قسم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کیا جا سکتا ہے۔
معاشی صورت حال پربات کی جائے تو حقیقت حکمرانوں کے بلند و بانگ دعوؤں سے متضاد ہے۔ سامراجی اطاعت اورکاسہ لیسی پر مبنی کردار کی حامل یہ ریاست اپنے تین پڑوسی ملکوں بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات کو معتدل بنانے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے اس خطے کی منڈی میں اسکا اثرورسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بات رسمی منطق کے تحت بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ ان ممالک کے ساتھ تجارت میں اضافے سے بڑے پیمانے پر امپورٹ بل میں کمی کی جا سکتی ہے جو اس وقت پاکستان کے ریکارڈ تجارتی خسارے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ دوسری طرف ’’پاک چین اقتصادی راہداری‘‘ کے متعلق حکمران طبقے کی جانب سے جو توقعات وابستہ کی جارہی تھیں اور کی جارہی ہیں اب ان کے حوالے سے خود ریاستی ایوانوں میں شکوک و شبہات سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ مقامی صنعت کاروں کی اکثریت بھی اس سے پریشان اورنالاں نظر آتی ہے البتہ چوٹی کے سرمایہ کار ابھی سے اس منصوبے میں اپنی ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوششیں شروع کر چکے ہیں۔ اب تو ریاست کے ترجمان سنجیدہ ذرائع ابلاغ بھی سی پیک کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ایسے میں یہ کہنا کتنا مضحکہ خیز ہوگا کہ سی پیک بلوچستان کی پسماندگی ختم کر دے گا۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا اس صورت حال پر موقف کافی حقیقت پسندانہ ہے۔ اس کے مطابق سی پیک سے بلوچستان میں روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے مگرصرف پنکچر لگانے کا ہی روزگار ہو گا۔ ۔ ۔ کیایہ طنز ہے؟ مگر کتنا سنگین ہے یہ۔ ۔ ۔ زراعت کا شعبہ بھی روبہ زوال ہے، اسٹیٹ بینک کی گزشتہ سہ ماہی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں زرعی شعبے کی کارکردگی گزشتہ پندرہ سالوں میں سب سے کم تر رہی ہے۔ مہنگائی اورغربت میں اضافہ ہوا ہے اور عام آدمی کے لیے روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔
درج بالا صورت حال کو پیش نظر رکھ کر ملک پر حاوی موجودہ سیاست کا تجزیہ کیا جائے توہمیں یہ لوگ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نظر آتے ہیں جن کا یہاں پر بسنے والے کروڑوں لوگوں کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آخری تجزیے میں موجودہ سیاست کا مقصد کروڑوں لوگوں کاطبقاتی استحصال کرناہی ہے، اور اس ایک نقطے پر یہ سب لوگ ایک پیج پر ہیں۔ ان کے درمیان اختلافات ان کروڑوں لوگوں پر اثرورسوخ حاصل کرنے کے لیے ہیں، اور اس مقصد کے لیے یہ ایک دوسرے پر بازی لے جانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے جو زیادہ اثرورسوخ حاصل کرتا ہے وہ ملکی اور غیر ملکی آقاؤں سے اپنے لیے زیادہ حصہ طلب کرتا ہے۔ مشہور کالم نگار وسعت اللہ خان کے لہجے میں بات کو سمیٹا جائے ’’تو پس ثابت ہوا کہ لڑائی حصے داری کی ہے‘‘۔ مگر سرمایہ داری کے تحت حصہ لینے کی بنیادی شرط انسانی قدروں اوراحساس سے چھٹکارا پانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ مذہب، قوم، فرقہ واریت، صوبائیت اور رنگ ونسل کے تعصبات ابھار کر محنت کش طبقے کو تقسیم کرتے ہیں، اور ایسا کراہت آمیز عمل زندہ انسانی احساس کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا۔
مثال کے طور پر ’آپ سندھ میں کچھ نہیں کر سکے، آپ خیبر پختونخواہ میں کچھ نہیں کر سکے۔ یہ ن لیگ کے اس دور حکومت کا من پسند مؤقف ہے۔ دوسری طرف صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے تمام تر مسائل کی ذمے داری وفاق پر ڈال دی جاتی ہے۔
سندھ کے نئے وزیر اعلی کے آنے سے بھی بالعموم سندھ اور بالخصوص کراچی کے مسائل کے حوالے سے کوئی واضح پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی جس کی وجہ سے’’ شہربے اماں ‘‘کا احساس محرومی بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ دیہی سندھ کے مسائل کا اندازہ کراچی پریس کلب اور جناح اسپتال میں آنے والے مظاہرین اور مریضوں کی تعداد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ مگر ’’شہر بے اماں‘‘ کا مسئلہ اس لیے زیادہ سنگین ہے کہ ا سے درپیش مسائل اور چیلنجز کا ادراک بھی نہیں کیا جا رہا۔
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان اختلافات آنے والے دنوں میں 2018ء کے الیکشن کے پیش نظر مزید بڑھیں گے، یہ محض پوائنٹ اسکورنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سندھ حکومت نے اس وقت کراچی شہر کی سڑکوں کو بہتر بنانے کے لیے توجہ مرکوز کی ہوئی ہے مگر پبلک ٹرانسپورٹ کا معیار گرتا جا رہا ہے، بڑی بسوں کی قلت ہوتی جارہی ہے اور رکشوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے ٹریفک جام کا مسئلہ مزید شدت اختیار کرتا جارہاہے۔ اس سے سندھ حکومت کی سطحی کاوشوں کا اندازہ کیا جاسکتاہے۔ میرے احساس میں اس شہر کی سطح کے نیچے پنپتی تحریک کے بنیادی مطالبات میں سڑکوں کا مطالبہ ہے ہی نہیں۔ ممکنہ تحریک پانی، بجلی، گیس اور روزگار کے بنیادی مطالبات پر مبنی ہو گی۔ سندھ حکومت کی جانب سے پانی کی فراہمی کے لیےK-4منصوبے کی جلد تکمیل کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے، اگرچہ اس کی تکمیل کے حوالے سے ابھی تک شکوک و شبہات موجود ہیں لیکن اگر یہ مکمل بھی ہوجاتا ہے تب بھی پانی کا مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ کیوں کہ جس وقت یہ منصوبہ بنایا گیا تھا اس وقت سے لے آج تک شہر کی آبادی اور حجم میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ جبکہ بحریہ ٹاؤن کے نام سے ’نیا کراچی‘ بنانے کے منصوبے کے لیے ’پرانے‘ کراچی کا آدھا پانی کاٹ دیا گیا ہے۔
اپریل میں ہی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہونا شروع ہو چکا ہے جو موسم گرما کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ’’شہر بے اماں‘‘ کو لوڈ شیڈنگ سپلائی کرنے والی کے الیکٹرک بلوں میں بے تحاشا اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ جن کی ادائیگی کراچی کے محنت کشوں کی جیب پر بھاری پڑتی جا رہی ہے۔ اس صورت حال میں محنت کشوں اور نوجوانوں میں کے الیکٹرک کے خلاف غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے جسے زائل کرنے کے لیے عوام دشمن اور حکمرانوں کی دلال جماعت اسلامی کی جانب سے شہر میں کے الیکٹرک کے خلاف ناٹک کھیلا جا رہاہے۔ کراچی کے محنت کش اور نوجوان جماعت اسلامی کے حقیقی بکاؤ کردار کو جانتے ہیں اور اس لیے ان کے اس ناٹک کو میڈیا میں بھرپور کوریج دینے کے باوجود کوئی حمایت نہیں مل سکی۔ بجلی کے بحران کے ساتھ ساتھ شہر کے کئی علاقوں میں گیس کا بحران بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونا تو درکنار عالمی اور ملکی منڈی میں شدید مقابلے بازی کی وجہ سے ملکی صنعت کے کئی یونٹس بند کیے جا رہے ہیں۔ گل احمد ٹیکسٹائل جیسے بڑے صنعت کار گروپ نے بھی اپنے چند یونٹس بند کر دیے ہیں۔ اس سے صورت حال کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو رہاہے۔
ریاستی اداروں کی سرپرستی میں پاک سرزمین پارٹی بھی کراچی پریس کلب پردھرنوں کا ڈرامہ رچائے رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ شہر کے دیگر علاقوں اور حیدرآباد میں بھی یہ کرائے کے ڈرامے کیے جا رہے ہیں۔ پی ایس پی تمام تر ریاستی آشیر باد کے باوجود کسی قسم کی کوئی بنیادیں حاصل نہیں کر پائی۔ اس ایکٹوازم کو سمجھنے کے لیے ہمیں پی ایس پی کی لانچنگ کے بعد اب تک کی صورتِ حال کا مختصر تجزیہ کرنا ہو گا۔ ہر پندرہ، بیس دن کے بعد ایم کیوایم پاکستان یا لندن کا کوئی ایم این اے، ایم پی اے یاکوئی سرکردہ رہنما پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرتا ہے۔ جس کے بعد پریس کانفرنس کی جاتی ہے شامل ہونے والوں کو مبارکبادیں دی جاتی ہیں اور لوگوں کومزید وکٹیں گرنے کی خبر سنا دی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار پر غور کیا جائے تو یہ بالائی حلقوں کی کارستانی لگتی ہے۔ کیوں کہ پارٹی میں نیچے سے لوگ شامل نہیں ہو رہے اس لیے پارٹی کو میڈیا کے ذریعے زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، اور چند دنوں بعد کسی ایم پی اے وغیرہ کی شمولیت سے میڈیا کو بھی چارہ ملتا رہتا ہے۔ تاہم اگر صورت حال میں زیادہ بڑی تبدیلیاں رونما نہیں ہوتیں تو 2018ء کے الیکشن میں پارٹی ’ریاستی چھتری‘ تلے اپنی موجودگی کا تھوڑا بہت احساس ضرور دلاسکتی ہے۔
دوسری طرف ایم کیو ایم کا بحران بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ماضی میں شہر کے درمیانے طبقے میں مضبوط سماجی بنیادیں رکھنے والی پارٹی کی اس وقت بچی کھچی سماجی حمایت بھی ختم چکی ہے، مائنس ون فارمولے نے اس صورت حال کو مزید مہمیز دی ہے۔ ایم کیو ایم لندن اور فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم پاکستان اس وقت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر گامزن نظر آتی ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم لندن کے مقابلے میں ایم کیو ایم پاکستان پر دباؤ کم ہے۔ مئیر کراچی کی جانب سے لوٹ مار میں حصے اوراختیارات نہ ملنے کی لڑائی بھی زیادہ توجہ حاصل کرتی نظر نہیں آتی۔ مگر ایک انقلابی قیادت کے فقدان کے باعث سیاسی افق پر نظر آنے والی ان تمام پارٹیوں کوان کے حقیقی مقام کوڑے دان تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
ماضی قریب میں اے این پی کے سرخ جھنڈے شہر کے مخصوص حصوں میں لہراتے نظر آتے تھے۔ کراچی میں اے این پی کی بنیادیں جہاں ایک طرف پیپلز پارٹی کی مفاہمتی پالیسی کے مرہونِ منت تھیں تو دوسری طرف ریاست کی ایم کیوایم کے دائرہِ اثر کو محدود کرنے کی پالیسی کا شاخسانہ تھیں۔ مگر اے این پی نے اس وقت کو پارٹی کی نظریاتی تعمیر اور تنظیم سازی کے لیے استعمال کرنے کے بجائے تاریخی لوٹ مار کے لیے استعمال کیا جس کے باعث آج اے این پی کے اثر و رسوخ والے علاقوں میں مذہبی انتہا پسندتنظیمیں اپنی بنیادیں قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ پشتون قوم پرستی کی نظریاتی زوال پذیری کا ایک اظہار مشال خان قتل کے موقعے پر بھی دیکھنے میںآیا ہے۔ جہاں پشتون ایس ایف نے جمعیت کے غنڈوں کے ساتھ مل کر مشال خان کا قتل کیا ہے۔
مگر سندھ حکومت پر براجمان پیپلز پارٹی محنت کشوں کو روزگار اور روٹی‘ کپڑا اور مکان دینے کی بجائے چھیننے کی پالیسی پر گامزن ہے اور عوام کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ رینجرز اختیارات کی توسیع کا بنا کر پیش کیا جا رہاہے۔ زرداری اس کارڈ کو کھیل کر پارٹی کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ ساکھ کو بحال کرنے کے لیے منافقانہ کوششیں کرتانظر آتاہے ساتھ ہی وہ اس کے ذریعے سندھی قوم پرستانہ جذبات کو بھی ابھارنے کی کوشش کر رہا ہے۔ رینجرز ہو یا فوج اور عدالتیں، پیپلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم ‘تحریک انصاف اور ن لیگ سب اپنے حصے کی لوٹ مار میں حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کر رہے ہیں اور محنت کش عوام سے ان کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ جمہوریت ہو یا آمریت دونوں طریقوں سے ہی اس سرمایہ دارانہ نظام کو جاری رکھا جاتا ہے جس کا مقصد محنت کشوں کے استحصال کو جاری رکھنا ہے۔ فوجی جرنیلوں اور سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کی لوٹ مار اور قبضوں کی لڑائی میں محنت کش عوام کے خون سے ہی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ سندھ کے لوگوں کی ابترحالت زار کی براہ راست ذمہ داری پیپلزپارٹی اور ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ اس لیے اگر رینجرز واپس بھی چلی جائے تو بھی کراچی کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے دل ودماغ میں پیپلز پارٹی کے لیے کسی نرم گوشے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔
اسٹیل ملز کے حالیہ ریفرنڈم میں پیپلز پارٹی کی یونین کو تحریک انصاف کی یونین کے ہاتھوں تاریخی شکست ہوئی ہے۔ اس کی وجہ تحریک انصاف کی حمایت نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی قیادت اور اس کے ٹریڈ یونین لیڈروں اور عہدیداروں سے محنت کشوں کی شدید نفرت ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف شہر کی سیاست میں اپنی ابتدا سے لے کر اب تک واجبی سا کردار ادا کر رہی ہے۔ جبکہ پیپلز ورکرز یونین اسٹیل مل کا لیڈرشمشاد قریشی کراچی کی مزدور تحریک میں کرپشن اور لوٹ مار کا ایک استعارہ بن چکا ہے جس سے بجا طور پر زرداری کی کرپشن کے تسلسل سے ہی تعبیر کیا جا رہا ہے۔ اس صورت حال میں پیپلز پارٹی کی طرف سے آئندہ الیکشن میں کراچی سے بہتر پرفارم کرنے کی امیدیں شرمندہ تعبیر ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اہم بات یہ ہے کہ بہت سے سیاسی بیروزگاروں نے نہ صرف کراچی بلکہ سارے سندھ کی سیاسی صورتحال کودانستہ طور پر جامد سمجھنا اور سمجھانا شروع کر دیا تھا۔ بہت سے حلقے یہ تسلیم تو کرتے تھے کہ پیپلز پارٹی نے لوٹ مار کی انتہا کر دی ہے مگر ہر بار یہ دلیل دے کر’’کہ ابھی پارٹی کے علاوہ کوئی متبادل بھی تو نہیں‘، ’ سندھ ابھی بھی پیپلز پارٹی کا ہی ہے‘، پارٹی کے ’روشن‘ مستقبل کا عندیہ دے دیتے تھے۔ اس ضمن میں سب سے بڑی دلیل پھر پاکستان اسٹیل کی دی جاتی تھی کہ شمشاد قریشی جیسے مکروہ انسان کا بھی کوئی نعم البدل نہیں۔ لیکن اس شکست کے بعد کیا یہ نام نہاد دانشوراپنے تناظرپر نظرثانی کرنے کی زحمت گوارا کریں گے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستاں اسٹیل کے محنت کش عمران خان کی والہانہ محبت میں گرفتار نہیں ہوئے ہیں بلکہ ان کی پیپلز پارٹی سے نفرت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ اس تناظر میں’’شہربے اماں‘‘ کے، سندھ کے اور ملک بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے سامنے اپنے مسائل سے نجات کے نئے اوزار تراشنے کا سوال زیادہ شدت کے ساتھ آ کھڑا ہوا ہے۔ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مارکس اور اینگلز کے دور میں تاریخ اور فلسفے پر بحثیں بہت زوروں پر تھیں۔ اور ظاہر ہے ان پر بہت سا وقت بھی صرف ہوتا تھا۔ وقت کے عالموں نے صدیوں سے عظیم دماغوں کو اپنی جکڑ میں لینے والے تاریخ اور فلسفے کے مسائل کو دو جملوں میں سمیٹ کر پیش کیا۔ ’’آج تک کی معلوم تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے‘‘۔ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ کل انسانی تاریخ کو مکمل تروتازگی کے ساتھ سمجھنے اور سمجھانے کا واحدطریقہ کار بھی ہے۔ ورنہ تاریخ مختلف عہدوں، بحرانوں، جنگوں، فتوحات و شکستوں کے قصے کہانیوں، فن پاروں، نظریوں، شخصیتوں، سپہ سالاروں اور وغیرہ وغیرہ کا ایک ایسا ڈھیر ہے جو اٹھائے نہ اٹھے۔ مارکس اور اینگلز نے فلسفے کو بھی حقیقی زندگی کی جدوجہد میں کردار ادا کرنے کی راہ دکھائی اور کہا کہ’’فلسفیوں نے آج تک دنیا کی تشریح کی ہے مگر مسئلہ دنیا کو بدلنے کا ہے‘‘۔ اس تناظر میں پاکستان کے مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں اور طالب علموں کوجلد اس نتیجے پر پہنچیں گیکہ وقت اور عہد نے ان کے کندھوں پر اہم ذمہ داریاں ڈا ل دی ہیں تاکہ پرانی بوسیدہ اور خون اور ذلت سے اٹی دنیا کا خاتمہ کر کے ایک نئی ترو تازہ اور استحصال سے پاک دنیا تعمیر کی جائے۔ اس دنیاکی تعمیر کے لیے مارکسی نظریات ہی وہ اوزار ہیں جو دنیا بھر کے محنت کشوں کو کل انسانی تاریخ کے احساس کو اپنے اندر جذب کرتے ہوئے مکمل دیانت داری کے ساتھ اور اعتماد کے ساتھ یہ پیغام دیتے ہیں کہ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!‘‘