|تحریر: صبغت وائیں|
آرٹ پر بہت سی باتیں ہو چکی ہیں اور بہت سی بحثیں کرنے والی ہیں۔ جب تک استحصال موجود ہے۔ حکمران طبقے کے چیزوں کو الجھانے کے ہتھکنڈے باقی ہیں سوال موجود ہیں، اور موجود رہیں گے۔ خواہ ان کے تنخواہ دار دانش فروش، سائنس پرست اور فکری سوداگر ماہرین کا سوانگ بھر کر ہمیں ہر روز یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہیں کہ یہ استحصال، یہ جبر، یہ مادے اور شعور کی بحثیں، یہ انسان دوستی اور انقلاب وغیرہ اب پرانے الفاظ ہیں۔ اب نیا دور ہے اور نئی بحثیں ہیں۔ آپ والا مارکسزم اب ’’کلاسیکی مارکسزم‘‘ ہے اور ’’یہ ولگر ہو چکا ہے‘‘ وغیرہ۔۔۔ اب مارکسزم کی ’’نئی تعبیریں‘‘ ہو رہی ہیں اور ’’نئی تشریحیں‘‘ ہیں۔ ’’اب وقت آ چکا ہے کہ مارکسزم کو نئے پیرائے میں دیکھا جائے اور نئے زمانے کے مطابق اس کے نئے معنی اخذ کئے جائیں‘‘ وغیرہ۔۔۔
اس طرح کی باتیں بڑی جدید اور سائنسی ہی لگتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی اس پر ایک دو منٹ کا غور اسی تحریر کی روشنی میں کرے تو اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں ہے کہ یہ اسی کانٹ کے غبارے میں ہی نئی پھونک بھری جا رہی ہے۔ کہ مارکسزم، استحصال اور انقلاب محض الفاظ تھے اور ان کے معنے وہ تھے جو پرانے لوگوں کے نزدیک کچھ اور تھے اور اب چونکہ دور نیا آچکا ہے اس لئے ان کو نئے معنے دینے ہوں گے۔ اور اصل چیز وہ بات نہیں ہوتی جو کہ کی گئی ہو بلکہ وہ معنے ہیں جو بات کو سننے والا اسے بخشتا ہے۔ یعنی بات سننے والا بات کو نہیں بلکہ اپنے ذہن میں موجود ان الفاظ کے معنوں کو جان رہا ہوتا ہے۔
ان سے پوچھا جائے کیا استحصال ختم ہو چکا ہے؟ کیا انسان خوش حال ہو چکا ہے؟ ان سے یہ پوچھیں گے تو یہ ہمیں سویڈن اور سوئٹزرلینڈ لے جائیں گے کہ دیکھو انسان کتنا خوشحال ہے۔ یہاں لوگ مذہبی ہیں اسی لئے یہاں خوشحالی نہیں پہنچ سکی اور اسی طرح کی لاف گزاف۔ جہاں تک ہماری بات پہنچ چکی تھی وہاں آرٹ کا ذکر آیا تھا۔ اب یہاں آرٹ پر تفصیلی گفتگو تو درست نہیں ہو گی صرف ایک آدھ اشارہ ضروری سمجھتا ہوں۔
کون ہے جس نے ان جدیدیت گزیدہ لوگوں کے چند رٹے ہوئے اس طرح کے فقرے نہیں سنے کہ زبان ارتقاء کرتی ہے، اور الفاظ کچھ عرصے بعد نہ صرف یہ کہ اپنے معنی کھو بیٹھتے ہیں بلکہ اپنے سے مختلف یا کئی بار بالکل الٹ معنی دیتے ہیں۔ اس طرح پرانی تحریروں کے معنی کو سمجھنا ناممکن ہے۔ یا اس طرح کہ الفاظ کے اپنے معنی ہوتے ہیں جو کہ انہی کے ساتھ ہیں۔ تحریر کو سمجھنے کے لئے ہم الفاظ کے کلچرل استعمالات کو دیکھتے ہیں اور انہی کو جانتے ہیں۔ اب ان الفاظ کے کلچرل استعمالات کو ہم شاعر یا ادیب کے ذہن میں پہنچ کر تو نہیں جان سکتے؟
یہ بات کتنی ہی اچھی اور سائنسی کیوں نہ لگے الفاظ کے کلچرل اور روایاتی استعمالات کو ہم اپنے ذہن ہی سے جانیں گے۔ اور اس بات کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ ہم جن اصولوں کے تحت تحریر کو ’’جاننے‘‘ کا کہتے ہیں وہ درحقیقت ہمارے اپنے ذہن میں موجود اصول ہیں جو کو ہم جان رہے ہیں یا جن کو جاننا چاہئے۔ غور کریں یہ بات بھی کانٹ سے آگے کی نہیں ہے۔
ہم ارسطو کی ایک بات کو لیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اگر کسی المیے میں کسی ٹکڑے کو نکال دیا جائے یا اس کی جگہ تبدیل کر دی جائے تو اس کی تفہیم ناممکن ہو گی۔ اگر وہ المیہ واقعی ایک آرٹ پیس ہو تو۔ ارسطو نے جن بے شمار المیوں کی بات کی ہے ان میں سے ایک ’’ایڈی پس ریکس‘‘ از سوفوکلیز ابھی تک موجود ہے۔ ارسطو نے اسے شاندار مانا ہے۔ ارسطو اس المیے پر جو باتیں کرتا ہے وہ سمجھ میں آتی ہیں۔ اور یہ المیہ بھی سمجھ میں آتا ہے۔ المیہ نہ صرف یونانی زبان میں بلکہ دنیا کی ہر زبان میں سمجھ میں آتا ہے اور دنیا کے ہر شخص کو اس کے وہی مطالب سمجھ میں آتے ہیں جو کہ دوسری زبانوں والوں کو آتے ہیں۔ کم از کم اس کا یہ تھیم، کہ پدرسری سماج قائم ہو چکا ہے اور سب سے بڑا گناہ مرد کے یعنی باپ کے حق کے خلاف ہے۔ سب سے بڑا حق زندگی کا حق ہے اور ملکیت کا حق ہے۔ ملکیت میں اس کی ملک میں موجود دولت اور اس کی بیوی ہے۔ ایڈی پس کے گناہ بدترین ہیں کیوں کہ اس نے باپ کی زندگی لی۔ اس کی ملک بادشاہت پر قابض ہوا۔ اور اس کی ملک اس کی بیوی سے شادی کی۔
کون ہے جو ان نتائج سے انکار کرتا ہے؟ الفاظ چاہے کچھ بھی ہوں۔ کتنے زمانوں میں کتنی بار بھی تبدیل ہوئے ہوں نتیجہ یہی ہے۔ اگر ایڈی پس ڈرامے کے مطالب تبدیل ہوئے ہوں۔ ارسطو کے مطابق تو ایک آدھ پیرے کے مطالب بھی اگر تبدیل ہو گئے ہوتے تو بات کو سمجھنا ناممکن تھا کیوں کہ ٹریجڈی کی مربوطیت یا اس کا ایک کْلیت یا وحدت ہونا اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ اس میں سے چیزوں کے معنی تبدیل ہو جائیں اور وہ نہ صرف یہ کہ وہی معنی دے جو دوہزار سال پہلے ارسطو بتاتا ہے (جیسے ارسطو ہومرؔ کی ایپک ’’اوڈیسی‘‘ کا خلاصہ بھی دو تین لائینوں میں بیان کرتا ہے جو ہو بہو ابھی تک وہی ہے) بلکہ پڑھنے والے کو مزہ بھی دے اور پڑھنے والے کو اسی جیسے جذبات کا تجربہ بھی دے جو کہ دو ہزار سے زیادہ اوپر سال پہلے ارسطو بتا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کیوں کہ الفاظ اپنے معنے کھو بیٹھے۔ اس لئے چند سال بعد کا کوئی بندہ جب اوڈیسی کو یا ایڈی پس کو پڑھتا تو اسے سمجھ ہی کچھ نہ آتی۔ کیوں کہ یہ چیزیں اس خوبصورتی سے بْنی گئی ہیں کہ اوڈیسی میں سے کچھ چیزوں کی سمجھ نہ آئے تو کسی بات کی سمجھ نہیں آ سکتی۔ کیوں کہ ہومرؔ نے چھبیس سال کے سفر کو بیان کیا ہی نہیں۔ وہ آخر سے بات شروع کرتا ہے جہاں اوڈیسئس اپنے وطن پہنچتا ہے اور صرف انتہائی اہم یا خاص خاص واقعات ایکشن کی صورت بتاتا چلا جاتا ہے۔
مختصر یہ کہ اگر معنے تحریر میں موجود نہیں اور ہم اپنے اندر سے معنے دیتے تو ایک ہی تحریر کو پڑھ کر دو کمنٹیٹر مختلف جگہوں پر اور مختلف وقتوں میں ایک جیسی رائے کیسے دیتے؟ اور اوڈیسی میں ہمیں بعینہ وہی چیزیں کیسے نظر آتیں جو ارسطو ہمیں بتا گیا ہے؟ آرٹ پر بہت سی باتیں ہو سکتی ہیں اور ہوں گی۔ کیوں کہ اس تحریر کے خاتمے سے بحث تھوڑی ختم ہو جائے گی۔
بہت سے لوگوں کے بہت سے مسائل ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے اپنے طور کانٹ کو مانتے بھی ہی اور دبے لفظوں یا کھْلے لفظوں یہ بھی کہتے پائے جا رہے ہیں کہ انہیں موضوعی عینیت پرست نہ کہا جائے وہ تو لا ادری ’’اگنوسٹک‘‘ ہیں۔ یعنی یہ کہ یہ ایک تیسرا فلسفہ ہے۔ جیسے آج کے وہ ’’مارکسسٹ‘‘ جو ہمیں کلاسیکل مارکسسٹ کہتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اب اس مابعد جدید یا پوسٹ ماڈرنسٹ دور کی نئی تعبیریں صلح جوئی اور امن کی تعبیریں ہیں۔ اب پرولتاری اور بورژوا کی اصطلاحات دقیانوسی ہو گئی ہیں اب تو ملازمین کو ہم ’’انٹرنل کسٹمر‘‘ کہتے ہیں اس کو عزت دیتے ہیں۔ اب مغربی معاشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے بین بین ’’لبرل جمہوریت‘‘ کا دور ہے جو کہ دونوں کی ’’درمیانی راہ‘‘ ہے۔۔۔ وغیرہ۔۔۔ اس پر بھی بحث کہاں ختم ہوئی؟ ہم تو یہاں بیان دے کر آگے بڑھ جاتے ہیں بحثیں موجود ہیں کرتے رہیں گے۔ بیان یہ ہے کہ جدلیاتی مادیت کے بعد کسی تیسرے فلسفے کا وجود نہیں ہے۔ یا جدلیاتی مادیت ہے یا موضوعی عینیت۔ بس۔ اسی طرح یا تو سرمایہ دارانہ نظام ہے یا پھر اس کے خاتمے کا اعلان کرتا مارکسزم ابھی تک تیسرے کسی نظام کے بارے میں کوئی کچھ نہیں بتا سکا۔
اسی طرح کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مادے کو تسلیم کرتے ہیں۔ سائنس والے مادے کو تسلیم کرتے ہیں اسی پر کام کرتے ہیں تو وہ ’’موضوعی عینیت پرست‘‘ کیسے ہو گئے؟
مادے کو توکانٹ بھی مانتا ہے۔ لیکن جب وہ کہتا ہے کہ ہم جانتے صرف ’’اپنے‘‘ ذہن کے اصولوں کو ہیں تو مادے کا ہونا، نہ ہونا برابر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سے سائنس پرستوں کی بات کو سوچیں۔ جب آپ خود سے باہر آ کر صرف اور صرف تجربات کے نتیجوں تک خود کو محدود کر لیں گے، اور نتائج ہر بار مختلف ہوں گے تو چیزوں کو جانا تو نہ گیا؟ اور جب جانا نہیں گیا تو چیزیں الگ ہیں ہم انسان الگ۔ تو ہم جو جانتے ہیں وہ کیا ہے؟ وہ صرف وہی کچھ ہے جو ہمارے اپنے ذہن کے اصول ہیں! اور ہمارے اپنے ذہن کے اصول وہی ہیں جو قدرت نے ایک ترتیب کے ساتھ ہمارے ذہن میں رکھ چھوڑے ہیں۔ اس طرح سے بات پھر وہیں کانٹ تک ہی جا پہنچتی ہے۔ ہم تھوڑا سا آگے چل کر فلسفے کی نظر سے کانٹ کی غلطی پر ایک اشارہ کرتے ہیں کیوں کہ لمبی بات کا موقع نہیں ہے۔
ہمارے جوشیلے جیالے مادیت پسند، سائنس پرست اور بہت سی صورتوں میں ابتدائی قسم کے سوشلسٹ جوش جذبات میں خیال پرستی یا عینیت پرستی کی مخالفت میں کچھ آگے نکل کر خیال کو ماننے سے انکار کی غلطی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ کچھ سائنس پرست یہ کہتے ہیں کہ جو تجربے سے ثابت ہو گا ہم تو وہی مانیں گے۔ کیوں کہ ہم تو سائنس کو مانتے ہیں۔ جب ہم ان سے بحث کرتے ہیں اور سائنس اور فلسفے دونوں کی بات کرتے ہیں تو وہ ہمیں دقیانوسی قرار دے کر ہماری بات سننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم پر سوال داغتے چلے جاتے ہیں اور ان کا جواب پڑھنے سے انکار کرتے ہیں کہ کہیں ہمارے ’’دقیانوسی‘‘ جواب ان کو گمراہ نہ کر دیں۔
یہ ہر طرح کی سوچ کی بات کو خیال پرستی ہی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ہماری اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ جدلیاتی مادیت خیال کو اور مادے کو دونوں کو تسلیم کرتی ہے۔ ہم بار بار کہتے ہیں کہ ہم فطرتی سائنسوں کو اور سماجی سائنسوں کو بطور راہنما مانتے ہیں۔ ہم صرف ان سائنسوں کو رد کرتے ہیں جو کہ ظاہر تک محدود رہتی ہیں۔ جیسا کہ ہم نے جانا ہے صرف سوچ میں رہ جانا تو ہمیں موضوعی عینیت پرست بنا دیتا ہی ہے جس کا آخری نتیجہ ایک طرف تو ہمہ انانیت کی صورت ہو گا کہ میرے علاوہ کچھ اور نہیں ہے، دوسرے کسی یا کئی ان دیکھی ہستیوں کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی صورت ہی ہو گی لیکن اس کے الٹ صرف اور صرف مادے میں کھو جانا اور صرف سائنس کے نتیجوں یا مادی تجربات کو تسلیم کرنے کا نتیجہ بھی ہمیں اسی لاادریت، ہمہ انانیت اور تیسرے نتیجے ہی کی طرف لے جاتا ہے۔
آج نیچرل سائنس کی تمام تھیوری سوچ میں اور سوچ سے ہی ممکن ہے۔ آج سائنس کا تمام تھیوریٹیکل کام لیبارٹری کی بجائے میز کرسی پر یا آرام کرسی پر سوچ کر ہوتا ہے۔ سوچ میں نکلے ہوئے نتیجوں کو کاغذات پر اتارا جاتا ہے اور پھر ان پر تجربات ہوتے ہیں۔ ہیگل کا شئے بالذات یا شئے فی الذات کو ’’شئے اپنے لئے‘‘ سے ’’شئے اپنے اندر اور اپنے لئے‘‘ اور پھر ’’شئے ہمارے لئے‘‘ قرار دینا ایک ایسا عظیم الشان انقلاب تھا کہ نیچرل سائنس آج تک اسی کی تصدیق کرتی ہے۔ کہ ہم چیزوں کو سمجھتے ہیں اور ان پر اسی لئے قابو پاتے ہیں اور ان کو استعمال کرتے ہیں۔ مارکس اور اینگلز نے ان کو عمل سے جوڑا ہے کہ ہم چیزوں کو عمل کرنے کی وجہ سے تبدیل کرتے ہیں اور تبدیل کرتے ہوئے خود تبدیل ہوتے ہیں یعنی ان کو جان کر ایک درجہ اوپر چلے جاتے ہیں۔
کانٹ کی کتاب ’’تنقید عقل محض‘‘ کا پہلا فقرہ بڑا خوبصورت اور مادیت پسند ’’لگتا ہے‘‘۔ کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر طرح کے علم کی ابتدا تجربے ہی سے ہوتی ہے۔ لیکن اس کے اٹھائے ہوئے انتہائی اہم اور ضروری سوالات انسان کو اس بند گلی میں پہنچا گئے تھے کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ ہیگل نے اور بعد ازاں فیورباخ اور مارکس اینگلز نے اس راستے کو کھولا اور فلسفے اور سائنس کو آگے کی راہ دکھائی۔ سائنس کانٹ کی شئے فی الذات کا بیڑا غرق کر دیتی ہے۔ وہ شئے فی الذات کو لے کر اسے کاٹ دیتی ہے، جلاتی ہے، ابالتی ہے، کوٹتی ہے، پٹختی ہے، چھانتی ہے، پرت پرت کرتی ہے، پیستی ہے، تیزاب کے اور الکلی کے اثرات دے کر دیکھتی ہے، اس کے اجزا کو الگ الگ کر چھوڑتی ہے اور سب سے بڑھ کہ یہ کہ اس میں سے وہ کام کی چیزیں ڈھونڈ نکالتی ہے جس سے وہ ہمارے کام آئے، اس طرح وہ ہیگل کے الفاظ میں شئے فی الذات کی بجائے “شئے ہمارے لئے” ہو جاتی ہے۔
اینگلز کی دو مثالیں دے کر بات ختم کروں گا۔ اسی کا پیرا گراف پڑھ لیں:
’’ان کے علاوہ فلسفیوں کا یک گروہ بھی ہے جو دنیا کے کسی ادراک یا کم از کم جامع ادراک کے امکان پر شک کرتے ہیں۔ ان جدید فلسفیوں میں سے ہیوم اور کانٹ ہیں جنہوں نے فلسفیانہ ارتقا میں اہم رول ادا کیا ہے۔ جہاں تک عینی (Idealist) نقطہ نظر سے ممکن تھا اس خیال کی تردید میں اہم ترین بات ہیگل کہہ چکا ہے۔ اس میں فائر باخ نے جو مادی اضافے کئے ہیں ان میں گہرائی کم اور اپج زیادہ ہے۔ اس کی اور تمام دوسرے فلسفیانہ خبطوں کی انتہائی موثر تردید عمل سے یعنی تجربے اور صنعت سے ہوتی ہے۔ اگر ہم قدرتی عمل کے بارے میں اپنی سوجھ بوجھ کی صحت کو اسے خود کر کے ثابت کر سکیں، اس کو اپنے حالات سے علیحدہ کر کے اور پھر اس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکیں تو اس سے کانٹ کی ناقابل گرفت’’شے بالذات‘‘ ختم ہو جاتی ہے۔ پودوں اورجانوروں کے اجسام میں پیدا ہونے والے کیمیائی مادے اس وقت تک ’’شے بالذات‘‘ رہے جب تک نامیاتی کیمیا نے ان کو یکے بعد دیگرے بنانا شروع نہیں کیا جس کے بعد ’’شے بالذات‘‘ ہمارے لئے شے بن گئی۔ مثلاً مجیٹھ کا رنگنے والا مادہ آلیزرین جو اب ہم کھیتوں میں مجیٹھ اگا کر اس کی جڑوں سے نہیں حاصل کرتے بلکہ اس کو زیادہ سستا اور آسانی سے کوئلے سے بنا لیتے ہیں۔ تین صدیوں تک کوپرنیکس کا نظام شمسی ایک مفروضہ رہا اگرچہ وہ یقین کی اونچی منزل میں تھا لیکن تھا مفروضہ ہی۔ جب لے ورئے نے اس نظام کی مہیا کی ہوئی معلومات کے ذریعے نہ صرف ایک انجانے سیارے کی موجودگی کا نتیجہ اخذ کیا بلکہ اس جگہ کا بھی حساب لگا لیا جو اس سیارے کی لازمی طور سے آسمان پر ہونی چاہئے اور گالے نے جب واقعی اس سیارے کو پا لیا تو کوپرنیکس کا نظام پایہ ثبوت کو پہنچ گیا۔ پھر بھی اگر کانٹ کے جدید پیرو جرمنی میں کانٹ کے نظریے کو اور لا ادریت کے پیرو (Agnostics) انگلستان میں ہیوم کے نظریے کو (جو وہاں دراصل ختم نہیں ہوا تھا) دو بارہ زندہ کرنے کے لئے اس کے باوجود کوشاں ہیں کہ ان دونوں کی نظریاتی اور عملی تردید مدتوں ہوئے کی جا چکی ہے تو یہ سائنسی لحاظ سے رجعت اور عملی لحاظ سے دنیا کے سامنے مادیت سے منکر رہ کر لیکن اس کو شرما حضوری چپکے سے تسلیم کرنا ہے۔‘‘
کانٹ پر بات کو ختم کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اینگلز کی اس بات کی وضاحت میں اپنے الفاظ سے کر دوں۔
اس پیرے میں اینگلز نے سب سے پہلے لاادریوں یا اگنوسٹکس پر بات کی ہے۔ جو کہتے ہیں کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ اس کے باوجود اینگلس نے انہیں فلسفے کے ارتقا میں اہم قرار دیا ہے۔ اس کے بعد اینگلز نے یہ بتایا ہے کہ ہیگل اس بات کی شدید تردید کرتا ہے کہ چیزوں کو جانا نہیں جا سکتا۔ ہیگل معروضی عینیت پرست تھا اس نے لاادریت کی جس انتہا پر تردید کر دی تھی اس سے آگے عینیت پرستی کے لئے جانا ممکن ہی نہیں تھا۔
غور کیجئے جو بات ہم کہہ رہے ہیں کہ ہیگل پر فلسفے کا خاتمہ ہو گیا ہے وہ یہی بات ہے۔ کم از کم عینیت پرستی کے لئے اس سے آگے جانا آج تک ممکن نہیں ہو سکا جس انتہا پر ہیگل پہنچا ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ ہیگل کے بعد آنے والے تمام عینیت پرست فلسفی ہیگل تک بھی نہیں پہنچ پاتے اور وہ کانٹ تک ہی رہ جاتے ہیں۔ اور کانٹ کے میتھڈ کو دیکھیں تو کانٹ کے قدموں میں پڑے نظر آتے ہیں۔ ہیگل سے آگے بڑھنے کے لئے عینیت پرستی کی بجائے مادیت کی ضرورت تھی۔ کہ ہیگل ہی کی بات کو ہیگل ہی کے میتھڈ سے آگے بڑھا کر اسے سچائی کی پہچان کے لئے استعمال کیا جائے۔ کیوں کہ میتھڈ میں ہیگل درست تھا صرف نتائج میں مسئلہ تھا۔ لیکن فائرباخ نے مادی اضافے تو کئے لیکن اس نے مادیت کو بروئے کار لا کر سارے کے سارے ہیگل کو رد کر دینے کی کوشش کی یہاں تک کہ میتھڈ کو بھی نظرانداز کر دیا۔ اس لئے اینگلز فائرباخ کی بات کو یہیں چھوڑ کر یہاں مارکس کی بات کرتا ہے اور فلسفے کو سیدھے عمل میں لے کر آ جاتا ہے۔
وہ کانٹ، ہیوم اور بارکلے کی باتوں کو ’’فلسفیانہ خبط‘‘ قرار دیتے ہوئے ایک غیر فلسفیانہ روش اپناتا ہے اور کہتا ہے کہ عمل کی کسوٹی پر پرکھ کر لیتے ہیں۔ وہ تجربے اور انڈسٹری کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔ انڈسٹری کا ان فلسفیوں کے ہاں مفہوم محنت کا ہے۔ ہم اسے انسان کے عملی تجربے اور محنت میں پرکھ لیتے ہیں کہ کیا چیز کو جانا جا سکتا ہے یا نہیں۔ فلسفے میں یہی کوشش ہوتی ہے کہ بات کو دلائل ہی سے ثابت کیا جائے اور اسے ’’عملی تجربوں‘‘ سے نا پرکھا جائے۔ ہمارا کوئی بھی دوست اسے قابل استہزا سمجھ سکتا ہے اور اس کا پھکڑ بھی اڑانے کو تیار ہو سکتا ہے لیکن غور کریں کہ اگر دلائل سیکھنے کی بات کریں اور دلیل کی بجائے عملی تجربے بتاتے چلے جائیں تو دلیل دینا کیسے آئے گا بھلا؟
مجھے 1990ء کی اپنی ایک بحث یاد ہے جب میرا ایک دوست عینیت کے متعلق کسی عینیت پرست استاد سے اسے بطور فلسفہ سیکھ کر آیا تھا (جس نے اسے بتایا تھا کہ مذہب کا دفاع عینیت سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا)، وہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے ارد گرد کوئی چیز نہیں ہے یہ سب ہمارے حواس ہی ہیں جو کہ ہمیں یہ کچھ محسوس کرواتے اور دکھلاتے ہیں۔ بحث دوتین گھنٹے چلی اور نتیجہ جو ہونا تھا۔۔۔ کچھ بھی نہیں نکلا۔
اب لطیفہ یہ ہوا کہ ہماری بیٹھک کا دروازا عجیب سا تھا اس کا لاک خراب تھا۔ اسے کسی خاص طریقے سے حرکت دے کر ہی کھولا جاتا تھا جو مجھے اور گھر والوں کو پتا تھا۔ دوستوں کو بھی علم تھا اس لئے دروازہ میں ہی کھولا کرتا تھا۔ اب جب بحث کے ’’خاتمے‘‘ پر ہم جانے لگے تو اس نے کہا کہ دروازہ کھول۔ میں نے کہا۔۔۔ کون سا دروازہ؟ میں نے کہا مجھے کوئی دروازہ نظر نہیں آ رہا تم گزر جاؤ۔۔۔ غرض اسے خوب تنگ کیا۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے غصے میں بھی آیا جھگڑا بھی۔۔۔ پھر بات ختم ہو گئی۔ میں نے یہی بات جا کر ابنِ حسن صاحب کو بتائی کہ مجھے شاباش ملے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری بات درست ہے۔ لیکن یہ فلسفیانہ طریق کار نہیں تھا۔ اس کی فلسفیانہ بات کا جواب دلیل ہی تھا اور اگر تم سچے ہو تو تمہارے پاس اپنی سچائی کا ثبوت فلسفیانہ دلیل کے ساتھ بھی ہونا چاہئے تھا۔ اسی طرح ابن حسن صاحب کے تمام شاگردوں کو یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ وہ پڑھاتے ہوئے سوال پوچھ لیا کرتے تھے اور سب سے جواب لیا کرتے تھے۔ان کے شاگردوں کو ان سے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ وہ درست جواب کو بھی غلط کہہ دیا کرتے تھے۔ اور ان کے شاگرد کہا کرتے تھے کہ جو ہم نے کہا پھر وہی بتا دیا کرتے تھے۔ یہ ان کے کالج کے شاگردوں کی بات ہے۔ لیکن ہمارے تجربے میں جب یہ باتیں آئیں تو جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ نے تو وہی بات بتا دی جو میں نے بتائی تھی، تو وہ یہی کہا کرتے تھے کہ تمہاری دلیل درست طریقے سے نہیں دی گئی تھی یا تمہارے الفاظ درست نہیں تھے، ابہام ہو سکتا تھا وغیرہ۔۔۔
لیکن یہاں فیورباخ فلسفیانہ طریقے کو ترک کر کے ایک دم سے عمل کی دنیا میں آ رہا ہے۔ فلسفے کی دنیا میں چونکہ ہیگل بہترین جواب دے چکا ہے۔ وہ بھی عینیت کا جواب عینیت ہی سے دے چکا ہے۔ مارکس اینگلز نے اس پر بہت زیادہ وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اینگلز کہہ رہا ہے کہ قدرت میں بے شمار چیزیں موجود ہیں جن کو ہم اپنے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اگر تو ہم اسے ویسے کی ویسے ہی استعمال کرتے ہیں تو بہت مشکل ہے کہ کانٹ کی تردید کی جا سکے۔ کیوں کہ اس کا اس بات کو ماننا کہ ’’تمام علم تجربے سے شروع ہوتا ہے‘‘ ایک مصیبت میں ڈال دیتا ہے۔
نہایت غور طلب بات ہے کہ : ہم پہلے کسی چیز کو تجربے میں لاتے ہیں پھر اس کے متعلق سوچ جنم لیتی ہے۔ پہلے چیز تجربے میں آتی ہے اس کے بعد اس کی سوچ۔ کوئی جتنا چاہے غور کر لے یہ بات انتہائی سائنسی ’’لگتی ہے‘‘۔ اس کا توڑ نہ تو ملتا ہے اور نہ ہی کرنے کی ضرورت ’’لگتی ہے‘‘۔ لیکن اینگلز ایک ہی جملے میں کسی بوڑھے کنگ فْو ماسٹر کی طرح ’’وو وئی‘‘ سے کام لے کر بغیر کچھ کئے ہی، یا ایک ہی وار میں سارے کانٹ کو ڈھیر کر گیا ہے۔ وہ بھی انتہائی سادگی کے ساتھ کہ کوئی بھی اس کا تجربہ کر کے دیکھ لے۔ کہ جو عمل قدرت کرتی ہے اگر اسے قدرتی حالات سے علیحدہ کر کے ہم خود کر لیتے ہیں تو کانٹ کی وہ شئے جو صرف اپنے آپ میں تھی اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
اینگلز کہتا ہے کہ پودوں اور جانوروں کے جسموں میں پیدا ہونے والے وہ اجزا جن کو ہم اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا کرتے تھے اس وقت تک ’’شئے فی الذات‘‘ رہے جب تک انہیں ہم نے مصنوعی طور پر نہیں بنا لیا۔ مثلاً ہم اسپرین کی مثال لیتے ہیں۔ انگلینڈ میں لوگ بخار اور سر درد وغیرہ میں بیدِ مجنوں ’’وِلو‘‘ کی لکڑی کی چھال چوسا کرتے تھے۔ جس سے انہیں اس کا اینٹی پائریٹک اور اینلجیسک اثر ملتا اور بخار کم ہو جاتا یا سر درد غائب ہو جایا کرتی تھی۔ یہ نسخہ صدیوں کا آزمودہ تھا۔ تحقیق کرنے والوں نے ولو کی چھال کے حصے بخرے کئے اور ایک ایک پر تجربہ کرتے رہے بالآخر انہیں اس میں موجود ایک تیزابی نمک ایسا مل ہی گیا جس میں یہ خوبیاں موجود تھیں۔ اسے ’’ایسیٹی سیلی سلیک ایسڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ تیز سستے ذرائع سے حاصل کیا گیا اور ولو کی جان چھٹ گئی۔
اینگلز نے انڈیگو کی یا نیل کی مثال لی ہے جسے باقاعدہ بویا جاتا تھا۔ یہ کپڑے کی صنعت میں استعمال ہوتا تھا۔ جب انگریز نے بنگال پر قبضہ کیا تو کسانوں سے زبردستی چاول کی بجائے مجیٹھ اگوایا گیا۔ جس سے 1769-70ء کا ’’عظیم‘‘ قحط پڑا۔ جس سے ایک کروڑ لوگ واقعتاً بھوک کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ اور بنگال کی آبادی آدھی رہ گئی تھی۔ لیکن جب اسے نامیاتی کیمسٹری نے اس کی کیمسٹری کو ’’جان لیا‘‘ تو اس کے ضروری حصے کو کوئلے سے حاصل کرنا شروع کر دیا۔
اینگلس کی دوسری مثال سب سے زیادہ دل چسپ ہے۔ وہ یہ کہ کوپر نیکس کا نظام تین سو سال تک اپنے آپ ہی میں تھا۔ ایک مفروضہ۔ لے ورئے نے اس معلومات سے ایک ایسے سیارے کا ریاضیاتی کام سے ہی اندازہ لگا لیا اور اس کی جگہ کا تعین بھی کر دیا۔ ایک دوسرے ماہر فلکیات گالے نے دوربین سے اس سیارے کو پا بھی لیا تو یہ ثابت ہو گیا کہ کوپر نیکس کی سوچ، اس کا حساب درست تھا۔
ان سب مثالوں سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ کانٹ کا کہنا تھا کہ ’’تمام علم تجربے سے شروع ہوتا ہے‘‘ یعنی وہ حسیات سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد حسیات سے لئے ہوئے فینامینا یا شئے کے ظاہر نے وہیں رہ جانا ہے اور ہمارے ذہن کے اندر کے ’’اے پرائرآئی‘‘ اصول حرکت میں آ کر اس سے جو بھی اخذ کریں اسے ہم علم سمجھتے ہیں۔ لیکن یہاں ان تینوں مثالوں میں بات مختلف کی گئی ہے۔
اگر تو ہم صرف اپنے اندر کے اصولوں کو جانتے تھے تو شئے فی الذات یا ولو کی لکڑی کی چھال ہی کو چباتے رہتے لیکن ہم نے پہلے سوچا ہے کہ اس میں کوئی ایسی شئے ہے جو کہ ہمیں سردرد اور بخار سے نجات دلاتی ہے۔ اس طرح پہلے سوچ ہے اور تجربہ بعد میں کیا ہے۔ یعنی اس کو توڑتے چلے جانا اور ٹیسٹ کرتے جانے نے بالآخر ہمیں اس ایک جوہر تک پہنچا دیا جس کے مطلوبہ نتائج تھے یعنی ایسیٹی سیلی سلیک ایسڈ۔ تیسری مثال میں بھی یہی بات ہے۔ کہ سوچ نے پہلے ریاضیاتی مسئلے کو حل کیا اور ان کے ذریعے سے لے ورئے نے ایک ایسے سیارے کا حساب لگا لیا جس کو ایک خاص جگہ پر ہونا چاہیئے تھا۔ اگر ہم کانٹ کی بات کریں تو پہلے سیارے کو ملنا چاہیئے تھا اس کے بعد ہماری عقل کو اس کے متعلق اپنے اصولوں کو ’’جاننا‘‘ تھا۔ لیکن یہاں الٹ ہوا پہلے سے پیشگوئی کی گئی کہ فلاں جگہ ایک اور سیارہ ہو گا اور سیارہ بعد میں ملا۔ اس سیارے کے ملنے سے ہماری اس بات کی سچائی ثابت ہوتی ہے کہ ہم انسان اس مادی دنیا کے متعلق نہ صرف جانتے اور جان سکتے ہیں بلکہ پیش گوئی بھی کر سکتے ہیں۔
مارکس کہتا ہے کہ ایک مکڑی جتنا مہین اور نفیس جالا بنتی ہے دنیا کا کوئی پارچہ باف ایسا کپڑا نہیں بنا سکتا۔ لیکن انسان کا بنا ہوا سب سے گھٹیا کپڑا بھی اس جالے سے اعلیٰ ہے۔ کیوں کہ اس کپڑے کے بننے سے پہلے اس کپڑے کا خیال انسان کے ذہن میں ہے۔
کانٹ کے مطابق تو پہلے کپڑا اور بعد میں اس کا خیال ہے۔ لیکن مارکس نے پہلے خیال اور بعد میں کپڑے کی بات کی ہے۔ وقتی طور پر یہ بات عینیت پرستانہ اور چکرا دینے والی ہی لگے گی کہ مارکس شاید اپنے فلسفے سے الٹ بات کہہ رہا ہے۔ لیکن ہمارے انسانی تجربے میں دونوں چیزیں ہی چلتی رہتی ہیں کبھی خیال پہلے اور کبھی تجربہ پہلے۔ لیکن کپڑا ہو، مجیٹھ ہو یا اسپرین والا معاملہ ان میں تجربہ بہرحال پہلے ہی تھا اور یہ تجربہ عمل سے حاصل ہوا تھا۔ اسی تجربے اور عمل سے خیال نے جنم لیا اور یہ اسی خیال کی طاقت ہے جو عمل اور تجربے سے جنم لیتا ہے کہ ہم انسان مستقبل کے متعلق پیش گوئی کرنے پر قادر ہیں۔ یہی پیش گوئی کر پانے کی صلاحیت ہی ہماری بقا کی ضامن ہے اور اسی پیش گوئی کر پانے کے طفیل سے ہی ہم باقی تمام جانداروں میں سب سے اونچے مقام پر ہیں۔
فعال ہونے یا محنت کرنے نے ہمیں یہ طاقت دے دی کہ ہم آج اس دور میں رہتے ہوئے ماضی کو جانتے ہوئے حال کو سامنے رکھتے ہوئے انسان کے مستقبل کے متعلق دیکھ سکتے ہیں اور انقلابات کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ انسان کا مستقبل ایک انجانے خوف میں ڈوبا ہوا گھٹا ٹوپ اندھیرا نہیں بلکہ ہر طرح کے استحصال، ظلم اور جبر سے آزاد بالآخر امن اور نشاط آمیز ہے۔ اور یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے اگر ہم اپنے اردگرد کی دنیا کو جان سکتے ہیں۔ اس لئے کانٹ کے فلسفے کو جاننا اور اس کے خاتمے کا جاننا ضروری تھا۔
16 ستمبر 2016ء